مقدس تحریر والے کاغذات ردّ ی میں بیچنا کیسا؟

مقدس تحریر والے کاغذات ردّی میں بیچنا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم کاپیاں، ردّی ،کاغذ وغیرہ ایک کمپنی سے سترہ(17) روپے کے حساب سے خریدتے ہیں اور پھر اُنیس(19) روپے کے حساب سے آگے بیچ دیتے ہیں۔ اگر ہم اس کے پاس پچاس ہزار(50000) روپے رکھوادیں تو ہمیں بارہ، تیرہ (12,13) روپے کے حساب سےردّی مل جائے گی، یوں ہمیں اچھا خاصہ فائدہ ہوجائے گا۔کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: سب سے پہلے تو سوال یہ ہے کہ آپ کون سی ردّی خرید رہے ہیں؟ اسلامیات کی کاپیاں جن میں آیات لکھی ہوں گی احادیث لکھی ہوں گی اسی طرح اردو کی کتابوں میں بھی دینی مضامین ہوتے ہیں اور بہت سارا ایسا مواد ہوتا ہے جو دینیات پر مشتمل ہوتا ہے ایسی چیزوں کو ردّی میں بیچنے اور خریدنے کی گنجائش کیسے ہوسکتی ہے؟کئی اخبارات میں بھی آیات، ان کا ترجمہ، احادیث اور دیگر مقدس کلمات لکھے ہوتے ہیں اور کتنی بڑی بےحسی ہے کہ مسلمان ان مقدس لکھائی والے کا غذات کو ایسی جگہ استعمال کررہے ہوتے ہیں جہاں ان کا ادب و احترام بالکل نہیں پایا جاتا حالانکہ خود حروف بھی قابلِ تعظیم ہیں۔

جیساکہ اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”ہمارے علماء تصریح فرماتے ہیں کہ نفسِ حروف قابلِ ادب ہیں اگرچہ جدا جدا لکھے ہوں جیسے تختی یا وصلی پر، خواہ ان میں کوئی برا نام لکھا ہو جیسے فرعون ، ابوجہل وغیرہما تاہم حرفوں کی تعظیم کی جائے اگرچہ ان کافروں کا نام لائقِ اہانت و تذلیل ہے۔حروفِ تہجی خود کلام اللہ ہیں کہ ہُود علیہ الصَّلٰوۃ و السَّلام پر نازل ہوئے۔ (فتاویٰ رضویہ،ج 23،ص 336، 337)

پوچھی گئی صورت میں بھی جب معلوم ہے کہ یہ ردّی پکوڑے بیچنے والوں اور پرچون والوں کو بیچی جائے گی جس کی پڑیا بنا کر وہ اس میں سامان بیچیں گے تو یہاں اس تحریر کا احترام تو نہیں پایا جائے گا حالانکہ حروفِ تہجی (Alphabets) کا بھی احترام کرنے کا حکم ہے پھر اگر وہ لکھائی دینیات پر مشتمل ہے تو اور زیادہ احترام کرنا ہوگا۔ لہٰذااولاً تو آپ اپنے کاروبار (Business)پر غور کریں کہ اس میں کیا ہوتا ہے اور جو بیان کیا گیا ہے اس کے مطابق عمل کریں۔

بالفرض ردّی نہ ہو بلکہ کوئی اور چیز ہو تب بھی یہ جائز نہیں کہ خریدنے والا ایک بڑی رقم بیچنے والے کے پاس رکھوادے اور اس کی وجہ سے اس کو مال سستا دے دیا جائے کیونکہ جو رقم رکھوائی ہے وہ قرض ہے اور قرض کی وجہ سے سستا دینا سُود ہے، لہٰذا یہ طریقہ جائز نہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مقروض کا انتقال ہوجائے تو قرض کیسے ادا ہوگا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ مقروض کا اگر انتقال ہوجائے تو قرض کی ادائیگی کے حوالے سے کیا حکم ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:مقروض کا اگر انتقال ہوجائے اور اس نے مال و اسباب چھوڑا ہو تو اس کا قرض اس کے ترکے سے ادا کیا جائے گا۔ جب کسی کا انتقال(Death) ہوجائے تو پہلے تین چیزیں اس کے مال و اسباب سے پوری کی جائیں گی(1)سب سے پہلے تجہیز و تکفین کا خرچ پورا کیا جائے گا۔عام طور پر دوست احباب رشتہ دار خرچ کردیتے ہیں اور کوئی مطالبہ نہیں کرتے یہ بھی درست ہے، البتہ بیوی کا انتقال ہوا اور شوہر زندہ ہے تو اس کی تجہیز و تکفین (کفن دفن)کا خرچ اس کے مال سے نہیں کیا جائے گا بلکہ شوہر پر لازم ہوگا(2) دوسرے نمبر پر مرحوم کے قرض کی ادائیگی اس کے مال سے کی جائے گی (3)تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد اور قرض کی ادائیگی کے بعد اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو تہائی ترکے سے وصیت پوری کی جائےگی۔ اس کے بعد بچنے والا مال ورثاء میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قرض کی ادائیگی کتنا اہم کام ہے کہ ورثاء قرض اتار کر ہی ترکہ تقسیم کریں گے اس سے پہلے نہیں کرسکتےکیونکہ قرض میت کے ذمہ پر تھا لہٰذااس کی ادائیگی سے پہلے ترکہ تقسیم نہیں ہوسکتا۔ اگر مرنے والے نے کچھ نہ چھوڑا ہو تو ورثاء پرادائیگی لازم نہیں لیکن پھر بھی ان کے لئے ترغیب ہے کہ وہ اپنی طرف سےاس کے قرض کی ادائیگی کردیں۔

