قصیدۂ غوثیہ کے فوائد و برکات

اشعار کی تشریح

قصیدۂ غوثیہ کے فوائد و برکات

* مولانا ابو الحقائق عطّاری مدنی

ماہنامہ نومبر 2021

اللہ پاک کا اپنے مُقرَّب بندوں پر ایسا خاص کرم ہے کہ اُن کی زبان سے نکلنے والے اَلفاظ اور قلم سے ظاہر ہونے والے نُقوش میں بھی برکت رکھ دیتا ہے۔ خلقِ خُدا اُن نُفوسِ قُدسیہ کے متبرَّک کلام کو اپنا وِرد و وَظیفہ بنا کر مصائب و آلام سے خلاصی پاتی اور دَارَین (دنیا و آخرت) کی سعادتیں حاصل کرتی ہے۔ اِس مبارَک سلسلے کی ایک سنہری کَڑی غوثُ الاَغواث ، قُطبُ الاَقطاب ، غوثُ الاَعظم سیِّد شیخ عبدُالقادر جیلانی  رحمۃُ اللہ علیہ کی طرف منسوب عربی قصیدہ بنام “ قصیدۂ غوثیہ “ بھی ہے۔ اس قصیدے میں آپ  رحمۃُ اللہ علیہ  نے اپنے اُوپر ہونے والے فضلِ خُداوندی کا ذکر فرمایا ہے ، نیز تحدیثِ نعمت کے طور پر منصبِ وِلایت و معرفتِ الٰہی میں اپنے بلند مقام و اعلیٰ مرتبے سے دنیا والوں کو آگاہ فرمایا ہے۔ کثیر اَولیائے کِرام اور مشائخِ عظام نے اس مبارَک قصیدے کو بطورِ وَظیفہ اپنا کر اِس سے حاصل ہونے والے فوائد و برکات کو بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ محمد الیاس عطّاؔر قادری  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  نے بھی “ مدنی پنج سورہ “ میں “ قصیدۂ غوثیہ “ کو تحریر کرکے اِس کے دَس فوائد و برکات ذِکر فرمائے ہیں۔ اُن میں سے چند کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے :

قصیدہ غوثیہ کے فوائد و برکات :

* اس قصیدے کا پڑھنا قُربِ خُداوندی حاصل ہونے کا ذریعہ ہے * اس قصیدےکا وِرد قوّتِ حافظہ کو بڑھاتا ہے * اس قصیدے کے پڑھنے والے کو عَربی پڑھنے میں بصیرت (مہارت) حاصل ہوتی ہے * ہر مشکل اور سخت کام کے لئے 40 روز پڑھنے سے اِنْ شَآءَ اللہ کامیابی حاصل گی* ہر مرض و تکلیف سے نجات پانے کے لئے تین بار یا پانچ بار پڑھنا مُفید ہے *  تیل پر دَم کرکے آسیب زَدہ اور جِن والے مریض کے کےجسم پر مَلیں ، (آسیب یا جِن) دفع ہوگا * ظالم سےنَجات پانے کے لئے روزانہ پڑھنے سے اِنْ شَآءَ اللہ خلاصی نصیب ہوگی۔ (ماخوذ از : مدنی پنج سورہ ، ص265 ، 266)

قصیدہ غوثیہ بمع ترجمہ

(1)سَقَانِی الْحُبُّ کَاْسَاتِ الْوِصَال             فَقُلْتُ لِخَمْرَتِیْ نَحْوِیْ تَعَالِیْ

محبت نے مجھے وَصْل(قُربِ الٰہی) کے پیالے پلائے ، پس میں نے اپنے خمارِ محبت کو کہا کہ میری طرف آ

(2)سَعَتْ وَمَشَتْ لِنَحْوِیْ فِیْ کُئُوْسٍ          فَھِمْتُ بِسُکْرَتِیْ بَیْنَ الْمَوَالِیْ

پیالوں میں بھرا ہوا جامِ محبت میری طرف دوڑتا ہوا آیا ، تو میں اپنے اَحباب کی مجلس میں جامِ محبت کےخُمار سے مست ہوگیا

(3)فَقُلْتُ لِسَآئِرِ الْاَقْطَابِ لُمُّوْا         بِحَالِیْ وَادْخُلُوْا اَنْتُمْ رِجَالِی

