ہماری کمزوریاں

احسان فراموشی(Thanklessness)

* مولانا ابو رجب محمد آصف عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2021

ایک شخص کسی گاؤں میں جارہاتھا کہ ایک خوف زدہ بھیڑیا (Wolf) دوڑتاہوا اُس کے پاس آیا اور فریادکرنے لگا : اے رحم دل انسان!شکاری (Hunters) میرے پیچھے پڑے ہیں ، تم مجھے اپنے تھیلے میں چُھپالو تو میں عمر بھر تمہارا احسان مند رہوں گا۔ یہ سُن کر اس شخص نے اپنے تھیلے کو خالی کیا اور بھیڑیئے کو اس میں چُھپاکر آگے پیچھے وہی چیزیں چُن دیں۔ اتنے میں شکاری بھی آپہنچے اور اس شخص سے پوچھ گچھ کی اور بھیڑئیے کی تلاش میں آگے بڑھ گئے۔ ان کے جانے کے بعد بھیڑیئے نے آواز دی : میرا دَم گُھٹ رہا ہے ، مجھے باہر نکالو۔ اس شخص نے تھیلا نیچے رکھا اور بھیڑیئے کو باہر نکال دیا۔ تھیلے سے باہر آتے ہی بھیڑیئے نے نوکیلے دانت دکھا کر کہا : بھوک سے میری جان نکل رہی ہے اور میرے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں ہے اس لئے میں تمہارا گوشت کھاؤں گا۔ یہ کہہ کر احسان فراموش بھیڑئیے نے حملہ کردیا ، وہ شخص اپنی جان بچانے کے لئے بھاگ کھڑا ہوا۔ اسی دوران میں اسے ایک بوڑھا آتا دکھائی دیا۔ وہ بوڑھے کی طرف دوڑ پڑا۔ ’’کیا ہوا؟ “ بوڑھے نے اسے ہانپتا کانپتا دیکھ کر پوچھا۔ اس شخص نے پُھولی ہوئی سانسوں کے دوران بتایا : اس بھیڑیئے کے پیچھے شکاری لگے ہوئے تھے ، میں نے اس کی جان بچائی ، مگر اب یہ مجھے کھانے کو دوڑ رہاہے۔ آپ مہربانی کر کے اسے سمجھائیں ، کہ احسان کرنے والے کو دھوکا دینا بُری بات ہے۔ اتنے میں بھیڑیا بھی پہنچ گیا۔ بوڑھے نے اُس سے پوچھا : کیوں بھیڑیئے ! تم احسان فراموشی کیوں کر رہے ہو؟ بھیڑیئے نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا : کچھ شکاری مجھے شکار کرنا چاہتے تھے تومیں نے اس سے مدد مانگی ، اس نے میرے ہاتھ پاؤں باندھ کر تھیلے میں ٹھونس دیا ، اور فالتو کا سامان بھی اُوپر سے بھردیا حتّی کہ میرے لئےسانس لینا بھی مشکل ہوگیا ، پھر یہ شکاریوں سے کافی دیر تک باتیں کرتا رہا تاکہ میں بےہوش ہوجاؤں اور یہ مجھے لے جاکر فروخت کردے اور رقم کمائے ، اب تو میں اس کا گوشت کھا کر رہوں گا۔ بوڑھا کچھ سوچتے ہوئے بولا : میراخیال ہے کہ تم بات کو بَڑھا چَڑھا کر بیان کررہے ہو۔ ذرا مجھے تھیلے میں گھس کر دکھاؤ تاکہ میں اندازہ کرسکوں ، واقعی تم سچ ہی کہہ رہے ہو! بھیڑیا جَھٹ سے تھیلے میں گھس گیا۔ اُدھر بوڑھے نے تیزی سے تھیلے کامنہ بند کر دیا پھر اس شخص کے ساتھ مِل کر بھیڑئیے کو خنجر (Dagger) سے ہلاک کردیا ، یوں اس شخص کی جان بچی اور احسان فراموش بھیڑیا اپنے انجام کو پہنچا ،  ’’سچ ہے کہ بُرے کام کا انجام بُرا ہے۔ ‘‘

ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین!

