انٹرویو

رکن شوریٰ حاجی ابو الحسن محمد امین عطّاری

ماہنامہ فیضان مدینہ دسمبر2021

اَلحمدُ لِلّٰہ آج ہمارے ساتھ دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن اور تنظیمی ترکیب کے مطابق کراچی ریجن کے نگران حاجی محمد امین عطّاری تشریف فرما ہیں اور ان کے ساتھ انٹرویو کا سلسلہ جاری ہے۔

سوال : سب سے پہلے تو یہ ارشاد فرمائیے آپ کی پیدائش کب ہوئی؟

امین عطّاری : برتھ سرٹیفیکیٹ کے مطابق میری پیدائش 9 مارچ 1968 کو حیدر آباد میں ہوئی۔

سوال : آپ پہلے حیدر آباد میں تھے پھر کراچی شفٹ ہوئے ، حیدر آباد میں کتنا عرصہ گزارا؟

امین عطّاری : میں نے 1985 میں حیدر آباد سے ہی میٹرک کیا تھا ، پھر اس کے بعد کراچی آنا ہوا ۔

سوال : حیدرآباد سے کراچی آنے کی کیا وجہ بنی ؟

امین عطّاری : میرے مرحوم تایا جان ، اللہ پاک انہیں غریقِ رحمت فرمائے ، کراچی میں ان کی دکان کے افتتاح میں شرکت کے لئے آنا ہوا تھا۔ اس دوران میرا میٹرک کا رزلٹ آیا جس میں مجھے اچھے نمبر ملے ، کسی نے مجھے مشورہ دیا کہ کراچی میں تعلیم اور ترقی کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں ، چنانچہ میں نے گھر سے اجازت لے کر کراچی میں ہی کالج میں داخلہ لے لیا۔

سوال : آپ نے کن تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی؟

امین عطّاری : میں نے کراچی کے مشہور ڈی جے سائنس کالج میں داخلہ لیا تھا ، پڑھائی کے ساتھ ساتھ تایا جان کی دکان پر بھی کام کا سلسلہ جاری تھا۔ جب مصروفیا ت کی وجہ سے سائنس کی پڑھائی میں دشواری بڑھنے لگی تو کسی نے مشورہ دیا کہ آ پ سائنس کے بجائے کامرس کی پڑھائی کریں کیونکہ وہ نسبتاً آسان ہوتی ہے۔ میں نے ایک سال وقفہ کرنے کے بعد کالج میں داخلہ لیا اور پھر وہاں سے بی کام کیا۔

سوال : حیدرآباد میں آپ کا بچپن کیسا گزر ا؟

امین عطّاری : بچپن میں کھیل کود کا کافی رجحان تھا ۔ میں اپنے بچپن میں اپنی گیدرنگ میں نمایاں ہوتا تھا اور اسکول میں بھی تقریباً 9 سال اپنی کلاس میں مانیٹر رہا۔

سوال : دعوتِ اسلامی کے  دینی ماحول سے وابستگی کب اور کس طرح ہوئی؟

امین عطّاری : میری یادداشت کے مطابق حیدرآباد میں ہمارے محلے کی مسجد سے ہی دعوتِ اسلامی کے دینی کام کی ابتدا ہوئی تھی۔ میرا مسجد آنا جانا بھی تھا اور میں نعت بھی پڑھتا تھا ، رمضانُ المبارک میں سحری کے وقت مائک پر کلام پڑھنے کا سلسلہ بھی تھا۔ 1982ء یا 1983ء کی بات ہے ، حیدرآباد کے علاقے میمن سوسائٹی کی مریم مسجد میں امیرِ اہلِ سنّت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری    دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  کی آمد ہوئی جہاں میری بھی شرکت ہوئی تھی۔ اسی اجتماع میں امیرِ اہلِ سنّت سے بیعت ہونا بھی مجھے یاد پڑتا ہے ، بہرحال ان دنوں میں دعوت اسلامی کے دینی ماحول سے منسلک ہوا تھا۔

