ہماری کمزوریاں

پھول سی بچی کا قتل

* مولاناابورجب محمد آصف عطاری مدنی

ماہنامہ ستمبر 2021

پنجاب میں ساندل بار کےپولیس اسٹیشن میں ایک شخص نے اپنی تین سالہ بچّی کے اغوا کی رپورٹ درج کرائی کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ مزار پر گیا تھا جہاں اس نے بیٹی کو موٹر سائیکل کے پاس کھڑا کیا اور نیاز کے چاول لینے چلا گیا ، واپسی پر بچّی غائب تھی۔ پولیس نے بچّی کی تلاش شروع کردی ، اسی دوران بچّی کی لاش گوجرہ کے علاقے میں نہر سے مل گئی۔ پولیس نے تحقیقات شروع کیں تو جلد ہی معلوم کر لیا کہ بچّی کو نہر میں کسی اور نے نہیں بلکہ خود اس کے سفّاک اور ظالم باپ نے پھینکا تھا۔ دورانِ تفتیش اس نے پولیس کوبتایا کہ بچّی کو اس لئے نہر میں پھینکا کہ وہ ساری رات روتی رہتی تھی اور اسے سونے نہیں دیتی تھی ، پھر وہ بولتی بھی نہیں تھی ، ڈاکٹر نے کہا تھا کہ یہ ذرا دیر سے بولنا شروع کرے گی۔ اس نے یہ بھی اعتراف کیا کہ خود کو قانون سے بچانے کے لئے بچی کے اغوا کا ڈرامہ رچایا تھا۔ (Ary.newsویب سائٹ 2جون 2021)

ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین! جب میں نے یہ خبر موبائل پر پڑھی تو افسوس اور کرب کی جس کیفیت سے گزرا! میں ہی جانتا ہوں ، میری اپنی چھوٹی بچیاں میرے قریب ہی بیٹھی تھیں ، میں کبھی ان کے چہروں کی طرف دیکھتا کبھی محض تین سال کی اس پھول سی بچی کے بارے میں سوچتا جو اپنے باپ کے ساتھ خوشی خوشی مزار پر گئی ہوگی لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اس کا باپ زمانۂ جاہلیت(یعنی اسلام سے پہلے کے زمانہ) کی یاد تازہ کرنے والا ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو زندہ زمین میں دفن کردیتے تھے ، اور یہ مجھے نہر میں زندہ پھینک کر مرنے کے لئے چھوڑدے گا ، جو یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ ڈوب کر مرنے میں کیسی تکلیف ہوتی ہے بلکہ وہ تو موت کے بارے میں بھی نہیں جانتی تھی۔ ہمارے رسولِ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے تو بیٹی کے بارے میں فرمایا : جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ پاک فِرِشتوں کو بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں : ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم اَہْلَ الْبَیْت یعنی اے گھر والو! تم پر سلامَتی ہو ۔ ‘‘ پھر فِرِشتے اُس بچّی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایک کمزور جان ہے جو ایک ناتُواں (یعنی کمزور) سے پیدا ہوئی ہے ، جو شخص اِس ناتواں جان کی پرورِش کی ذمّے داری لے گا ، قِیامت تک اللہ پاک کی مدد اُس کے شاملِ حال رہے گی۔ (مجمع الزوائد 8 / 285 ، حدیث : 13484)

جن کو اللہ پاک نے اولاد سے نوازا ہے وہ اس تجربے سے گزرے ہوں گے کہ چھوٹے بچّے کے رونے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا ، وہ رات کو روئے یا دن کو! کوئی اس کے رونے پر پابندی نہیں لگا سکتا بلکہ ماں باپ کو خود پر قابو رکھ کر بچّے کو خاموش کروانے کی کوشش کرناہوتی ہے ، لیکن یہ کیسا باپ تھا جس نے اپنی چھوٹی سی بچّی کو اس لئے مار دیا کہ وہ رات کو روتی تھی۔ کئی لوگ ایسے ہوں گے جن کا کوئی بچہ Disableہوگا لیکن وہ اسے سینے سے لگا کر رکھتے ہوں گے ، اس کو جان سے مارنا تو دُور کی بات اس کو ڈانٹنا جھڑکنا بھی گوارا نہیں کرتے ۔ میری اپنی ایک بچی بولنے ، سمجھنے اور چلنے پھرنے سے معذور (Disable) ہے ، لیکن دعوتِ اسلامی سے وابستگی کی برکت ہے کہ اس کی پیدائش سے لے کر آج تک ہم نے اس کی راحتوں اور آسائشوں کا اپنی حیثیت سے بڑھ کر خیال رکھا ہے ، وہ خوش ہوتی ہے تو میرا دل جُھوم اُٹھتا ہے ، اسے تکلیف ہوتی ہے تو میں اُداس ہوجاتا ہوں ، ہمارے گھر کا نظام گویا اسی کے گِرد گھومتا ہے ، ہم گھر والے اس کی خدمت اپنی بخشش کی امید پر کرتے ہیں کہ آخرت میں ربِّ کریم اس کے طفیل ہمارے گھرانے کو بےحساب و کتاب جنّت میں داخلہ عطا کردے کیونکہ اسلا م نے بیٹیوں کی پرورش کی بڑی فضیلت بیان کی ہے ، لیکن دوسری طرف یہ سوچ کر میری ہچکیاں بندھ گئیں کہ کیسے ایک باپ کی شفقت دہشت میں بدلی اور اس نے اپنی بچّی کو صرف اس لئے مار دیا کہ تین سال کی ہونے کے باوجود اس نے بولنا شروع نہیں کیا تھا حالانکہ ڈاکٹر نے امید بھی دلائی تھی کہ یہ دیر سے سہی لیکن بولنا شروع کردے گی ۔

