ایک معروف کمپنی کی تجارتی ڈیل کا شرعی حکم

احکامِ تجارت

ایک معروف کمپنی کی تجارتی ڈیل کا شرعی حکم

*مفتی ابومحمد علی اصغر عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ جولائی2022

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک مینوفیکچر کمپنی کیش پر کام کرتی ہے ، ادھار پر کام نہیں کرتی جبکہ ایک معروف سپر اسٹور کو ادھار پر سامان کی حاجت ہے ، اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے ان دونوں نے درج ذیل طریقہ اختیار کیا ہے :

ایک شخص بطورِ ڈسٹری بیوٹر مینوفیکچر کمپنی سے مال خرید کر ثمن ادا کر کے قبضہ کر لیتا ہے (مینوفیکچر کمپنی کی طرف سے ڈسٹری بیوٹر پر کوئی شرطِ فاسد نہیں لگائی گئی) پھر ڈسٹری بیوٹر مینوفیکچر کمپنی ہی کو اپنا وکیلِ مطلق بنادیتا ہے کہ مینوفیکچر کمپنی جسے چاہے یہ مال فروخت کر دے۔ پھر مینوفیکچر کمپنی بحیثیتِ وکیل اپنے مؤکل (ڈسٹری بیوٹر) کے مال کو مثلاً تین ماہ کے ادھار پر سپر اسٹور کو فروخت کر دیتی ہے ، تین ماہ گزر جانے کے بعد سپر اسٹور سے وکیل کو پیمنٹ موصول ہوتی ہے جسے وصول کرنے کے بعد وکیل (مینوفیکچر کمپنی) اپنے مؤکل (ڈسٹری بیوٹر) کو پہنچا دیتی۔ آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ(1)کیا مذکورہ طریقۂ کار شرعی طور پر جائز ہے ؟  (2)نیز اس میں خدانخواستہ سپراسٹور کا نقصان ہوگیا یا دیوالیہ ہوگیا اورسپر اسٹور وکیل کو رقم لوٹانے سے عاجز آ جاتا ہے ، رقم ادا نہیں کرتا تو یہ نقصان کون برداشت کرے گا ؟  وکیل (مینو فیکچر کمپنی) یا مؤکل (ڈسٹری بیوٹر) ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : (1) سوال میں بیان کی گئی صورت جائز ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں۔ مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ یہاں تین الگ الگ معاملات ہیں :

(1) ڈسٹری بیوٹر نے مینو فیکچر کمپنی سے مال خریدا ، اس کی رقم ادا کر کے مال پر قبضہ بھی کر لیا ، یہ معاہدہ مکمل ہو گیا اور کسی ناجائز کام کا ارتکاب نہ ہونا بھی واضح ہے کہ سامان خریدنا بیچنا شرعاً جائز ہے۔

(2) مال خریدنے اور قبضہ کرنے کے بعد ڈسٹری بیوٹر نے مینو فیکچر کمپنی کو مال بیچنے کے لئے وکیل بنا دیا ، وکیل نے سامان بیچ کر رقم مالک کو پہنچا دی ، یہ معاملہ بھی جائز ہے ، جس میں کوئی ناجائز پہلو نہیں کیونکہ اپنا مال وکیل کے ذریعے بکوانا شرعاً جائز ہے۔

(3) مینو فیکچر کمپنی کا سپر اسٹور کو ادھار مال بیچنا اور رقم وصول کرکے مالک تک پہنچانا بھی جائز ہے کیونکہ وکیل کا سامان بیچنا اور رقم وصول کر کے مالک کو دینا شرعاً جائز ہے نیز وکیل کا ادھار میں سامان بیچنا بھی جائز ہے۔ جب مذکورہ تینوں معاملات الگ الگ جائز ہیں تو ان کا مجموعہ بھی جائز ہے ، جس میں عدمِ جواز کا کوئی پہلو موجود نہیں ، اور ان میں کوئی معاملہ دوسرے سے مشروط بھی نہیں۔

لیکن اس ڈیل میں چار مرحلے  بہت نازک ہیں ، ہر ڈیل میں ان کو بطورِ خاص ملحوظ رکھنا ضروری ہے :

