ناپاک دودھ یا تیل بیچنا کیسا؟

احکامِ تجارت

* مفتی ابومحمد علی اصغر عطّاری مدنی

ماہنامہ مئی 2021ء

ناپاک دودھ یا تیل بیچنا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہماری دودھ کی دکان ہے ، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دودھ میں کوئی ناپاک چیز گرجاتی ہے اور دودھ ناپاک ہوجاتا ہے۔ یہ ارشاد فرمائیں کہ وہ ناپاک دودھ گاہک کو بیچنا کیسا ہے؟یہ مسئلہ بسا اوقات پرچون والوں کو بھی پیش آتا ہے کہ ان کے تیل وغیرہ میں بھی چوہا مر جاتا ہے لہٰذا دونوں کے متعلق بیان فرمادیں ۔

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : پوچھی گئی صورت میں ناپاک دودھ یا ناپاک تیل بیچنا جائز نہیں کیونکہ عموماً لوگ کھانے پینے میں استعمال کرنے کے لئے ہی دودھ یا تیل خریدتے ہیں نیز دودھ یا تیل کا ناپاک ہونا عیب ہے اورعیب دار چیز عیب بتائے بغیر بیچنا جائز نہیں۔ ہاں اگر خریدار کو اس کا ناپاک ہونا بتاکربیچیں تاکہ خریدار ناپاک دودھ یا تیل کوجائز طریقے سےاستعمال کرے تو پھر بیچنا ، جائز ہے۔

حضرت سیدنا عقبہ بن عامر  رضی اللہُ عنہ  سےروایت ہے کہ رسولِ اکرم  صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم  نے ارشاد فرمایا : “ المسلم اخو المسلم ولا يحل لمسلم باع من اخيه بيعا فيه عيب الا بينه له “ یعنی مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں لہٰذا کسی مسلمان کو یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کوعیب دار چیزکا عیب بتائے بغیر بیچے ، ہاں عیب بتا کر بیچنا جائز ہے۔ (ابن ماجہ ، ص162)

صدر الشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ’’تیل ناپاک ہوگیااس کی بیع جائز ہے اور کھانے کے علاوہ اس کو دوسرے کام میں لانا بھی جائز ہے ، مگر یہ ضرور ہے کہ مشتری کو اس کےنجس ہونےکی اطلاع دےدے تاکہ وہ کھانے کے کام میں نہ لائے اور یہ بھی وجہ ہےکہ نجاست عیب ہے اور عیب پر مطلع کرنا ضرور ہے۔ “ (بہارِ شریعت ، 2 / 707)

ایک مقام پر لکھتے ہیں : ’’مبیع میں عیب ہو تو اس کا ظاہر کردینا بائع پر واجب ہے ، چھپانا حرام وگناہِ کبیرہ ہے۔ “                                (بہارِ شریعت ، 2 / 673)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

چوہےخریدنااورپالناکیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بعض لوگ سفید رنگ کے چوہےپالتے ہیں اور انہیں پالنے کے لیے خریدتے بیچتے بھی ہیں۔ کیا یہ جائز ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : چوہے کو پالنا مکروہ ہے کیونکہ یہ موذی اور فاسق جانور ہے جس سے سوائے ایذا کے کچھ حاصل نہیں ہوگا ، حدیثِ پاک میں چوہوں کو مارنے کا حکم دیا گیا ہےاور پالنا اس کے خلاف ہے۔ نیز چوہے کو خریدنا بیچنا بھی جائز نہیں چاہے وہ کسی بھی رنگ کا ہو کیونکہ چوہا حشراتُ الارض میں سے ہے اور حشرات الارض کی بیع ناجائز ہے ۔

حدیثِ پاک میں : “ خمس فواسق ، يقتلن في الحل والحرم : الحية ، والغراب الأبقع ، والفأرة ، والكلب العقور ، والحدأة “ ترجمہ : پانچ جانور فاسق ہیں ، ان کو حل اور حرم میں قتل کیا جائے ، سانپ ، کوا ، چوہا ، کٹکھنا (بہت زیادہ کاٹنے والا ، پاگل)کتا ، اور چیل۔ (ابن ماجہ ، ص223)

