تاج الشریعہ ہم میں نہ رہے!/حضرت علامہ الحاج مفتی محمد اختر رضا خان ازہری علیہ رحمۃ اللہ القَوی

(1) بروز قیامت سب سے پہلے کلام کرنے والا عضو

تَجِيئُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى أَفْوَاهِكُمُ الْفِدَامُ، وَإِنَّ أَوَّلَ مَا يَتَكَلَّمُ مِنَ الْآدَمِيِّ فَخِذُهُ وَكَفُّهُ

تم بروزِ قیامت اس حال میں آؤگے کہ تمہارے منہ بند ہوں گے اور سب سے پہلے آدمی کی ران اور ہتھیلی کلام کریں گے۔ (مسند احمد،ج7،ص236، حدیث:20046)

(2)حقوق اللہ میں سب سےپہلےکس چیز کاحساب ہوگا؟

أَوَّلُ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَلَاتُهُ

قیامت کےدن (عبادات میں) سب سےپہلےبندے کی نماز کا حساب لیاجائےگا۔

(ابن ماجہ،ج 2،ص183،حدیث:1426، مراٰۃ المناجیح،ج 2،ص306)

(3)حقوق العبادمیں سب سےپہلےکس چیز کافیصلہ ہوگاَ؟

أَوَّلُ مَا يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِِ بِالدِّمَاءِ

لوگوں کےدرمیان (معاملات میں) سب سےپہلے خونِ(ناحق) کا فیصلہ ہوگا۔

(بخاری،ج4،ص256،حدیث:6533، مراٰۃ المناجیح،ج 2،ص306)

(4) سیدھے ہاتھ میں سب سے پہلے نامہ اعمال کسے ملے گا؟

أوَّلُ مَن يُّعْطٰى كتَابُہُ بِيَمِيْنِهٖ، أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الأَسدِ

سب سے پہلےنامہ اعمال جس کےسیدھے ہاتھ میں دیا جائےگا وہ (حضرت )ابو سلمہ بن عبدالاسد(رضی اللہ تعالٰی عنہ) ہیں۔ (الاوائل للطبرانی، ص 112)

(5)قیامت کےدن سب سےپہلےآگ کا لباس کس کو پہنایاجائےگا؟

أَوَّلُ مَنْ يُكْسٰى حُلَّةً مِنَ النَّارِ إِبْلِيسُ

آگ کا لباس سب سےپہلےابلیس کو پہنایا جائےگا۔

(مسند احمد،ج4،ص308، حدیث: 12561)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ماہنامہ فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی 


Share

تاج الشریعہ ہم میں نہ رہے!/حضرت علامہ الحاج مفتی محمد اختر رضا خان ازہری علیہ رحمۃ اللہ القَوی

وارثِ علو مِ اعلیٰ حضرت، جانشینِ حضور مفتیِ اعظم ہند، قاضیُ القضاۃ، تاجُ الشریعہ حضرت علامہ الحاج مفتی محمد اختر رضا خان ازہری علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت باسعادت 24ذوالقعدۃ الحرام 1362ھ کو ہند کے شہر بریلی شریف(یوپی) کے محلہ سودا گران میں ہوئی۔

شجرۂ نسب اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن تک آپ کا شجرۂ نسب یوں ہے: محمد اختر رضا بن محمد ابراہیم رضا بن محمد حامد رضا بن امام احمد رضا رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین۔

تعلیم و تربیت حضور تاجُ الشریعہ علیہ الرَّحمہ کی عمر شریف جب 4سال، 4ماہ، 4دن کی ہوئی تو آپ کے والدِ ماجد ،خلیفۂ اعلیٰ حضرت، مفسرِ اعظم ہندحضرت مولانا محمد ابراہیم رضا خان علیہ الرَّحمہ نے بِسْمِ اللّٰہ خوانی کی تقریب منعقد کی، حضور مفتیِ اعظم ہند نے رسمِ بِسْمِ اللّٰہ ادا کروائی۔آپ نے ناظرہ قراٰنِ پاک اپنی والدۂ ماجدہ شہزادیِ مفتیِ اعظم ہند سے گھر پرہی ختم کیا۔ والدِ ماجد سے اردو کی ابتدائی کتب پڑھیں، اس کے بعد دارُالعلوم منظرِ اسلامبریلی شریف سے درسِ نظامی مکمل کیا اور 1963ء میں جامعۃُ الازہر قاہرہ مصر تشریف لے گئے، جہاں مسلسل 3سال فنِ تفسیر و حدیث کے ماہر اساتذہ سے اکتسابِ علم کیا۔ 1966ء میں جامعۃ الازہرسے فارغ ہوئے اور اوّل پوزیشن حاصل کرنے پر ”جامعہ ازہر ایوارڈ“ سے نوازے گئے۔([1])

درس و تدریس اور فتویٰ نویسی حضور تاجُ الشریعہ نے تدریس کی ابتدا دارُالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف سے 1967ء میں کی، 1978ء میں دارُ العلوم کے صدرُالمدرسین اور رضوی دارُالافتاء کے صدر مفتی کے عہدے پر فائز ہوئے، تدریس کا سلسلہ 12سال تک جاری رہا جس کے بعد کثیر مصروفیات کے باعث باقاعدہ تدریس نہ فرماسکے۔([2]) جبکہ افتاء کی مصروفیات کا سلسلہ 1967 سے حیاتِ مبارکہ کے آخری ایّام تک جاری رہا۔

