شُکر/قناعت

شکر

شکر  ایک چھوٹا سا لفظ ہے مگر اپنے معنیٰ کے اعتبار سے بہت جامع ہے۔ بندے پر اللہ تعالٰی کی جانب سے ملنے والی نعمتوں پر شکر کرناواجب ہے جیسا کہ فضائلِ دُعا میں ہے:”جب نعمت ملے شکر واجب ہے۔“(فضائلِ دعا، ص 113) شکر تمام عبادتوں کی اَصْل اوراعلیٰ دَرَجہ کی عبادت ہے، شکر کی توفیق ملنا عظیم سعادت ہے۔اگر کوئی  یہ چاہتاہےکہ اسکی نعمتیں محفوظ رہیں اور ان میں اضافہ ہوتووہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کاشکر ادا کرتا رہے  چنانچہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے: ( لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ) ترجمۂ کنزالایمان:اگر احسان مانو گے تو میں  تمہیں اور دونگا(پ13، ابراہیم: 7)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) تفسیرخزائن العرفان میں ہے: معلوم ہواکہ شکر سے نعمت زیادہ ہوتی ہے۔ ( خزائن العرفان، پ13، ابراہیم:7) شکر کی تعریف: شکر کامطلب ہے کہ کسی کے احسان و نعمت کی وجہ سے زبان، دل یا اَعْضا کے ساتھ اسکی تعظیم(Respect) کی جائے (صراط الجنان،ج1،ص244) کسی دنیاوی نعمتوں کے ملنے پر الحمدللہ ، شکریہ،Thank you کہہ دینے کا نام ہی فقط شکر نہیں بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حقیقی نعمتوں کو یاد رکھتے ہوئے راضی رہنا حقیقی شکر ہے۔حکایت: ایک شخص حضرت سیّدنا یونس بن عبید رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی تنگدستی کی شکایت کرنے لگا، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس سے پوچھا:”جس آنکھ سے تم دیکھ رہے ہوکیااس کے بدلے ایک لاکھ درہم تمہیں قبول ہیں؟“،اس نے عرض کیانہیں،فرمایا:”تیرے اس ہاتھ کے عوض ایک لاکھ درہم؟، اس نے کہا: نہیں“، پھر فرمایا :”تو کیا پاؤں کے بدلے میں؟“  کہا: نہیں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی دیگر نعمتیں یاد دلانے کے بعد ارشاد فرمایا:میں تمہارے پاس لاکھوں دیکھ رہا ہوں اور تم محتاجی کی شکایت کررہے ہو۔ (شکرکے فضائل، ص62مکتبۃ المدینہ) حضرت سیّدناعمر بن عبد العزیزعلیہ رحمۃ اللہ العزیز فرماتے ہیں: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ  کی نعمتوں کو  شکر کے ذریعے محفوظ کرلو۔“(حلیۃ الاولیاء،ج 5،ص449، رقم:7455، ملخصا) تمام نعمتوں سے بہتر:اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرنا دنیا کی تمام نعمتوں سے بہتر ہے۔ (صراط الجنان،ج9،ص73)

(بنتِ عبدالحمید مُعَلِّمَہ  جامعۃُ المدینہ  ،باب المدینہ،کراچی)

قناعت

قراٰنِ پاک ميں اللّٰہ تعالٰی نےارشاد فرمايا: (مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةًۚ-) ترجمۂ کنزالاىمان: جو اچّھا کام کرے مرد ہو یا عورت اور ہو مسلمانتو ضرور ہم اسے اچّھى زندگى جِلائىں گے۔ (پ14،النحل:97)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) ایک قول کے مطابق اس آىتِ کرىمہ مىں حَیٰوةً طَیِّبَةًۚ سے مراد”قناعت“ہے۔(ماخوذاز نور العرفان، پ14،النحل:97) قناعت اىک اچّھى صِفَت ہےاور اس کے متعدَّد فضائل ہیں چنانچہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےارشاد فرماىا: جسے اسلام کى ہداىت دى گئى اور بقدرِ کفاىت رزق دىا گىا اور اس نے اسى پر قناعت اختىار کى اس کے لئے  خوشخبرى ہے۔(ترمذی، کتاب الزھد،ج 4،ص156، حدیث:2356) جو شخص قناعت کی دولت حاصل کرنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ ضرورت کے مطابق خرچ کرے۔ منقول ہےکہ حضرت محمد بن واسع رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ خشک روٹى کو پانى کے ساتھ تَر کر کے کھاتے تھے اور فرماتے جو اس پر قناعت کرتا ہے وہ کسى کا محتاج نہىں ہوتا۔(احیاء العلوم ،ج3،ص295) دنىا و مال کا لالَچ اچّھا نہىں ہوتا جو اس مىں مبتَلا ہوجاتا ہے وہ نقصان مىں ہى رہتا ہے، جو سادگى اپنائے اور سادہ غذا و لباس پر قناعت کرے اس کو نہ دولت کى حاجت ہوتى ہے نہ دولت مند کى، جو مِل جائے اسى پر قناعت کرتا ہے۔ امیرالمؤمنین حضرت سیّدنا على المرتضیٰرضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہىں:جس نے قناعت کی عزّت پائى، جس نے لالَچ کىا ذلىل ہوا۔(فیضان سنت، ص504) اللّٰہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہمىں قناعت کى دولت سے مالا مال فرمائے کہ حدىثِ مبارکہ مىں ہے: قناعت اىسا خزانہ ہے جو کبھى ختم نہىں ہوتا۔(الزھد الکبیر للبیہقی، ص 88، حدىث:104)

