مچھلی کے پیٹ میں مچھلی کا حکم مع دیگر سوالات

دار الافتاء اہل سنت

* مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ دسمبر2021

(1)مچھلی کے پیٹ میں موجود مچھلی کا حکم

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  ہم  نے ایک مچھلی خریدی تھی۔ اس مچھلی کے پیٹ میں صحیح سلامت اور ثابت مچھلی موجود تھی۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا مچھلی کے پیٹ سے نکلنے والی مچھلی حلال ہو گی یا نہیں؟شرعی راہنمائی فرما دیں۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

مچھلی کے پیٹ سے نکلنے والی مچھلی میں اگر معمول کے مطابق سختی موجود ہو اور اس میں کوئی تغیر و بدبو پیدا نہ ہوئی ہو ، تو ایسی مچھلی کو کھانا ، جائز ہے۔ اور اگر اس میں تغیر و  بدبو پیدا ہو گئی ہے ، تو ایسی مچھلی کو نہیں کھا سکتے۔

(المحیط البرھانی ، 6 / 71 ، تنویر الابصار مع در مختار متن رد المحتار ، 9 / 515)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(2)باجماعت نماز کی رکعتوں   میں  اختلاف ہوجائے تو؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ امام صاحب نے نمازِ عصر پڑھائی ، نماز کے بعد چند مقتدیوں نے کہا کہ تین رکعتیں ہوئی ہیں  ، جبکہ امام اوراکثر مقتدیوں کو ظن غالب ہے کہ چار رکعتیں پوری  پڑھی ہیں۔ اس صورت میں نماز دوبارہ پڑھی جائے گی یانہیں ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں  اگرامام کو ظن غالب ہےکہ نماز عصر  کی چار رکعتیں مکمل ادا ہوئی  ہیں تو نماز عصر مکمل صحیح ادا ہوئی ، اس نماز  کو دوبارہ پڑھنا لازم نہیں  ۔ (رد المحتار ، 2 / 679 ، بہار شریعت ، 1 / 594)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(3)کیا  کسی  روایت  میں جمعہ کو غریبوں کا حج قرار دیا گیا ہے؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا کوئی ایسی روایت ہے جس میں جمعۃُ المبارک کو غریبوں کا حج قرار دیا گیا ہو۔ اگر ہے ، تو اس کا کیا مفہوم ہے؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جی ہاں اس طرح کی روایت موجود ہے۔ اور اس  کی ایک تشریح یہ ہے کہ جو فضائل حاجیوں کو میدانِ عرفات میں ملتے ہیں ، وہی فضائل مسکینوں اور فقیروں کو جمعہ کے دن ملتے ہیں۔ نیز یہ کہ جمعۃُ المبارک کو کئی وجوہات کی بنا پر حج کے ساتھ جزوی تشبیہ دی گئی ہے۔

 جمعۃ المبارک   کی ادائیگی ، جمعہ کی ندا  یعنی اذان کے بعد ہوتی ہے ،  جیسے حج حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی ندا  کے بعد فرض ہوا۔

جمعۃُ المبارک کے   لئےبھی غسل کیا جاتا ہے ، جیسے حج کے لیے کیا جاتا ہے۔

جمعۃُ المبارک میں بھی خطبہ ہوتا ہے ، جیسے حج میں ہوتا ہے۔

جمعۃُ المبارک کو بھی  ندایعنی اذان کے بعد خرید و فروخت حرام ہو جاتی ہے جیسے حج میں احرام باندھنے کے بعد شکار کرنا حرام ہوتا ہے۔

جمعۃُ المبارک کو نماز کی ادائیگی کے بعد خرید و فروخت کرنا جائز ہے ، جیسے حج میں احرام کھولنے کے بعدشکارکرنا جائز ہے۔

کنزالعمال کی حدیثِ پاک ہے : “ الجمعۃ حج المساکین. الجمعۃ حج الفقراء “ یعنی جمعۃ المبارک مسکینوں اور فقراء کا حج ہے۔ (کنزالعمال ، 7 / 707 ، حدیث : 21031 ، 21032)