میں نے تمام اَقطاب(اَولیا کی ایک خاص قسم) سے کہا کہ تم میرے حال کے پاس آکر ٹھہر جاؤ اور داخل ہوجاؤ کیونکہ تم میرے رفیق (ساتھی)  ہو

(4)وَھُمُّوْا وَاشْرَبُوْا اَنْتُمْ جُنُوْدِیْ              فَسَاقِی الْقَوْمِ بِالْوَافِیْ مَلَالِیْ

ہمت اور مستحکم اِرادہ کرو اور جامِ معرفت پیو کہ تم میرا لشکر ہو کیونکہ ساقیِ قوم ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) نے میرے لئے جامِ محبت کو لَبا لب بھر دیا ہے

(5)شَرِبْتُمْ فُضْلَتِیْ مِنْ بَعْدِ سُکْرِیْ            وَلَا نِلْتُمْ عُلُوِّیْ وَاتِّصَالِیْ

عشقِ حقیقی کا نشہ مجھ پر طاری ہونے کے بعد تم نے میرا بچا کُھچا جام پی لیا ، لیکن میرے بلند مرتبے اور قُرب کو نہ پاسکے

(6)مَقَامُکُمُ الْعُلٰی جَمْعًا وَّلٰکِنْ        مَقَامِیْ فَوْقَکُمْ مَّازَالَ عَالِیْ

تم سب (اَولیا) کا مقام بلند ہے ، لیکن میرا مقام تمہارے مقام سے بھی اوپر ہے میری بلندی ہمیشہ رہے گی

(7)اَنَا فِیْ حَضْرَۃِ التَّقْرِیْبِ وَحْدِیْ            یُصَرِّفُنِیْ وَحَسْبِیْ ذُوالْجَلَالٖ

میں بارگاہِ قُربِ الٰہی میں یکتا اور یگانہ ہوں ، ربِّ کریم نے مجھے بااختیار بنا دیا ہے اور عظمت و جلال والا خُدا میرے لئے کافی ہے

(8)اَنَا الْبَازِیُّ اَشْھَبُ کُلِّ شَیْخٍ                وَمَنْ ذَا فِی الرِّجَالِ اُعْطِیُ مِثَالِیْ

میں سفید باز ہوں ہر ولی پر غالب ہوں (جیسے سفید باز دیگر پرندوں پر غالب ہوتا ہے) (بتاؤ تو!) کون ہے جس کو مجھ جیسا مرتبہ عطا کیا گیا ہو

(9)کَسَانِیْ خِلْعَۃً بِطِرَازِ عَزْمٍ         وَتَوَّجَنِیْ بِتِیْجَانِ الْکَمَالٖ

رحمٰن  عَزَّوَجَلَّ نے مجھے وہ خلعت (لباسِ کرامت) پہنایا جس پر عزم اور اِرادۂ مستحکم کے بیل بوٹے تھے اور تمام کمالات کے تاج میرے سَر پر رکھے

(10)وَاَطْلَعَنِیْ عَلیٰ سِرٍّ قَدِیْمٍ         وَقَلَّدَنِیْ وَاَعْطَانِیْ سُؤَالِیْ

ربُّ العالمین نے مجھے اپنے رازِ قدیم پر مطلع (خبردار) کیا اور مجھے عزت کا ہار پہنایا اور جو کچھ میں نے مانگا مجھے عطا فرمایا

(11)وَوَلَّانِیْ عَلیَ الْاَقْطَابِ جَمْعًا            فَحُکْمِیْ نَافِذٌ فِیْ کُلِّ حَالٖ

مالکِ کائنات  عَزَّوَجَل نے مجھے تمام اَقطاب پر حاکم بنایا ہے ، پس میرا حکم ہر حال میں جاری اور نافذ ہے

(12)فَلَوْ اَلْقَیْتُ سِرِّیْ فِیْ بِحَارٍ               لَصَارَ الْکُلُّ غَوْرًا فِی الزَّوَالٖ

اگر میں اپنا راز دریاؤں پر ڈال دوں تو سارے دریاؤں کا پانی زمین میں جذب ہوجائے اور اُن کا نام ونشان تک نہ رہے

