سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی

حضرتِ سیّدُنا عباس بن عبدُالمطّلب   رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے عرض کی: یارسول اللہ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! قریش بیٹھے ایک دوسرے کے حَسَب نَسَب پر گفتگو کر رہے ہیں  اور انہوں نے آپ کے نسب پر طعن کیا ہے۔ تو حُضُورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: إِنَّ اللَّہَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِی مِنْ خَیْرِہِمْ مِنْ خَیْرِ فِرَقِہِمْ وَخَیْرِ الْفَرِیقَیْنِ، ثُمَّ تَخَیَّرَ الْقَبَائِلَ فَجَعَلَنِی مِنْ خَیْرِ قَبِیْلَۃٍ ثُمَّ تَخَیَّرَ الْبُیُوتَ فَجَعَلَنِی مِنْ خَیْرِ بُیُوتِہِمْ، فَأَنَا خَیْرُہُمْ نَفْسًا، وَخَیْرُہُمْ بَیْتًا یعنی   اللہ تعالیٰ نے مخلوق بنائی تومجھے اس کے دوحصّوں میں سے بہتر حصّے میں رکھا ، پھر قبیلے بنائے تو مجھے بہتر قبیلے میں رکھا ، پھر گھر اور خاندان بنائے تو مجھے بہتر خاندان میں پیدا کیا ،چنانچہ میں ساری مخلوق سے بہتر ہوں اور میرا خاندان بھی سب خاندانوں سے بہترہے۔

(ترمذی،ج5،ص350، حدیث:3627)

شرحِ حدیث علّامہ حسین بن محمود شیرازی مُظْہِرِِی حنفی علیہ رحمۃ اللہ القَوی  (سالِ وفات727ھ) اس حدیثِ پاک کی شَرْح میں فرماتے ہیں: یعنی اللہ تعالیٰ نے مخلوق بناکر اس کے دو حصّے کئے: ایک عرب اور دوسرا عَجم، پھر مجھے بہتر حصّے یعنی عَرَب میں پیدا فرمایاپھر عَرَب کو مختلف قبیلوں میں بانٹا تو مجھے بہترین قبیلے یعنی قُریش میں رکھا ، پھر قبیلوں میں خاندان بنائے تو مجھے بہتر خاندان یعنی بنو ہاشم میں پیدا فرمایا ،سو میرا قبیلہ تمہارے قبیلوں سے بہتر ہے اورمیرا خاندان تمہارے خاندانوں سے بہتر ہے اور جب یہ بات ذِہْن نشین ہو گئی تو جان لو کہ میں خود بھی تمام مخلوقِ الٰہی سے افضل ہوں اور میرا خاندان بھی سب خاندانوں سے بہترہے۔

خلاصۂ  کلام یہ ہے کہ حُضُورِاکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاکیزہ وُجود اور روشن نبوی صِفات کو بنظرِ عنایت حضرتِ آدم علیہ السَّلام  کی مبارَک پُشْت میں محفوظ رکھا گیا ، اس وجود ِمسعود کو جوہر ِمَحبت سے غذا دی گئی ، حضرتِ آدم علیہ السَّلام اوران کی اولاد نے آپ سے شرف پایا اور پھر اللہ  تعالیٰ  نے اس پاکیزہ (نوری) وجود کو پُشْت دَرْ پُشْت نُزول کا حکم دیا حتّٰی کہ یہ مبارَک وجود بنو ہاشم تک پہنچ گیا،پس فضیلت اور شرافت کے اعتِبار سے نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا مقام و مرتبہ ساری مخلوق میں وہی ہے جوتمام اَعْضا میں دل کا ہے۔ (المفاتیح فی شرح المصابیح،ج6،ص102،تحت الحدیث:4478)

3 فرامینِ مصطفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم (1)تین وجوہ کی بنا پر عَرَب سے محبت کرو کہ میں عربی ہوں، قرآن مجید عربی میں ہے اور اہلِ جنّت کا کلام عربی ہے۔(برکات آلِ رسول،  ص235،236) (2)اللہ تعالیٰ  نے قریش کو ایسی سات صفات میں فضیلت دی ہے جو ان سے پہلے کسی کو دیں نہ بعد میں:  (۱) میں قریش میں سے ہوں (۲)نبوّت (آخری نبی ) ان میں ہے (۳) بیتُ اللہ شریف کی دربانی ان میں ہے (۴)حاجیوں کو پانی پلانا ان میں ہے (۵) اللہ  تعالیٰ  نے ہاتھیوں کے مقابلے میں ان کی مدد فرمائی (۶)انھوں نے دس10 سال اللہ تعالیٰ  کی عبادت کی ، اس وَقْت ان کے سوا کوئی عبادت کرنے والا نہیں تھا (۷)ان کے حق میں سورۂ قریش نازل ہوئی ، جس میں ان کے سوا کسی کا ذکر نہیں۔ (برکات آل رسول، ص233،234) (3)مجھے جبریلِ امین نے کہا : میں نے زمین کے شرق و غرب چھان ڈالے مگر مجھے بنی ہاشم سے زیادہ فضیلت والے کسی باپ کے بیٹے نہیں ملے۔ (برکات آل رسول، ص91)

سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی مذکورہ حدیثِ پاک سے معلوم ہوا کہ ہمارے نبیِّ محترم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سب نبیوں اور رسولوں سے افضل و اعلیٰ ہیں کہ آپ خود ارشاد  فرما رہے ہیں : میں خود ساری مخلوق سے بہتر و بَرتَر ہوں۔ ترمذی شریف میں ہے کہ نبیِّ کریم   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں تمام اولادِآدم کا سردار ہوں۔ (ترمذی ،ج 5،ص99، حدیث:3159 ) امامِ اہلِ سنّت شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن  اپنے رسالہ مبارَکہ” تَجَلِّی الْیَقِیْن(فتاوی رضویہ، جلد 30 صفحہ 129 تا 264) میں اس پر تفصیلی کلام فرمایا ہے۔

رحمتِ عالَم    صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے آباء واجدادکے ایمان پر ایک استدلال

علامہ زینُ الدّین محمد معروف بہ عبدُ الرَّءوف  مُناوی علیہ رحمۃ اللہ الکافی (سالِ وفات: 1031ھ) مذکورہ حدیثِ پاک کے  تحت فرماتے ہیں : ”یعنی حضور ِاکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اپنی اصل (ماں باپ) کے لحاظ سے بھی سب سے بہترہیں کیوں کہ آپ پُشت دَر پُشت پاک صُلبوں اور رحموں میں (نکاح کے ذریعے) منتقل ہوتے رہے یہاں تک کہ حضرت عبد اللہ  کی پُشت میں پہنچے۔“(فیض القدیر،ج2،ص294،تحت الحدیث:1735)معلوم ہوا کہ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے سب آباء و اجداد مؤمن و مُوَحِّد تھے، ا ن میں کوئی بھی کافر و مشرک نہیں تھا کیونکہ بحکم ِقراٰن مشرکین نہ تو پاک ہیں اور نہ ہی مؤمنین سے بہتر حالانکہ مذکورہ حدیثِ پاک کی رُو سے نبیِّ کریم صلَّی اللہ  تعالٰی علیہ واٰلہٖ و سلَّم کے سب آباء و اجداد کا پاک اور سب سے بہتر ہونا معلوم ہوتا ہے۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اس بارے میں ایک اور دلیل ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:( وَ لَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ) ترجمۂ کنزالایمان: اور بیشک مسلمان غلام مشرک سے اچّھا ہے۔ (پ2، البقرۃ:221)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اوررسولُ اللہ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں : میں ہر قَرن وطبقہ میں تمام قُرونِ بنی آدم کے بہتر سے بھیجاگیا یہاں تک کہ اس قَرن میں ہواجس میں مَیں پیداہوا۔ (بخاری،ج2،ص488،حدیث: 3557) حضرت امیر المؤمنین مولیٰ المسلین سیّدنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تعالٰی وجہَہُ الکریم  کی حدیث صحیح میں ہے : رُوئے زمین پر ہر زمانے  میں کم سے کم سات مسلمان ضَرور رہے ہیں ، ایسا نہ ہوتا تو زمین واہل زمین سب ہلاک ہوجاتے۔ (زرقانی علی المواہب،ج 1،ص327) عالمُ القراٰن حِبْرُالاُمّۃ حضرت سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما  کی حدیث میں ہے:حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسَّلام  کے بعد زمین کبھی سات بندگانِ خدا سے خالی نہ ہوئی، ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اہلِ زمین سے عذاب دفع فرماتاہے۔(زرقانی علی المواہب،ج1،ص328)  جب صحیح حدیثوں سے ثابت کہ ہر قَرن وطبقے میں روئے زمین پر کم از کم سات مسلمان بندگانِ مقبول ضَرور رہے ہیں ،اور صحیح حدیث سے ثابِت ہے کہ حُضُورِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  جن سے پیداہوئے وہ لوگ ہر زمانے میں ہر قرن میں خیارِ قرن سے تھے ، اور آیتِ قرآنیہ ناطِق کہ کوئی کافر اگرچہ کیسا ہی شریفُ القوم، بَالَانَسب ہو، کسی غلام مسلمان سے بھی خیر و بہتر نہیں ہوسکتا تو واجب ہوا کہ مصطفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے آباء واُمّہات ہر قرن اورطبقہ میں انہیں بندگانِ صالح ومقبول سے ہوں ورنہ معاذ اللہ حدیث پاک میں ارشادِ مصطفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  و قرآنِ عظیم میں ارشادِ حق جَلَّ وعَلا کے مخالف ہوگا۔ (فتاویٰ رضویہ،ج 30،ص268،269)اجتماعِ میلاد شریف کی دلیل محفلِ میلاد اس محفل کو کہا جاتا ہے جس میں نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی ولادت، ولادت کے وقت کے معجزات ، حُضُورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا حسب نسب اورآپ کے فضائل و کمالات وغیرہ کا بیان ہو۔ اس مبارَک محفل کی اصل مذکورہ حدیث پاک بھی ہے کہ اس حدیث شریف میں خود نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اپنے نسب اور اس کی عظمت و شرافت کا اظہار فرمایا ہے۔حضور سَرورِ کائنات صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے کئی اور احادیث میں اپنے نسب کی رِفْعَت وبُلندی کو بیان فرمایا ہے چنانچِہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ  نے اولادِ اسماعیل میں سے کِنانہ،کِنانہ میں سے قریش ،قریش میں سے بنو ہاشم اور بنو ہاشم میں سے مجھے چُنا۔(مسلم،ص 962،حدیث:2276)