1985ء میں جب میں کراچی آیا تو یہاں مجھے اس طرح کا دینی ماحول  نہیں ملا اس لئے تقریباً 5 سال میں دینی ماحول سے دور رہا اور پھر 1990ء میں دوبارہ وابستگی نصیب ہوئی۔

سوال : دوبارہ وابستگی کا کیا سبب بنا؟

امین عطّاری : ان دنوں کراچی میں لسانی فسادات ، ہڑتالوں اور کرفیو کا سلسلہ رہتا تھا۔ ہمارے علاقے میں محمد امین نام کے ایک ذمہ دار اسلامی بھائی تھے جو ہمیں نیکی کی دعوت دیتے تھے ، ہفتہ وار اجتماع ، نماز اور درس وغیرہ کے لئے بلاتے تھے۔ ایک دن ان کی دعوت پر میں نے نیت کی اور پھر ہم کرفیو کے دوران ریگل چوک صدر سے پیدل گلزارِ حبیب مسجد سولجر بازار ہفتہ وار اجتماع میں آئے تھے۔ کرفیو کی وجہ سے اجتماع میں کم تعداد شریک تھی ، ہم نے امیرِ اہلِ سنّت  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  کے بیان اور ذکر و دعا میں شرکت کی۔ محمد امین بھائی نے جب میرا جذبہ دیکھا تو مجھے مدرسۃُ المدینہ بالغان میں شرکت کی ترغیب دلائی اور یوں میری دینی ماحول سے وابستگی مضبوط ہوتی چلی گئی۔

سوال : امىرِ اہلِ سنّت سےآپ کی پہلى ملاقات کب ہوئى تھی؟

امىن عطّارى : 1982 ، 83  مىں زىارت تو ہوئى تھى لیکن ملاقات کا ىاد نہىں۔ مجھے مدنی ماحول میں لانے والے امىن بھائى جب جب ممکن ہوتا امىرِ اہلِ سنّت  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کى زىارت کرواتے تھے۔ 1990ء میں جبکہ ابھی میں نے داڑھی نہیں رکھی تھی لیکن ہفتہ وار اجتماع میں آنا شروع کردیا تھا ، یہ مجھے شہىد مسجد کھارادر لے کر گئے اور وہاں پہلی بار ملاقات کی سعادت ملی تھی۔

سوال : آپ اپنے والدین میں سے کس کے زیادہ قریب تھے؟

امىن عطّارى : والد صاحب مرحوم  ایک اصولی باپ کی طرح تربیت فرماتے تھے جبکہ قلبی طور پر لگاؤ اور دل کی باتیں شیئر کرنے کے حوالے سے امی جان سے زیادہ قرب رہا ہے۔ اللہ پاک میری ماں کا سایہ سلامت رکھے ، امی جان ہم بھائیوں میں سے میرے پاس رہتی ہیں ، آج بھی گھر سے آتے ہوئے ان کے ہاتھ چومنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ آج بھی اگر گھر میں اطلاع کئے بغیر میں زیادہ وقت باہر رہوں تو زیادہ فکر میری ماں کو ہی ہوتی ہے۔ یقیناً ماں باپ کا رشتہ ایسا ہوتا ہے جو اولاد کو جوڑ کر رکھتا ہے۔ میں ایک فیملی کو جانتا ہوں جس میں بیٹے بیٹیاں بھی بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ چکے ہیں اور الگ الگ رہتے ہیں لیکن آج بھی ایک مقررہ دن پر وہ سب اپنی ماں کے پا س جمع ہوتے ہیں۔

سوال : آپ کے بچّوں کی امی کو آپ سے کیا شکایت رہتی ہے؟

امىن عطّارى : فیضانِ امیرِ اہلِ سنّت کی بدولت گھر والوں سے ہمیشہ سپورٹ اور تعاون مِلا ہے۔ 1992 میں میری شادی ہوئی تھی ، 30 سال ہونے والے ہیں لیکن مجھے یاد نہیں کہ کبھی کوئی شکوہ کیا گیا ہو۔

سوال : پچھلے دنوں آپ نے اپنے بڑے بیٹے حسن رضا کى شادى کى ، آپ کو نہىں لگتا کہ بہت چھوٹى عمر مىں آپ نے ان کی شادی کردى ؟

