نعت کہنے کو احمد رضا چاہیے

پیارے  اسلامی بھائیو!ایک بار پھر ماہِ رضا یعنی صفرُالمظفر ہمارے درمیان جلوہ فرما ہے۔ امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ  کے وِصال کو101سال ہورہے ہیں لیکن آج تک آپ کی دینی خدمات کا ڈنکا بج رہا ہے۔امامِ اہلِ سنّت ایک ایسی ہَمہ جہت شخصیت کے مالک تھے کہ جب کوئی آپ کی شخصیت سے متعلق لکھنا چاہے تو وہ یقیناً سوچنے پرمجبورہوتا ہوگا کہ کس پہلو سے متعلق لکھوں اور کسے ترک کروں! بقولِ شاعر:

شکارِ ماہ کہ تَسخِیرِ آفتاب کروں

میں کس کو ترک کروں کس کا انتخاب کروں

حصولِ برکت کے لئے امامِ اہلِ سنّت رحمۃ اللہ علیہ کے منظوم نعتیہ کلام کی چند خصوصیات ملاحظہ فرمائیے:عاجزی و انکساری فرمانِ مصطَفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللہ  یعنی جو   اللہ  پاک کے لئے عاجزی کرتا ہے اللہ اسے بلندی عطا فرماتا ہے۔ (شعب الایمان،ج6،ص274، حدیث:8140)

اے عاشقانِ رسول! جو شاخ جس قدر پھل دار ہو اسی قدر جُھکی ہوئی ہوتی ہے، اسی طرح جو انسان جس قدر بلند مرتبہ اور اعلیٰ درجات کا حامِل ہو اسی قدر عاجزی اور انکساری کا پیکر ہوتا ہے۔ ایک شاعر نے کتنی پیاری بات کہی ہے:

جو اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں

صُراحی سَرنِگُوں ہوکر بھرا کرتی ہے پیمانہ

بزرگانِ دین اور علمائے کاملین رحمۃ اللہ علیہم  کے عِجْز و اِنْکِسار سے بھرپور اقوال اس قدر ہیں کہ انہیں شمار کرنا مشکل ہے چنانچہ امامِ اہلِ سنّت بھی عجز و انکسار کا پیکر تھے، چنانچہ فرماتے ہیں:فقیر تو ایک ناقص، قاصِر، ادنیٰ طالبِ علم ہے، کبھی خواب میں بھی اپنے لئے کوئی مرتبۂ علم قائم نہ کیا۔(فتاویٰ رضویہ،ج29،ص596) امامِ اہلِ سنّت کے منظوم کلام میں بھی جابجا عاجزی و انکساری کے نَمُونے موجود ہیں۔ ”حدائقِ بخشش“ سے ایک رُباعی

(یعنی چار مِصْرَعوں پر مشتمل شعر) اور تین اشعار ملاحظہ فرمائیے:

(1)کس منہ سے کہوں رَشکِ عنَادِل ہوں میں

شاعر ہوں فصیح بے مُماثل ہوں میں

حَقّا کوئی صَنعت نہیں آتی مجھ کو

ہاں یہ ہے کہ نقصان میں کامل ہوں میں

یعنی میں یہ کیسے کہوں کہ بلبل بھی میری خوش آوازی پر رشک کرتے ہیں اور میں بہت بڑا شاعر و خوش بیان ہوں اور مجھ جیسا کوئی نہیں۔ حق بات تو یہ ہے کہ مجھے کوئی فن نہیں آتا البتہ میں کمی اور کوتاہی کے معاملے میں کامل ہوں۔

(2)ایک میں کیا مِرے عصیاں کی حقیقت کتنی

مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا

(3)مُفت پالا تھا کبھی کام کی عادت نہ پڑی

اب عمل پوچھتے ہیں ہائے نکمّا تیرا

(4)تیرے ٹکڑوں سے پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال

جِھڑکیا ں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا

تَحدیثِ نعمت اے عاشقانِ رسول! عاجزی و انکساری کی طرح اللہ پاک کی عطا کردہ نعمتوں کا اظہار اور چرچا کرنا بھی اللہ کے نیک بندوں کا ایک وَصف ہے۔ اللہ پاک کا فرمانِ عالیشان ہے: (وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ۠(۱۱))تَرجَمۂ کنزُ الایمان:اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔ (پ30،الضحیٰ:11) (اس اٰیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

صدرُ الشّریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عالِم اگر اپنا عالِم ہونا لوگوں پر ظاہر کرے تو اس میں حرَج نہیں مگر یہ ضَرور ہے کہ تَفاخُر (یعنی فخر) کے طور پر یہ اظہار نہ ہو کہ تَفاخُر حرام ہے، بلکہ محض تَحدیثِ نعمتِ الٰہی کے لیے یہ اظہار ہو اور یہ مقصد ہو کہ جب لوگوں کو ایسا معلوم ہوگا تو اِسْتِفَادَہ (یعنی فائدہ حاصل) کریں گے، کوئی دین کی بات پوچھے گا اور کوئی پڑھے گا۔(بہارِ شریعت،ج3،ص627)

مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ نے خود تَحْدیثِ نعمت کے طور پر فرمایا: اگر (بادشاہ) اورنگزیب عالمگیر اس کتاب (یعنی بہارِ شریعت) کو دیکھتے تو مجھے سَونے سے تولتے۔(تذکرۂ صدر الشریعہ، ص46)

امامِ اہلِ سنّت کے نعتیہ کلام میں جابجا تَحْدیثِ نعمت کے جلوے بھی موجود ہیں،3 اشعار ملاحظہ فرمائیے:

(1)طُوطیٔ اِصفہاں سُن کلامِ رضا بے زباں، بے زباں، بے زباں ہوگیا(حدائقِ بخشش،حصہ سوم، ص15)

یعنی اِصفہان([1]) کا خوش آواز پرندہ طُوطی جب احمد رضا کا کلام سُنتا ہے تو حیران ہوکر اس طرح خاموش ہوجاتا ہے جیسے اس کے منہ میں زبان ہی نہیں ہے۔

(2)اے رضا جانِ عَنادِل ترے نغموں کے نثار

بلبلِ باغِ مدینہ ترا کہنا کیا ہے

(3)گُونج گُونج اٹھے ہیں نغماتِ رضا سے بوستاں

کیوں نہ ہو کس پھول کی مدحت میں وَا مِنْقار ہے

یعنی احمد رضا کی زبان چونکہ سرکارِ دوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مدح و ثنا میں مصروف ہے اس لئے اس کے نعتیہ کلام دنیا بھر میں مشہور ہوچکے ہیں۔

کلامِ رضا میں چاند،سورج اور ستاروں کا استعمال پیارے اسلامی بھائیو! شاعر اپنے محبوب کے حسن کو بیان کرنے کے لئے عُموماً اسے چاند،سورج اور ستاروں وغیرہ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ امامِ اہلِ سنّت نے اپنے نعتیہ کلام میں رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مدح و ثنا کے لئے چاند، سورج اور ستاروں کا استعمال ایک نرالے انداز میں فرمایا ہےجس کے چند نَمونے پیشِ خدمت ہیں:

(1)چاند کی خوبصورتی اگرچہ ضَرْبُ الْمَثَل ہے لیکن چاند میں داغ بھی ہوتے ہیں۔ امامِ اہلِ سنّت چاند کو اس کے داغوں کے علاج کا نسخہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ستم کیا کیسی مَت کٹی تھی قمر! وہ خاک اُن کے رہ گُزر کی

اُٹھا نہ لایا کہ مَلتے مَلتے یہ داغ سب دیکھتا مِٹے تھے

یعنی اے چاند! اگر تُو شبِ معراج صاحبِ معراج صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے قدموں تلے آنے والی خاک اُٹھا لاتا اور اپنے اوپر مَلتا تو یہ سب داغ دُور ہوجاتے۔

(2)دل اپنا بھی شیدائی ہے اُس ناخنِ پا کا

اتنا بھی مہِ نو پہ نہ اے چَرْخِ کُہَن پُھول

یعنی اے پُرانے آسمان! نئے چاند پر اتنا پُھولنے اور اِترانے کی ضرورت نہیں۔ میرا دل رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک پاؤں کے ناخن کا عاشق ہےجس کے سامنے چاند کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔

(3)مِرے غنی نے جواہِر سے بھر دیا دامن

گیا جو کاسۂ مہ لے کے شب گدائے فلک

یعنی آسمان جب بھکاری بَن کر اور چاند کو اپنا کشکول بناکر مدینے کے چاند صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دربار میں حاضر ہوا تو آپ نے بھیک میں اسے جواہِر عطا فرمادئیے جو ستارے بَن کر آسمان پر چمک رہے ہیں۔

(4)اُتار کر ان کے رُخ کا صَدقہ یہ نُور کا بَٹ رہا تھا باڑا

کہ چاند سورج مچل مچل کر جَبِیں کی خیرات مانگتے تھے

یعنی شبِ معراج جب محبوبِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے پُرنور چہرے اور بابرکت پیشانی کے صدقے نُور کی خیرات تقسیم ہورہی تھی تو چاند اور سورج نے بھی نُورانی پیشانی کا صدقہ پایا اور آج یہ دونوں اسی نُور کے ذریعے ساری دُنیا کو روشن کررہے ہیں۔

