پرانی ادویات کو نئی قیمت پر فروخت کرنا کیسا؟، اُجرت طے کئے بغیر بال کٹوانا جائز نہیں، زمین بیچتے ہوئے شرط لگانا کہ واپس  مجھے ہی بیچی جائے

پرانی  ادویات کو نئی قیمت پر فروخت کرنا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں میڈیکل اسٹور(Medical Store) چلاتا ہوں کچھ ادویات ہمار ے پاس اسٹاک(Stock)رکھی ہوتی ہیں بسا اوقات ان کی قیمت بڑھ جاتی ہے تو اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان ادویات کو نئی قیمت پر فروخت کرسکتے ہیں یا ہمیں اِن ادویات کو پرانی قیمت پرہی فروخت کرنا ہوگا؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: جب دکاندار نے کوئی مال خرید لیا تو دکاندار اس مال کا مالک بن گیا اب وہ اس  مال کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق فروخت کرسکتا ہے، اصولی طور پر تو وہ مالک ہے، جتنے کا چاہے فروخت کرے، البتہ فقہائے کرام نے حکام کو بھی یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اشیاء کی قیمتیں مقرر کرسکتے ہیں ۔

لہٰذا اگر حکومت کی طرف سے کسی چیز کے ریٹ مقرر کردیئے جاتے ہیں اور مہنگا بیچنے پر قانونی معاملات کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے تو پھر ظاہر ہے کہ ہمیں قانون کے مطابق اپنی اشیا کو فروخت کرنا ہوگاکہ وہ جائز بات جس سے قانون روکتا ہو اس سے باز رہنا شرعاً بھی واجب ہو جائے گا۔

لہٰذا اگر پرانے اسٹاک کے بارے میں قانون خاموش ہو یا نئی قیمت سے بیچنے پر پابندی نہ ہو تو آپ پرانے اسٹاک کو نئی قیمت سے فروخت کر سکتے ہیں اگر قانونی پابندی ہو تو پھر قانون پر عمل کرنا لازم ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

زمین بیچتے ہوئے شرط لگانا کہ واپس  مجھے ہی بیچی جائے

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا میں اپنی زمین کسی کو اس طرح فروخت کرسکتا ہوں کہ خریدار سے کہوں کہ میں آپ کو یہ زمین آٹھ ماہ کےلیے چھ لاکھ کی فروخت کرتا ہوں لیکن آپ یہ زمین کسی اور کو فروخت نہیں کروگے بلکہ آٹھ ماہ بعد چھ لاکھ پچاس ہزار کی مجھے ہی فروخت کروگے کیا میرا اس طرح اپنی زمین فروخت کرنا درست ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: پوچھی گئی صورت میں آپ کا اس طرح اپنی زمین فروخت کرنا جائز نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ خریدو فروخت کے کچھ مقاصد ہوتے ہیں جن میں سب سے بڑا مقصد انتقالِ ملکیت ہے یعنی مال بیچنے والے کی ملکیت سے نکل کر خریدنے والے کی ملکیت میں چلا جائے۔اب خریداری کے بعد  خریدنے والا اُس کے سیاہ و سفید  کا مالک اور خود مختار ہوتاہے کہ جو چاہے کرے۔ جو شرطیں آپ  بیان کررہے کہ” آٹھ مہینے کے لیے بیچ رہا ہوں اور مجھے ہی واپس بیچنا ہو گی “ یہ شرط فاسد ہے جو سودے کو خراب کر دیتی ہے  اس طرح کے سودے سے بچنا شرعاً واجب ہے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اُجرت طے کئے بغیر بال کٹوانا جائز نہیں

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارے میں کہ زید نے کسی غیر مسلم نائی (Barber)سے بالوں کی کٹنگ کروائی لیکن اجرت طے نہ کی، کٹنگ کروانے کے بعد زید نے نائی کو کچھ رقم دی تو نائی نے خاموشی سے لے لی۔میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کرنا درست ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: اُجرت طے کئے بغیر بالوں کی کٹنگ کروانا جائز نہیں، کیونکہ  اصول یہ ہے کہ جب  آپ کسی سےایسی جائز خدمات لیتے ہیں جو قابلِ معاوضہ ہوں، مثلاًبال بنوانے وغیرہ کی خدمات اور معاوضہ طے نہ کیا جائے تو ایسا کرنا جائز نہیں ۔ ایسی صورت میں اُجرتِ مثل دینا ہوگی مطلب یہ کہ مارکیٹ میں جو اس کام کی اُجرت رائج ہے وہ دی جائے گی۔البتہ اگر پہلے سے ریٹ مشہور ہیں یا فریقین ریٹ سے واقف ہیں تو ہر دفعہ ریٹ طے کرنا ضروری نہیں ہوگا۔ البتہ صورتِ مسئولہ میں کیا جانے والاعقد غیر مسلم سے کیا گیاہےتو اس فعل کوکسی صورت میں بھی ناجائز قرار نہیں دیں گے کہ مسلم اور کافرحربی کے درمیان عقودِ فاسدہ جائز ہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کام کرنے پر اُجرت کی بجائے گفٹ(Gift)طے کرنا