امىن عطّارى : ان کے ابو کى شادی بھى تقریباً اسى عمر مىں ہوئى تھى۔ شرعی طور پر یہی ترغیب ہے کہ اولاد کی شادی جلد کردی جائے اور ہمارے یہاں میمنوں میں بھی اسی کا رواج ہے۔ اَلحمدُ لِلّٰہ میں خود نانا بھی بن چکا ہوں۔ جلدی شادی ہوجائے تو انسان کے بڑھاپے سے پہلے اس کی اولاد جوان ہوجاتی ہے اور اس کا سہارا بنتی ہے ، اگر شادی ہی لیٹ کی جائی تو انسان بڑھاپے میں بھی بچّے پالنے اور انہیں جوان کرنے کی فکر میں مگن رہتا ہے۔

سوال : ىہ بتائىے کہ رکنِ شورىٰ بننے کے لئےآپ نے کىا کوششیں کى تھیں؟

امىن عطّارى : دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول میں مرکزی مجلسِ شوریٰ سمیت کسی بھی سطح کی ذمہ داری کے لئے کوئی سفارش یا لابنگ وغیرہ نہیں کی جاتی بلکہ تنظیمی طریقۂ کار کے مطابق صلاحیت اور دینی خدمات کی بنیاد پر ذمہ داری دی جاتی ہے۔ میں اس وقت پاکستان مشاورت میں شامل تھا ، مکتبۃُ المدینہ ، اسلامی بہنوں کے دینی کاموں اور مدرسۃُ المدینہ کی ذمہ داری بھی میرے پاس تھی لیکن مرکزی مجلسِ شوریٰ کی رکنیت ملنا میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ مجھے سن 2006ء مطابق 9 ربیعُ الاول کو مرکزی مجلسِ شوریٰ کے مدنی مشورے میں بلایا گیا تھا ، جب میں وہاں پہنچا تو سب اُٹھ کر ملنے اور مبارک باد دینے لگے جس پر مجھے حیرت ہوئی ، تب معلوم ہوا کہ مجھے مرکزی مجلسِ شوریٰ میں شامل کرلیا گیا ہے۔

سوال : رکنِ شورىٰ بننے پر کس کس کو مٹھائى کھلائی تھی؟

امىن عطّارى : غالباً میں نے اپنے گھر میں بھی اس بات کا تذکرہ نہیں کیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب مجھے امیرِ اہل ِ سنّت  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  کی طرف سے بیعت کے لئے وکالت ملی تو ایک سال کے بعد جب میرے گھر والوں کو کسی اسلامی بہن نے اپنے بچّوں کو بیعت کروانے کیلئے پرچی دی اور انہوں نے مجھ سے پوچھا تو میں نے انہیں بتایا کہ مجھے وکیلِ عطّار ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اسی طرح شروع سے یہ عادت ہی نہیں ہے کہ گھر میں تنظیمی معاملات کا غیر ضروری ذکر کیا جائے۔

سوال : آپ کو دیکھا گیا ہے کہ دعوتِ اسلامی کے تقریباً ہر کام میں پیش پیش ہوتے ہیں ، مدنی مرکز کے ہر حکم پر لبیک کہتے ہیں ، اس میں کیا حکمت ہے؟

امىن عطّارى : امیرِ اہلِ سنّت  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  اور دعوتِ اسلامی کے ہم پر اتنے احسانات ہیں کہ اگر ہم اپنی جان بھی دے دیں تو شاید ان احسانات کا بدلہ نہ اتار سکیں۔

سوال : آپ کے پاس کون کون سی تنظیمی ذمہ داریاں رہی ہیں؟

امىن عطّار ى : اَلحمدُ لِلّٰہ ذیلی نگران سے لے کر رکنِ شوریٰ تک تقریباً تمام ذمہ داریاں میرے پاس رہی ہیں۔

سوال : عموماً جب بڑی ذمہ داری ملتی ہے تو فطری طور پر انسان کو خوشی ہوتی ہے لیکن ذمہ داری واپس لئے جانے پر دھچکا لگتا ہے ، اس موقع پر کیا ذہن بنانا چاہئے؟

