خود سوزی (Self-harm)

انسان اور نفسیات

خود سوزی ( Self-harm )

*ڈاکٹر زیرک عطّاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری2023

جب کوئی شخص اپنے آپ کو زخمی کرتا ہے یا کسی بھی طرح اپنے جسم کے اعضا کو نقصان پہنچاتا ہے تو اس عمل کو خود سوزی یا Self-harm کا نام دیا جاتا ہے۔ خود سوزی اور خود کشی ( Suicide ) میں بنیادی فرق یہ ہے کہ خود سوزی کرنے والے کا مقصد اپنے آپ کو جان سے مارنا نہیں ہوتا۔ اس مضمون میں صرف خود سوزی پر کلام کیاجائے گا۔

خود سوزی ایک ایسا عمل ہے جس کا سمجھ میں آنا بڑا دشوار گزار ہے۔ ایک جریدے میں شائع ہونے والی ریسرچ کے مطابق کم و بیش 17 فی صد نوجوان خود سوزی میں مبتلا ہیں۔ کیسے کوئی اپنے آپ کو درد اور اذیت میں مبتلا کرسکتا ہے! اور وہ بھی چند ایک بار نہیں بلکہ بعض کے لئے یہ سلسلہ سالوں تک جاری رہتا ہے۔ آئیے اس پیچیدہ مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہم اپنی اور دوسروں کی مدد کر سکیں۔

ہمارے ہر عمل کا محرک کوئی نہ کوئی سوچ ہوتی ہے جوکہ ہمارے ذہن میں گھوم رہی ہوتی ہے۔ جو لوگ اپنی زندگی میں تلخ ترین تجربات کا سامنا کرتے ہیں وہ عموماً ان مشکل لمحات کو یاد رکھتے ہیں۔ کسی کے ساتھ سخت نا انصافی ہوئی ہوتی ہے تو کسی کے ساتھ ظلم ، کوئی والدین کی محبت سے محروم رہا ہوتا ہے تو کسی کو زندگی کے ہر موڑ پر ذلت و رسوائی کا سامنا ہوتا ہے۔ جب ماضی کی یہ درد بھری سوچیں کسی کے ذہن میں گردش کرتی ہیں تو وہ ذہنی اذیت اور کَرْب کے بَھنْوَر میں پھنستا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس ذہنی کوفت کو مزید برداشت نہیں کرپاتا۔

جسم میں درد ہو تو دوا لینے سے بہتر محسوس ہوتا ہے لیکن جب ذہن اضطراب کی حالت میں ہو تو بندہ کون سی دوائی لے؟ یہی وہ اضطراب ہے کہ جب برداشت سے باہر ہوتا ہے تو انسان خود سوزی کا سہارا لیتا ہے۔ کوئی ریزر بلیڈ سے اپنے آپ کو کاٹتا ہے تو کوئی سگریٹ سے اپنی ہی جِلد کو داغتا ہے۔ کوئی دیوار پر سَر مارتا ہے تو کوئی اپنے ہی ناخنوں سے جسم کو نوچتا ہے۔ کھانا نہ کھانا یا کھانے میں حد سے تجاوز کرنا ، نقصان دہ کیمیکل پینا ، نقصان دہ چیزوں کو نگل لینا یا پھر جان بوجھ کر ایسے لڑائی جھگڑوں میں ملوث ہونا جن میں زخمی ہونے کے امکانات زیادہ ہوں وغیرہا خود سوزی کے کچھ طریقے ہیں۔                          

بعض لوگ خود سوزی میں ایک ہی طریقے کو اپناتے ہیں اور کچھ لوگ مختلف اوقات میں مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں۔ خود سوزی کے فوراً بعد ایسا لگتا ہے جیسا کہ پہاڑ جیسا بوجھ تنکے کی طرح ہلکا ہوگیا ہے اور یہی وہ کیفیت ہے جو دوبارہ خود سوزی پر ابھارتی ہے ، یوں یہ سلسلہ طول پکڑ لیتا ہے یہاں تک کہ بندہ سمجھتا ہے کہ خود سوزی کے علاوہ کوئی اور چارہ ہی نہیں۔