حضرت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں جنازہ لایا گیا، ارشاد فرمایا: اس پر دَین(قرض) ہے؟ لوگوں نے عرض کی، جی ہاں۔ ارشاد فرمایا: اس نے دَین ادا کرنے کے لیے کچھ چھوڑا ہے؟ عرض کی، جی نہیں۔ ارشاد فرمایا: تم لوگ اس کی نمازِ جنازہ پڑھ لو۔ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی، اس کا دَین میرے ذمہ ہے، حضورِاکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کی نمازپڑھا دی۔ اور ایک روایت میں ہے، کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ” اللہ تعالیٰ تمہاری بندش کو توڑے، جس طرح تم نے اپنے مسلمان بھائی کی بندش توڑی، جو مسلمان اپنے بھائی کا دَین ادا کرے گا،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کی بندش توڑ دے گا۔“(مشکوٰۃ المصابیح،ج 1،ص539،حدیث:2920)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اُجرت ایڈوانس میں لینا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں رکشہ چلاتا ہوں اسکول کے بچے لگائے ہوئے ہیں ان سے ہم فیس ایڈوانس میں پہلے لیتے ہیں وہ لینا چاہئے یا نہیں؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:پوچھی گئی صورت میں آپ کا ایڈوانس فیس وصول کرنا، جائز ہے کیونکہ آپ کو رکشے کے کرایہ کی مد میں ملنے والی رقم آپ کی اُجرت ہے اور کرایہ یا اُجرت  پیشگی(Advance) بھی وصول کی جاسکتی ہے،لہٰذا فریقین پیشگی اُجرت پر راضی ہیں تو کوئی حرج نہیں ۔

فقہِ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ میں ہے: ”الاجرۃ لا تجب بالعقد و تستحق باحدی معانی ثلٰثۃ اما بشرط التعجیل او بالتعجیل من غیر شرط او باستیفاء المعقود علیہ ترجمہ: اُجرت محض عقد سے واجب نہیں ہوتی بلکہ تین چیزوں میں سے کوئی ایک پائی جائے تو اُجرت کا مستحق ہوگا، یا تو پیشگی دینے کی شرط لگائی ہو یا بغیر شرط ہی پیشگی اُجرت دے دی یا پھر کام پورا ہوگیا۔ (ہدایہ آخرین، ص 297،مطبوعہ لاہور)

بہارِ شریعت میں ہے:”اُجرت ملک میں آنے کی چند صورتیں ہیں:(1) اُس نے پہلے ہی سے عقد کرتے ہی اُجرت دیدی دوسرا اس کا مالک ہوگیا یعنی واپس لینے کا اُس کو حق نہیں ہے (2)یاپیشگی لینا شرط کرلیا ہواب اُجرت کا مطالبہ پہلے ہی سے درست ہے (3) یامنفعت کو حاصل کرلیامثلاً مکان تھا اُس میں مدتِ مقرر ہ تک رہ لیا یا کپڑا درزی کو سینے کے لیے دیا تھا اُس نے سی دیا (4)وہ چیزمستاجر کو سپرد کردی کہ اگر وہ منفعت حاصل کرنا چاہے کرسکتا ہے نہ کرے یہ اُس کا فعل ہے مثلاً مکان پر قبضہ دے دیا یااجیرنے اپنے نفس کو تسلیم کردیا کہ میں حاضر ہوں کام کے لیے تیار ہوں کام نہ لیا جائے جب بھی اُجرت کامستحق ہے۔“(بہارِ شریعت،ج3،ص110)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

