ٹھیکیدارکام میں تاخیر کرے تو اس کے پسیے کاٹنا کیسا؟

ٹھیکیدار کام میں تاخیر کرے تو اس کے پیسے کاٹنا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم کسی کو اپنے گھر کے لئے فرنیچر بنانے کا ٹھیکہ دیتے ہیں اور وقت بھی طے ہوجاتا ہے کہ اس ٹائم تک بنا کر دے گا ، رقم بھی طے ہوجاتی ہے کہ اتنے پیسے ایڈوانس دئیے جائیں گے اور اتنے پیسے بیچ میں دینے ہوں گے۔ پھر وہ دو چار مہینے لیٹ کر دیتا ہے جو پیسے طے ہوئے کیا ان میں سے ہم پیسے کاٹ سکتے ہیں؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : جی نہیں! یہ مالی جُرمانے کی صورت ہےاور دینِ اسلام کی تعلیمات کے مطابق مالی جُرمانہ لینا جائز نہیں ، فقہائے اَحناف کا یہی موقف ہے۔ لہٰذا یہ معاملہ اِفہام و تفہیم سے حل کیا جائے۔ یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ آپ اس سے کہیں کہ ہمارے پیسے واپس دے دو اور باہمی رضامندی سے سودا کینسل کردیا جائے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

چیز خریدنے کے بعد اس کے ریٹ طے کرنا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے  میں کہ اگر میں کسی ورکشاپ یا کارخانے کے مالک سے مال اٹھاتا ہوں اور اپنے ڈسپلے سینٹر شوروم پر لے کر آتا ہوں اور اسے فروخت کردیتا ہوں۔ اور فروخت  کرنے کے بعد پھر کارخانے کے مالک  سے اس کے ریٹ طے کرتا ہوں۔ میرا ان

 سے بعد میں ریٹ طے کرنا دُرست ہے یا نہیں ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ شریعتِ مُطَہَّرہ کا اُصول ہے کہ جو چیز آپ خرید رہے ہیں اس کی قیمت معلوم ہونا ضروری ہے۔ شریعت کے اُصول و قوانین کے پیچھے حکمتیں ہوتی ہیں ان میں سے ایک حکمت یہ ہےکہ بعد میں تَنازُع نہ ہو ، ایک دوسرے کا نقصان نہ ہو ، ایک دوسرے کو ضَرَر نہ پہنچے۔ لہٰذا سوال میں بیان کیا گیا طریقہ جائز نہیں اور نہ ہی ایسے سودے کی آمدنی حلال ہوگی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کمپنی کی طرف سے دکان دار کو دئیے گئے تحائف لینا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میری فوم کی دکان ہے میرا سوال یہ ہےکہ کمپنی اپنی تشہیر  (Advertising)کے لئے جو تحفے دیتی ہےکیاوہ لیناٹھیک ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : اس مسئلے کی مختلف صورتیں ہیں ، جن کا حکم درج ذیل ہے : (1)معمولی نوعیت کا گفٹ جس کا مقصدتشہیر ہوتا ہے جیسے عام طور پر کیلنڈر دے دیا جاتا ہے کہ دکان پر لگایا جائے گا کمپنی کا نام لکھا ہوا نظر آئے گا جس سے کمپنی کی تشہیر ہوگی ، بعض اوقات کوئی ایسا پیس دے دیتے ہیں جو ٹیبل پر رکھا جاتا ہے کہ یہ ٹیبل پر رکھا رہے گا اس پر کمپنی کا نام لکھا ہوا ہے تو اس سے کمپنی کی تشہیر ہوگی ، اس کا مقصد تشہیر ہوتا ہے۔ یہ  گفٹ لینا جائز ہے۔

(2)ایک وہ انعام ہوتا ہے جو پروڈکٹ کی فروخت  پر لگایا  ہوتا ہےکہ آپ اتنی پروڈکٹس فروخت کریں گے تو آپ کو یہ  انعام ملےگا ، یہ بھی جائز ہے۔

(3)ایک گفٹ وہ ہوتا ہے جس میں یہ طے ہوتا ہے کہ آپ صرف ہماری کمپنی کا مال فروخت کرو ، دیگر کمپنیوں کا مال چھوڑ دو تو ہم آپ کو یہ گفٹ دیں گے۔ یہ رشوت کی صورت ہے۔ ڈاکٹروں کو میڈیکل کمپنیاں جو مختلف پیکجز دیتی ہیں تحفہ تحائف کی صورت میں وہ بھی یہی تیسری صورت ہوتی ہے۔

اگر آپ اپنی مرضی سے دیگر کمپنیوں کا مال چھوڑنا چاہیں تو چھوڑ سکتے ہیں آپ اس بات کے پابند نہیں ہیں کہ ہر کمپنی کا مال بیچیں یا کسی ایک ہی کمپنی کا مال بیچیں۔ کمپنی اگر آپ کو سیل پر انعام دے تو حرج نہیں ، لیکن یہ کہہ کر دینا کہ آپ دیگر کمپنیوں  کا مال چھوڑو گے تو یہ انعام ملے گا ، یہ رشوت ہے  اور یہ جائز نہیں۔

یہ جواب ایک عُمومی پسِ منظر میں تھا البتہ فوم کی کمپنیوں  میں ڈیلر شپ ہوتی ہے کہ ڈیلر صرف ایک ہی برانڈ کا کام کرتا ہے کوئی اور کام کرتا ہی نہیں ہے  چونکہ اس نے پہلے ہی سے ایک برانڈ منتخب کر لی ہے لہٰذا بیان کردہ صورتوں میں سے اب پہلی اور دوسری صورت ہی یہاں پائی جائے گی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

لیبر سے تنخواہ کے ساتھ روزانہ کا دودھ طے کرنا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ گوالے سےاگر اس طرح تنخواہ طے کی جائے کہ ماہانہ 8 ہزار روپےتنخواہ اورروزانہ ایک کلو دودھ  ملے گا۔ اس طرح تنخواہ طے کرنا کیسا؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : یہ جائز ہے۔ اس میں شرعاً حرج نہیں۔

عُموماً ہمارےیہاں جو لیبر رکھی جاتی ہے ان سے  یہ بھی طے  ہوتاہے کہ کھانا ملے گا ، اگر اس میں یہ طے کرلیا  کہ ایک کلو  دودھ بھی ملے گاتو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*دارالافتاء اہلِ سنّت نورالعرفان ، کھارادر ، کراچی

 


Share

Articles

Comments


Security Code