احسان فراموشی کی یہ اسٹوری پڑھ کر ہمیں غور کرنا چاہئے کہ کہیں ہم بھی توکسی کی احسان فراموشی میں مبتلا نہیں! غور کیاجائے توانسان اپنی پیدائش سے لے کر موت تک بہت سے احسانات (Favors) کے زیرِ بار ہوتا ہے ، اس پر سب سے پہلا احسان ربُّ العٰلمین کا ہے جس نے اسے پیدا کیا ، ایمان کی انمول دولت سے نوازا ، رزق اور دیگر بےشمار نعمتیں عطا فرمائیں ، اس کے بعد آخری نبی محمد عربی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے احسانات ہیں جن کے صدقے ایمان ملا ، رحمٰن کی پہچان ملی ، بہترین امّت میں اس کا شمول ہوا ، انعاماتِ آخرت بصورت جنّت کا مستحق ٹھہرا ، پھر اس پر عُلمائے کرام اور فقہائے اسلام کا احسان جنہوں نے شریعت کے احکامات اس تک پہنچائے ، اساتذۂ کرام کا بھی اس پر احسان جنہوں نے علمِ دین سکھایا ، ماں باپ بھی اس کے محسن جو اس کی دنیا میں آمد کا ذریعہ بنے اور اس کی پرورش کی ذمہ داری نبھائی ، اس کے اِردگِرد بسنے والے لوگوں ، دوستوں اور رشتہ داروں کے بھی اس پر احسانات ہوتے ہیں ، کسی نے خطرے میں اس کی جان بچائی ہوتی ہے ، کسی نے تنگ دستی میں اس کی مالی مدد کی ہوتی ہے ، کسی نے نوکری دلانے میں مدد کی ہوتی ہے ، کسی نے ضرورت کے وقت اسے قرض فراہم کیا ہوتا ہے ، کسی نے اس کے تعلیمی اخراجات برداشت کئے ہوتے ہیں ، کسی نے بیماری میں مفت دوائیاں مہیا کی ہوتی ہیں ، کسی نے مایوسی میں اس کی ہمت بندھائی ہوتی ہے ، کسی نے اسے کامیابی کا راستہ دکھایا ہوتا ہے ، غمزدہ ہونے پر اس کی دلجوئی کی ہوتی ہے ، مفت رہائش فراہم کی ہوتی ہے ، الغرض جتنی قسم کی آزمائشیں شمار میں آسکتی ہیں اتنے ہی احسانات بھی گِنے جاسکتے ہیں۔

احسانات کا بدلہ چُکانے کا طریقہ :

جس طرح احسان کرکے جتانا مذموم ہے اسی طرح کسی کے احسان کو جُھٹلانا بھی مذموم ہے جِسے ہمارے یہاں احسان فراموشی بھی کہا جاتا ہے۔ اللہ پاک کے احسانات کا شکر اوراس کی نعمتوں کی قدر کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں بندوں کے احسانات کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہئے ، فرمانِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہے : جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کریم کا شکرگزار نہیں ہو سکتا۔ [1]

ہمارے پیارے نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے احسان کا شکریہ ادا کرنے کا طریقہ بھی بتایا ہے ، چنانچہ فرمایا : (1)جو تم سے بھلائی کے ساتھ پيش آئے تو اسے اچھا بدلہ دو اور اگر تم اس کی استطاعت نہ رکھو تو اس کے لئے اتنی دعا کروکہ تمہیں يقين ہو جائے کہ اس کا بدلہ چکا ديا ہے۔ [2] (2)جسے کوئی چیز عطا کی گئی اگر وہ استطاعت رکھے تو اس کا بدلہ دے ، اگر استطاعت نہ ہو تو اس کی تعریف کر دے کیونکہ جس نے تعریف کی اس نے شکر ادا کیا اور جس نے اسے چھپایا اس نے ناشکری کی۔ [3] (3)جس کے ساتھ بھلائی کی گئی اور اس نے بھلائی کرنے والے کو جَزَاکَ اللہُ خَيراً (یعنی اللہ پاک تجھے بہترین جزاء دے) کہا تووہ ثناء کو پہنچ گيا۔ [4]

ہماری حالتِ زار :

