نابالغ بچے کا خرید و فروخت کرنا کیسا؟/کرائے پر لی ہوئی چیز کرائے پر دینا/قصاب کا پیشہ

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مُفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ عام طور پر نابالغ چھوٹے بچے دکانوں سے کھانے پینے کی چیزیں خریدتے ہیں تو کیا نابالغ بچوں کا یہ چیزیں خریدنا درست ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:سمجھ دار نابالغ بچہ اپنے ولی کی اجازت سے اشیاء کی خرید و فروخت کر سکتا ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ غبنِ فاحش یعنی مارکیٹ ریٹ سے مہنگی چیز نہ خریدی ہو۔([1]) صدر الشریعہ، بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی بہارِ شریعت میں لکھتے ہیں:”نابالغ کے تصرّفات تین قسم ہیں: نافعِ مَحْض یعنی وہ تصرّف جس میں صرف نفع ہی نفع ہے جیسے اِسلام قَبول کرنا۔ کسی نے کوئی چیز ہِبَہ کی (تحفہ دیا) اس کو قبول کرنا اس میں ولی کی اجازت دَرْکار نہیں۔ ضارِّ مَحْض جس میں خالِص نقصان ہو یعنی دنیوی مَضَرَّت ہو اگرچہ آخرت کے اعتبار سے مفید ہو جیسے صدقہ و قرض، غلام کو آزاد کرنا، زوجہ کو طلاق دینا۔ اس کا حکم یہ ہے کہ ولی اِجازت دے تو بھی نہیں کرسکتا بلکہ خود بھی بالغ ہونے کے بعد اپنی نابالغی کے ان تَصَرُّفات کو نافِذ کرنا چاہے نہیں کرسکتا۔ اس کا باپ یا قاضی ان تصرّفات کو کرنا چاہیں تو یہ بھی نہیں کرسکتے۔ بعض وجہ سے نافع (نفع مند ) بعض وجہ سے ضار (نقصان دہ) جیسے بیع، اِجارہ، نکاح یہ اذنِ ولی (ولی کی اجازت) پر موقوف ہیں۔ نابالغ سے مراد وہ ہے جو خرید و فروخت کا مطلب سمجھتا ہو جس کا بیان اوپر گزر چکا اور جو اتنا بھی نہ سمجھتا ہو اوس کے تَصَرُّفات ناقابلِ اعتبار ہیں۔“(بہارِ شریعت،ج3، ص204، مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

 کرایہ پر لی ہوئی چیز آگے کرایہ پردینا کیسا؟

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں فریٹ فارورڈنگ (Freight Forwarding)کا کام کرتا ہوں جس میں بحری جہاز کے کنٹینرز شِپِنگ کمپنی سے کنٹینر کرائے پر لے کر آگے اسے پارٹی کو کرائے پر دیتے ہیں۔کمپنی سے ہم کسی مال کی ایکسپورٹ کے لئے مثلاً 10,000روپے کرائے پرلیتے ہیں، اور پارٹی کو یہی کنٹینر 12,000 روپے میں دیتے ہیں۔ مذکورہ کرائے پر شپنگ کمپنی چاہے دو دن میں بھیجے یاپانچ دن میں، یہ اس کی ذمہ داری ہوتی ہےکہ وہ ہمارے پاس کنٹینر کو پہنچا دے، نیز مال چھوڑنے کے بعد شپنگ کمپنی کا کام ہوتا ہے کہ اس کنٹینر کو کہاں بھیجنا ہے،پارٹی اور ہمارا اب اس کنٹینر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔پارٹی کو جو ہم زیادہ کرائے پر دیتے ہیں،اس میں ہم کنٹینر کی سِیل (Seal) کے اَخْراجات بھی شامل کرتے ہیں کیونکہ ہم کنٹینر کی سِیل کے اَخْراجات شپنگ کمپنی کو الگ دیتے ہیں لیکن پارٹی سے ہم اس سِیل کرانے کےالگ  پیسے نہیں لیتے،تو کیا اس صورت میں پارٹی کو جب ہم کنٹینر کرائے پر دیتے ہیں تو کنٹینر کا کِرایہ اور سِیل کے اخراجات ملا کر مثلاً 12,000 روپے میں دے سکتے ہیں، جبکہ ہم نے شپنگ کمپنی سے وہی کنٹینر 10,000 روپے کا کرائے پر لیا ہوتا ہے اورتقریباً 500 روپے میں سِیل کے اخراجات میں دئیے ہوتے ہیں۔

