پیشے کے اعتبار سے نسبتیں (قسط:02)

گزشتہ سے پیوستہ

اَلْمَاوَرْدِی: یہ مَاءُ الْوَرْد(گلاب کا پانی یعنی عرقِ گلاب ) بیچنے اور اس کے کام کی طرف نسبت ہے۔عُلَما کی ایک جماعت اس نسبت کے ساتھ مشہور ہوئی کیونکہ ان کے آباء و اجداد میں سے کوئی اس کا کام کرتا تھا یا اسے بیچتا تھا۔ان علما میں سے ایک قَاضِیُ الْقُضَاۃ (Chief Justice)ابو الحسن علی بن محمد بصری رحمۃ اللہ علیہبھی ہیں۔آپ کی ولادت364ھ میں ہوئی اور وصال 450ھ میں ہوا۔منقول ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں اپنی  لکھی ہوئی کسی کتاب کو ظاہر نہیں فرمایا اور تمام تصانیف کو ایک مقام پر جمع فرمادیا۔ جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ایک قابلِ اعتمادشخص سے فرمایا:فلاں مقام پر موجود تمام کتابیں میری تصنیف ہیں، میں نے اپنی نیت کو خالص نہیں پایا اس لئے انہیں ظاہر نہیں کیا۔جب میری موت کا وقت آئے اور حالتِ نزع طاری ہو تو اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دینا،اگر میں تمہارے ہاتھ کو دباکر پکڑ لوں تو جان لینا کہ میری کوئی تصنیف مقبول نہیں ہوئی اورتم میری کتابیں لے کر رات کے وقت انہیں دریائے دِجلہ میں ڈال دینا،اور اگر میں تمہارا ہاتھ نہ تھاموں اور اپنا ہاتھ دراز کردوں تو سمجھ جانا کہ میری تصانیف مقبول ہوچکی ہیں اور میں جس خالص نیت کی امید کرتا تھا اس میں کامیاب ہوگیا ہوں۔اس شخص کا بیان ہے کہ جب حضرت کی وفات کا وقت آیا اور میں نے آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تو آپ نے میرا ہاتھ نہ تھاما،میں نے جان لیا کہ آپ کی تصانیف مقبول ہوچکی ہیں چنانچہ میں نے آپ کی کتابوں کو لوگوں کے سامنےظاہر کردیا۔(الانساب للسمعانی،ج 11،ص104 ،105، وفیات الاعیان،ج  3،ص 247 ملخصاً)

اَلنَّسَّاج: یہ کپڑے کے نَسْج یعنی بُننے کی طرف نسبت ہے۔علما کی ایک جماعت اس نسبت کے ساتھ منسوب ہے،ان ہی بزرگوں میں سے ایک حضرت ابو الحسن خیر النسّاجرحمۃ اللہ علیہبھی ہیں۔آپ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے صحبت یافتہ ہیں۔آپ کی ولادت202ھ میں ہوئی اوروصال 322ھ میں ہوا۔ منقول ہے کہ آپ کے چہرے کا رنگ سیاہ تھا،ایک مرتبہ حجّ کی ادائیگی سے فارغ ہونے کے بعد جب آپ کوفہ تشریف لائے تو ایک شخص نے آپ کو پکڑ لیا اور کہا کہ تم میرے غلام ہو اور تمہارا نام خیر ہے۔ آپ نے اس کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں کیا بلکہ اس کی بات مان کر اس کے ساتھ چل دئیے ۔اس شخص نے ایک مدّت تک آپ سے کپڑا بننے کا کام کروایا پھر آزاد کردیا اور کہا کہ تم میرے غلام نہیں ہو ۔ کہا گیا ہے کہ اس شخص پر ایک مدّت تک یہ شُبہ ڈال دیا گیا تھا کہ آپ اس کے غلام ہیں۔آپ کا اصلی نام محمد بن اسماعیل تھا۔ غلامی سے آزادی کے بعد آپ سے کہا گیا کہ کیا آپ دوبارہ اپنے پہلے نام کی طرف نہیں آئیں گے؟ ارشاد فرمایا:میں اپنے اس نام کو تبدیل نہیں کروں گا جو مجھے ایک مسلمان نے دیا ہے،چنانچہ آپ نے اپنی وفات تک اس نام کو اپنے ساتھ خاص کئے رکھا۔(الانساب للسمعانی،ج 12،ص74، سیر اعلام النبلاء،ج 11،ص646، تاریخ الاسلام للذہبی،ج 7،ص459، الاعلام للزرکلی،ج2،ص326)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…عبد الرحمٰن عطاری مدنی

٭…ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code