قرض واپس کرنے پر اس کا کچھ فیصد ریٹ مقرر کرنا کیسا؟

دار الافتاء اہلِ سنّت

ماہنامہ ستمبر 2021

(1)قرض واپس کرنے پر اس کا کچھ فیصد ریٹ مقرر کرنا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں عُلمائےدین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہاؤس بلڈنگ فنانس کمپنی کی جانب سے کم اور متوسط آمدنی والے افراد کو گھر فراہم کرنے کے لئے ایک ہاؤسنگ فنانس اسکیم کا آغاز کیا گیا ، جس میں مکان ، فلیٹ کی تعمیر اور خریداری کے لیے تقریباً پینتالیس لاکھ (4500000) تک کا قرضہ دیا جارہا ہےاور واپسی کی مدت بیس سال تک ہے اور اس قرضہ کا بارہ فیصد ریٹ مقرر کیا گیا ہے جو کہ قرضہ لینے والے کو اضافی ادا کرنا ہوگا۔ مثال کے طور پر کسی نے کمپنی سے دس لاکھ روپے لیے ہیں تو اسے ایک لاکھ بیس ہزار (120000) روپے اضافی دینے ہوں گے۔ اس اسکیم کے متعلق شرعی حکم کیا ہے ؟ کیا ہم اس اسکیم کے تحت قرض لے سکتے ہیں یا نہیں ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

سوال میں بیان کردہ اسکیم ، سودی اسکیم ہے کہ کمپنی کی جانب سے مقرر کردہ اضافی بارہ فیصد ، قرض پر مشروط نفع ہے اور بحکم حدیث قرض پر مشروط نفع ، سود ہے اور جس طرح سود لینا حرام ہے یونہی حاجتِ شرعیہ کے بغیر سود ، دینا اور سودی معاہدہ کرنا بھی حرام ہے لہٰذا اس اسکیم کے تحت قرض لینا جائز نہیں۔ البتہ اگر کوئی شخص واقعی محتاج ہو یعنی اس کی وہ حاجت ایسی ہو کہ جسے شریعت بھی حاجت تسلیم کرتی ہو ، اور سودی قرض کے بغیر اس کا حل ممکن نہ ہو تو اس صورت میں اسے حاجت کے مطابق سودی قرض لینے کی اجازت ہوگی۔

رہائش کے لئے ایک ایسا مکان کہ جس میں سردی ، گرمی وغیرہ امور سے حفاظت ہوسکے انسانی حاجات میں سے ہے تو اگر کسی کے پاس رہائشی مکان نہیں ہے اور اس کے پاس دیگر اسباب و ذرائع بھی نہیں کہ جن سےرہائش کے قابل ضروری مکان خرید سکے اور کہیں سے سود کے بغیر قرض بھی نہ مل رہا ہو تو اس صورت میں اسے مجبوراً رہائشی مکان کے لئے سودی قرض لینے کی اجازت ہوگی ، یونہی مکان موجود ہے مگر اس میں تعمیرات کی حاجت ہے مثلاً چھت نہیں ہے یا کھڑکی ، دروازے کہ جن سے سردی ، گرمی اور چوری وغیرہ سے حفاظت ہوسکے نہیں ہیں تو اس صورت میں بھی مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ قرض لینے کی اجازت ہوگی لیکن اگر ضرورت کا مکان موجود ہے ، اور بڑے گھر کی خواہش ہے یا مکان میں رنگ و روغن ، اور ٹائل ماربل وغیرہ کا کام کروانا چاہتا ہے یا اپنے پاس زیور وغیرہ ایسے اسباب موجود ہیں کہ جن کے ذریعے حاجت پوری ہوسکتی ہے یا کہیں سے سود کے بغیر قرض مل رہا ہے تو ان تمام صورتوں میں سودی قرض لینا جائز نہیں ۔

