مولیٰ علی نے واری تِری نیند پر نماز

مولیٰ علی نے واری تِیری نیند پر نماز            اور وہ بھی عَصْر سب سے جو اعلیٰ خَطَر کی ہے

صِدّیق بلکہ غار میں جان اس پہ دے چکے        اور حفظِ جاں تو جان فُروضِ غُرَرکی ہے

ہاں تو نے اِن کو جان اُنھیں پھیر دی نماز       پر وہ تو کر چکے تھے جو کرنی بشر کی ہے

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فُروع ہیں                   اَصْلُ الْاُصُول  بَنْدَگی اُس تاجْوَر کی ہے

الفاظ و معانی وَارِی:قُربان کی۔خَطَر:(مرادی معنیٰ) شَرَف۔ غُرَر:اَغَر کی جمع،سب سے روشن۔جو کرنی بشر کی ہے: جو انسان کے بس میں ہے۔فُروع:شاخیں۔اَصْلُ الْاُصُول: (مراد ی معنیٰ) سب سےاہم اوربنیادی فرض۔ بَنْدَگی:غلامی۔تاجْوَر: بادشاہ ۔

مولیٰ علی نے واری تِری نیند پر نماز ایک مرتبہ سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نمازِ ظہر ادا فرماکر حضرتِ سیّدنا علی المرتضیٰ   کَرَّمَ اللہ تعالٰی وجہَہُ الکریمکو کسی کام سے روانہ فرمایا۔ جب سرکارِمدینہ، راحت قلب و سینہ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نما زِ عصر  ادا  فرماچکے تو اب  حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی واپسی ہوئی اور حضور  صلَّی اللہ  تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کے زانو پر سَر مبارک رکھ کر آرام فرمانے لگے۔ (اللہ کے حبیب صلَّی اللہ  تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نیند کی خاطر آپ نے نمازِ عصر نہ پڑھی)یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔(معجم الکبیر،ج24،ص145،حدیث:382ملخصاً)

اور وہ بھی عَصْر سب سے جو اعلیٰ خَطَر کی ہے  اللہ پاک کا فرمانِ عالیشان ہے: حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى ترجمۂ کنزُالعِرفان: تمام نمازوں کی پابندی کرو اور خُصوصاً درمیانی نماز کی۔ (پ2، البقرۃ:238)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) درمیانی نماز کی بالخصوص تاکید کی گئی  جس سے مراد نمازِ عصر ہے۔(صراط الجنان،ج1،ص363)

صِدّیق بلکہ غار میں جان اس پہ دے چکے حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ جب اللہ کے حبیب  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہمراہ غارِ ثَور کے قریب پہنچے تو پہلےاندر جاکر صفائی کی اور تمام سوراخوں  کو بند کیا۔ آخِری دو سوراخ بند کرنے کے لئے کوئی چیز نہ ملی تو اپنے مبارَک پاؤں  ان  پر رکھ دئیے۔اب رسولِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم غار میں تشریف لائے اور صِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہکے زانو پر سرِ انور رکھ کر سو گئے۔ایک  سوراخ میں سے (سانپ نے) آپ  کے پاؤں  میں  ڈس لیا مگر سرکارِ نامدار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آرام میں  خلَل آنے کے خوف سے آپ نےکوئی حرکت نہ فرمائی۔(مشکوٰۃ  المصابیح،ج4،ص417، حدیث :6034 ملخصاً)

اور حفظِ جاں تو جان فُروضِ غُرَر کی ہےاپنی جان کی حفاظت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے،خود کشی وغیرہ کے ذریعے  اپنی جان کو ہلاک کرنا جائز نہیں۔”ہر وہ چیز جو ہلاکت کا باعِث ہو اس سے باز رہنے کا حکم ہے حتّٰی کہ بے ہتھیارمیدانِ جنگ میں جانا یا زہر کھانایا کسی طرح خُود کشی کرناسب حرام ہے“۔ (صراط الجنان،ج 1،ص310بتغیر)(جان کی حفاظت کرنے کی اس قدر اہمیت ہے کہ حالتِ اضطرار میں) جان بچانے کیلئے حرام چیز کا بقدرِ ضَرورت کھانا نہ صرف جائز بلکہ فَرْض ہے۔(صراط الجنان،ج 1،ص275)