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کمپنی کی پروڈکٹس (Products)بیچتا ہے کمپنی ایک ٹارگٹ(Target) دیتی ہے باقاعدہ کوئی اجارہ نہیں کرتی مثلاً یوں کہتی ہےکہ اگر آپ ایک لاکھ کا  ٹارگٹ پورے کریں  گے تو آپ کو چالیس ہزارکا گفٹ (Gift)دیا جائے گا۔کیا اس طرح عقد کرنا درست ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:صورتِ مسئولہ(پوچھی گئی صورت) میں جسے گفٹ (Gift) کہا گیا ہے دراصل یہی اسکی اجرت ہے۔اور بعض صورتوں میں اجرت الگ سے طے ہوتی ہے اور ٹارگٹ پورا کرنے پر کمیشن بطور گفٹ الگ سے بھی دیا جاتا ہے۔شریعت کا اصول یہ ہےکہ  اَلْاِعْتِبَارُ لِلْمَعَانِیْ لَا لِلْاَلْفَاظِ مطلب یہ کہ اس طرح کے سودوں میں الفاظ کا اعتبار نہیں ہوتابلکہ مقاصد کا اعتبار ہوتاہے، لہٰذا اس صورت میں کہ جب تنخواہ کا بالکل ذکر نہیں کیا گیا توجسے گفٹ کہا جا رہا ہے یہ ہی اصل اجرت ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

پرائز بانڈ Prize Bond) )کی خرید و فروخت کا حکم

سوال: کیا فرماتے ہیں علما ئے کرام اس مسئلہ میں کہ پرائز بانڈجو خریدے جاتے ہیں اس کو رکھا جاتا ہے اس کے بعد اگر نہ لگے تو اس کو کیش کروالیتے ہیں۔ آیا اس پر جو انعام نکلتا ہے وہ حلال ہے یا حرام ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:پرائز بانڈزPrize Bonds) ) کا خریدنا، بیچنا جائز اور اس پر ملنے والا انعام حلال ہے۔ البتہ پاکستانی حکومت نے حال ہی میں جو چالیس ہزار(40,000) والے پریمئیم بانڈز (Premium Bonds )جاری کئے ہیں یہ سودی بانڈز ہیں انکی خریدوفروخت کرنا اور ان پر ملنے والا نفع لینا ناجائز و حرام ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 


Share

پرانی ادویات کو نئی قیمت پر فروخت کرنا کیسا؟، اُجرت طے کئے بغیر بال کٹوانا جائز نہیں، زمین بیچتے ہوئے شرط لگانا کہ واپس  مجھے ہی بیچی جائے

مکّۂ مکرمہ کے کئی لوگوں کا ذریعۂ آمدنی تجارت تھا۔ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی تجارت کی غرض سے دو مرتبہ شام اورایک مرتبہ  یمن کا سفر فرمایا۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سب سے پہلا تجارتی سفر 12 سال کی عمر میں اپنے چچا ابوطالب کے ہمراہ ملکِ شام کی جانب کیا۔ (ترمذی،ج5،ص 356، حدیث: 3640، سیرتِ مصطفیٰ،ص86)حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایسی راست بازی،صِدق و امانت اوردیانت داری کے ساتھ تجارت فرمائی جس کی مثال عالَم میں کہیں نہیں ملتی۔

