نمازِ عصر کے بعد سجدۂ شکر ادا کرنا کیسا؟

دارالافتاء اہل سنت

ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر2022

 ( 1 ) بُزرگانِ دین کے لئے نذر ماننا کیسا ؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ بزرگانِ دین کے لئے نذر ماننا کیسا ہے ؟  زید کہتا ہے کہ نذر ، اللہ پاک کے لئے خاص ہے ، تو کیا غیرُ اللہ کی نذر نہیں مان سکتے  ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

نذر اور منّت دو طرح کی ہوتی ہے :  ( 1 ) نذرِ شرعی اور  ( 2 ) نذرِ عُرفی ، نذرِ شرعی یہ ہے کہ اللہ پاک کے لئے کوئی ایسی عبادت اپنے ذِمّہ لازم کر لینا ، جو لازم نہیں تھی ، مثلاً یہ کہنا کہ میرا یہ کام ہو جائے ، تو میں  100 نفل پڑھوں گا وغیرہ ، نذرِ شرعی کی کچھ شرائط ہوتی ہیں اگر وہ پائی جائیں تو نذر کو پورا کرنا واجب ہوتا ہے اور پورا نہ کرنے سے آدمی گناہ گار ہوتا ہے۔ اور نذرِ عُرفی کا معنیٰ ، نذرانہ اور ہدیہ ہے ، مثلاً انبیاءِ کرام اور اولیاءِ عظام کے لیے اس طرح نذر ماننا کہ اگر میرا فلاں کام ہوجائے ، تو میں فلاں بزرگ کے نام پر کھانا کھلاؤں گا ، یہ نذرِ عُرفی ہے، اسے پورا کرنا واجب تو نہیں ، البتہ بہتر ہے کہ اسے بھی پورا کیا جائے۔

اللہ پاک کے علاوہ کسی نبی یا ولی کی نذرِ عُرفی ماننا جائز ہے ، کیونکہ اس میں بندے کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ میں یہ نیک کام اللہ پاک کی رضا کے لیے کروں گا ، لیکن اس کا ثواب فلاں بزرگ کو ایصال کروں گا اور اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ، اس کو نیاز بھی کہتے ہیں ، البتہ نذرِ شرعی اللہ پاک کے ساتھ خاص ہے ، اللہ پاک کے علاوہ کسی اور کیلئے ماننا ، ممنوع ہے۔

وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 

کتبــــــــــــــــــــــہ

مفتی محمد قاسم عطّاری

 ( 2 ) نمازِ عصر کے بعد سجدۂ شکر ادا کرنا کیسا ؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ عصر کے بعد سجدۂ شکر کرنا کیسا ؟  

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

سجدۂ شکر یا نمازِ شکر نفل نماز ہے اور عصر کی نماز کے بعد نوافل ادا کرنے سے نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے منع فرمایا ہے ، لہٰذا نمازِ عصر کے بعد سجدۂ شکر يا نمازِ شكر ادا کرنا ، مکروہِ تحریمی ، ناجائز و گناہ ہے۔

وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 

کتبــــــــــــــــــــــہ

مفتی محمد قاسم عطّاری

 ( 3 ) نمازِ اوّابین کی ادائیگی کا طریقۂ کار

سوال : کیافرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ مغرب کی نمازکے بعد 2 سنتیں اور نفل پڑھنے سے صلوۃ الاوابین والا مستحب ادا ہوجائے گایادو سنتوں کے بعد الگ سےچھ نفل پڑھنے ہوں گے ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

مغرب کے فرضوں کے بعد کی دو سنت اور چار نفل کے مجموعہ کا نام صلوۃ الاوابین ہے ، لہٰذا اگر کسی نے مغرب کی نماز کے بعد دو سنتیں اور چار نفل پڑھے ، تو اس کا صلوۃُ الْاوّابِین والا مستحب ادا ہوجائے گا ، ہاں صرف دو سنتوں اور دو نفل سے نمازِ اوابین ادا نہیں ہوگی۔

وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 

مجیب                           مصدق

 ابوالفیضان عرفان احمدمدنی               مفتی محمد قاسم عطّاری

 ( 4 )  کاروبار کے لئے رقم قرض لینے کی بجائے سامانِ تجارت اُدھار خریدنا

سوال : کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں اپنے دوست سے کاروبار کے لیے کچھ رقم لینا چاہتا ہوں اور دوست کو اپنی رقم پر کچھ نفع بھی چاہئے ، جس کے لیے ہم یہ طریقہ اپنانا چاہتے ہیں کہ مجھے جو مال چاہئے ، مثلاً : کچن کا سامان ، چولہے ، چمٹیاں وغیرہ درکار ہیں ، تو میرا دوست مارکیٹ سے 50 لاکھ روپے کا مال خرید کر مجھے قیمتِ خرید بتاکر 52 لاکھ روپے میں اُدھار پر بیچ دے گا ، اس طرح ان کو 2 لاکھ روپے نفع مل جائے گا اور مجھے جو مال درکار تھا ، وہ مل جائے گا۔ شرعی رہنمائی فرمادیں کہ کیا ہم یہ طریقہ اپنا سکتے ہیں  ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

سوال میں بیان کردہ طریقہ شرعاً جائز ہے ، اس میں حرج نہیں ، کیونکہ یہ ایک قسم کی خرید و فروخت ( بیع مرابحہ ) ہے ، ہاں یہ ضرور ہے کہ جب آپ دوست سے ادھار میں مال خریدیں گے ، تو آپ کا دوست پہلے اس مال پر خود یا دوست کا وکیل قبضہ کرلے ، پھر آپ کو بیچے ، قبضہ کرنے سے پہلے نہیں بیچ سکتا۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ سودا کرتے ہوئے ادھار کی مدت طے کرلی جائے اور ساتھ  ( جرمانے وغیرہ کی )  کوئی ناجائز شرط نہ لگائی جائے۔ اگر مدت معین نہ کی ، یا ساتھ جرمانے وغیرہ کی کوئی ناجائز شرط لگائی ، تو اس کی وجہ سے یہ عقد  (Contract )  فاسد اور ناجائز ہوجائے گا۔

وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 

کتبـــــــــــــــــہ

مفتی محمد قاسم عطّاری


Share

Articles

Comments


Security Code