پریشانیاں اور ہمارا رویہ

ماہنامہ جنوری2022

از : شیخِ طریقت ، امیرِ اَہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ

اللہ پاک کے آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشادفرمایا : “ صبرشُروع صدمے پر ہی ہوتا ہے۔ “ (بخاری ، 1 / 434 ، حدیث : 1283) یعنی شروع صدمے پر دل میں جوش ہوتا ہے ، اُس وقت اُس جوش کو روکنا بڑے بہادروں کا کام ہے۔ صبر سے مراد کامل صبر ہے جس پر بہت ثواب ملے۔ (مراٰۃ المناجیح ، 2 / 504) یہ بات حقیقت ہے کہ مصیبت کو آئے ہوئے جب کچھ وقت گزر جاتا ہے تو پھرصبر آہی جاتا ہے یا انسان اس مصیبت ہی کو بھول جاتا ہے۔ صبر کا معنی ہے نفس کو اس چیز سے باز(یعنی روک کر) رکھنا جس سے رکنے کا عقل اور شریعت تقاضا کر رہی ہو۔ (مفرداتِ امام راغب ، حرف الصاد ، ص273 ) اِس لئے جیسے ہی تکلیف پہنچے بندہ کچھ بولے نہیں ، چُپ ہوجائے اور اپنی باڈی لینگویج سے بھی ایسا اِظہار نہ کرے کہ جس سے دوسراشخص سمجھ جائے کہ اِسے کوئی تکلیف پہنچی ہے ، کیونکہ کوئی بھلے چُپ رہے لیکن دوسروں کی موجودگی میں مُنہ بگاڑے ، آہ ، اُوہ کرے تو ہوسکتا ہے کہ دیکھنے سننے والا پوچھے کہ کیا ہوا؟ خیریت توہے نا؟ اپنی مصیبت کی ساری کہانی سنانے کے بعد آدمی بولے کہ میں نے خود نہیں بتایا یہ تو اس نے پوچھا تب میں نے بتایا ہے ، حالانکہ اپنے جسم یا چہرے سے اس طرح کا اظہار کیا تھا کہ مجھ سے پوچھو : کیا تکلیف ہے؟ جبھی تودوسرے نے آکر پوچھا ہے۔ یُوں لوگوں کے اندر اپنی پریشانی کے اظہار کی طرح طرح کی ترکیب بنائی جاتی ہے۔ یادرکھئے! بِلا ضَرورت کسی کے سامنے تکلیف کا اِظہار کرنے سے بسااوقات انسان بے صبری میں پڑ جاتا ہے ، ہاں! اگر کوئی کسی بزرگ ، اِمام مسجد یا عالمِ دین کو اپنی مصیبت اِس لئے بتارہا ہے تاکہ وہ اس کےلئے دعا کریں یا کسی ڈاکٹر کو بتارہا ہے تا کہ وہ اُس کی بیماری کا عِلاج کرے اور اتنا بتا رہا ہے جتنا بتانے کی حاجت ہے تو یہ بے صبری میں نہیں آئے گا ، اِس لئے اگر کسی کے سامنے پریشانی کا اِظہار کرنا ہے تو اُتنا ہی کریں جتنا کرنے کی ضرورت ہے۔ گھر میں چوری ہوجائے یا آگ لگ جائے یا کوئی نقصان ہوجائے یا بچّہ اور ماں باپ بیمار ہوجائیں تو بِلاضرورت کسی کو نہ بولیں ، ضرورتاً بولنا پڑے تو ضرور بولیں۔ 100کو بتانے کی ضرورت ہے تو 100کو بتائیں ورنہ ایک کو بھی نہیں۔ مثلاً گھر میں کسی کا اِنتِقال ہونا ایک مصیبت ہے ، بلکہ بندے پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ اب ایسے میں آدمی لوگوں کو اِس مصیبت کا ضرور بتائے تاکہ لوگ جمع ہوں اور جنازہ پڑھیں اور تدفین وغیرہ میں حصہ لیں ، یہ صُورت ٹھیک ہے۔ اِس میں بھی رونے دھونے اور ایسے اَنداز سے غم ظاہر کرنے سے بچنا ہوگا جسے بے صبری کہا جائے۔ ایسی صورتِ حال میں آنسو وں کابہنا بےصبری نہیں کیونکہ وہ توخود بخود آرہے ہوتے ہیں۔ البتہ ایسی کیفیت نہ بنائی جائے کہ جس سے خوب غم کا اِظہار ہو ، جیسے عورَتوں میں یہ عادت زیادہ ہوتی ہے کہ جیسے ہی کوئی عورت تعزیت کرنے آئے گی تو رونا دھونا اور بےصبری کا مظاہرہ شروع کردیں گی۔ اس طرح کے اثرات کچھ مَردوں میں بھی موجود ہوتے ہیں۔ اللہ کریم ہم سب کو حقیقی معنوں میں صبر عطا فرمائے۔ صبر جنت کا خزانہ ہے۔ کاش! ہم کو نصیب ہوجائے۔ نفس و شیطان صبر کرنے نہیں دیتے کہ جنّت کا خزانہ نفس و شیطان کہاں حاصل کرنے دیں گے! ہم اللہ پاک سے توفیقِ خیر و بھلائی کی درخواست کرتے ہیں کہ ہم کو حقیقی صبر عطا کردے اور صبر کرنے والے شہیدِ کربلا حضرت اِمام حسین  رضی اللہُ عنہ  کا صدقہ ہماری جھولی میں ڈال دے۔

 اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النبیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ : یہ مضمون 16جمادی الاولیٰ1441ھ مطابق 11جنوری2020ء کی رات کو ہونے والے مدنی مذاکرے کی مدد سے تیار کرکے

امیرِ اہلِ سنّت  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  کو دکھانے کے بعد پیش کیا گیا ہے۔


Share

Articles

Comments


Security Code