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:پوچھی گئی صورت میں آپ پارٹی کو کنٹینرکا کِرایہ اور اسے سِیل کرنے کے اخراجات کے ساتھ ملاکر کنٹینر کو آگے زیادہ کرائے پر دے سکتے ہیں۔کیونکہ کرائے پر لی ہوئی چیز آگے کرائے پر دے سکتے ہیں،جبکہ اتنے ہی کرائے پر دی جائے جتنے پر لی تھی،یا کم کرائے پر دی جائے اور اگر زیادہ کرائے پر دینا چاہیں تو اس وقت دے سکتے ہیں جب درجِ ذیل تین صورتیں پائی جائیں: ایک:یہ کہ کنٹینر میں کچھ کام کرا دیں۔ دوسری:یہ کہ آپ نے جس جنس کے کرائے پر کنٹینر لیا اس کے خلاف کسی اور جنس کے کرائے پر آگےدیں۔اور تیسری: یہ کہ کنٹینر کے ساتھ کوئی اور چیز بھی کرائے پر دیدیں اور دونوں کا کرایہ ایک ہی مقرر کریں۔([2]) پوچھی گئی صورت میں آپ کی طرف سے سِیل کی صورت  میں اضافہ کرنا پایا گیا تو زیادہ کرایہ پر آگے دے سکتے ہیں۔

صَدْرُ الشَّرِیعَہ، بَدْرُ الطَّرِیقہ مُفتی اَمجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی بہارِ شریعت میں لکھتے ہیں:”مُسْتَاجِر(کرایہ دار)نے مکان یا دکان کوکِرایَہ پر دیدیا اگر اُتنے ہی کِرایَہ پردیا ہے جتنے میں خود لیا تھا یاکَم پر جب تو خیر اور زائد پر دیا ہے تو جوکچھ زیادہ ہے اُسے صدقہ کردے ہاں اگرمکان میں اِصلاح کی ہو اُسے ٹھیک ٹھاک کیا ہو تو زائد کا صدقہ کرنا ضرور نہیں یاکرایہ  کی جِنْس بدل گئی مثلاً:لیا تھا روپے پر،دیا ہو اشرفی پر، اب بھی زیادتی جائز ہے۔ جھاڑودیکرمکان کو صاف کرلینایہ اِصلاح نہیں ہے کہ زیادہ والی رقم جائز ہوجائے اِصلاح سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا کام کرے جو عمارت کے ساتھ قائم ہو مثلاًپلاستر کرایا یا مونڈیر بَنوائی۔(بہار شریعت،ج3، ص124، مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

قصّاب کا پیشہ اختیار کرنا جائز ہے

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شَرْعِ مَتِیْن اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم گوشت کا کاروبار کرنا چاہتے ہیں کیا یہ  کام جائز ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:جی ہاں! گوشت کا کاروبار کرنا جائز ہےاور دیگر تمام کاموں کی طرح اس کام میں بھی ضروری ہے کہ تجارت کے شرعی اَحکام پر مکمل طریقے سے عمل کریں دھوکہ، جھوٹ، کم تولنا وغیرہ نہ پایا جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جانور خود ذَبْح کرتے ہوں توشرعی طریقے سے  ذَبْح کرنا آتا ہو۔

فتاویٰ رضویہ میں ہے:”ذَبْحِ بَقَر و قَطْعِ شَجَر(گائے ذبح کرنے اور درخت کاٹنے) کے پیشے میں مُضایَقہ نہیں، یہ جو عوام میں بنامِ حدیث مشہور ہے کہ ”ذَابِحُ الْبَقَرِ وَ قَاطِعُ الشَّجَرِ (گائے ذبح کرنے والا اور درخت کاٹنے والا) جنت میں نہ جائے گا“ محض غلط ہے۔“(فتاویٰ رضویہ،ج23، ص539، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

