اسلام کی روشن تعلیمات

اسلام ہی انسانیت کا خیرخواہ ہے!

* مولانا حامد سراج عطاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ دسمبر2021

دنیا کا یہ نظام ہے  کہ کوئی حاکم ہے تو کوئی محکوم ، کوئی خادم ہے تو کوئی مخدوم ، کوئی مالک ہے تو کوئی مملوک۔ دینِ رحمت اسلام کے آنے سے پہلے تقریباً ہر معاشرے میں دو ہی طبقات نظر آتےہیں۔ ایک وہ جو حکومت کرتے  کی جاتی تھی۔ ایک وہ جو حکمرانوں ، امیروں اور وزیروں کا طبقہ تھا دوسرا وہ جو غریبوں ، مزدوروں اور کمزور لوگوں کا طبقہ تھا۔ پہلا طبقہ بڑی ٹھاٹ باٹ اور شان و شوکت سے زندگی گزارتا جبکہ دوسرا طبقہ بھوک ، ذلّت ،  جبر اور ظلم میں گھرا نظر آتا۔ ایسے پُر آشوب دور میں اللہ پاک نے اپنے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو مبعوث فرمایا ، آپ نے اپنی تعلیمات سے انسان کو حقیقی انسانیت سے روشناس کروایا ، آپ نے اسلام کی صورت میں ایسا نظامِ حیات دیا جس نے ظلم و ستم کا خاتمہ کیا اور سب کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا۔ اسلام نے ایسی تعلیم دی کہ وہ طبقات جو انسانیت کی لکیر سے گرا دیئے گئے تھے پھر سے معاشرے میں عزّت و شرف کا مقام پانے لگے۔ آئیے! ایسی ہی کچھ مثالیں ملاحظہ کیجئے!

اسلام اور ملازمین :

نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دور میں سب سے بُری حالت  غلاموں اور خادموں کی تھی۔ اُس دور میں بھی اپنے نوکروں اور غلاموں کو انسان نہیں سمجھا جا تا تھا۔ ان کی تذلیل کرنا ، انہیں کوئی بھی حق نہ دینا اور ان سے جانوروں جیسا سلوک کرنا بہت عام تھا۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے سب سے پہلے غلاموں اور ملازموں کے لئے آواز بلند کی۔ اسلام نے غلاموں اور خادموں کو وہ حقوق اور وہ مقام عطا کیا جو اس سے پہلے چشمِ فلک نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ حدیثِ پاک میں ہے : تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ نے تمہارا ماتحت بنایا ہے ، تو جس کا بھائی اس کے قبضے میں ہو تو اسے اپنے بھائی کو بھی وہی کھلانا اور پہنانا چاہئے جو وہ خود کھاتا اور پہنتا ہے۔ [1] غلاموں کے بارے میں یہ تعلیم کہ انہیں اپنے جیسا انسان اور اپنا بھائی سمجھو یہ اس بات کی غَمّاز ہے کہ اسلام ہی انسانیت کا خیرخواہ اور اصل محافظ ہے۔

اسلام اور مقروض سے نرمی :

قرض ایک ایسا بوجھ ہے کہ ہر عقل مند اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے ، لیکن بعض مجبوریاں اس بوجھ تلے دبا ہی دیتی ہیں۔ آج کی طرح زمانَۂ جاہلیت میں بھی سود پر قرض دینے کا سلسلہ عام تھا۔ اسلام نے سود کو حرام قرار دیا اور ضرورت مندوں کو محض رضائے الٰہی کے پیشِ نظر قرض دینے کی ترغیب دی ہے۔ اسی لئے اسلام میں قرض کا ثواب صدقے سے زیادہ بتایا گیا۔ [2] مقروض سے نرمی کرنے اور اس پر عظیم صلہ کی ترغیب دیتے ہوئے آقا کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پچھلی اُمّتوں کا ایک واقعہ سنایا اور نفسیاتی طور پر مقروض سے نرمی پر اُبھارا کہ تم سے پہلے ایک شخص تھا جسے صرف اس وجہ سے جنّت عطا فرما دی گئی کہ وہ قرض لینے میں امیر کو مہلت دیتا تھا اور غریب کو معافی دے دیتا تھا۔ [3] ایک اور حدیث میں ہے : جو کسی تنگ دست مقروض سے آسانی کرے اللہ پاک دنیا و آخرت میں اس پرآسانی فرمائے گا۔ [4] یہ ہے اسلامی تعلیم کہ ایک طرف سودی نظامِ قرض ہے جو پہلے سے ضرورت مند غریب کی ساری جمع پونجی چوس لیتا ہے جبکہ دوسری طرف اسلامی نظامِ قرض ہے جو مقروض سے نرمی کی تلقین کرتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام ہی انسانیت کا خیرخواہ اور اصل محافظ ہے۔