قارئین ! اسی طرح کی مزید کئی خبریں نظر سے گزریں کہ میاں بیوی نےجھگڑے میں اپنی اولاد کو زہر پلا کر مار دیا ، شوہر سے جھگڑا ہونے پر بیوی نے گیارہ مہینے کا دودھ پیتا بچہ نہر میں پھینک دیا ، ایک پیپر میں نمبر کم آنے پر بیٹی کو گولی مار کر قتل کردیا ، بیٹا پیدا نہ ہونے پر پہلے سے موجود تین بیٹیوں کو فائرنگ کرکے ماردیا۔ ان افسوس ناک واقعات اور میرے دل ودماغ پر گزرنے والی قیامت نے مجھے یہ مضمون لکھنے پر اُبھارا کہ اپنے مسلمان بھائیوں کو یہ عرض کروں کہ خدارا! سنبھل جائیے ! جہالت کا اندھیرا دن بدن بڑھتا چلا جارہا ہے ، خود کو ٹھوکروں سے بچانے کے لئے اپنی زندگیوں میں چراغِ علم روشن کرلیجئے۔ جس کے پاس علمِ دین ہوگا تو وہ اپنا رہن سہن ، طور طریقے ، حقیقی معنوں میں اسلامی تعلیمات کے مطابق کرنے کی کوشش کرے گا۔ یاد رکھئے! مسلمان کو اس کے مال ، جان اور اولاد کے حوالے سے آزمایا جاتا ہے ، اس آزمائش میں وہی کامیاب ہوسکتا ہے جس نے اسلام کے بتائے ہوئے کامیابی کے اصول سیکھ رکھے ہوں اور اللہ کی توفیق سے وہ ان پر عمل بھی کرلے۔ زندگی کی ٹرین دُکھ اور سُکھ کی لائن پر چلتی ہے ، ایسا نہیں ہوتا کہ کسی کی زندگی میں صرف سُکھ ہی سُکھ ہوں یا صرف دُکھ ہی دُکھ ہوں اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے کہ اس کی زندگی میں دُکھوں کے سوا کچھ نہیں ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ اپنی زندگی کا جائز ہ لیجئے کہ ماضی میں کئی پریشانیوں نے آپ کے ہوش اُڑا دئیے ہوں گے لیکن آج وہ ماضی کی داستان ہیں ، اسی طرح اللہ چاہے گا توحال کی پریشانیاں بھی ایک دن ماضی کا حصہ بن جائیں گی۔ اس لئے کبھی ٹینشن ، ڈپریشن اور پریشر میں آکر بالخصوص اپنی اولاد کے حوالے سے کوئی ایسا قدم نہ اُٹھائیں کہ بقیہ زندگی پچھتاوے کے احساس کے ساتھ گزرے اور آخرت میں سزا بھی ملے۔ اس--------- واقعے میں بچّی کو قتل کرنے کا ذکر ہے تو اسلام نے شرعی اجازت کے بغیر کسی ایک کی جان لینے کو سب لوگوں کو قتل کرنے کے مترادف قرار دیا ہے ، اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے :

(مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ-)ترجمۂ کنزالایمان : جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا۔ (پ6 ، المائدۃ : 32)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

خبردار!قتل کا بدلہ جہنّم ہے اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے :

(وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا) ترجمۂ کنز الایمان : اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنّم ہے کہ مدتوں اس میں رہے۔ (پ5 ، النسآء : 93)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

پھر اپنی اولاد کو تو خاص کر قتل کرنے سے روکا گیا ہے ، قراٰنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے :

 (وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ اِیَّاهُمْۚ-)ترجمۂ کنزالایمان : اور اپنی اولاد قتل نہ کرو مفلسی کے باعث ہم تمہیں اور اُنھیں سب کو رزق دیں گے۔ (پ8 ، الانعام : 151)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  اس میں اولاد کو زندہ درگور (یعنی دفن) کرنے اور مار ڈالنے کی حُرمت بیان فرمائی گئی جس کا اہلِ جاہلیت میں دستور تھا کہ وہ اکثر ناداری کے اندیشہ سے اولاد کو ہلاک کرتے تھے ، انہیں بتایا گیا کہ روزی دینے والا تمہارا ، ان کا سب کا اللہ ہے پھر تم کیوں قتل جیسے شدید جُرم کا اِرتکاب کرتے ہو ۔ (خزائن العرفان)

اللہ پاک ہمیں اسلامی تعلیمات کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* اسلامک اسکالر ، رکنِ  مجلس المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) ، کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code