پلاٹ کی فائل بیچنا کیسا؟

احکامِ تجارت

*مفتی ابو محمد علی اصغر  عطاری  مَدَنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری2023ء

 ( 1 ) پلاٹ کی فائل بیچنا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا پلاٹ کی فائل بیچنا جائز ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : ہمارے ہاں پلاٹ کی فائل بیچنے کے چند طریقے رائج ہیں جن کی تفصیل اور حکم درج ذیل ہے :

 ( 1 ) پلاٹ کا محل وقوع معلوم ہے یعنی نقشے میں پلاٹ نمبر ، گلی نمبر ، فیز / کالونی / سیکٹر وغیرہ سب چیزیں متعین ہیں اور بات نقشے تک محدود نہیں بلکہ حقیقت میں بھی اسی طرح ہے ، آپ پلاٹ پر کھڑے ہو کر دیکھنا چاہیں تو وہاں کھڑے ہو کر آپ معلوم کر سکتے ہیں کہ یہ پلاٹ آپ خرید رہے ہیں البتہ بعض اوقات پلاٹ کا وجود بھی ہوتا ہے اور نقشہ میں بھی پتا ہوتا ہے کہ پلاٹ کہاں پر ہے ، صرف اتنا ہوتا ہے کہ ڈویلپمنٹ کے کام نہیں ہوئے ہوتے پلاٹ روڈ اور گلی سے حسی طور پر الگ سے ممتاز نہیں ہوتے تو اس سے کوئی شرعی خرابی واقع نہیں ہوگی۔

جب اس انداز کی واضح صورت حال ہے تو اس پلاٹ کا خریدنا ، بیچنا جائز ہے اگرچہ لوگ عُرفِ عام میں اس کو فائل کی خرید و فروخت کا نام دیتے ہوں۔کیونکہ یہاں اس صورت میں حقیقت میں پلاٹ کا خریدنا بیچنا ہے ، یہاں محض فائل خریدنا بیچنا مقصود نہیں بلکہ جس پلاٹ کی فائل ہے ، وہ بیچا جا رہا ہے ، عقود میں اعتبار معانی و مقاصد کا ہے ، محض ظاہری الفاظ و صورت ہی مقصود نہیں ، لہٰذا اس پلاٹ کی خرید و فروخت جائز ہے۔

ردالمحتار میں ہے :  ” العبرة في العقود للمعاني دون الالفاظ “  ترجمہ : عقود میں معانی کا اعتبار ہے ، الفاظ کا نہیں۔

 ( ردالمحتار ، 3 / 17 )

واضح رہے کہ پلاٹ متعین ہونے کی قید اس وجہ سے بیان کی گئی کہ مبیع یعنی خریدی بیچی جانے والی چیز معلوم ہونا ضروری ہے۔ پلاٹ کی خرید و فروخت ہو تو وہاں بھی یہ متعین ہونا ضروری ہے کہ پلاٹ کا ایریا نمبر اور سیکٹر یا علاقہ یہ ہوگا۔ اس موقع پر ابہام دھوکے کا سبب بنتا ہے اور دھوکے والی خرید و فروخت سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ مسلم شریف میں ہے :  ” نھی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم عن بیع الحصاۃ وعن بیع الغرر “  ترجمہ : رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کنکری کی بیع  ( کنکری پھینک کر چیز منتخب کرنے کی صورت زمانۂ جاہلیت میں رائج تھی )  اور دھوکے والی بیع سے منع فرمایا۔  ( مسلم ، ص625 ، حدیث : 3808 )

بہارِ شریعت میں ہے :  ” مبیع و ثمن دونوں اس طرح معلوم ہوں کہ نزاع پیدا نہ ہوسکے۔ اگر مجہول ہوں کہ نزاع ہو سکتی ہو ، تو بیع صحیح نہیں۔ “ ( بہار شریعت ، 2 / 617 )

 ( 2 ) فائل کے پیچھے پلاٹ کا سرے سے وجود ہی نہیں تو ایسی فائل کو خریدنا ، جائز نہیں کیونکہ فائل تو چند کاغذات کا مجموعہ ہے جس کی قیمت بمشکل چند روپے ہو گی ، کوئی عقل مند انسان یہ نہیں کر سکتا کہ چند روپے کی فائل کو لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے دے کر خریدے۔ کاغذات یا فائل دراصل ایک رسید اور سند ہے جو کہ پلاٹ کی ملکیت کی دلیل ہوتی ہے۔ لیکن اگر حقیقت میں پیچھے پلاٹ ہی نہ ہو تو یہ واضح دھوکا ہے کہ آپ نے بغیر پلاٹ کے فائل ہاتھ میں پکڑا دی ، اس وقت یہ تھوڑی کہا تھا کہ پلاٹ نہیں ہے بلکہ پلاٹ بیچنے کے نام پر یہ سارا چکر چلایا جاتا ہے۔اسی بنا پر آئے دن یہ خبریں گردش کرتی ہیں کہ فلاں سوسائٹی میں پلاٹ خریدنے والوں نے رقم جمع کروا دی مگر اتنے عرصے سے انہیں پلاٹ نہیں مل سکا لہٰذا ایسی فائل خریدنا ، ناجائز ہے جس کے پیچھے پلاٹ ہی نہ ہو اور ایسی بیع باطل ہوگی یعنی سرے سے منعقد ہی نہ ہوگی۔

نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :  ” لا يحل بيع ما ليس عندك “  ترجمہ : جو چیز تیرے پاس نہ ہو ، اسے بیچنا حلال نہیں۔

 ( ابن ماجہ ، 3 / 31 ، حدیث : 2188 )

بہارِ شریعت میں ہے :  ” معدوم کی بیع باطل ہے۔ “  ( بہارِ شریعت ، 2 / 697 )

محض فائل بیچنا جائز نہیں۔ جیسا کہ سیدی اعلیٰ حضرت علیہِ الرَّحمہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں :  ” ٹکٹ جو اس کے ہاتھ بیچا جاتا ہے اور یہ دوسروں کے ہاتھ بیچتا ہے اصلاً مال نہیں تو رکن بیع کہ مبادلۃ المال بالمال ہے اس میں متحقق نہیں۔ “

 ( فتاویٰ رضویہ ، 17 / 167 )

فتاویٰ رضویہ میں ہے :  ” حقیقت دیکھئے تو معاملہ مذکورہ بنظر مقاصد ٹکٹ فروش و ٹکٹ خراں ہر گز بیع و شرا وغیرہ کوئی عقد شرعی نہیں بلکہ صرف طمع کے جال میں لوگوں کو پھانسنا اور ایک امید موہوم پر پانسا ڈالنا ہے اور یہی قمار ہے۔۔۔ ہاں ٹکٹ کی بیع کانام لیا مگر اس پر وہ عبارت چھاپی جس نے صاف بتا دیا کہ یہ مبیع نہیں ایک اقراری سند ہے جس کے ذریعہ سے ایک روپے والا بعد موجود شرائط تیس روپے کا مال تاجر سے لے سکے گا ، اگر ٹکٹ ہی بکتا تو خریدار کیا ایسے احمق تھے کہ روپیہ دے کر دو انگل کا محض بیکار پرچۂ کاغذ مول لیتے جسے کوئی دو کوڑی کو بھی نہ پوچھے گا ، لاجرم بیع وغیرہ سب بالائے طاق ہے۔۔۔ یہی غرر و خطر و ضرار و ضرر میں پڑنا اور ڈالنا ہے جس سے صحاح احادیث میں نہی ہے ، یہ معاملہ چٹھی سے بدرجہا بدتر ہے وہاں ہر ایک بطور خود اس قمار و گناہ میں پڑتا ہے اور یہاں ہر پہلا اپنے نفع کیلئے دوسرے پانچ کا گلا پھانسے گا تو وہاں صرف خطر تھا یہاں خطر و ضرر و ضرار و غش سب کچھ ہے۔ “

 ( فتاویٰ رضویہ ، 17 / 330 ، 331 )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 ( 2 ) کپڑے کے تھان میں کچھ کپڑا زیادہ ہوتا ہے

اس کا کیا کریں؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کپڑے کے تھان میں لکھا ہوتا ہے کہ یہ بیس میٹر ہے یا پچیس میٹر ہے اسی کے حساب سے ہم اس کی پیمنٹ کرتے ہیں لیکن جب اس کی پیمائش کرتے ہیں تو اس میں سے آدھا یا پونا میٹر کپڑا زیادہ نکلتا ہے ، اس کے بارے میں کیا حکم ہوگا؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : عموماً ایسا ہوتا ہے کہ کپڑا بیچنے والا جب ایک میٹر دو میٹر کپڑا کاٹتا ہے تو وہ تھوڑا تھوڑا کم ہوتا رہتا ہے اس لئے خریدار کی یہ ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ کچھ کپڑا زیادہ ڈالا جائے اس لئے فیکٹری والے کچھ زیادہ کپڑا رکھ کر پیکنگ کرتے ہیں لہٰذا اگر صورت حال ایسی ہی ہو کہ ان کی طرف سے زیادہ کپڑا ڈالنے کا عرف ہے تو عرف کے مطابق زیادہ کپڑا آپ کے لئے حلال ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* محققِ اہلِ سنّت ، دارُالافتاء اہلِ سنّت نورُالعرفان ، کھارادر کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code