اللہ کا مہینا

فرمانِ مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:رَجَبٌ شَہْرُ اللّٰہِ تَعَالٰی وَشَعْبَانُ شَہْرِیْ وَ رَمَضَانُ شَہْرُ اُمَّتِیْ۔ یعنی رَجب اللّٰہ تعالٰی کا مہینا اور شعبان میرا مہینا اوررَمضان میری اُمت کا مہینا ہے۔(اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطاب ج۲ص۲۷۵ حدیث ۳۲۷۶)



[1]۔ اَلصَّبِیُّ الْعَاقِلُ اِذَا بَاعَ اَوِ اشْتَرَی اِنْعَقَدَ بَیْعُہ وَشِرَاؤُہ مَوْقوفاً عَلٰی اِجَازَۃِ وَلِیِّہٖ اِنْ کَانَ لِنَفْسِہٖ وَنَافِذاً بِلَا عُھْدَۃٍعَلَیْہِ اِنْ کَانَ لِغَیْرِہٖ بِطَرِیْقِ الْوِلَایَۃِ(ردالمحتار،ج7، ص244)

[2]۔الجوہرۃ النیرہ میں ہے: ”وَاِنْ اَجَّرَھَا بِاَکْثَرَ مِمَّا اسْتَاْجَرَھَا جَازَ ، اِلَّا اَنَّہ اِذَا کَانَتِ الاُجْرَۃُ الثَّانِیَۃُ مِنْ جِنْسِ الْاُوْلٰی لَا یَطِیْبُ لَہ الزِّیَادَۃُ وَیَتَصَدَّقُ بِھَا، وَاِنْ کَانَتْ مِنْ خِلَافِ جِنْسِھَا طَابَتْ لَہ الزِّیَادَۃُ، فَاِنْ کَانَ زَادَ فِی الدَّارِ شَیْئاً کَمَا لَوْ حَفَرَ فِیْھَا بِئْراً اَوْطَیَّنَہَا او اَصْلَحَ اَبْوَابَھَا اَوْ شَیْئاً مِّنْ حِیْطَانِھَا طَابَتْ لَہُ الزِّیَادَۃُ(الجوہرۃ النیرہ شرح قدوری،کتاب الاجارۃ،ج1، ص308،309)


Share

نابالغ بچے کا خرید و فروخت کرنا کیسا؟/کرائے پر لی ہوئی چیز کرائے پر دینا/قصاب کا پیشہ

’’جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نیکی کا زمانہ نہیں رہا وہ دراصل اپنی نیکی کا بدلہ انسانوں سے لینا چاہتے ہیں لیکن جو لوگ رضائے الٰہی کے لئے نیکی کرتے ہیں ان کے لئے تو ہر زمانہ نیکی کا زمانہ ہے۔‘‘لہٰذا یہ سوچ کر نیکی کرنے سے پیچھے نہ ہٹئے کہ نیکی کا زمانہ نہیں رہا بلکہ رضائے الٰہی کے لئے اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ خوب خوب خیر خواہی کیجئے۔تجارت میں خیرخواہی کی صورتوں میں سےایک یہ بھی ہے کہ گاہک کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آیا جائے۔حسنِ اَخلاق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دنیا میں تشریف آوری کا ایک مقصداچھے اخلاق کی تکمیل بھی ہے۔ یوں تو ہر مسلمان کا خوش اَخلاق ہونا ضروری ہے لیکن تاجر کا خوش اَخلاق ہونا آخرت کے ساتھ ساتھ اس کے کاروبار کے لئے بھی بے حد مفید ہے۔جس تاجر کے مزاج میں غصّہ اور چِڑچِڑاپن ہو وہ کبھی کامیاب کاروباری نہیں بن سکتا،اس راہ میں خوش اخلاقی ہی ترقی کی راہیں کھولتی ہے۔