اعلیٰ حضرترحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:جان کا رکھنا سب سے زیادہ اہم فرض ہے۔(فتاویٰ رضویہ،ج29،ص370)

ہاں تو نے اِن کو جان اُنھیں پھیر دی نماز حضورِ انور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دعا فرمائی توسورج پلٹ آیا اور حضرتِ سیّدنا علیُّ الْمرتضیٰ   کَرَّمَ اللہ تعالٰی وجہَہُ الکریم نے نمازِ عصر ادا  فرمائی۔ (معجم الکبیر،ج24،ص145، حدیث:382ملخصاً)(ادھر غارِثورمیں سانپ کے ڈسنے کے بعدشدّتِ تکلیف کی وجہ سے)حضرتِ سیّدناصدّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی آنکھوں  سے آنسو  نکل کر محبوب ِکریم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ   وَالتَّسْلِیْم کے مبارک چہرے  پر نچھاور ہوئے ۔ پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیدار ہوگئے اور ڈسے ہوئے حصّے پر اپنالُعابِِ دَہَن (یعنی تھوک شریف) لگایا تو فوراً آرام مل گیا۔(مشکوٰۃ  المصابیح،ج4،ص417، حدیث :6034 ملخصاً)

پر وہ تو کرچکے تھے جو کرنی بشر کی ہے ایک انسان  زیادہ سے زیادہ جو کرسکتا ہے وہ ان دونوں حضرات نے کردکھایا یعنی تعظیمِ مصطفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خاطرحضرتِ سیّدنا  علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تعالٰی وجہَہُ الکریم نےنمازِ عصر اور حضرتِ سیِّدُنا صدّیقِ اکبررضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی جان قربان کردی۔

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فُروع ہیں ان دونوں نفوسِ قدسیہ کے اس طرزِ عمل سے یہ بات ثابت ہوئی  کہ دینِ اسلام کے دیگر فرائض ثانوی (Secondary) حیثیت کے حامل ہیں۔

اَصْلُ الْاُصُولبَنْدَگی اُس تاجْوَرکی ہےصدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: حضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم یعنی اعتقادِ عظمت جزو ِایمان و رکنِ ایمان ہے اور فعلِ تعظیم بعدِایمان ہرفرض سےمُقدّم ہے۔(بہار شریعت،ج1،ص74)

نمازِ عصر کو چھوڑا تمہاری نیند کی خاطر

علی بھی کس قدر ہیں تم پہ قرباں یارسولَ اللہ

تَصَدُّق حضرتِ صدّیق غارِ ثور میں اپنی

تِرے آرام کی خاطر کریں جاں یارسولَ اللہ

ملی صدّیق کو جاں اور نمازِ عصر حیدر کو

ترے صدقے اگرچہ اے مِری جاں یارسولَ اللہ

مگر ان کے عمل سے یہ عقیدہ ہوگیا ثابت

تمہیں ہو اصل ِایماں ،جانِ ایماں یارسولَ اللہ

رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےتربیت فرمائی

حضور سیّدِعالم، شفیعِ معظّم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حضرت سیّدنَا امیر معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کچھ  لکھ رہے تھے۔ سرکارِ نامدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے ارشاد فرمایا: دوات میں صُوف([1]) ڈالو، قلم پر تِرچھا قَط لگاؤ، بسم ﷲ کی ب کھڑی لکھو،سین کے دندانےجدا رکھو ، اور میم اندھا نہ کرو(یعنی میم کا دائرہ کھلا رکھو)، لفظ اﷲ خوبصورت لکھو، لفظ رحمٰن  کو لمبا اور اورلفظ رحیم  کو عمدہ لکھو ۔(الشفا بتعریف حقوق المصطفٰی، جزء1، ص357)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ماہنامہ فیضان مدینہ،باب المدینہ کراچی



[1] ۔۔۔ وہ کپڑا جو دوات میں سیاہی کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔


Share

Articles

Comments


Security Code