(13)وَلَوْ اَلْقَیْتُ سِرِّیْ فِیْ جِبَالٍ              لَدُکَّتْ وَاخْتَفَتْ بَیْنَ الرِّمَالٖ

اگر میں اپنا راز پہاڑوں پر ڈال دوں تو وہ ریزہ ریزہ ہوکر ریت میں مِل جائیں (کہ اُن پہاڑوں اور ریت میں بالکل فرق نہ رہے)

(14)وَلَوْ اَلْقَیْتُ سِرِّیْ فَوْقَ نَارٍ               لَخَمِدَتْ وَانْطَفَتْ مِنْ سِرِّ حَالِیْ

اگر میں اپنا راز آگ پر ڈال دوں تو وہ میرے راز سے بُجھ کر بالکل سَرد ہوجائے (اور اُس کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے)

(15)وَلَوْ اَلْقَیْتُ سِرِّیْ فَوْقَ مَیْتٍ             لَقَامَ بِقُدْرَۃِ الْمَوْلٰی تَعَالِیْ

اگر میں اپنے راز کو مُردے پر ڈال دوں تو وہ فوراً اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کھڑا ہوجائے

(16)وَمَا مِنْھَا شُھُوْرٌ اَوْ دُھُوْرٌ               تَمُرُّ وَتَنْقَضِیْ اِلَّا اَتَالِیْ

مہینے اور زمانے جو گزر تے اور ختم ہوتے ہیں ، مگر بلاشک و شبہ وہ میرے پاس حاضر ہوتے ہیں

(17)وَتُخْبِرُنِیْ بِمَا یَاْتِیْ وَیَجْرِیْ             وَتُعْلِمُنِیْ فَاَقْصِرْ عَنْ جِدَالِیْ

اور مجھ کو موجودہ اور آنے والے واقعات کی خبر اور اِطلاع دیتے ہیں (اے منکرِ کرامات!) جھگڑے سے باز آ

(18)مُرِیْدِیْ ھِمْ وَطِبْ واشْطَحْ وَغَنِّیْ               وَافْعَلْ مَاتَشَاءُ فَالْاِسْمُ عَالٖ

اے میرے مرید! عشقِ الٰہی سے سرشار ہو اور خوش رہ اور (شریعت کی حُدود میں رہتے ہوئے)

بولتا رہ اور جو تیرا دل چاہے کر کیونکہ میرا نام بزرگ ہے

(19)مُرِیْدِیْ لَاتَخَفْ اَللّٰہُ رَبِّیْ         عَطَانِیْ رِفْعَۃً نِلْتُ الْمَنَالِیْ

اے میرے مرید!اللہ کے سوا کسی سے مت ڈر ، اللہ ربُّ العزت میرا پروَرْدگار ہے

اُس نے مجھے وہ بلندی عطا فرمائی ہے کہ جس سے میں نے اپنی مطلوبہ آرزوؤں کوپالیا ہے

(20)طُبُوْلِیْ فِی السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ دُقَّتْ              وَشَاءُوْسُ السَّعَادَۃِ قَدْ بَدَالِیْ

آسمان و زمین میں میرے نام کے ڈنکے بجائے جاتے ہیں ، اور نیک بختی کے قاصد میرے لئے ظاہر ہو رہے ہیں

(21)بِلَادُ اللّٰہِ مُلْکِیْ تَحْتَ حُکْمِیْ             وَوَقْتِیْ قَبْلَ قَلْبِیْ قَدْ صَفَالِیْ

اللہ تعالیٰ کے تمام شہر(اُس کی عطا سے) میرا مُلک ہیں ، جو میرے حکم کے تابع ہیں

اور میرا وقت میرے دل سے پہلے ہی صاف تھا (یعنی میری روحانی حالت میرے جسم کے پیدا ہونے سے پہلے ہی پاکیزہ تھی)

(22)نَظَرْتُ اِلٰی بِلَادِ اللّٰہِ جَمْعًا               کَخَرْدَلَۃٍ عَلٰی حُکْمِ اتِّصَالٖ

میں نے خُدا  عَزَّوَجَلَّ  کے تمام شہروں کی طرف دیکھا تو وہ سب مِل کررائی کے دانہ کے برابر تھے

(23)دَرَسْتُ الْعِلْمَ حَتّٰی صِرْتُ قُطْبًا         وَنِلْتُ السَّعْدَ مِنْ مَّوْلَی الْمَوَالِیْ

