قبرستان کی حاضری

فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ

كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِفَزُوُرُوْهَافَإِنَّهَاتُزَهِّدُفِي الدُّنْيَا وَتُذَكِّرُ الْآخِرَةَ  میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا ،اب ان کی زیارت کیا کرو کیونکہ اس سے دنیا میں بے رغبتی اور آخرت کی یاد پیدا ہوتی ہے۔(ابن ماجہ،ج2، ص252،حدیث:1571)اس حدیثِ پاک کے تحت حضرت علامہ عبد الرؤف مَناوِی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں:جس  شخص کا دل سخت ہوگیا ہو زیارتِ قبور اس کے لئے ایک عمدہ دوا ہے۔(فیض القدیر،ج5، ص71)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!قبرستان میں حاضر ہوکر فاتحہ وغیرہ پڑھنا ایک ایسی نیکی ہے  جو اگرچہ نفس پر کچھ گِراں گزرتی ہے لیکن اس کے لئے کوئی خاص مشقت نہیں اٹھانی پڑتی۔ دیگر مواقع کےعلاوہ شبِ براءت میں قبرستان جانا بھی سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ سے ثابت ہے (ترمذی،ج2، ص183، حدیث:739) اورہمارے یہاں بھی عموماً شبِ براءت میں قبرستان کی حاضری کا رواج ہے۔یہ ایک اچھا عمل ہےلیکن اسے صرف شبِِ براءت تک محدود نہ کیاجائے بلکہ عام دنوں اور  بالخصوص روزِ جمعہ قبرستان کی حاضری کواپنا معمول بنانا چاہیے۔ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی برکت سے دل گناہوں سے اچاٹ ہوگا اور فکرِ قبر و آخرت پیدا ہوگی۔

مزارات کی زیارت

سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ شہدائےاحد کی مبارک قبروں کی زیارت کو تشریف لے جاتے اور ان کے لئےسلام فرماتے:سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ (تم پر سلامتی ہو کیونکہ تم نے صبرکیا  تو آخرت کا اچھا انجام کیا ہی خوب ہے) حضراتِ ابوبکر و عمر اور عثمانِ غنیرِضْوَانُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن   کا بھی یہی معمول تھا۔(درِ منثور،ج4، ص640)

سب قبر والوں کو سِفارِشی بنانے کا عمل

مدینے کے سلطان صلَّی  اللہُ تعالیٰ عَلیہ واٰلہ وسلَّم کافرمانِ شَفاعَت نشان ہے: جو شخص قبرِستان میں جاکرسُورۂ فاتِحہ،سورہ ٔ اِخلاص اورسورۂ تکاثُر پڑھے،پھر یہ کہے: اے اللہ!میں نے جو کچھ قراٰن پڑھا اس کا ثواب اِس قبرِستان کے مومِن مَردوں اور عورَتوں کو پہنچا تو وہ سب (قِیامت کے دن) اِس (ایصالِ ثواب کرنے والے) کی شفاعت کریں گے۔(شَرْحُ الصُّدُور، ص311)

قُبُورِ والدین کی زیارت کی فضیلت

سرکارِ نامدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ مشکبار ہے: جوشخص ہر جُمُعَہ کو اپنے والدین یا ان میں سے ایک کی قبرکی زیارت کرے، اُس کی مغفرت کردی جائے گی اور اُسے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرنے والا لکھ دیا جائےگا۔ (شعب الایمان،ج6، ص201، حدیث:7901) یہاں جُمُعَہ سے مرادیا تو جُمُعَہ کا دن ہے یا پورا ہفتہ، بہتر ہے کہ ہر جُمُعَہ کے دن والدین کی قُبُورکی زیارت کیا کرے،اگر وہاں حاضری میسر نہ ہوتوہرجُمُعَہ کوان کے لئےایصالِ ثواب کیا کرے۔(مراٰۃ المناجیح،ج2،ص526)

قبرستان کی حاضری کے آداب

مزارشریف یا قَبْر کی زیارت کیلئے جاتے ہوئے راستے میں فُضُول باتوں میں مشغول نہ  ہوں ٭قبرستان جاکر اس طرح سلام کریں: اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِیَغْفِرُ اللہُ لَنَا وَلَکُمْ اَنْتُمْ سَلَفُنَاوَنَحْنُ بِالْاَثَر اے قبْر والو! تم پر سلام ہو، اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے، تم ہم سے پہلے آگئے اور ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں۔( تِرمِذی ،ج2، ص329، حدیث:1055) ٭قَبْرکو بوسہ نہ دیں، نہ قَبْر پر ہاتھ لگائیں بلکہ قَبْرسے کچھ فاصلے پر کھڑے ہو جائیں ٭قَبْرپرپاؤں رکھنے یاسونے سے قَبْر والے کو اِیذا ہوتی ہے لہٰذا کسی مسلمان کی قَبْر پر پاؤں رکھنے،روندنے، قَبْر پر بیٹھے اور  ٹیک لگانے سے بچیں۔یاد رکھئے!دوسری قبروں پر پاؤں رکھے بغیر ماں باپ وغیرہ کی قبروں تک نہ جاسکتے ہوں تو دور ہی سے فاتحہ پڑھنا ہوگا، مسلمان کی قبر پر پاؤں رکھنا حرام ہے۔ ٭قَبْر کے اوپر اگربتّی نہ جلائیں کہ  بے اَدَبی ہے اور اس سے میِّت کو تکلیف ہوتی ہے بلکہ قَبْر کے پاس خالی جگہ ہوتو وہاں رکھ سکتے ہیں،جبکہ وہ خالی جگہ ایسی نہ ہو کہ جہاں پہلے قَبْر تھی اب مِٹ چکی ہے۔(ملخص از قبروالوں کی 25حکایات)

قبرستان کی حاضری کے مزید فضائل اور آداب وغیرہ جاننے کے لئے امیرِاہلِ سنتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے رسالے قبروالوں کی 25 حکایات“  کامطالعہ فرمائیے۔


Share