گاہک کے ساتھ خوش اخلاقی کا انداز

جب گاہک دُکان میں داخل ہو  تو خندہ پیشانی سے مسکرا کر سلام کے ساتھ اس کااستقبال کیجئے اورممکنہ صورت میں پرتپاک انداز میں مصافحہ بھی کیجئے۔اس طریقے سے گاہک کی اجنبیت دور ہوگی اور ایک دوستانہ ماحول قائم ہوگا۔ملتے وَقت بے رُخی اور لاپرواہی سے اِدھر اُدھردیکھتے ہوئے ہاتھ ملانا گاہک کا دل توڑسکتا ہے۔گاہک کے دکان میں داخلے کے وقت اگر فون پر بات کررہے ہوں یا کسی اور گاہک کے ساتھ مصروف ہوں تو  بھی آنے والے گاہک کو  محبت سے بٹھاتے ہوئےتھوڑی دیر انتظار کا کہئے۔اس طرح گاہک کو یہ اطمینان ہوجائے گا کہ   وہ دکاندار کی توجہ میں آگیا ہے۔اب جلد ہی فارغ ہوکر اس کی جانب متوجہ ہوجائیں اور اسے  اچھے انداز میں اس طرح Dealکریں کہ  دوبارہ جب وہ دکان پر آئے تو اس کی نظریں آپ ہی کو تلاش کررہی ہوں۔

Dealing کے دوران اگر گاہک کوئی کڑوی بات کہہ دے یا چیزمیں بے جا نقص نکالے توصبر و تحمل سے کام لیجئے اور ٹھنڈے دماغ سے اس کی باتوں کا جواب دیجئے۔ تنقیدی بات سن کر بپھرنے سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا اپنا نقصان ہوتا ہے۔بعض دکانداروں سے اگر گاہک قیمت میں کمی کرانے کی کوشش کرے تو ناراضی کے اظہار کے ساتھ اسے جھڑک دیتے ہیں اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ دکاندارگاہک سے خوش اخلاقی سے پیش آرہا ہوتا ہے لیکن جہاں خرید و فروخت میں کوئی کام اپنی مرضی کے خلاف ہوا تو جسے ابھی کچھ لمحے قبل ’’جی جناب،محترم‘‘ کہہ رہے تھے، اُسی ’’محترم‘‘ کو بڑی بے دردی کے ساتھ دُھتکار کر نکال دیا جاتا ہے، چاہے ا س کا دل دُکھے یا ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے،اس کی بالکل پروا نہیں کی جاتی۔اس سے  گاہک کا نقصان کم اور دکاندار کا زیادہ  ہوتاہے کہ آئندہ وہ کبھی اس کی دکان پر نہیں آئے گا اور دوسروں کو بھی آنے سے روکے گا۔یوں یہ عمل کاروبار کی تباہی کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے،لہٰذا خرید و فروخت میں ہمیشہ نرمی سے کام لینا چاہیے،اللہ عَزَّ وَجَلَّہمیں نرمی و خوش اخلاقی اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ


Share

نابالغ بچے کا خرید و فروخت کرنا کیسا؟/کرائے پر لی ہوئی چیز کرائے پر دینا/قصاب کا پیشہ

مختصر تعارفحضرتِ یُونُس بن عُبَیْد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تَابِعِین میں سے تھے( اور تابعی اس شخصیت کو کہتے ہیں جس نے حالتِ ایمان میں کسی صحابی سے ملاقات کی ہو اور ایمان ہی پر اُس کا خاتمہ ہوا ہو)، آپ نےخادمِ رَسول حضرت سَیِّدُنا اَنَس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی زیارت کا شَرَف حاصل کیا ہے۔ایک بزرگ فرماتے ہیں:آپ (نفل)نماز و روزے کی  اتنی کثرت تو نہیں کرتے تھے لیکن خُدا کی قَسم! جُونہی کسی حقُّاللہ کی ادائیگی کا وقت آتاتو آپ پہلے ہی سےاس کے لئےتیار و مُسْتَعِد ہوتے تھے۔ آ پ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے پڑوسی کا بیان ہے:’’میں نے آپ سے زیادہ کسی کو اِسْتِغْفار کرتے ہوئے نہیں دیکھا‘‘بوقتِ وِصَال آپ اپنے قدموں کو دیکھ کر رونے لگے،پوچھا گیا:ابوعبداللہ! کیوں رو رہے ہیں؟ (توعاجزی کرتے ہوئے فرمانے لگے:)میرے قدم راہِ خدا میں غُبار آلود نہیں ہوئے(اس لئے رورہا ہوں)۔(سیر اعلام النبلاء،ج6، ص 460،463)