میں (ظاہری و باطنی) علم پڑھتے پڑھتے قُطب بن گیا اور میں نے مخلص دوستوں کے آقا و مولا  عَزَّوَجَلَّ کی مدد سے سعادت کو پا لیا

(24)فَمَنْ فِیْ اَوْلِیَاءِ اللّٰہِ مِثْلِیْ         وَمَنْ فِی الْعِلْمِ وَالتَّصْرِیْفِ حَالِیْ

اَولیاءُ اللہ کے گروہ میں میری مِثل کون ہے؟ اور علم اور تدبیر کرنے میں میری برابری کون کرسکے؟

(25)رِجَالِیْ فِیْ ھَوَاجِرِھِمْ صِیَامٌ             وَفِیْ ظُلَمِ اللَّیَالِیْ کَاللَّاٰلِیْ

میرے مرید موسمِ گرما میں روزہ رکھتے ہیں اور راتوں کی تاریکی میں (عبادت کی روشنی کی وجہ سے) موتیوں کی طرح چمکتے ہیں

(26)وَکُلُّ وَلِیٍّ لَّہٗ قَدَمٌ وَّاِنِّیْ          عَلٰی قَدَمِ النَّبِیِّ بَدْرِ الْکَمَالٖ

ہر ولی کسی نبی کے قدم پر ہوتا ہےاور میں نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قدم مبارَک پر ہوں جو (آسمانِ رسالت کے) بدرِ کمال ہیں

(27)نَبِیٌّ ھَاشِمِیٌّ مَکِّیٌّ حِجَازِیٌّ              ھُوَ جَدِّیْ بِہٖ نِلْتُ الْمَوَالِیْ

وہ نبیِّ مکرَّم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہاشمی ، مکّی اور حجازی میرے جدِّ پاک ہیں ، اِنہیں کی وِساطت(وسیلے) سے میں نے مخلص دوستوں کو پایا

(28)مُرِیْدِیْ لَاتَخَفْ وَاشٍ فَاِنِّیْ              عَزُوْمٌ قَاتِلٌ عِنْدَ الْقِتَالٖ

اے میرے مرید! تو کسی چغل خور سے مت ڈر ، کیونکہ میں جنگ میں ثابت قدم اور قاتلِ اعداء (دشمنانِ خُدا کو مارنے والا) ہوں

(29)اَنَا الْجِیْلِیُّ مُحِیُّ الدِّیْنِ لَقَبِیْ             وَاَعْلَامِیْ عَلٰی رَاْسِ الْجِبَالٖ

میں جیلان کا رہنے والا ہوں اور محیُ الدین میرا لقب ہے اور میری بزرگی کے جھنڈے پہاڑوں کی چوٹیوں پر لہرا رہے ہیں

(30)اَنَا الْحَسَنِیُّ وَالْمُخْدَعُ مَقَامِیْ            وَاَقْدَامِیْ عَلٰی عُنُقِ الرِّجَالٖ

میں حضرت امام حسن مجتبیٰ  رضی اللہُ عنہ کی اَولاد سے ہوں اور میرا رُتبہ مُخْدَعْ (یعنی ایک خاص مقامِ وِلایت) ہے ، اور میرے قدم اَولیا کی گردنوں پر ہیں

(31)وَعَبْدُ الْقَادِرِ الْمَشْھَوْرُ اِسْمِیْ            وَجَدِّیْ صَاحِبُ الْعَیْنِ الْکَمَالٖ

اور عبدالقادر میرا مشہور و معروف نام ہے اور میرے نانا جان  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم چشمۂ کمال کے مالک ہیں

(32)تَقَبَّلْنِیْ وَلَا تَرْدُدْ سُؤَالِیْ          اَغِثْنِیْ سَیِّدِیْ اُنْظُرْ بِحَالِیْ

مجھے منظور فرمائیے اور میرا سوال رَد نہ کیجئے ، میری فریادرَسی کیجئے ، میرے آقا! میراحال ملاحظہ فرمائیے۔

اللہ پاک ہمیں بھی قصیدۂ غوثیہ کی برکتوں سے مالا مال فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* مدرس جامعۃ المدینہ فیضان اولیا ، کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code