اس حدیث پاک    کو   تشریح  کے ساتھ بیان کرتے ہوئے  امام جلال الدین  سیوطی شافعی  رحمۃُ اللہِ علیہ  ارشاد فرماتے ہیں : “ قال النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم : الجمعۃ حج المساکین ای یحصل لھم فیھا ما یحصل لاھل عرفۃ “ یعنی رسول اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   نے ارشاد فرمایا : جمعہ مساکین کا حج ہے یعنی مساکین کو جمعہ کے دن وہی ثواب حاصل ہوگا ، جو عرفہ والوں کو حاصل ہوتا ہے۔ (حاشیۃ السیوطی علی النسائی ، 1 / 219 ، تحت الحدیث : 1373) اس حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئےفیض القدیر میں ہے : “ یعنی من عجز عن الحج وذھابہ یوم الجمعۃ الی المسجد ھو لہ کالحج “ یعنی جوحج کرنے سے عاجز ہو ، اس کا جمعے کے دن مسجد کی طرف جانا ، اس کےلیے حج ہی کی طرح ہے۔ (فیض القدیر ، 3 / 474 ، تحت الحدیث : 3636)امام جلال الدین سیوطی شافعی  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے اپنی ایک اور کتاب : “ معترک الاقران فی اعجاز القران “ میں بھی اس حدیث پاک پر تفصیلی کلام کیا ہے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(4) میت کے غسل و تکفین کے بعد خون نکل آئے تو؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص زخمی حالت میں انتقال کرگیا ، غسلِ میت دیتے وقت کسی طرح زخم سے نکلنےوالاخون روک دیا گیانیز غسل سے قبل خون بھی صاف کردیا پھرمسنون طریقہ کے مطابق میت کی تکفین بھی کردی ، اس دوران خون نہیں نکلا ، کچھ دیر بعد تک بھی خون نہیں نکلا ، لوگوں کو میت کا چہرہ دکھایا گیا پھر جب میت کو گھر سے جنازہ گاہ لے جایا گیا ، جب نمازِ جنازہ پڑھی جانے لگی تومیت کے کفن پر نظر پڑی کہ زخم والے حصے کی طرف والاکفن خون سے لال ہوگیا ہے ، اس پرکسی نے کہا  کہ نمازِ جنازہ کے لئے میت کا کفن بھی پاک ہونا ضروری ہے لہذا کفن پاک کئے بغیرنمازِ جنازہ نہیں پڑھ سکتےمگر امام صاحب نے پھر بھی نمازِ جنازہ پڑھا دی اورمیت کی تدفین کردی گئی۔ پوچھنا یہ ہے کہ اس صورت میں کفن کو پاک کرنا ضروری تھا یا نہیں؟نیز نمازِ جنازہ درست ہوئی یا نہیں؟سائل : عبد اللہ  عطاری(گارڈن ، کراچی)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں نمازِ جنازہ درست ادا ہوئی اور غسلِ میت اورمردے کی تکفین کے بعد خون نکلنے کےسبب کفن کو پاک کر کے نمازِ جنازہ پڑھنا ضروری نہیں تھا۔

مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ نمازِ جنازہ درست ادا ہونے کے لئے میت سے متعلق ایک شرط یہ بھی ہے کہ میت کا بدن اور کفن پاک ہو ، بدن پاک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے غسل دیا گیا ہو یا غسل نا ممکن ہونے کی صورت میں تیمم کرایا گیا ہواور میت کی تکفین سے قبل اگرمیت کے بدن سے نجاست نکلی ہوتو دھو دی جائے اورکفن پہنانے کےبعدنکلی تو دھونے کی حاجت نہیں اور کفن پاک ہونے کا یہ مطلب ہے کہ پاک کفن پہنایا جائے اور بعد میں اگر نجاست خارج ہوئی اور کفن آلودہ ہوا تو حرج نہیں ، چونکہ پوچھی گئی صورت میں زخم سے خون میت کو غسل دینے اور کفن پہنانے کے بعد نکلا ہےاور اس خون سے کفن آلودہ ہوگیا تو اب کفن کوپاک کرنے کی ضرورت نہیں اور جب کفن کو پاک کرنے کی ضرورت نہیں تو بغیر پاک کئے جو نمازِ جنازہ ادا کی گئی ، وہ درست واقع ہوئی۔ (ردّ المحتارمعہ الدرّ المختار ، 3 / 122 ، بہار شریعت ، 1 / 827)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* محقق اہل سنت ، دار الافتاء اہل سنت  نور العرفان ، کھارادر کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code