اسلام اور مساوات :

دورِ نبوّت سے پہلے دنیا میں سب سے زیادہ ذلیل اور بےوقعت غریب اور چھوٹے درجے کے لوگ سمجھے جاتے تھے۔ آج بھی امیروں کے لئے تو ہر ایک بچھا چلا جاتا ہے لیکن غریبوں کو ٹھوکر پر مارا جاتا ہے۔ امیروں کے لئے ہر ایک کے پاس ٹائم وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے جبکہ غریب کو کوئی منہ لگانے پر تیار نہیں ہوتا۔ اسلام سب سے برابری کا تقاضا کرتا ہے اور اس اونچ نیچ کا سختی سے رد کرتا ہے۔ قراٰن اور احادیث غریبوں ، مسکینوں اور چھوٹے لوگوں سے ہمدردی اور غمخواری کی تعلیمات سے بھرے ہوئے ہیں۔ خود آقا کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نزدیک امیر غریب  ہونے یا حسب نسب کی بنا پر کوئی چھوٹا  بڑانہ تھا ،  سب لوگ حقوق میں ان کے نزدیک برابر تھے۔  [5] اسلام کا انسانوں میں پائی جانے والی من گھڑت درجہ بندیوں کو ختم کرنا اور سب سے یکساں سلوک کرنے کی تعلیم دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام ہی انسانیت کا خیرخواہ اور اصل محافظ ہے۔

اسلام اور یتیموں پر شفقت :

اسلام سے پہلے جو طبقے خاص طور پر مظلوم تھے ان میں یتیم بچّے بھی شامل ہیں۔ یتیموں کا مال کھا جانا ، ان کے اعلیٰ مال کو اپنے گھٹیا مال سے بدل دینا ، ان کی توہین کرنا ، کفالت کے نام پر ان کے مال پر ہاتھ صاف کرنا اور غریب یتیموں کو کچھ بھی نہ دینا وغیرہ یہ وہ ظلم تھے جو اس وقت رائج تھے۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے یتیم بچّوں سے ایسے ظلم و ستم کی نفی کی اور یتیموں کے بارے میں ایسی تعلیمات عطا کیں کہ وہ دل جو پہلے یتیم کے لئے پتھر کی طرح سخت تھے بعد میں موم کی طرح نرم ہونے لگے۔ وہ لوگ جو پہلے یتیم کی توہین کرتے تھے اب یتیم کی پرورش کے لئے دیدہ و دل فرشِ راہ کرنے لگے ، ایک ایک یتیم کی پرورش کے لئے کئی کئی ہاتھ بڑھنے لگے اور ہر ایک یتیم کی پرورش کے لئے اپنی آغوشِ مَحبّت و شفقت پیش کرنے لگا۔ یتیم کی کفالت سے متعلق 3 احادیث ملاحظہ کیجئے : (1)مسلمانوں کے گھروں میں سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔ [6] (2)جس دستر خوان پر یتیم ہوتا ہے شیطان اس کے قریب نہیں جاتا۔ [7] (3)جو کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے اللہ پاک اسے ہر بال کے بدلے نیکی عطا فرماتا ہے۔ [8] یتیموں سے حسنِ سلوک اور محبت بھرے برتاؤ پر ابھارنے والی یہ تعلیمات بتاتی ہیں کہ اسلام ہی انسانیت کا خیرخواہ اور اصل محافظ ہے۔ آج ضرورت اس امرکی ہے کہ اسلام کی ایسی تعلیمات کا نور لے کر نکلا جائے اور پھر سے دنیا کو منوّر کیا جائے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فار غ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ذمہ دار شعبہ سیرت مصطفے ، المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) کراچی



[1] بخاری ، 1 / 23 حدیث : 30

[2] ابن ماجہ ، 3 / 154 ، حدیث : 2431

[3] بخاری ، 2 / 460 ، حدیث : 3451 ملخصاً

[4] ابن ماجہ ، 3 / 147 ، حديث : 2417 بتغير

[5] شمائل ترمذی ، ص193 ، حدیث : 319

[6] الادب المفرد ، ص46 ، حدیث : 137

[7] مجمع الزوائد ، 8 / 293 ، حدیث : 13512

[8] شعب الایمان ، 7 / 472 ، حدیث : 11036بتغیر قلیل


Share

Articles

Comments


Security Code