اللہ پاک کی ان پر بے شماررحمتیں ہوں اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…دارالافتاء اہل سنت مرکزالاولیاءلاہور


Share

سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی

ماہِ میلاد ربیعُ الاوّل شریف کی مناسبت سے خلیفۂ اعلیٰ حضرت مَدَّاحُ الْحبیب مولانا جمیل الرّحمٰن قادری رضوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کے نعتیہ دیوان ”قبالۂ بخشش“سے دو اشعار مع شرح پیشِ خدمت ہیں:

قبائل کے حصے کیے جب خدا نے

کیا سب سے اعلیٰ قبیلہ تمہارا

شرح اللہ پاک نے انسانوں کو آپس میں ایک دوسرے کی پہچان کے لئے جب مختلف قوموں،قبیلوں اور خاندانوں میں  تقسیم فرمایا تو اپنے آخری نبی، محمدِ عربی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سب سے افضل و اعلیٰ قبیلے اور خاندان میں پیدا فرمایا۔

خاندان و قبیلۂ مصطفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فضائل مدینے کے تاجدار، سرکارِ نامدار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے مبارک قبیلے یعنی قریش اور مقدس خاندان یعنی بنوہاشم کے بارے میں ارشاد فرمایا:(1)سب آدمیوں سے بہتر عرب ہیں، سب عرب سے بہتر قریش  اور سب قریش سے افضل بنوہاشم ہیں۔(کنزالعمال،ج6،ص40،حدیث:34104،جزء:12)(2)اللہکریم نے قریش کو ایسی سات باتوں سے فضیلت دی جو نہ ان سے پہلے کسی کو ملیں، نہ ان کے بعد کسی کو عطا ہوں:(1)ایک تو یہ کہ میں قریشی ہوں (یہ تمام فضائل سے ارفع و اعلیٰ ہے) (2)خلافت(3) کعبۂ معظمہ کی دربانی اور (4)حاجیوں کو پانی پلانے کی سعادت انہیں عطا فرمائی (5)ہاتھی والوں کے لشکر کے مقابلے میں ان کی مدد فرمائی (6)انہوں نے دس سال تک اللہ پاک کی عبادت تنہا کی کہ ان کے سوا روئے زمین پر  کسی اور قبیلے کے لوگ اس وقت عبادت نہ کرتے تھے (7)اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں قراٰنِ عظیم کی ایک سورۂ مبارکہ اتاری جس میں صرف ان کا ذکر فرمایا اور وہ سورت ”  لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍۙ(۱) “ہے۔(تاریخ ابنِ عساکر،ج 64،ص15،جمع الجوامع،ج 5،ص235، حدیث:14765،فتاویٰ رضویہ،ج23،ص212ملخصاً)

رضاعت کے ایّام میں یہ حکومت

کہ تھا قُرْصِ  مَہ  اِک کھلونا تمہارا

الفاظ و معانی رضاعت کے ایّام:بچے کو دودھ پلانے کا  عرصہ۔ قُرْصِ مَہ:چاند کی ٹکیایعنی گول چاند۔

شرح نبیوں کے امام صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم شِیرخواری یعنی دودھ پینے کے دنوں میں جب چاند کی جانب اشارہ فرماتے تو وہ آپ کے اشارے پر چلتا تھا، گویا بچپن سے ہی زمین و آسمان پر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حکومت جاری تھی۔

نور کا کھلوناحضرت سیِّدُنا عبّاس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:یارَسُولَ اللہ!مجھے آپ کی نُبُوَّت کی نشانیوں نے آپ کے دِین میں داخِل ہونے کی دعوت دی تھی، میں نے دیکھا کہ (بچپن میں) آپ گہوارے (یعنی جُھولے) میں چاند سے باتیں  کرتے تھے اور جب اپنی انگلی سے اس کی جانب اشارہ کرتے تو جس طرف اِشارہ فرماتے چاند اس جانب جھک جاتا۔ حُضُورپُرنُور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:”میں چاند سے اور وہ مجھ سے باتیں  کرتاتھا ، وہ مجھے رونے سے بہلاتا تھا اور جب چاند عرشِ الٰہی کے نیچے سجدہ کرتا تو میں اُس کی تسبیح کی آواز سنا کرتا تھا۔“

(خصائص کبریٰ،ج1،ص91)

چاند جھک جاتا جدھر انگلی اٹھاتے مہد میں

کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھلونا نور کا

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ماہنامہ فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code