انشورنس

احکام تجارت

*مفتی ابو محمد علی اصغر  عطاری  مَدَنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی2023ء

  ( 1 ) مرحوم کی انشورنس کی رقم کا مالک کون ہوگا ؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے ایک عزیز کا انتقال ہوگیا ہے انہوں نے انشورنس بھی کروائی ہوئی تھی ، اس کے تقریباً چالیس لاکھ روپے ملے ہیں۔ یہ بتائیں کہ انشورنس کی رقم بھی تمام ورثاء میں تقسیم ہوگی یا جس وارث کو کمپنی میں کلیم کرنے کے لئے مرحوم نے نامزد کیا تھا ، وہ رقم صرف اسی کی ہے ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : انشورنس کمپنی سے ملنے والی رقم دو طرح کی ہوتی ہے ، ایک رقم وہ ہوتی ہے جو پالیسی ہولڈر نے جمع کروائی ہوتی ہے اور ایک رقم وہ ہوتی ہے جو کمپنی اپنی طرف سے اضافی دیتی ہے جوکہ سود ہوتی ہے۔وہ رقم جو سود ہے ، اس کے بارے میں حکم شرعی یہ ہے کہ وہ بغیر ثواب کی نیت کے کسی شرعی فقیر کو دے دیں اور وہ رقم جو مرحوم نے جمع کروائی تھی ، وہ تمام ورثاء میں شرعی طریقہ کار کے مطابق تقسیم ہوگی صرف نامزد کردہ وارث کو نہیں ملے گی کیونکہ انشورنس کمپنی میں نامزد کروانے کا مقصد مالک بنانا نہیں ہوتا بلکہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ پالیسی ہولڈر اگر انتقال کر جائے تو نامزد کردہ شخص کو کلیم کرنے کا حق ہوگا تاکہ وہ کلیم کرکے کمپنی سے رقم وصول کرے اور مرحوم کے اصل وارثوں تک وہ رقم پہنچائے ، جب مقصد مالک بنانا نہیں ہوتا تو پھر نامزد کردہ شخص مالک بھی نہیں بنے گا اور یہ رقم تمام ورثاء میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔

بغیر تملیک کے ملکیت کسی دوسرے شخص کی طرف منتقل نہیں ہوتی۔ جیساکہ ردالمحتار میں ہے : ”ان ملك الانسان لاينقل الى الغير بدون تمليكه“ یعنی کسی انسان کی مملوکہ شے بغیر تملیک کے کسی دوسرے شخص کی ملکیت میں داخل نہیں ہوتی۔

  ( ردالمحتار ، 8 / 569ملخصاً )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 ( 2 ) گاڑی والے کا قبضہ خریدار کا قبضہ شمار ہونے کی صورت