1۔ ڈسٹری بیوٹر کا مینوفیکچر کمپنی سے مال خریدنا۔

2۔ وکیل کا ڈسٹری بیوٹر کی طرف سے مال پر قبضہ کرنا۔

3۔ آگے بیچنے کے لئے ڈسٹری بیوٹر کا وکیل   بنانا ۔

4۔  ڈسٹری بیوٹر کی طرف سے سپر اسٹو ر کو مال بیچ کر رقم وصول کرنا۔

ڈسٹری بیوٹر کا مینوفیکچر کمپنی سے مال خریدنا :

اس مرحلے کے مطابق ہر مرتبہ مینوفیکچر کمپنی کے مَجاز نمائندے اور ڈسٹری بیوٹر یا اس کے مجاز نمائندے کے درمیان ایجاب و قبول ہونا ضروری ہے۔ یہ نا ہو کہ ڈسٹری بیوٹر رقم دے کر بھول جائے اور مینوفیکچر کمپنی یہ سمجھے کہ میں تو وکیل ہوں لہٰذا مجھے ڈائریکٹ بیچنے کا اختیار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کمپنی کو ڈسٹری بیوٹر کا مال بیچنے کااختیار ہے۔لیکن اس کے لئے ڈسٹری بیوٹر کے پاس مال بھی تو ہو۔ یہاں ڈسٹری بیوٹر کی ملکیت میں مال یوں آئے گا کہ مینو فیکچر کمپنی اپنا مال ڈسٹری بیوٹر کو بیچ کر مالک بنائے گی اور ڈسٹری بیوٹر خود یا اس کا وکیل اس کی طرف سے قبضہ کرے گا۔ اس کے بعد مال ڈسٹری بیوٹر کی طرف سے سپر اسٹور کو بیچا جائے گا لہٰذا ہر مرتبہ اس مرحلے پر عمل ہونا ضروری ہے۔ اگر مینو فیکچر کمپنی نے اپنا مال کسی بھی موقع پر ڈسٹری بیوٹر کو نہیں بیچا تو ڈسٹری بیوٹر فارغ ہو گیا،وہ ایسی ڈیل میں نفع کا مستحق نہیں ہوسکتا اور سپر اسٹور سے اس ڈیل کے بدلے جو رقم لینی ہوگی ، اس کی مالک کمپنی ہوگی ، ڈسٹری بیوٹر کا اس رقم سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔

وکیل کا ڈسٹری بیوٹرکی طرف سے مال پر قبضہ کرنا :

جب مینوفیکچر کمپنی اور ڈسٹری بیوٹر کے درمیان مال بیچنے خریدنے کا معاہدہ ہوجائے تو ڈسٹری بیوٹر خود یا اس کا مجاز نمائندہ مال اپنےقبضے میں لے لے۔ڈسٹری بیوٹر وکیل کے ذریعے مال پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تو مینوفیکچر کمپنی میں موجود کسی تیسرے فرد کو وکیل بنا سکتا ہے ، یہ شخص مینوفیکچر کمپنی کا ملازم بھی ہو سکتا ہے البتہ مینو فیکچر کمپنی کو مال پر قبضہ کرنے کا وکیل نہیں بنایا جا سکتا۔

سامان پر قبضہ کرنے کے لئے اتنا کافی ہے کہ ڈسٹری بیوٹر کا وکیل مال کے قریب موجود ہو اور بغیر کسی مانع اور رکاوٹ کے قبضہ کر نا چاہے تو قبضہ کر سکے۔ جب وکیل اس مال پر قبضہ کر لے گا تو اس پر مؤکل یعنی ڈسٹری بیوٹر کا بھی قبضہ ہو گیا کیونکہ وکیل کا قبضہ مؤکل کا قبضہ ہی شمار ہوتا ہے۔ یہاں یہ احتیاط ضروری ہے کہ سپر اسٹور سے ہونے والی ڈیل سے پہلے قبضہ کرنے کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہو ، اگر مال پر قبضہ کیے بغیر سپر اسٹور سے ڈیل ہوئی تو یہ فعل ناجائز و گناہ ہوگا ، شرعی طور پر ایسے معاہدے کو ختم کر کے شرعی احکام کے مطابق نئے سرے سے معاہدہ کرنا ہو گا۔[1]

آگے بیچنے کے لئے ڈسٹری بیوٹر کاکسی کو وکیل بنانا :