بہارِ شریعت میں ہے : “ مچھلی کے سوا پانی کے تمام جانور مینڈک ، کیکڑا وغیرہ اور حشرات الارض چوہا ، چھچھوندر ، گھونس ، چھپکلی ، گرگٹ ، گوہ ، بچھو ، چیونٹی کی بیع ناجائز ہے۔ “ (بہار شریعت ، 2 / 810)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کٹائی سے پہلےبیچی گئی فصل کا عشر بیچنے والے پر ہے یا خریدنے والے پر؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ گنے کی فصل پک کر مکمل تیار ہو چکی ہے ، اب صرف کٹائی کرنا باقی ہے ، لیکن کٹائی کرنے سے پہلےہی گنے کی فصل کو بیچ دیا۔ پوچھنا یہ ہے کہ گنے کی فصل کا عشر بیچنے والے پر ہو گا؟یا خریدنے والے پر؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : پوچھی گئی صورت میں گنے کی فصل کا عشر بیچنے والے پر ہو گا ، خریدنے والے پر نہیں ہو گا۔

صدر الشریعہ ، بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی  رحمۃُ اللہِ علیہ  بہارِ شریعت میں فرماتے ہیں : “ بیچنے کے وقت زراعت طیار (تیار) تھی ، تو عشر بائع پر ہے۔ “ (بہارِ شریعت ، 1 / 920)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

سونا بطورِ قرض لیا تو سونا ہی واپس کرنا ہوگا

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ تین سال پہلے میرے بھائی کو پیسوں کی ضرورت تھی میرے پاس بائیس کریٹ سونے کے تین بسکٹ تھے جو میں نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے رکھے ہوئے تھے میں نے یہ سونے کے بسکٹ بطور قرض اپنے بھائی کو دے دئیے ساتھ میں یہ کہا کہ جب میری بیٹی کی شادی ہوگی تو آپ مجھے اسی کریٹ کے سونے کے بسکٹ دے دیجئے گا تاکہ میں اپنی بیٹی کا کچھ زیور بنوا لوں ، بھائی نے اس وقت پیسوں کی ضرورت کی وجہ سےوہ بسکٹ بیچ دئیے جو کہ ڈیڑھ لاکھ کے بکے تھے ، اب کچھ عرصے بعد میری بیٹی کی شادی ہونے والی ہے میں بھائی سے اپنا سونا طلب کر رہا ہوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سونے کی قیمت بہت بڑھ چکی ہے وہ کہہ رہے ہیں کہ میں ڈیڑھ لاکھ روپے دوں گا جبکہ میرا مطالبہ یہ ہے کہ میں نے سونے کے بسکٹ دئیے تھے لہٰذا مجھےآپ سونے کے بسکٹ دیں ، برائے کرم اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ میرامطالبہ شرعاً درست ہے یا نہیں؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : پوچھی گئی صورت میں آپ کا سونے کے بسکٹ کا مطالبہ کرنا شرعاًدرست ہے ، آپ کے بھائی پر لازم ہے کہ وہ آپ کو قرض کی واپسی سونے ہی کی صورت میں کریں کیونکہ سونا مثلی چیز ہے اور مثلی چیز جب قرض میں دی جائے تو لوٹاتے وقت اس کی مثل ہی دینا لازم ہےاس کے مہنگے یا سستے ہونے کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔

صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : “ جو چیز قرض دی جائے ، لی جائے اس کا مثلی ہونا ضرور ہے یعنی ماپ کی چیز ہو یا تول کی ہو یا گنتی کی ہو مگر گنتی کی چیز میں شرط یہ ہے کہ اس کے افراد میں زیادہ تفاوت نہ ہو جیسے انڈے ، اخروٹ ، بادام اور اگر گنتی کی چیز میں تفاوت زیادہ ہو جس کی وجہ سے قیمت میں اختلاف ہو جیسے آم ، امرود ، ان کو قرض نہیں دے سکتے۔ یونہی ہر قیمی چیز جیسے جانور ، مکان ، زمین ان کا قرض دینا صحیح نہیں۔ “

مزید لکھتے ہیں : “ ادائے قرض میں چیز کے سستے مہنگے ہونے کا اعتبار نہیں مثلاً دس سیر گیہوں قرض لئے تھے اُن کی قیمت ایک روپیہ تھی اور ادا کرنے کے دن ایک روپیہ سے کم یا زیادہ ہے اس کا بالکل لحاظ نہیں کیا جائے گاوہی دس سیر گیہوں دینے ہوں گے۔ “ (بہارِ شریعت ، 2 / 757 ، 755)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* محققِ اہلِ سنّت ، دار الافتاء اہلِ سنّت نور العرفان ، کھارادر کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code