فریاد
کام کی باتیں
*دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوری کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری
ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2025
22اکتوبر2024ء بروز منگل، دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران مولانا حاجی محمد عمران عطاری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کے تمام شعبہ جات کے اجیروں کے درمیان تربیتی بیان فرمایا۔ اس بیان میں سورۃ الحجرات کی آیت 11 اور 12 کا خصوصی مطالعہ کرنے کا ذہن دیا اور اس کے کچھ نکات بیان فرمائے۔ آئیے! سورۂ حجرات کی آیت نمبر 11 اور 12 کا ترجمہ اور مختصر تفسیر ملاحظہ کیجئے:
( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّۚ-وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ-بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِۚ-وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۱۱))
ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو نہ مرد مردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے دُور نہیں کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو کیا ہی بُرا نام ہے مسلمان ہوکر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں۔([1])
اگر کسی شخص میں فقر، محتاجی اور غریبی کے آثار نظر آئیں تو ان کی بنا پرا س کا مذاق نہ اڑایا جائے،ہو سکتا ہے کہ جس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے وہ مذاق اڑانے والے کے مقابلے میں دینداری کے لحاظ سے کہیں بہتر ہو۔ ([2])
مذاق اُڑانے کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ عبد المصطفٰیٰ اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اہانت اور تحقیر کے لئے زبان یا اشارات، یا کسی اور طریقے سے مسلمان کا مذاق اڑانا حرام و گناہ ہے کیونکہ اس سے ایک مسلمان کی تحقیر اور اس کی ایذاء رسانی ہوتی ہے اور کسی مسلمان کی تحقیر کرنا اور دکھ دینا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔([3])
کثیر اَحادیث میں اس فعل سے ممانعت اور اس کی شدید مذمت اور شناعت بیان کی گئی ہے،جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے بھائی سے نہ جھگڑا کرو، نہ اس کا مذاق اڑاؤ، نہ اس سے کوئی ایسا وعدہ کرو جس کی خلاف ورزی کرو۔([4])
نوٹ: آیت ِمبارکہ میں عورتوں کا جداگانہ ذکر اس لئے کیا گیا کہ عورتوں میں ایک دوسرے کامذاق اُڑانے اوراپنے آپ کو بڑا جاننے کی عادت بہت زیادہ ہوتی ہے،نیز آیت ِمبارکہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورتیں کسی صورت آپس میں ہنسی مذاق نہیں کر سکتیں بلکہ چند شرائط کے ساتھ ان کا آپس میں ہنسی مذاق کرنا جائز ہے، جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: (عورتوں کی ایک دوسرے سے) جائز ہنسی جس میں نہ فحش ہو نہ ایذائے مُسلم،نہ بڑوں کی بے ادبی،نہ چھوٹوں سے بد لحاظی،نہ وقت و محل کے نظر سے بے موقع،نہ اس کی کثرت اپنی ہمسر عورتوں سے جائز ہے۔([5])
(اور آپس میں طعنہ نہ کرو ) یعنی قول یا اشارے کے ذریعے ایک دوسرے پر عیب نہ لگاؤ کیونکہ مومن ایک جان کی طرح ہے جب کسی دوسرے مومن پرعیب لگایاجائے گاتوگویااپنے پرہی عیب لگایاجائے گا۔([6])
(اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو ) برے نام رکھنے سے کیا مراد ہے ا س کے بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں، ان میں سے تین قول درج ذیل ہیں
(1) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا:ایک دوسرے کے برے نام رکھنے سے مراد یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے کسی برائی سے توبہ کرلی ہو تو اسے توبہ کے بعد اس برائی سے عار دلا ئی جائے۔ یہاں آیت میں اس چیز سے منع کیا گیا ہے۔