اس مرحلے میں ڈسٹری بیوٹر کسی شخص کو اپنا وکیل بنائے گا جسے اپنا مال بیچنے یا کسی کو وکیل بنا کرمال بکوانے کا اختیار دے گا ، اگر ایک ہی بار آگے بیچنے کی وکالتِ عامہ دے دی جائے مثلاً یوں کہہ دیا کہ میں جب جب فلاں مال خریدوں تو تم اس پر میری طرف سے قبضہ کر کے میرا اتنا نفع رکھ کر وہ مال بیچ دینا تو یہ ایک بار کی وکالت دینا کافی ہوگی ، ہر بار میں نئے سرے سے وکیل بنانا ضروری نہیں ہوگا کیونکہ وکالت کو شرط پر معلق کیا جاسکتا ہے اور مسلسل وکیل رہنے کا اختیار بھی دیا جا سکتا ہے۔

یہاں ایک اہم بات نوٹ کرنے کی یہ ہے کہ وکیل پر لازم ہے کہ جتنی قیمت میں بیچنے کا وکیل بنایا ہے ، اسی قیمت پر مال بیچے ، اس سے کم میں بیچنے کی اجازت نہیں حتی کہ وکیل بناتے وقت ریٹ مثلاً ایک ہزار روپے تھا ، بعد میں ریٹ بڑھ گیا تو پرانے ریٹ پر بیچنے کی اجازت نہیں۔ البتہ ریٹ نہیں بتایا تو عرف کے مطابق کمی بیشی کے ساتھ بیچنے کا اختیار ہے۔[2]

ڈسٹری بیوٹر کی طرف سے سپر اسٹو ر کو مال بیچ کر رقم وصول کرنا :

جب ڈسٹری بیوٹر نے کسی کو اپنا وکیل بنا دیا اور اس نے سپر اسٹور کو مال بیچ دیا تو اس سے متعلق تمام حقوق یعنی مال سپر اسٹور کے سپرد کرنا ، ثمن وصول کرنا وغیرہ اسی وکیل سے متعلق ہیں ، لہٰذا جب وکیل کی حیثیت سے سامان بیچ دیا تو اس مال کو سپر اسٹور تک پہنچانا اور مقررہ وقت پر رقم وصول کر کے مؤکل یعنی ڈسٹری بیوٹر کو پہنچانا وکیل کی ذمہ داری ہے۔[3]

(2) پوچھی گئی صورت میں جو نقصان ہوگا وہ سارا مؤکل یعنی ڈسٹری بیوٹر کو ہوگا ، اس نقصان سے وکیل کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ جب ڈسٹری بیوٹر نے مال مینو فیکچر کمپنی سے خریدا تو وہ اس کی ملک ہے جس پر قبضہ بھی ہو چکا ، اب اس مال سے متعلق نفع یا نقصان کا مکمل طور پر تعلق ڈسٹری بیوٹر سے ہے۔ اس کے بعد وکیل نے وہ مال بیچ دیا تو اس کا نفع و نقصان بھی مؤکل سے متعلق ہے کیونکہ وکیل کے عقد سے صرف اتنا فرق واقع ہوا کہ ثمن وصول کرنا اور مال سپرد کرنا وغیرہ وکیل کی ذمّہ داری میں شامل ہو گیا ، اس مال کا نفع یا نقصان وکیل سے متعلق نہیں ہوا ، یہی وجہ ہے کہ اس ڈیل سے حاصل ہونے والا مکمل نفع مؤکل رکھے گا ، اس نفع میں وکیل کا کوئی حصہ نہیں۔ جب مال کا نفع مکمل طور پر مؤکل کا ہے تو قواعدِ شریعت کے مطابق نقصان ہونے کی صورت میں نقصان بھی مؤکل ہی کا ہوگا۔البتہ اگر کسی ڈیل میں مذکورہ بالا جواب میں موجود احتیاطوں پر عمل نہ کیا تو حکم مختلف ہو سکتا ہے۔[4]

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

* محققِ اہلِ سنّت ، دارُالافتاء اہلِ سنّت نورُ العرفان ، کھارادر کراچی

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ



[1] فتاویٰ بزازیہ، 1/393، مبسوط سرخسی، 19/176، رد المحتار، 6/13، بہار شریعت، 3/180، رد المحتار، 7/95

[2] درر الحکام،2/295، العقود الدریۃ، 1/363، بہار شریعت، 2/990، 991، ردالمحتار، 8/293

[3] ہدایہ مع الفتح، 8/15، بہار شریعت، 2/978

[4] عمدۃ ذوی البصائر،1/373، در مختار، 8/282، بہار شریعت، 2/978۔


Share

Articles

Comments


Security Code