ضروری تنبیہ : حاجتِ شرعیہ کی پہچان ، عوام کے لئے کم علمی کی وجہ سے آسان نہیں ہے ، اس لئے عافیت اس میں ہے کہ اپنی عقل سے اس کا فیصلہ کرنے کے بجائے کسی معتمد سنی مفتی صاحب سے رابطہ کیا جائے اور انہیں اپنی مکمل صورت حال بیان کرکے حکم معلوم کیا جائے اور پھر ان کے بتائے ہوئے حکم پر عمل کیا جائے ، ورنہ گناہ میں پڑنے کا قوی امکان ہے کہ بہت سی حاجتیں کہ جنہیں عوام حاجت سمجھتی ہے ، حقیقت میں حاجت نہیں ہوتیں اور ان کے لئے سودی قرض لینا حرام ہوتا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مُجِیْب مُصَدِّق

ابو الحسن ذاکر حسین عطّاری مدنی مفتی فضیل رضا عطّاری

(2)صفر کے آخری بدھ کو خوشیاں منانا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں عُلمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ صفرُ المظفر کے آخری بدھ کو بعض لوگ چوری بدھ کہتے ہیں ، اس دن عمدہ کھانے بناتے ہیں اور بالخصوص دیسی گھی کی چوری بناتے ہیں ، اعتقاد یہ ہوتا ہے کہ اس دن نبیِّ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحت یا ب ہوئے تھے اور صحابۂ کرام نے خوشیاں منائی تھیں اور عمدہ کھانے بنائے تھے لہٰذا ہمیں بھی ایسا کر نا چاہئے۔ یہ فرمائیں کہ اس اعتقاد کے ساتھ یہ عمل کرنا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

صفر کے آخری بدھ کی کوئی اصل نہیں اور نہ ہی اس دن سرکار علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی صحت یابی کا کوئی ثبوت ہے بلکہ آپ  صلّی اللہُ علیہ وسلّم  کے مرضِ اقدس جس میں وفات ہوئی اس کی ابتداء اسی دن سے بتائی جاتی ہے۔ لہٰذا لوگوں کا یہ اعتقاد اور اس کی بناء پر عمدہ کھانے و چوری بنانا اور خوشیاں منانا بے اصل ہے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کتبــــــــــــــــہ

مفتی فضیل رضا عطّاری

(3)فاتحہ کے بعدسورت ملانا بھول گئے تو؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ جہاں سورت فاتحہ کے بعد سورت ملانا واجب ہے ، اگر سورت ملانا بھول گئے اور رکوع میں یاد آیا تو واپس لوٹ کر قراءت مکمل کرنے کا لکھا ہوتا ہے۔ اس کا درجہ کیا ہے یعنی لوٹنا واجب و ضروری ہے یا نہیں؟؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

فاتحہ کے بعد جہاں سورت ملانا واجب ہے ، اگر بھولے سے نہ ملائی اور رکوع یا قومہ میں یاد آگیا تو واجب ہے کہ واپس لوٹے ، سورت ملائے اور رکوع بھی دوبارہ کرے اور آخر میں سجدہ سہو بھی کرے ، اس طرح اس کی نماز مکمل ہوجائے گی۔ رکوع میں یاد آجانے کے باوجود اگر نہ لوٹا تو جان بوجھ کر واجب چھوڑنے کی وجہ سے نماز واجبُ الاعادہ ہوگی یعنی دوبارہ پڑھنا واجب ہوگا اورسجدہ سہو کفایت نہیں کرےگااور یاد رہے کہ اگر لوٹا تو سہی مگرقراءت مکمل کرنے کے بعد رکوع دوبارہ نہ کیا تو نماز فاسد ہوجائے گی کیونکہ رکوع دوبارہ کرنا فرض ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مُجِیْب مُصَدِّق

ابو محمد محمد سرفراز عطّاری مدنی مفتی فضیل رضا عطّاری


Share

Articles

Comments


Security Code