زیارتِ روضۂ رسول

رسولِ ذیشان، رحمتِ عالمیان صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ  شفاعت نشان ہے: مَنْ زَارَ قَبْرِي وَجَبَتْ لَهٗ شَفَاعَتِي یعنی جس نے میری قبرکی زیارت کی اُس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگئی۔ (سنن دارقطنی،ج2،ص351، حدیث:2669)

 شرح اس حدیثِ پاک میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے روضَۂ اطہر کی زیارت کے لئے حاضر ہونے والوں کو شفاعت کی بشارت عطا فرمائی ہے۔

جلیلُ القدر  محدّث امام تقیُّ الدّین سُبْکی شافعی علیہ رحمۃ اللہ القَوی (وفات:756ھ) حدیثِ پاک کے لفظ  ”وَجَبَتْ“ کے تحت فرماتے ہیں: اس کا معنیٰ یہ ہے کہ جو حضورِاکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قبرِ انور کی زیارت کرے  اُس کیلئے شفاعت ثابت اور لازم ہے۔آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ حدیث شريف  کے لفظ ”لَهٗ“ کے فوائد ذکر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں1) :)زائرینِ روضۂ انور کو ایسی شفاعت کے ساتھ خاص کیا جائےگا جو دوسروں کو نہ عمومی طور پر نصیب ہوگی  نہ ہی خصوصی طور پر۔ (2)زائر کو اس شفاعت کے ذریعےدوسروں کوحاصل ہونے والی شفاعت سے ممتاز کردیا جائےگا۔ (3)زیارتِ قبرِ انور کرنے والے شفاعتِ مصطفےٰ کےحقدار قرار پانے والوں میں لازمی طور پر شامل ہوں گے ۔(4)زائر کا خاتمہ ایمان پرہوگا۔

امام تقیُّ الدّین سبکی علیہ رحمۃ اللہ القَوی ”شَفَاعَتِيیعنی میری شفاعت“کے تحت فرماتے ہیں:شفاعت کی نسبت اپنی جانب فرمانے میں یہ شرف ہے کہ” فرشتے،انبیا اور مؤمنین “بھی شفاعت کریں گے مگر روضَۂ انور کی زیارت کرنے والے کی شفاعت میں خود کروں گا۔ شافع (شفاعت کرنے والے) کی عظمت کی وجہ سے اس کی شفاعت بھی ویسی ہی عظیم ہوتی ہے جیسے ہمارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام انبیائے کرام علیہمُ السَّلام سے افضل ہیں اسی طرح آپ کی شفاعت بھی دوسروں سے افضل ہے۔(شفاء السقام،ص103 ملخصاً)

حاشیہ ابنِ حجر ہیتمی میں ہے: یہ حدیث حیاتِ مبارک میں  نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اور بعد ِوصال قبرِانور کی زیارت کو شامل ہے نیزیہ حکم دور و نزدیک کے ہر مردو عورت کے لئے ہے۔ پس اس حدیثِ پاک سے روضَۂ انور کی طرف سامان باندھنے کی فضیلت اور زیارت کے لئے سفر کے مستحب ہونے پر استدلال کیا گیا ہے۔

(حاشیۃ ابن حجر الہیتمی على شرح الایضاح،ص481 ملخصاً )

پہلے حج یا زیارتِ مدینہ  صدرُالشریعہ حضرت مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں:حج اگر فرض ہے تو حج کرکے مدینہ طیبہ حاضر ہو۔ ہاں اگر مدینہ طیبہ راستہ میں ہو تو بغیر زیارت حج کو جانا سخت محرومی و قساوتِ قلبی ہے اور اس حاضری کو قبولِ حج و سعادتِ دینی و دنیوی کے لیے ذریعہ و وسیلہ قرار دے اور حج نفل ہو تو اختیار ہے کہ پہلے حج سے پاک صاف ہو کر محبوب کے دربار میں حاضر ہو یا سرکار میں پہلے حاضری دے کر حج کی مقبولیت و نورانیت کے لیے وسیلہ کرے۔ غرض جو پہلے اختیار کرے اسے اختیار ہے مگر نیت خیر درکار ہے کہ : اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَلِکُلِّ امْرِئٍ مَّانَویٰ(بخاری،ج،ص5،حدیث:1) اعمال کامدار نیّت پر ہے اور ہر ایک کے لیے وہ ہے، جو اُس نے نیّت کی۔ (بہارِ شریعت،ج1،ص1222) مزید فرماتے ہیں: زیارتِ اقدس قریب بواجب ہے۔(بہارِ شریعت،ج1،ص1221)        

اللہ کریم ہمیں باربار اس پاک در کی حاضری نصیب فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ذمّہ دار شعبہ فیضان صحابہ اہلبیت المدینۃ العلمیہ باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code