امىن عطّارى : اللہ پاک نگرانِ شوریٰ کو سلامت رکھے ، انہیں امیرِ اہلِ سنّت  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  کا خصوصی قرب ملا ہے اور یہ پیر و مرشد کی سوچ کو  آگے  منتقل کرتے ہیں۔ آپ نے جو سوال کیا اس کے بارے میں نگرانِ شوریٰ کا ایک بہت پیارا جملہ ہے : مدنی مرکز جو دے وہ لے لو اور جو لے وہ دے دو۔

سوال : دعوتِ اسلامی کے وہ کون سے دینی کام ہیں جن میں آپ کی ذاتی دلچسپی ہے اور وہ کام کرنے میں مزہ آتا ہے؟

امىن عطّارى : بعض افراد کى طبىعت ایسی ہوتی ہے کہ وہ بڑى ذمہ دارى پر آکر چھوٹی سطح کے کاموں سے دور ہوجاتے ہىں۔ اَلحمدُ لِلّٰہ مىں اپنى طبىعت مىں ىہ بات نہىں پاتا۔ مىں آج بھى فجر کے لئے جگاتا ہوں ،  تفسیر کے حلقے اور درس و بىان مىں شرکت کرتا ہوں۔

سوال : آپ  فجر کے تفسیر کے حلقے مىں کس مسجد مىں شرکت کرتے ہىں؟

امىن عطّارى : آج کل تو عموماً فىضانِ مدىنہ مىں شرکت ہے لیکن مختلف علاقوں میں جاکر شریک ہونے کا بھی سلسلہ رہتا ہے۔

سوال : کراچى شہر تو بہت بڑا ہے ، آپ کہاں کہاں جاتے ہىں؟

امىن عطّارى : میں فجر میں گلشنِ حدىد بھى گىا ہوں ، کورنگى لانڈھی  وغیرہ    کئی علاقوں میں فجر کے بعد لگنے والے تفسیر کے حلقے میں  حاضری ہوئی ہے۔

سوال : نمازِ فجر اور تفسیر کے  حلقے کی اس قدر پابندی کا کیا سبب ہے؟

امىن عطّارى : جب  دینی ماحول سے وابستگی ہوئی تو مجھے ماحول میں لانے والے اسلامی بھائی محمد امین ہمارے یہاں فجر کےلئے جگانے آتے تھے۔ پہلے پہل انہوں نے میرا نمازِ فجر کے لئے اٹھنے کا ذہن بنایا ، پھر چند دن بعد کہا کہ آپ اُٹھ جاتے ہیں تو گیلری کی لائٹ جلادیا کریں تاکہ مجھے تسلی ہوجائے ، میں نے ایسا کرنا شروع کردیا۔ مزید چند دن بعد انہوں نے میرا ذہن بنایا کہ جب آپ اُٹھ ہی جاتے ہیں تو مسجد میں آکر باجماعت نماز پڑھ لیا کریں ، ان کے سمجھانے پر میں نے مسجد میں باجماعت نمازِ فجر پڑھنا شروع کردی۔ یہ اسلامی بھائی فجر پڑھ کر صف میں مجھے دیکھتے تھے ، اگر میں نہ آیا ہوتا تو یہ مجھے اُٹھانے کیلئے دوبارہ آتے تھے کہ کہیں میری نماز قضا نہ ہوجائے۔ ان کے اس عمل کے باعث مجھے فکر رہتی کہ فجر میں اُٹھنا ہے ، گیلری کی لائٹ جلانی ہے اور مسجد میں جاکر باجماعت نماز پڑھنی ہے ورنہ یہ دوبارہ اٹھانے آئیں گے ، اس طرح شروع سے ہی نمازِ فجر باجماعت کے لئے مسجد میں حاضری کی عادت بن گئی۔

سوال : آپ نے فجر کے حلقے میں ترجمہ و تفسیر ِ قراٰن کی تکمیل میں بھی شرکت کی ہے؟

امىن عطّارى : اَلحمدُ لِلّٰہ ہمارے محلے کی جامع مسجد اقصیٰ میں ترجَمۂ قراٰن کنزُالایمان کے ساتھ 2 مرتبہ خزائنُ العرفان ، ایک مرتبہ نورُ العرفان اور ایک مرتبہ صراطُ الجنان کا ختم ہوچکا ہے۔

