”قَبالۂ بخشش“سے منقبت کے دو اشعار

ماہِ فاخر ربیعُ الآخر کی گیارہ تاریخ  کو حضور سیّدنا غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کا عرس مبارک عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے جسے عوامی زبان میں” گیارھویں شریف“ بھی کہتے ہیں۔ اس مناسبت سے خلیفۂ اعلیٰ حضرت، مدّاحُ الحبیب مولانا جمیل الرحمٰن قادری رضوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کے نعتیہ دیوان ”قَبالۂ بخشش“سے منقبت کے دو اشعار مع شرح پیشِ خدمت ہیں:

مُرِیْدِیْ لَا تَخَفْ کہہ کر تسلی دی غلاموں کو

قیامت تک رہے بے خوف بندہ غوثِ اعظم کا

                             (قبالۂ بخشش، ص52)

الفاظ و معانی: مُرِیْدِیْ لَا تَخَفْ:اے میرے مرید!خوف نہ کر۔ بندہ:غلام۔

شرح:حضور سیّدنا غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے غلاموں کو خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ کا فرمان ہے:

مُرِیْدِیْ لَاتَخَفْ اَللہُ رَبِّیْ

عَطَانِیْ رِفْعَۃً نِلْتُ الْمَنَالِیْ

                                      (قصیدہ ٔ غوثیہ ،مدنی پنج سورہ،ص264)

میرےمرید! خوف نہ کر، اللہ میرا رب ہے، اس نے مجھے ایسی بلندی عطا  فرمائی کہ میں اپنے مقاصد کو پہنچ گیا۔

شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت حضرت علامہ مولانا محمدالیاس عطّاؔرقادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے بھی اپنے ایک شعر میں اس مبارک فرمان کی طرف اشارہ فرمایا ہے:

لَا تَخَفْ حشر میں کہتے ہوئے آجانا تم

جیسے دنیا میں یہ ارشاد سنایا یاغوث

                                      (وسائلِ بخشش مرمّم، ص541)

شفا پاتے ہیں صَد ہا جاں بَلَب اَمراضِ مُہلِک سے

عَجَب دارُالشِّفاء ہے آستانہ غوثِ اعظم کا

                             (قبالۂ بخشش، ص52)

الفاظ و معانی: صدہا:سینکڑوں۔ جاں بَلَب:مرنے کے قریب۔ اَمراضِ مُہلِک:ہلاک کرنے والی بیماریاں۔ دارُالشِّفاء:شِفا خانہ۔

شرح:حضور سیّدنا غوثِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم کا آستانۂ عالیہ ایک ایسا شِفا خانہ ہےجس کی برکت سے سینکڑوں ہزاروں بیماروں کو شِفا حاصل ہوتی ہے جن میں قریبُ الموت (مرنے کے قریب) لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔

ایک بار بغدادِ مُعلّیٰ میں طاعون (Plague) کی بیماری پھیل گئی اور لوگ دھڑا دھڑ مرنے لگے۔ لوگوں نے سرکارِ بغداد حضورسیّدنا غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں اس مصیبت سے نجات دلانے کی درخواست پیش کی۔ ارشاد فرمایا: ہمارے مدرسے کے اِرد گِرد جو گھاس ہے وہ کھاؤ اور ہمارے مدرسے کے کنوئیں کا پانی پیو، جو ایسا کرے گا وہ ہر مرض سے شفا پائے گا۔ چنانچہ گھاس اور کنوئیں کے پانی سے شِفا ملنی شروع ہوگئی یہاں تک کہ بغداد شریف سے طاعون ایسا بھاگا کہ پھر کبھی پلٹ کر نہ آیا۔(تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادر مترجم،ص105 ملخصاً، منے کی لاش، ص7)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ماہنامہ  فیضان مدینہ، باب المدینہ کرچی

 


Share

Articles

Comments


Security Code