لیکن افسوس!ہمارے معاشرے میں جہاں کردار کی دیگرمثبت خوبیاں (Positive qualities) کم ہوتی جارہی ہیں اسی طرح احسان مندی کا رجحان بھی کم ہوتا جارہا ہے ، مَردوں اور عورتوں کی بڑی تعداد اللہ کے انعامات اور بندوں کے احسانات کی ناشکری میں گرفتار ہے۔ بیٹا باپ کے احسانات کو تسلیم کرنے کے بجائے کہتا ہے کہ آپ نے ہمارے لئے کیا کیا ہے؟ فرمانِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہے : الله پاک کی رضا باپ کی رضا میں ہے جبکہ اللہ پاک کی ناراضی باپ کی ناراضی میں ہے۔ [5]شاگرد اُستاذ کے احسانات کو یہ کہہ فراموش کردیتا ہے کہ انہوں نے ہمیں ٹھیک سے نہیں پڑھایا! یا یہ کون سا مفت پڑھاتے تھے! ا س کام کی تنخواہ لیتے تھے حالانکہ استاذ کے احسان مند اور احسان فراموش کے متعلق امامِ اہلِ سنّت مولانا احمدرضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتےہیں : استاذ کو باپ کے برابر شمار کیا گیا ہے ، اسی لئے نبی کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : اِنّمَا اَنَا لَکُمْ بِمَنْزِلَۃِ الْوَالِدِ اُعَلِّمُکُمْ میں تمھارے لئے باپ کی حیثیت رکھتا ہوں میں تمھیں علم سکھاتا ہوں۔ بلکہ علما فرماتے ہیں کہ استاذ کے حق کو والدین کے حق پر مقدم رکھنا چاہئے کیونکہ والدین کے ذریعے بدن کی زندگی ہے اور استاذ روح کی زندگی کا سبب ہے۔ [6] ملازم سیٹھ کے منہ پر کہہ دیتا ہے مجھے جاب دے کر تم نے کون سا مجھ پر احسان کیا ہے ! تم نہ دیتے تو کوئی اور نوکری دے دیتا ، کسی ادارے کا سربراہ فنڈ دینے والے کے بارے میں کہتا ہے انہوں نے ہمیں فنڈز دے کر ہم پر کوئی احسان نہیں کیا! شوہر بیوی سے کہتا ہے تم گھر پر سارا دن کرتی کیاہو؟ بیوی شوہر سے شکوہ کرتی ہے مجھ پر حکم چلانے کے سوا تمہارا کام کیا ہے؟ اگر کبھی شوہر اس کی فرمائش پوری نہ کرپائے تو کہے گی تم نے شادی کے بعد سے آج تک مجھے کونسی چیز لے کردی ہے؟ تمہارے گھر میں مجھے کوئی سکھ نہیں ملا ، رسولِ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے عورتوں کے کثرت سے جہنم میں جانے کا سبب ان کے اپنے شوہروں کی نعمتوں سے انکار کو قرار دیا اور ارشاد فرمایا : اگر شوہر اپنی کسی بیوی سے ساری عمر حسنِ سلوک سے پیش آئے پھر وہ شوہر میں کوئی عیب دیکھ لے تب بھی یہی کہتی ہے میں نے تجھ سے کبھی کوئی بھلائی نہیں پائی۔ [7]

یاد رکھئے اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی مسلمان کو مالی نقصان پہنچانا ، اس کے عیب اُچھالنا ، اسے دھوکا دینا ، اس سے تکبرکرنا ، حسد کرنا ، بغض وکینہ رکھنا ، اس کی غیبت کرنا ، اسے بےعزت کرنا بہت ہی بُرا ہے لیکن یہ سب کچھ اپنے محسن کے ساتھ کرنا بدترین ہے کیونکہ اس میں احسان فراموشی بھی ہے۔ اللہ پاک ہمیں شکر گزاری اور احسان مندی کی خوبی عطا فرمائے ۔                                                 اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* اسلامک اسکالر ، رکن مجلس المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) ، کراچی



[1] ابوداؤد ، 4 / 335 ، حدیث : 4811

[2] نسائی ، ص422 حدیث : 2564

[3] ترمذی ، 3 / 417 ، حديث : 2041

[4] ترمذی ، 3 / 417 ، حديث : 2042

[5] ترمذی ، 3 / 360 ، حدیث : 1907

[6] فتاوی رضویہ ، 24 / 420

[7] بخاری ، 1 / 23 ، حدیث : 29


Share

Articles

Comments


Security Code