سوال : آپ کا نمازِ جنازہ میں شرکت کا کافی معمول دیکھا گیا ہے ، اس میں کیا حکمت ہے؟

امىن عطّارى : 1992 میں ہماری فیملی حیدرآباد سے کراچی شفٹ ہوگئی تھی لیکن والد صاحب ابھی وہیں تھے کیونکہ ہماری دکان کی فروخت سے متعلق بات چیت چل رہی تھی۔ والد صاحب جمعرات کو کراچی آتے تھے اور ہفتے کو چلے جاتے تھے۔ انہی دنوں وہ کراچی آئے اور جمعہ و ہفتہ کی درمیانی رات ان کا انتقال ہوگیا۔ میں نیا نیا ماحول میں آیا تھا ، صبح جب اسلامى بھائىوں کو معلوم ہوا تووہ گھر آگئے اور مجھے ساتھ رکھ کر غسلِ میت دیا۔ اللہ پاک کے کرم سے والد صاحب کی نمازِ جنازہ بھی مجھے پڑھانے کی سعادت ملی۔ اس موقع پر دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول کی قدر ہوئی اور یہ ذہن بھی بنا کہ کسی کے یہاں موت میت میں ضرور شرکت کرنی چاہئے۔ اللہ پاک کی عطا کردہ توفیق سے مجھے کثیر تعداد میں نمازِ جنازہ میں شرکت اور مُردوں کو غسل دینے کی سعادت بھی نصیب ہوئی ہے۔

سوال : اس وقت آپ کے پاس تنظیمی تقسیم کے مطابق 4 زون ، 40 کابینہ ، 120ڈویژن جبکہ تقریباً500علاقے اور5000 ذیلی حلقے ہیں ،  گویا ہزاروں اسلامی بھائی آپ سے وابستہ ہیں۔ اس قدر کثیر تنظیمی مصروفیات کے باوجود آپ نمازِ جنازہ میں شرکت کا وقت کیسے نکال لیتے ہیں؟

امىن عطّارى : میرے والد صاحب کے انتقال کے بعد ایک رات امىرِ اہلِ سنّت  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  تعزیت کے لئے ہمارے گھر تشریف لائے تھے لیکن ہم گھر والے سوچکے تھے۔ جب صبح اُٹھے تو دروازے میں ایک پرچی دیکھی جس میں امیرِ اہلِ سنّت نے دعائیں دی تھیں اور لکھا تھا کہ میں حاضر ہوا تھا مگر آپ آرام کررہے تھے۔ آج بھی امیرِ اہلِ سنّت کا یہ معمول ہے کہ آپ صوتی پیغامات کے ذریعے کثیر اسلامی بھائیوں سے عیادت اور تعزیت فرماتے ہیں۔ جب ہمارے پیر صاحب اپنی اتنی مصروفیات میں سے لوگوں کی دل جوئی کے لئے وقت نکالتے ہیں تو ہم کیوں نہ ایسا کریں۔ دعوتِ اسلامی سے وابستہ اسلامی بھائیوں کو بالخصوص دکھ اور غم کے مواقع پر ہماری زیادہ ضرورت ہوتی ہے ، ایسے موقع پر اگر ہم سُستی کریں تو خدانخواستہ کہیں وہ بدظن ہوکر دینی ماحول سے دور نہ ہوجائیں۔

سوال : دنیا کے کن کن ملکوں میں جانا ہوا ہے؟

امىن عطّارى : عرب شرىف حاضری کے علاوہ دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں کے حوالے سے متحدہ عرب امارات ، سری لنکا ، ملائیشیا ، چین ، ہانگ کانگ ، ساؤتھ کوریا ، موزمبیق اور کینیا جانا ہوا ہے۔