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر خریدار سامان خریدنے کے بعد بیچنے والے سے یہ کہے کہ آپ میری طرف سے سامان لوڈ کرنے والی گاڑی کرواؤ ، گاڑی کے پیسے میرے ذمے ہیں ، تو کیا گاڑی والے کا قبضہ کرنا خریدار کا قبضہ کہلائے گا ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : اگر واقعی خریدار کے کہنے پرسامان بیچنے والا کسی گاڑی والے سے بات کر کے سامان لوڈ کروا دے گا تو گاڑی والے کا قبضہ اس چیز کو خریدنے والے کا قبضہ شُمار ہوگا کیونکہ یہاں گاڑی والا اس خریدار کی طرف سے وکیل کی حیثیت سے اس سامان پر قبضہ کر رہا ہے اور وکیل کا قبضہ مؤکل کا قبضہ شُمار ہوتا ہے۔یہاں گاڑی والے کو خریدار کی طرف سے قبضہ کرنے کا وکیل ماننے کی وجہ یہ ہے کہ گاڑی والا خریدار کا اجیر ہے اور اس کے لئے کام کر رہا ہے اسی وجہ سے اپنے کام کی اُجرت خریدار سے وصول کرے گا۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے : ”اذا قال المشتری للبائع ابعث الی ابنی ، و استاجر البائع رجلا یحملہ الی ابنہ ، فھذا لیس بقبض والاجر علی البائع الا ان یقول : استاجر علیّ من یحملہ ، فقبض الاجیر یکون قبض المشتری ان صدقه انه استأجر و دفع اِليه“ ترجمہ : مشتری نے بائع سے کہا مال میرے بیٹے کو پہنچا دو ، بائع نے ایک شخص کو اجیر بنا کر مال بیٹے کو بھیج دیا تو  یہ قبضہ نہیں ، اس کی اجرت بائع پر ہے۔ سوائے یہ کہ مشتری کہہ دے کہ میری طرف سے اجیر رکھ کر سامان بھیج دو تو اجیر کا قبضہ مشتری کا قبضہ ہوگا جبکہ وہ تصدیق کر دے کہ اسے اجیر بناکر سامان دےدیا ہے۔  ( فتاویٰ عالمگیری ، 3 / 19 )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 ( 3 ) مقروض کو قرض معاف کردینے پر گزشتہ زکوٰۃ کا حکم ؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید نے2017میں بکراورخالد کوتین سال کے لئے ایک ایک لاکھ روپیہ قرض دیا تھا۔تین سال گزر گئے مگر وہ دونوں مالی اسباب نہ ہونے کے سبب قرض ادا نہیں کرسکے۔ اس کو اب چھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔بکراب بھی قرض ادا کرنے پر قادر نہیں اور شرعی فقیر ہےجبکہ خالدادائیگی کی قدرت رکھتا ہےاورغنی بھی ہےلیکن زید نے دونوں کو قرض معاف کردیا ہے۔ زید نے چھ سالوں میں ان دو لاکھ روپے کی زکوٰۃ بھی نہیں نکالی۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ آیا زید پر اس رقم کی گزشتہ چھ سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہے یا نہیں ؟ واضح رہے کہ زیدکئی سالوں سےصاحبِ نصاب ہے اور ہر سال اپنے دیگر مال کی زکوٰۃ نکالتا ہے۔

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : جورقم زید نے بکر اور خالد کو معاف کی وہ معاف تو ہو گئی البتہ معاف کرنے سے قبل تقریباً چھ سال یہ رقم واجب الاداء کے طور پر ان دونوں پر قر ض تھی اور اس دوران زید نے اس رقم پر زکوٰۃ بھی ادا نہیں کی تو معاف کردینے پر گزشتہ چھ سالوں کی زکوٰۃ کا حکم کیا ہوگا ؟

اس سوال کے جواب میں کچھ تفصیل ہے اور وہ یہ کہ پوچھی گئی صورت میں زیدنےبکر کوجورقم معاف کردی اس رقم کی کسی بھی سال کی زکوٰۃ نکالنا زید پر لازم نہیں ہے کیونکہ مقروض اگر شرعی فقیر ہو تو اس کو قرض معاف کردینے سے مال ہلاک ہو جاتا ہے اور وجوبِ زکوٰۃ کے بعد جو مال ہلاک ہوجائے اس پر زکوٰۃ لازم نہیں رہتی۔ البتہ زید نےجو رقم خالد کو معاف کی ہے اس رقم کی گزشتہ چھ سالوں کی زکوٰۃنکالنا زید پر لازم ہے کیونکہ مقروض اگرغنی یعنی مالدار ہو تو اس کو قرض معاف کردینا اپنے مال کو خود ختم کرنا اور ایک طرح سے معنوی طور پر خرچ کرنا ہے اور وجوبِ زکوٰۃ کے بعد جو مال خرچ کیا جائے اس کی وجہ سے ماضی کی واجبُ الاَداء زکوٰۃ ساقط نہیں ہوتی۔

صدرُالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرَّحمہ لکھتے ہیں : ”سالِ تمام کے بعد مالکِ نصاب نے نصاب خود ہلاک کر دی تو زکاۃ ساقط نہ ہوگی ، مثلاً جانور کو چارا ، پانی نہ دیا گیا کہ مر گیا زکاۃ دینی ہوگی۔یو ہیں اگر اُس کا کسی پر قرض تھا اور وہ مقروض مالدار ہے سالِ تمام کے بعد اس نے معاف کر دیا تو یہ ہلاک کرنا ہے ، لہٰذا زکاۃ دے اور اگر وہ نادار تھا اور اس نے معاف کردیا تو ساقط ہوگئی۔

 ( بہار شریعت ، 1 / 899 )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* محققِ اہلِ سنّت ، دارُالافتاء اہلِ سنّت نورُالعرفان ، کھارادر کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code