 ایک کامیاب تاجر کو سچّائی، امانت و دیانت داری، وعدہ کی پابندی اور  خوش اَخلاقی جیسی عمدہ صفات  سے مُزَیَّن ہونا ضروری ہے۔ نبیِّ کریم علیہ السَّلاممیں یہ تمام خوبیاں بدرجۂ اَتَمّ پائی جاتی تھیں۔تجارت اور وعدہ کی پابندی: حضرتِ سیّدنا  عبداللہ  بن ابی الحَمْسَاءرضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: حضورِانور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اعلانِ نبوّت سےقبل  میں نے حُضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے  خریدو فروخت کا مُعامَلہ کیا۔ کچھ رقم میں نے ادا کر دی، کچھ باقی رَہ گئی تھی۔ میں نے وعدہ کیا کہ ابھی آکر باقی رقم بھی ادا کرتا ہوں ۔ اتّفاق سے تین دن تک مجھے یاد نہ آیا۔ پھر جب میں اس جگہ پہنچا تو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو اسی جگہ منتظر پایا،مگر میری اس وعدہ خلافی سے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ماتھے پر شکن تک نہ آئی، صرف اتنا  فرمایا:نوجوان! تم نے مجھے مشقّت میں ڈال دیا  میں اس مقام پر تین دن سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔(ابوداؤد، ج4،ص388،حدیث:4996) کبھی جھگڑا  نہ کیا:اسی طرح ایک صحابیِ رسول حضرتِ سیّدنا سائِب رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اعلانِ نبوّت سے پہلے میرے شریکِ تجارت (Business Partner)تھے اور بہت اچھے شریک تھے،آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کبھی لڑائی جھگڑا نہیں کیا۔(ابوداؤد،ج 4،ص342، حدیث: 4836مفہوماً)سفرِ شام: جب نبیِّ کریم علیہ السَّلام  کی عمر شریف تقریباً پچیس (25)سال کی ہوئی تو آپ کی اَمانت و صَداقت کی بنا پر  حضرتِ سیّدَتُنا خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہانے اپنا  تجارت کا سامان ملکِ شام بھیجنے کے لئےآپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پیغام بھیجا اور دُگنے مُعاوضے کی پیشکش کی۔ حضورِ انور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کی پیشکش منظور فرما لی اور سامانِ تجارت لے کر ملکِ شام کو روانہ ہو گئے، اس سفر میں حضرت سیّدتُنا خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا غلام مَیْسَرہ بھی ساتھ تھا ۔ یہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا شام کی جانب دوسرا تجارتی سفر تھا۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم بہت جلد تجارت کا مال فروخت کرکے مکّۂ مُکَرَّمہ واپس تشریف لے آئے۔ واپسی میں جب آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا تجارتی قافلہ شہرِِ مکّہ میں داخل ہونے لگا تو حضرتِ سیّدتُنا خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا ایک بالاخانے سے تجارتی قافلے کی آمد کا منظر دیکھ رہی تھیں، جب ان کی نظر حضورِاکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر پڑی تو انہوں نےدیکھا کہ دو فرشتے نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے سر ِ مبارک پر دھوپ سے سایہ کئے ہوئے ہیں۔(مدارج النبوۃ،ج 2،ص27ملخصاً)

تاجر اسلامی بھائیو!: نبیِّ کریم علیہ السَّلام کے اندازِ تجارت کو اپنانے میں دنیاو آخرت کی بھلائیاں پوشیدہ ہیں۔ اللہ تعالٰی ہمیں  نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی حقیقی پیروی کی توفیق  عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


Share

پرانی ادویات کو نئی قیمت پر فروخت کرنا کیسا؟، اُجرت طے کئے بغیر بال کٹوانا جائز نہیں، زمین بیچتے ہوئے شرط لگانا کہ واپس  مجھے ہی بیچی جائے