سوال : آپ اپنی داڑھی پر مہندی کیوں نہیں لگاتے؟

امىن عطّارى : میں پہلے مہندى لگاتا تھا ، پھر ایک بار امیرِ اہلِ سنّت کی طرف سے تحریری پیغام آیا کہ اگر آپ داڑھی سفید کرلیں تو آپ پر جچے گی ، اس کے بعد میں نے مہندی لگانا چھوڑ دی۔

سوال : دعوتِ اسلامی کےذمہ داران کو ترغیب دلائی جاتی ہے کہ اپنا متبادل تیار کریں ، اس کی کیا وجہ ہے؟

امىن عطّارى : یہ تو دنیا کا بھی رواج ہے کہ اگر باپ کا کاروبار ہے تو وہ اپنے بیٹے کو کاروبار سنبھالنے کے لئے تیار کرتا ہے تاکہ اس کے مرنے کے بعد کاروبار تباہ نہ ہوجائے۔ جب دنیوی کاروبار کرنے والوں کو بھی یہ فکر ہوتی ہے کہ میرے مرنے کے بعد میرا کاروبار سنبھالنے والا کوئی ہونا چاہئے ، تو ہم اپنے دینی کاموں کے حوالے سے یہ فکر کیوں نہ کریں۔ ہمیں دعوتِ اسلامی کا نظام ایسا بناناہے کہ ہم زندہ رہیں ، مَر کر دنیا سے چلے جائیں یا خدانخواستہ جیتے جی کسی وجہ سے دین کا کام نہ کرسکیں تو ہمارے بعد بھی گلشنِ عطّار ہرا بھرا لہلہاتا رہے اور اس پر خزاں کا اثر نہ ہو۔ اس کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہر ذمہ دار اسلامی بھائی اسلامی بہن اپنا متبادل بناکر پیش کرے۔

ایک مرتبہ نگرانِ شوریٰ نے متبادل پیش کرنے سے متعلق بہت کارآمد مدنی پھول عطا فرمائے تھے کہ متبادل کا نام پیش کرنا صرف رسمی طور پر نہیں ہونا چاہئے بلکہ جس طرح ہم اپنی بیٹی کا رشتہ دینے کے لئے اچھی طرح سوچ بچار اور چھان پھٹک کرتے ہیں اسی طرح متبادل پیش کرنے کے لئے بھی خوب سوچنا چاہئے۔

دعوتِ اسلامی میں کسی کے پاس ساری عمر کیلئے ذمہ داری نہیں ہوتی بلکہ اس کی ایک مدت مقر رہوتی ہے ، مدت پوری ہونے کے بعد ذمہ دار تبدیل ہوجاتا ہے یا پھر سابقہ ذمہ دار کو ہی دوبارہ مقرر کردیا جاتا ہے۔

سوال : ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین کے لئے کوئی پیغام دینا چاہیں؟

امىن عطّار ى : ماہنامہ فیضانِ مدینہ کی سالانہ بکنگ کروانے اور اس کا مطالعہ فرمانے والوں کو میر ی طرف سے مبارک باد ہو کہ وہ امیرِ اہلِ سنت   دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  کی دعاؤں کے مستحق ہوئے کیونکہ جو اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں ماہنامہ فیضانِ مدینہ کی بکنگ کرواتے اور اس کا مطالعہ کرتے ہیں تو امیرِ اہلِ سنّت انہیں ڈھیروں دعاؤں سے نوازتے ہیں۔ میرا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ میں چونکہ مختلف علمائے کرام کی تحریریں ہوتی ہیں اس لئے ہر تحریر سے ایک الگ Taste ملتا ہے جبکہ بعض رائٹرز ایسے ہیں جن کے مضمون کا انتظار ہوتا ہے کہ اس بار انہوں نے کیا لکھا ہے۔ اللہ پاک ان سب کے قلم میں برکت عطا فرمائے ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے فیوض و برکات ہمیں اور ہماری نسلوں کو عطا فرمائے۔ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین سے میری گزارش ہے کہ گھر کے تمام افراد کو یہ ماہنامہ پڑھوانے کی ترکیب بنائیں تاکہ انہیں بھی اس کے فیوض و برکات نصیب ہوں۔


Share

Articles

Comments


Security Code