آپ کا پیشہآپ خزّاز(ریشمی کپڑے بیچنے کا کام کرتے) تھے۔ (احیاء  العلوم،ج2، ص96)

حکایتایک شامی شخص ریشم کے بازار میںآیا( اورآپ کی دکان پرپہنچ کر) کہنے لگا:آپ کے پاس 400دِرہم کا دَھاری دار ریشمی کپڑا ہے؟آپ نے فرمایا:ہمارے پاس 200درہم کا ہے۔ اسی دوران  اذان شروع ہوگئی اورآپ اِمامت کرانے کے لئے تشریف لے گئے۔جب واپس آئے توآپ کا  بھانجا وہ دھاری دار ریشمی کپڑا شامی  شخص کو400 درہم میں بیچ چکا تھا۔ جب آپ نے(زیادہ دراہم دیکھے تو) پوچھا:یہ کہاں سے آئے؟ بھانجے نے کہا: اُسیدھاری دار ریشمی کپڑے کی قیمت ہے۔آپ نے شامی(کے پیچھے جاکر اُس) سے فرمایا:اےاللہکےبندے!جو دَھاری دار ریشمی کپڑا میں نے تمہیں200درہم میں بیچنے کے لئے دکھایا تھا اگرچاہو تو اسے رکھ لو اور200درہم واپس لے لواورچاہو تو کپڑا چھوڑ کر اپنے400درہم لےلو۔اس نے پوچھا: آپ کون ہیں؟ فرمایا: میںمسلمانوں میں سے ایک شخص ہوں۔ اس نے کہا:میں آپ کواللہکاواسطہ دیتا ہوں،بتائیےآپ کون ہیں؟ آپ کا نام کیا ہے؟فرمایا:میرانام یُونُس بن عُبَیْد ہے۔ اس شامی نے کہا: خدا کی قسم! دشمن سے جنگ کے دوران جب ہم شدید پریشانی اور مصیبت میں پھنس جاتے ہیں تو (آپ کے وسیلے سے) دعا کرتے ہیں کہ اےاللہ!اےیونس کےرب عَزَّوَجَلَّ! ہم سے مشکلات دور فرمادے۔(سیر اعلام النبلاء،ج6، ص461)

حکایتایک مرتبہ آپ نےایک شخص کوبیچنے کےلئے کپڑا دِکھایا، اس دوران آپ کے ہم نشینوں میں سے کسی نے سُبْحٰنَ اللہ کہہ دیاتو آپ نےملازم سےفرمایا:کپڑاسمیٹ لو۔ راوی کہتے ہیں: میرے گمان(خیال) میں آپ نےاُس ہم نشین سے فرمایا تھا:تمہیں تسبیح پڑھنےکےلئے کیایہی موقع ملا تھا!(سیر اعلام النبلاء،ج6، ص462)

کب ذکرُ اللہ منع ہےیاد رکھئے!زَبان  سے ذکر و دُرُود اور تسبیح باعثِ اَجَر و ثواب بھی ہے اوربعض صورَتوں میں ممنوع بھی مثلاًبہارِ شریعت میں ہے: گاہک کو سودا دکھاتے وَقت تاجِر کا اِس غَرَ ض سے دُرُود شریف پڑھنا یا سُبْحٰنَ اللہ کہنا کہ اس چیز کی عُمدَگی خریدار پر ظاہرکرے، ناجائز ہے۔(بہارِ شریعت،ج1، ص533)

(جاری ہے۔۔۔۔)


Share

نابالغ بچے کا خرید و فروخت کرنا کیسا؟/کرائے پر لی ہوئی چیز کرائے پر دینا/قصاب کا پیشہ