حدیث ِپاک میں اس عمل کی وعید بھی بیان کی گئی ہے، جیسا کہ حضر ت معاذ بن جبل رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جس شخص نے اپنے بھائی کواس کے کسی گناہ پرشرمندہ کیا تووہ شخص اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک کہ وہ اس گناہ کا اِرتکاب نہ کرلے۔شارحینِ حدیث نے فرمایا کہ اس سے مراد ایسے گناہ پر کسی کو شرمندہ کرنا ہے جس سے بندہ تائب ہوچکا ہو۔([7])
(2)بعض علماء نے فرمایا: برے نام رکھنے سے مراد کسی مسلمان کو کتا،یا گدھا، یا سور کہنا ہے۔
(3)بعض علماء نے فرمایا کہ اس سے وہ اَلقاب مراد ہیں جن سے مسلمان کی برائی نکلتی ہو اور اس کو ناگوار ہو (لیکن تعریف کے القاب جو سچے ہوں ممنوع نہیں، جیسے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہُ عنہ کا لقب عتیق اور حضرت عمر رضی اللہُ عنہ کا فاروق اور حضرت عثمان غنی رضی اللہُ عنہ کا ذوالنُّورَین اور حضرت علی رضی اللہُ عنہ کی کنیت ابوتُراب اور حضرت خالد رضی اللہُ عنہ کا لقب سَیْفُ اللہ تھا) اور جو اَلقاب گویا کہ نام بن گئے اور اَلقاب والے کو ناگوار نہیں وہ القاب بھی ممنوع نہیں، جیسے اَعمَش اور اَعرَج وغیرہ۔([8])
( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ-اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُؕ-وَاتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ(۱۲))
ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بےشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے اور عیب نہ ڈھونڈو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہوگا اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔([9])
(اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو)آیت کے اس حصے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو بہت زیادہ گمان کرنے سے منع فرمایا کیونکہ بعض گمان ایسے ہیں جو محض گناہ ہیں لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ گمان کی کثرت سے بچا جائے۔([10])
علامہ عبداللہ بن عمر بیضاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :یہاں آیت میں گمان کی کثرت کو مُبْہَم رکھا گیا تاکہ مسلمان ہر گمان کے بارے میں محتاط ہو جائے اور غور و فکر کرے یہاں تک کہ اسے معلوم ہو جائے کہ اس گمان کا تعلق کس صورت سے ہے کیونکہ بعض گمان واجب ہیں، بعض حرام ہیں اور بعض مُباح ہیں۔([11])
اس آیت میں دوسرا حکم یہ دیا گیا کہ مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے پوشیدہ حال کی جستجو میں نہ رہو جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی سَتّاری سے چھپایا ہے۔
اس آیت سے معلوم ہو اکہ مسلمانوں کے پوشیدہ عیب تلاش کرنا اور انہیں بیان کرنا ممنوع ہے،یہاں اسی سے متعلق ایک عبرت انگیز حدیثِ پاک ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اے ان لوگوں کے گروہ، جو زبان سے ایمان لائے اور ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کی چھپی ہوئی باتوں کی ٹٹول نہ کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی چھپی ہوئی چیز کی ٹٹول کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی پوشیدہ چیز کی ٹٹول کرے (یعنی اسے ظاہر کر دے) گا اور جس کی اللہ پاک ٹٹول کرے گا (یعنی عیب ظاہر کرے گا) اس کو رسوا کردے گا، اگرچہ وہ اپنے مکان کے اندر ہو۔([12])
(اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا) اس آیت میں تیسرا حکم یہ دیا گیا کہ ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو، کیا تم میں کوئی یہ پسند کرے گا کہ اپنے مَرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے، یقیناً یہ تمہیں ناپسند ہوگا،تو پھر مسلمان بھائی کی غیبت بھی تمہیں گوارا نہ ہونی چاہئے کیونکہ اس کو پیٹھ پیچھے برا کہنا اس کے مرنے کے بعد اس کا گوشت کھانے کی مثل ہے کیونکہ جس طرح کسی کا گوشت کاٹنے سے اس کو ایذا ہوتی ہے اسی طرح اس کی بدگوئی کرنے سے اسے قلبی تکلیف ہوتی ہے اور درحقیقت عزت وآبرُو گوشت سے زیادہ پیاری ہے۔([13])
Comments