آصف رضا عطارى مدنى(مُدَرِّس جامعۃ المدینہ پاکپتن شریف)

دونوں مؤلفین کو(فی کس) 1200روپے کامدنی چیک پیش کیا جائے گا۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ

مضمون بھیجنے والوں میں سے 11 منتخب نام

(1) محمد ایوب عطاری(دورۂ حدیث شریف مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ باب المدینہ ،کراچی) (2)فیصل محمود عطاری مدنی (فیضانِ مدینہ، راولپنڈی) (3) غلام یٰسین عطاری مدنی(مدرس جامعۃ المدینہ، باب المدینہ،کراچی) (4)ساجد سلیم عطاری مدنی(سردار آباد،فيصل آباد) (5)اُمِّ ہادی عطاریہ(جامعۃ المدینہ، قطبِ مدينہ ملیر، باب المدینہ، کراچی) (6)بنتِ صلاح الدّین ( جامعۃ المدینہ، فیضِ مدینہ، باب المدینہ کراچی) (7)فرخ رضا عطاری(دورۂ حدیث شریف مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ باب المدینہ ،کراچی) (8)محمد فہد عطاری(ایضاً) (9)رشید رضا(ایضاً) (10)محمد شعبان رضا عطاری(ایضاً) (11)محمد شہزاد عطاری(ایضاً)

سلسلہ’’فیضانِ جامعۃُ المدینہ‘‘

(محرم الحرام۱۴۳۹ھ/اکتوبر2017ء کے لئےموضوع)

(1)غصّے پر قابو پانے کا طریقہ (2) سوشل میڈیا کے 5نقصانات

٭جامعات المدینہ (دعوتِ اسلامی) سے فارغُ التحصیل مَدَنی اسلامی بھائی، مَدَنِیّہ اسلامی بہنیں، تخصّص (فقہ،عربی، انگریزی) اور دورۂ حدیث شریف  کے طَلَبہ و طالِبات مضامین بھیجنے کے اَہل ہیں۔٭2منتخب مضامین شائع ہوں گے ٭جس مؤلف کا مضمون شائع ہوگا اسے1200 روپے کا مَدَنی چیک بھی پیش کیا جائےگا (جس کے ذریعے مکتبۃ المدینہ سے خریداری کی جاسکتی ہے)٭ایک مؤلف کا ایک ماہ میں ایک مضمون شائع ہوسکتا ہے۔(11مؤلفین کے نام بھی شائع کئے جائیں گے)

’’بارہویں شریف‘‘ کی نسبت سے

مضمون لکھنے کے 12مدنی پھول

(1)مضمون کا مواد مستند اور حتّی الامکان نیا ہوجو پہلے زیادہ عام نہ ہوا ہو،  خود لکھئے کسی کتاب یا رسالے سے نقل نہ  کیجئے (2)اپنے مضمون کو ضرورتاً آیت، حدیث، کسی بزرگ کے فرمان اور موضوع سے متعلق مختصر حکایت سے آراستہ کیجئے (3)مشکل الفاظ اور نام پر  درست اعراب لگائیے (4)حکایت فرضی ہو تو فرضی ہونے کی صراحت لازمی کیجئے (5)اپنے مضمون میں آسان ا لفاظ استعمال کر کے پڑھنے والوں کی راحت کا سامان کیجئے (6)مثال دینے کی حاجت ہوتو حتّی الامکان دِینی مثالیں شامل کیجئے (7)جوبات ایک جملے میں کہی جاسکتی ہو، چار جملوں میں پھیلانے سے گریز کیجئے، اس کے لئے تلخیص کی صلاحیت استعمال کیجئے(8)آیت، روایت، حکایت وغیرہ کی عربی تخریج  (کتاب کا نام ،جلد، کتاب، باب،صفحہ، رقم اور مطبوعہ)لکھئے (9)اِملا کی غلطیاں آپ کی تحریری صلاحیت کو مشکوک بنادیں گی(10)مضمون 313 الفاظ سے زائد نہ ہو (11)مضمون کے ساتھ اپنا مکمل نام، پتا، موبائل نمبر، واٹس اپ نمبر، ای میل ایڈریس، سنِ فراغت ، جامعۃُ المدینہ کا نام مع شہر  ضرور  لکھئے (12)مضمون کے حوالے سے کوئی  وضاحت کرنا چاہیں تو آخر میں مختصراً لکھ دیجئے۔(مضمون بھیجنے کی آخری تاریخ:08ستمبر2017ء)

مضمون بھیجنے کا پتا: مکتب ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ‘‘عالَمی مَدَنی مرکز، فیضانِ مدینہ، بابُ المدینہ، کراچی۔ای میل:mahnama@dawateislami.net


Share

Articles

Gallery

Comments


Security Code