فرضی حکایت: زید کو آفس میں جونہی یہ خبر ملی کہ لاہور میں اس کے بھائی کا انتقال ہوگیا ہے تو وہ مینیجر (Manager) کو اطلاع دے کر فوراً  گھر آیا۔ جلدی جلدی ضروری سامان پیک (Pack) کرکے ریلوے اسٹیشن پہنچا جہاں کچھ تگ و دو (کوشش)  کے بعد  اُسے  لاہور  جانے کے لئے ایک ٹرین میں نِشست (Seat) مل گئی۔ ٹرین میں بیٹھ كر اُس نے سُکھ کا سانس لیا۔ رات میں ٹرین کسی اسٹیشن  پر رُکی تو زید تیزی سے ایک اسٹال کی جانب بڑھا اور پُھرتی سے ایک نوٹ نکال کر  پانی کی بوتل  خریدی  اورفوراً ٹرین پر سوا ر ہوگیا۔ صبح ناشتے  کے وقت جیب میں ہاتھ ڈالا تو اس کی جیب سے صرف  بیس روپے برآمد ہوئے۔پانچ ہزار کا نوٹ کسی بھی جیب سے نہ نکلا ، یہ دیکھ کر اس کے نیچے کا سانس نیچے،اوپر کا سانس اوپر رہ گیا کیونکہ  اُس نے جلد بازی میں  رات کو پانی کی  بوتل خریدتے وقت  بیس کے بجائے  پانچ ہزار کا نوٹ دے دیا تھا۔ اب سوائے افسوس کے کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ جلد بازی میں وہ اسٹیشن کا نام دیکھنابھی بھول گیا تھا۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!حدیث پاک میں ہے: اطمینان اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔ ( ترمذی شریف،ج3،ص407،حدیث:2019) مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ المنَّان فرماتے ہیں: یعنی دنیاوی یا دینی کاموں کو اطمینان سے کرنا اللہ عَزَّوَجَلَّ کے الہام سے ہے اور ان میں جلد بازی سے کام لینا شیطانی وسوسہ ہے۔ (مراٰۃ المناجیح،ج6،ص625)انسان جن کاموں میں جلد بازی کرتا ہے، خریدو فروخت اُن میں سے ایک ہے۔ خرید و فروخت میں جلدبازی نہ  صرف  مالی  بلکہ بسا اوقات جانی نقصان   کے ساتھ  ساتھ ذہنی دباؤ، مایوسی، شرمندگی جیسے کئی  مسائل  کو جنم دیتی ہے۔ خرید و فروخت میں جلد بازی  کے باعث متوقع  نقصانات کی  چند صورتیں ملاحظہ کیجئے: اضافی قیمت پر چیزخریدلینا :خریدو فروخت کے مُعاملے میں  بعض جلدباز  مارکیٹ ریٹ معلوم کرنےیا کسی تجْرِبہ کار سے مشورہ  کرنے کی بجائے بغیر سوچے سمجھے  مہنگے داموں چیز خرید لیتے ہیں اور پھر لوگوں  کے دل آزار جملے مثلاً تمہیں تو لُوٹ لیا ہے، دکاندار نے تم کو بے وقوف بنا دیا ہے“ وغیرہ سُن کر شرمندہ ہوتےہیں۔ غیر معیاری یا نقصان دہ چیز خرید لینا: بسا اوقات جلدبازی میں مُضرِصحت یا گھٹیا معیار کی چیز خرید لی جاتی ہے جونہ صرف خریدار بلکہ اس کے اہلِ خانہ کے لئے بھی باعثِ نقصان ہوتی ہے اِس طرح وہ چیز بھی کام نہیں آتی اور پیسےالگ برباد ہوتے ہیں مثلاً مہنگے داموں ہلکی  کوالٹی (Low Quality) کی کوئی الیکٹرونک چیز جلدبازی میں خریدلی جو  چند ہی دنوں میں خراب ہوگئی۔ چیک کئے بغیرزائدُالمیعاددَوا (Expire Medicine) خرید کر مریض کو کھلائی تو مریض کی حالت مزید بگڑگئی یا وہ بےچارہ جان کی بازی ہار گیا۔شہزادۂ مولیٰ علی شیرِ خدا حضرتِ سیِّدُنا محمد بن حنفیہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ہمارا معاملہ سورج سے بھی زیادہ واضح و روشن ہے، لہٰذا جلد بازی سے کام نہ لو اور خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔(حلیۃ الاولیا ء،ج3،ص205، رقم: 3711)  خریدنے میں وقت کا ضائع ہونا: جلدی میں خریدی ہوئی چیز کا عیب  گھر آکر نظر آنے پر وہ چیز واپس  یا تبدیل کروانے کےلئے دوبارہ جانا پڑتا ہے جس سے کافی وقت ضائع ہوتاہے اور  وقت کے قدردان کے لئے یہ لمحہ بڑی کوفت کا سامان  بنتاہے۔لڑائی جھگڑے میں پڑجانا: جلد بازی میں خریدی گئی عیب دارچیز  واپس کرنے پر بسااوقات دکاندار سے تلخ کلامی ہوجاتی ہے تو کبھی لڑائی جھگڑے تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ دکاندار کو نقصانات ہوسکتے ہیں: جب خریداروں کی بھیڑ  لگی   ہو اور کوئی معاون بھی  ساتھ نہ ہوتوایسے میں دکاندار بھی بوکھْلاہٹ کا  شکار ہوکر مختلف انداز سے جلد بازی میں اپنا نقصان کر بیٹھتاہے، مثلاً: کبھی تومہنگی چیز سستے داموں میں فروخت کردیتا ہے۔کبھی گاہک کی دی ہوئی  نامکمل رقم  صحیح سے نہیں گن پاتا۔کبھی  بِل بناتے وقت  کچھ اَشیا بھول کر کم قیمت وصول کرلیتا ہے اورکبھی جلد بازی میں نوٹ چیک کئے بغیر رکھ لیتاہے اور جب  حواس پر قابو پاتا ہے تو جعلی نوٹ دیکھ کر اس کے ہوش اُڑ جاتے ہیں۔اس لئے دکانداراورکاہگ دونوں کو خریدو فروخت میں جلدبازی نہیں کرنی چاہئے۔


Share

Articles

Gallery

Comments


Security Code