خود سوزی بذاتِ خود کوئی ذہنی مرض نہیں ہے بلکہ یہ ایک علامت ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس کے پیچھے کوئی اور نفسیاتی مسئلہ پوشیدہ ہے۔ کبھی کبھی طویل جسمانی بیماری بھی خود سوزی کا سبب بنتی ہے۔ بالخصوص وہ جسمانی بیماری جس میں درد کی شدت برداشت سے باہر ہو یا عمر بھر کی معذوری مقدر بن جائے۔

خود سوزی سے باہر نکلنا بالکل ممکن ہے ، بعض لوگ تو اپنی مدد آپ یعنی Self-help کے ذریعے ہی خود سوزی سے نجات پا لیتے ہیں اور کچھ کو دوسروں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔  پہلے ہم Self-help کو بیان کرتے ہیں کہ خود سوزی کرنے والا خود کیسے اپنے آپ کو اس دشوار گزار گھاٹی سے باہر نکال سکتا ہے؟ اس ضمن میں مندرجہ ذیل نکات پر عمل کرنا مثبت نتائج لا سکتا ہے۔

 ( 1 ) خود سوزی عارضی طور پر آپ کو سکون دے سکتی ہے لیکن یہ آپ کے مسائل کا حل نہیں ہے ، جتنا جلدی آپ مسائل کی طرف متوجہ ہوکر ان کے حل کو تلاش کریں گے اتنا جلدی آپ خود سوزی سے نجات پائیں گے۔

 ( 2 ) یاد رکھیں خود سوزی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ ہمارا جسم اللہ پاک کی اما نت ہے ، ہم اس کے مالک نہیں ہیں کہ جو چاہیں کریں۔پارہ نمبر 2 سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 195 میں اللہ  تعالیٰ نے ہمیں اپنے آپ کو نقصان پہنچانے سے منع کیا ہے ، اللہ  کے اس حکم کو مقدم رکھیں اور جب بھی خود سوزی کا خیال آئے تو اللہ پاک کی نافرمانی اور اس پر ملنے والی سزا کی طرف متوجہ ہوں۔

 ( 3 ) جب منفی خیالات تنگ کریں تو اپنے آپ کو کسی نہ کسی طرح کی عبادت میں مصروف کریں مثلاً : تلاوتِ قراٰن پاک کرنا ، درودِ پاک پڑھنا ، دینی کتب کا مطالعہ کرنا ، نعت شریف سننا ، مسجد میں جا کر نوافل ادا کرنا وغیرہا ، اسی طرح وہ وظائف پڑھیں جن سے بندہ اپنے آپ کو شیطانی وسوسوں سے بچا سکے۔

 ( 4 ) اپنے خیالات اور جذبات کو سمجھنے کی کوشش کریں ، وہ کون سے محرکات ہیں جو ان منفی خیالات اور جذبات کو جنم دیتے ہیں؟ جگہ ، وقت ، لوگ ، چیز یا کوئی مخصوص واقعہ وغیرہ۔ جہاں تک ممکن ہو سکے ایسے محرکات سے بچنے کی کوشش کریں جب تک کہ آپ اپنا مکمل علاج نہیں کر لیتے۔

 ( 5 ) ممکن ہو تو ہر خودسوزی کے عمل کے بعد درج ذیل چیزیں تحریر میں لے آئیں : ( ۱ ) خود سوزی سے عین پہلے کیا ہوا یا آپ کے ذہن میں کیا چل رہا تھا؟ ( ۲ ) خود سوزی کے دوران آپ کی کیا کیفیات تھیں؟ ( ۳ ) خود سوزی کے بعد آپ کیا محسوس کر رہے تھے؟ ایسا کرنے سے آپ کو اپنے جذبات کو سمجھنے کا موقع ملے گا اور یہی آدھی جنگ ہے۔ ایک بار آپ کو اپنے جذبات کی سمجھ آنا شروع ہو گئی تو باقی معاملہ اتنا مشکل نہیں ہے۔