(5)رُخِ انور کی تجلی جو قمر نے دیکھی

رہ گیا بوسہ دہِ نقشِ کفِ پا ہوکر

یعنی آسمان کے چاند نے جب مدینے کے چاند صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کےپُرنور چہرے کی روشنی دیکھی تو بے ساختہ مبارک قدموں کے نقش کو بوسہ دینےلگا۔

(6)نُور کی خیرات لینے دوڑتے ہیں مِہْر و ماہ

اُٹھتی ہے کس شان سے گَرْدِ سُواری واہ واہ

یعنی نور والے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  جب سُواری پر تشریف فرما ہوتے اور مبارک سُواری کے قدموں سے گَرْد اور خاک اُڑتی تو سورج اور چاند دوڑ کر اس مبارک خاک کی خیرات لیتے اور اسے اپنی آنکھوں کا سُرمہ بنالیتے۔

(7)خورشید تھا کس زور پر کیا بڑھ کے چمکا تھا قمر

بے پردہ جب وہ رُخ ہوا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں

یعنی سورج اور چاند کی روشنی اگرچہ ساری دنیا کو روشن کرتی ہے لیکن جب سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا پُرنور چہرہ ظاہر ہوتا ہے تو دونوں چُھپ جاتے ہیں۔ جس طرح سورج کے سامنے چراغ کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی یونہی سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے نورانی چہرے کے سامنے سورج اور چاند کی روشنی ماند پڑجاتی ہے۔

(8)جس کو قُرصِ مِہر سمجھا ہے جہاں اے مُنْعِمو!

اُن کے خوانِ جُود سے ہے ایک نانِ سَوخْتہ

یعنی اے دنیا کے مالدارو! تم جس چیز کو سورج کی ٹِکیا کہتے ہو یہ مدینے والے مصطفےٰصلَّی  اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دستر خوان کی ایک جلی ہوئی روٹی ہے۔ جن کے دستر خوان کی جلی ہوئی روٹی سے ساری دنیا کو روشنی مل رہی ہے ان کی ذاتِ مبارکہ کے انوار و تجلیات کا اندازہ کون لگاسکتا ہے۔

(9)ذرے جھڑ کر تری پیزاروں کے تاجِ سر بنتے ہیں سیّاروں کے

یعنی اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک نعلین سے جو ذرّے جھڑتے ہیں آسمان پر چمکنے والے ستارے ان کو اپنا تاج بنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

(10)وہی تو اب تک چھلک رہا ہے وہی تو جوبَن ٹپک رہا ہے

نہانے میں جو گِرا تھا پانی کٹورے تاروں نے بھر لیے تھے

یعنی سرکارِ دوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے غسل فرمانے میں جو پانی زمین پر تشریف لایا اسے ستاروں نے اپنے دامن میں بھر لیا تھا اور آسمان پر چمکتےدمکتے ستاروں کا یہ نور اسی مبارک پانی کے طفیل ہے۔

نعت لکھنے کو احمد رضا چاہئےاے عاشقانِ اعلیٰ حضرت! امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے نعتیہ کلام کی کیا بات ہے! شعر لکھنا ایک فن ہے اور شاعر ہر دور میں بہت ہوئے ہیں لیکن شرعی اور فنّی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے نعت لکھنا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ کسی نے خوب کہا ہے:

شعر کہنا شہریار اپنی جگہ نعت کہنے کو احمد رضا چاہیے

عشقِ رسول کی دولت پانے کا ایک طریقہ امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ محمد الیاس عطّاؔر قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کلامِ امامِ اہلِ سنّت سے محبت و وارَفْتَگی مثالی ہے۔ آپ فرماتے ہیں: اگر کسی کو تھوڑی بہت سمجھ پڑتی ہو تو وہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے نعتیہ کلام ”حَدائقِ بخشش“ کو تھوڑا تھوڑا رَٹنا شروع کر دے، اِنْ شَآءَ اللہ  بہت بڑا عاشقِ رَسول بن جائے گا۔(سیرتِ اعلیٰ حضرت کی چند جھلکیاں،ص12،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

سرکارِ دوعالَم، نورِ مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان میں تحریر کردہ ایک سلام میں آپ نے کلامِ امامِ اہلِ سنّت سے متعلق اپنے جذبات کا اظہار اس شعر کے ذریعے فرمایا ہے:

سیّدی احمد رضا نے خوب لکھا ہے کلام

ان کے سارے نعتیہ اشعار پر لاکھوں سلام

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللہ علٰی محمَّد

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…کاشف شہزاد عطاری مدنی 

٭…ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی



1 ”اصفہان“ایران کا ایک خوبصورت اور تاریخی شہرہے جو فصاحت و بلاغت اور شعر و ادب کے معاملے میں مشہور تھا۔


Share

Articles

Comments


Security Code