٭…دارالافتاء اہل سنت نور العرفان کھارادر ،کراچی 


Share

مقدس تحریر والے کاغذات ردّ ی میں بیچنا کیسا؟

قُربِ قِیامت کی نشانی:ہر آنے والا دَور پہلے سے بَدتَر ہوتا چلا جارہا ہے، دِیانَت، اَمانَت اور رُوپے پیسے کے معاملے میں حرام و حلال کی پروا اب بہت کم رہ گئی ہے، قیامت کے قریبی زمانے میں جہاں اَفکار و اَعمال کی اور بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی وہیں ایک بڑی خرابی یہ بھی پیدا ہوگی کہ لوگ حلال و حرام کی تمیز کرنا چھوڑدیں گے،جس کو بھی مال ملے گا اور جس ذریعے سے بھی ملے گا، اُسے یہ دیکھے بغیر کہ یہ حلال ہے یا حرام، ہضم کرجائے گا،چنانچہ فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ انسان اپنے ذرائع آمدنی کی کوئی پروانہیں کرے گا کہ حلال ہے یا حرام! (بخاری،ج 2،ص7، حدیث: 2059)

فُیُوْضُ الباری شرح بخاری میں ہے :اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب حضور کی پیش گوئی (Prediction) کے مطابق ایسا زمانہ آنا ہی ہے کہ لوگ حلال و حرام کی پروا نہیں کریں گے تو پھر اس سے بچنے کی کوشش کیوں کی جائے!بلکہ مطلبِ حدیث یہ ہے کہ جب ایسا وقت آجائے کہ لوگ مال کی حِر ص و طَمَع میں ذرائع آمدنی کی پاکی و طہارت کا خیال نہ رکھیں تو بھی حلال روزی کمانے کے لئے ہر ممکن کوشش ضروری ہے۔(فیوض الباری،ج 8،ص30)

حِرص و طَمَع دل پر مُہر لگنے کا باعث:آج بڑی تعداد میں لوگ مال و زَر بَٹورنے کی ہَوَس میں مبتلا ہیں، مال حلال ہے یا حرام! اس کی کوئی پروا نہیں،بس ہاتھ لگنا چاہئے۔نبیِّ مکرّم، نورِمُجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: اللہ کی پناہ مانگو اُس طمع سے جو (دل پر) مُہر لگ جانے کا باعث بن جائے۔ (مسندِ احمد،ج 8،ص266، حدیث:22189ملتقطاً) حکیمُ الاُمّت مفتی احمدیار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کبھی ظاہری گناہ دل پر مہر لگ جانے کا باعث بن جاتے ہیں خصوصاً حرصِ دنیا،مہر لگنے سے انسان بُرے بَھلے میں تمیز نہیں کرتا۔ حرص کا انجام یہ ہی ہے کہ حریص اچّھا بُرا، حلال حرام ہر طرح کا مال رَگڑ جاتا ہے، یہ شخص کُتّے سے بَدتَر ہے کہ کتّا سُونگھ کر چیز میں منہ ڈالتا ہے مگر یہ بغیر سوچے ہی۔(مراٰۃُ المناجیح،ج 4،ص64)

مالی معاملات میں بندے کا سخت امتحان: نفس کی عموماً یہ خواہش ہوتی ہے کہ جُھوٹ سچ اور جائز ناجائز کا لحاظ کئے بغیر جیسا موقع ہو اور جس طرح بھی نفع کی زیادہ امید ہو،کرگزراجائے۔یہ مِلاوٹ، دھوکا،فریب حتّٰی کہ نَقْلی اور ناقِص دوائیں بیچنا وغیرہ کام بھی نفس و شیطان ہی کے بہکاوے میں آکر کئے جاتے ہیں جبکہ شریعت یہ کہتی ہے کہ نفع کم ہو یا زیادہ، تجارت میں فائدہ ہو یا نقصان، جُھوٹ، فریب اور دھوکے کے ذریعے حصولِ رِزق، حرام اور ممنوع ہے لہٰذا بندے کی بندگی اور فرمانبرداری کا سب سے سخت امتحان مالی معاملات میں ہوتا ہے۔

دین و دنیا کی کامیابی کِس کے لئے؟ دین و دنیا کی فَلاح و کامرانی اُنہی لوگوں کا حصہ ہوتی ہے جو اپنی خواہشِ نَفْس پر قابُو رَکھتے ہیں، جب تک انسان اپنی حرص و طمع کو روک کر حُصولِ رزق کے جائز طریقے اختیار نہیں کرے گا وہ کبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹)) ترجمۂ کنزالایمان:اورجو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہیں۔(پ28،الحشر:9)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حِرص و طمع سے بچا کر حلال ذریعے سے رزق کمانے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ابو صفوان عطاری مدنی

٭…ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code