اعلیٰ حضرت کی دینی خدمات

مُجدّد اعظم ،امامِ اہلِ سنّت  امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ  الرَّحمٰن کا ایک لقب”ماحیٔ بدعت(بدعت کو مٹانے والے)بھی ہے۔بلاشبہ آپ نے برِعظیم پاک وہند میں رائج بُری بدعتوں اور بُرائیوں کے خلاف عَلَمِ جہاد بلند کیا اور اِن خرافات(بُری باتوں) کاقَلْعْ قَمْعْ فرمایا۔ عقائد ہوں یا اعمال ،رسومات ہوں یا معاملات یا پھر راہِ طریقت کے معمولات جہاں آپ نے بدعت وبُرائی کو دیکھا فوراً حکمِ شرعی صادر فرمایا۔یہاں اِس کی ایک جھلک ملاحظہ کیجئے:

(1)عقائد: عظمتِ باری تعالٰی کے خلاف  یہ نیاعقیدہ گھڑا گیا کہ” اللّٰہ تعالٰی جھوٹ بول سکتا ہے“ تو آپ  نے”سُبْحٰنَ السَّبُوْح  نامی کتاب لکھ کراِس کفریہ عقیدہ  کا رد فرمایا، اسی طرح شانِ رسالت کے خلاف جب یہ عقیدہ گھڑا گیا کہ ”حضور نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کچھ نفع نہیں دے سکتے“ تو آپ نے”اَلْاَمْنُ وَالْعُلٰی“ نامی کتاب  لکھ کر اِس  نئے فتنے کا سدِّ باب فرمایا۔ (2)عبادات واعمال: خطبہ ٔجمعہ میں اُردو اشعار ملانے کے متعلق سوال ہوا تو فرمایا:غیر عربی کا خطبہ میں ملانا ترکِ سنت  متوارثہ ہے۔(احکام شریعت،ص140) یوں ہی ایک بارخطیب نے خطبہ میں ایک غلط بات شامل کردی تو آپ خود فرماتے ہیں: اسے سنتے ہی فوراً میری زبان سے بآوازِ بلند نکلا: اَللّٰھُمَّ ھٰذَا مُنْکَر (الٰہی!یہ بُرا ہے)(ملفوظات اعلی حضرت، ص203 مفہوماً) شریعتِ محمدی میں اللّٰہ تعالٰی کے علاوہ کسی کوسجدہ تعظیمی کرنا حرام ہے مگر جب بعض لوگوں نے اِسے جائز کہنے کی کوشش کی توامامِ اہلِ سنّت کے قلم  سے”اَلزُّبْدَۃُ الزَّکِیَّۃ“ نامی کتاب معرضِ وجود میں آئی،اسی میں فرماتے ہیں:اے مسلمان! یقین جان کہ سجدہ اللہتعالٰی  کے سوا کسی کے لئے جائز نہیں ، اُس کے غیر کو سجدۂ عبادت  کرناشرک وکفر ہے اور سجدۂ تعظیمی حرام وگناہ کبیرہ۔(فتاوی رضویہ،ج 22،ص429 ملخصا)طوافِ مزارکے متعلق پوچھا گیا تو ارشاد فرمایا: مزار کا طواف کہ محض بَہ نیتِ تعظیم کیا جائے، ناجائز ہے کہ طواف کے ذریعے تعظیم خانۂ کعبہ کے ساتھ خاص ہے۔ (فتاوی رضویہ،ج9،ص528 ملخصا) (3)رسومات: شادیوں میں آتش بازی  اور گانے باجوں  کا رَد کرتے ہوئے فرمایا:آتش بازی جس طرح شادیوں اور شب براءت میں رائج ہے بے شک حرام اور پورا جرم ہے،اسی طرح یہ گانے باجے کہ اِن  بِلاد میں رائج ہیں بلاشبہ ممنوع و ناجائز ہیں۔(فتاوی رضویہ،ج23،ص279،280 ملخصاً)محرَّم الحرام میں جو تعزیہ داری ودیگر خرافات وغیرہ رائج ہیں ، اعلیٰ حضرت نے اِن کے رد میں بھی”اِعَالِی الْاِفَادَۃ“ نامی ایک  رسالہ تصنیف فرمایا۔ اسی میں فرماتے ہیں :تعزیہ داری کہ اِس طریقہ نامرضیہ کا نام ہے قطعاً بدعت وناجائز وحرام ہے۔(فتاوی رضویہ،ج21،ص423) (4)طریقت: شریعت کی ایک نہر طریقت ہے مگرجب بعض جاہلوں نے شریعت وطریقت کو  الگ الگ کہاتو امام ِاہلِ سنّت نے اُن کی سخت گرفت  کی،ارشاد فرمایا:شریعت جسم و جان، روح ودل ،تمام علوم الٰہیہ اور لامحدود معارف کی جامع ہے جن میں سے ایک ٹکڑے کا نام طریقت ہے۔(فتاوی رضویہ،ج21،ص523 ملخصا) ایک جگہ یوں تنبیہ فرمائی: شریعت، طریقت، حقیقت ،معرفت میں باہم کوئی اختلاف نہیں،ان میں اختلاف کا دعوی کرنے والا اگر بے سمجھے کہے تو نِرا جاہل ہے اور سمجھ کر کہے تو گمراہ ،بددین ہے۔شریعت حضور اقدس سیدعالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےاَقوال ہیں، طریقت حضور کے اَفعال، حقیقت حضور کے اَحوال اور معرفت حضور کے علوم ِبے مثال ہیں۔(فتاوی رضویہ،ج21،ص460 ملخصا)

یہ تو چند مثالیں ہیں ورنہ جاہل واعظ، جدید فلسفی ، جعلی صوفی نیزکفار کے میلے ٹھیلے،باطل وہم اوربدشگونیاں، واعظوں کی بے اصل روایات، اہلِ میت کی غیرشرعی رسومات،کھیل تماشے، مردوں اور عورتوں کی ایک دوسرےسے مشابہت اور مقدس مزارات  پر کی جانے والی خرافات، الغرض  اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزّت نے ہرطرح کی بدعتوں اور بُرائیوں کو مٹایا اور بجا طور پر”ماحیٔ بدعت“ کہلائے۔

تونے باطل کو مٹاکر دین کو بخشی جِلا

سنتوں کو پھر جِلایا اے امام احمد رضا

(وسائل بخشش،ص525)


Share