 ( 6 ) غصے پر قابو پانے کےلئے ” لاحول شریف “ کا وِرد کریں ، وضو یا غسل کریں ، ورزش کرنا بھی غصے میں کمی لاتا ہے۔

 ( 7 ) جہاں تک ممکن ہو ریلیکس رہنے کی کوشش کریں ، بیڈ پر پیٹھ کے بل لیٹ کر بدن کو مکمل طور پر ڈھیلا چھوڑ دیں ، آنکھیں بند کر کے ساحلِ سمندر کا تصور کریں ، بادِ نسیم کے جھونکے اور سمندر کی لہروں کی آواز کو ذہن میں لائیں ، گہری سانس اندر لے جائیں اور پھر گہری ہی سانس باہر لائیں ، سانس اندر لے جاتے وقت یہ تصور کریں کہ آپ کے بدن میں اچھی سوچ داخل ہو رہی ہے اور سانس باہر نکالتے وقت یہ تصور کریں کہ آپ کے بدن سے ہرطرح کی  منفی سوچ باہر نکل رہی ہے ، ہو سکے تو پانچ سے دس منٹ تک دن میں تین چار بار ایسے ریلیکس ہونے کی کوشش کریں۔ قدرتی نظاروں کو دیکھیں ، پر سکون فضا میں جا کر چہل قدمی کریں یا پھر پرندوں کی چہچہاٹ کو سنیں۔

 ( 8 ) احساسِ محرومی سے باہر نکلنے کی کوشش کریں اور اس کے لئے اپنی اچھائیوں کی لِسٹ بنائیں ، آج تک جو کچھ بھی کامیابی آپ نے حاصل کی ہے ان سب کی لسٹ بنائیں۔ شروع میں یہ عمل آپ کو بہت مشکل لگے گا۔ جہاں ممکن ہو اپنے والدین ، بہن بھائی ، عزیز و اَقْرِبا یا دوست احباب سے پوچھیں کہ ان کو آپ میں کون سی اچھائیاں نظر آتی ہیں۔ ڈرنا نہیں ہے ، قدم بڑھائیں اور خود اعتمادی کے زینے چڑھنا شروع کریں۔

 ( 9 ) اپنی جسمانی اور روحانی صحت کا خیال رکھیں ، وقت پر گھر کا پکا ہوا معیاری کھانا کھائیں اور وہ بھی  صحت مند غذا کے اصولوں کے مطابق ہو ، روزانہ کے کاموں کی روٹین بنائیں۔ اپنے کام ، والدین یا بہن بھائیوں کی ذمہ داریاں ، انفرادی عبادت ، دوسروں کو نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے  کے کام روزانہ کی بنیادوں پر کریں۔

 ( 10 ) گناہوں سے بچیں ، یہ آپ کے ایمان کو کمزور کرتے ہیں اور شیطان کے کاموں کو آسان کرتے ہیں۔ دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کو یقینی بنائیں ، مدنی چینل پر ہر ہفتہ کو نشر ہونے والے مدنی مذاکرے میں باقاعدگی اور وقت کی پابندی کے ساتھ شرکت کریں ، اس مدنی مذاکرے میں جو آپ کو کاؤنسلنگ اور سائیکو تھیراپی ملے گی اس کا کوئی اور نعم البدل نہیں ہے۔

 ( 11 ) بعض افراد کو مکمل علاج کےلئے کسی ماہرِ نفسیات سے بھی رجوع کرنا ہوگا تاکہ وہ ان کا اچھی طرح معائنہ کرکے کوئی مناسب علاج تجویز کرے۔ بعض دفعہ اس علاج کا دورانیہ کئی ماہ سے ایک دو سال تک کا بھی ہو سکتا ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ماہر نفسیات ، U.K


Share

Articles

Comments


Security Code