رزقِ حلال کمانے کے لئے جائز کاروبار اور اچھی نوکری کا مِل جانا اللہ عَزَّوَجَلَّ  کی نعمت ہے۔اِنسان کو چاہئے کہ اس نعمت کی قدر کرے اور اسے لازِم پکڑ لے، چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے:مَنْ رُّزِقَ فِیْ شَیْء ٍ فَلْیَلْزَمْہُ یعنی جس کو کسی شے سے رِزق دیا جائے  وہ اُسے لازِم پکڑ لے۔ (شُعَبُ الْاِیمان،ج 2، ص89، حدیث:1241) اچھی اچھی نیّتوں کے ساتھ کاروبار میں ترقی کی خواہش کرنے میں حرَج نہیں مگر اس کے لئے بِلاوجہ اور  بغیر کسی مضبوط سبب کے  لگا بندھا جائز کاروبار یا نوکری نہ چھوڑی جائے۔ حضرتِ سَیِّدُنا نافِع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:میں شام اور مِصر کی طرف سامانِ تجارت بھیجا کرتا تھا، ایک بار عراق کی طرف مال بھیجنے لگا تو اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی:اے اُمُّ المؤمنین! میں شام کی طرف مال بھیجا کرتا تھا اس بار عراق بھیج رہا  ہوں۔ فرمایا: ایسا نہ کرو !تمہیں اور تمہاری سابِقہ تجارت والی جگہ میں کیا مسئلہ ہے؟ میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو فرماتے سنا کہ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ  تم میں سے کسی کے لئے کسی ذَریعہ سے رِزق کا سبب بنا دے تو وہ اُسے اس وقت تک  نہ چھوڑے جب تک اس میں کوئی تبدیلی یا خرابی پیدا نہ ہو۔(ابنِ ماجہ،ج3، ص11، حدیث: 2148)

اِس حدیثِ پاک کے تحت حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں: یعنی جب تمہیں مِصر و شام سے نفع بھی حاصل ہو رہا ہے اور تمہاری تجارت بھی وہاں چمک رہی ہے تو تم وہاں سے مُتنَفِّر کیوں ہوئے جاتے ہو؟ مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے ذَریعۂ آمدنی کو بِلاوجہ بند نہ کرے کہ اس میں رَبّ تعالیٰ کی ناشُکری ہے بلکہ اس کی نعمت کا ٹھکرانا ہے، لگی نوکری،بندھا  کاروبار بِلاوجہ مت چھوڑو۔اعلیٰ حضرت (رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہ)فرماتے ہیں:جو شخص بِلاوجہ پچاس روپیہ ماہوار کی نوکری چھوڑ دے گا تو ایک دن ایسا آئے گا کہ وہ پندرہ روپے کی نوکری تلاش کرے گا پَر نہ ملے گی۔ہاں اگر قدرتی طور پر بند ہوجائے تو پرواہ نہ کرے کہ اس صورت میں رَبّ تعالیٰ اس سے بہتر دروازہ کھول دے گا۔ یہ حدیث بہت مُجَرَّب (یعنی آزمائی ہوئی ) ہے جس کا خود فقیر نے بارہا تجربہ کیا۔صوفیا فرماتے ہیں: یَکْ دَرْ گِیْر مُحْکَمْ گِیْر (یعنی ایک دروازہ پکڑ اور مضبوطی کے ساتھ پکڑ)۔(مراٰۃ المناجیح،ج4، ص240 ملتقطاً)

ملازمت یا کاروبار کب بدلنا چاہئے: اگر  کاروبار یا نوکری میں نفع نہ ہو یا نقصان ہو رہا ہو تو پھر سو چ سمجھ کر اسے بدلنے میں مضایَقہنہیں۔حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں: ہر شخص اپنے مناسب طا قت تجارت کرے، قدرت نے ہر ایک کو علیٰحدہ علیٰحدہ کام کے لئے بنایا ہے۔ کسی کو غَلَّہ کی تجارت پھَلتی ہے،کسی کو کپڑے ،کسی کو لکڑی کی ، کسی کو کتابوں کی،  غرَضیکہ تجارت سے پہلے یہ خوب سو چ لو کہ میں کس قسم کی تجارت میں کامیاب ہو سکتا ہوں۔ میرا مشغلہ شروع سے ہی عِلم کا رہا ۔ مجھے بھی تجارت کا شو ق تھا کہ میں نے غَلَّہ کی مختلف تجارتیں کیں مگر ہمیشہ نقصان اُٹھایا ۔ اب کتابو ں کی تجارت کو ہاتھ لگایا۔ رَبّ تعالیٰ نے بڑا فائدہ دیا۔ معلوم ہواکہ علما اور مُدَرِّسِین کو علمی تجارت فائدہ مند ہو سکتی ہے۔(اسلامی زندگی ، ص153)


Share

Articles

Comments


Security Code