بیعت و خلافت آپ کو بچپن ہی میں حضور مفتیِ اعظم ہند مصطفےٰ رضا خان علیہ رحمۃ الحنَّان نے شرفِ بیعت عطا فرما دیا اور 19سال کی عمر میں تمام سلاسل کی خلافت و اجازت سے نوازا جبکہ تلمیذ وخلیفۂ اعلیٰ حضرت علامہ مفتی محمد برہان الحق جبل پوری، سیّدالعلماء حضرت سیّد شاہ آلِ مصطفےٰ برکاتی مارہروی، احسن العلماء حضرت سیّد شاہ مصطفی حیدرحسن میاں برکاتی اور والدِماجد حضرت مولانامحمد ابراہیم رضا خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم سےبھی تمام سلسلوں کی اجازت و خلافت حاصل تھی۔([3])

تصانیف حضور تاجُ الشریعہ نے تحریر کے میدان میں مختلف علوم و فنون پرعربی اور اردو میں 65سے زائد کتب تحریر فرمائی ہیں جن میں سے چند کے نام یہ ہیں:٭ہجرتِ رسول ٭آثارِ قیامت ٭الحق المبین(عربی و اردو) ٭سفینۂ بخشش (نعتیہ دیوان) ٭فتاویٰ تاجُ الشریعہ ٭الصحابۃ نجوم الاھتداء ٭الفردہ شرح القصیدۃ البردہوصال علم و ادب کا یہ روشن و تابناک آفتاب 6 ذوالقعدۃ الحرام 1439ھ بمطابق 20جولائی 2018ء بروز جمعۃ المبارک مغرب کے وقت غروب ہوگیا۔ شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت، حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے حضور تاجُ الشریعہ کے وصال کی خبر ملنے پر ان کے بھائی حضرت مولانا منّان رضا خان المعروف منّانی میاں، آل اولاد، تمام مریدین اور معتقدین سے تعزیت کی نیز 21 جولائی 2018ء کو دنیا بھر میں دعوتِ اسلامی کے جامعاتُ المدینہ اور مدارسُ المدینہ میں حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے ایصالِ ثواب کے سلسلے میں قراٰن خوانی کا اہتمام کیا گیا۔

اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ماہنامہ فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی



[1] مفتیِ اعظم ہند اور ان کے خلفاء،ج1،ص149،145ماخوذاً

[2] ایضاً،ج1،ص150، 151 ماخوذاً

[3] ایضاً،ج 1،ص160، 163 ماخوذاً


Share

تاج الشریعہ ہم میں نہ رہے!/حضرت علامہ الحاج مفتی محمد اختر رضا خان ازہری علیہ رحمۃ اللہ القَوی

محرمُ الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینا ہے۔ اس میں جن صحابۂ کرام، اَولیائے عظام اور علمائے اسلام کا وصال یا عرس ہے، ان میں سے 23کا مختصر ذکر ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ محرمُ الحرام 1439ھ کے شمارے میں کیا گیا تھا۔([1])مزید کا تعارف ملاحظہ فرمائیے: صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان (1)امیرُالمؤمنین حضرت سیّدنا ابوحفص عمر فاروقِ اعظم عِدَوِی قرشی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ولادت واقعۂ فیل کے 13سال بعد مکۂ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ دورِ جاہلیت میں علمِ انساب، گھڑ سواری، پہلوانی اور لکھنے پڑھنے میں ماہر اور قریش کے سردار و سفیر تھے، اعلانِ نبوت کے چھٹے سال مسلمان ہوئے۔ آپ جلیلُ القدر صحابی، دینِ اسلام کی مؤثر شخصیت، قاضیِ مدینہ، قوی و امین، مبلغ عظیم، خلیفۂ ثانی، پیکرِ زہد و تقویٰ، عدل و انصاف میں ضربُ المثل اور عظیم منتظم و مدبر تھے۔ آپ کے ساڑھے 10سالہ دورِخلافت میں اسلامی حدود تقریباً سوا 22 لاکھ مربع میل تک پھیل گئیں۔ آپ نے یکم محرم 24ھ کو مدینہ شریف میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔([2]) (تاریخ الخلفاء، ص 86تا117، العبر فی خبر من غبر،ج 1،ص20)(2)مجاہدِاسلام حضرت سلمہ بن ہشام مخزومی قرشی رضی اللہ تعالٰی عنہ قدیمُ الاسلام، مہاجرِ حبشہ و مدینہ اور بزرگ صحابی تھے۔ آپ محرمُ الحرام 14ھ کو واقعۂ مَرْجُ الصُّفَّر (شام) میں درجۂ شہادت پر فائز ہوئے۔(الطبقات الکبریٰ لابنِ سعد، 4،ص96تا98) اولیائے کرام رحمہمُ اللہ السَّلام (3)غازیِ اسلام، قمرِ بنی ہاشم، برادرِ امام حسین، علم دارِ اہلِ بیت حضرت سیّدنا عباس بن علی ہاشمی قرشی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہماکی پیدائش 26ھ کو مدینۂ منورہ میں اور شہادت 10محرمُ الحرام61ھ کو کربلا میں ہوئی، آپ حسنِ ظاہری و باطنی کے مالک، غریبوں اور لاچاروں کی مدد کرنے والے، علم و عمل کے جامع اور بہادری و شجاعت کے پیکر تھے۔ آپ کا مزار کربلا میں امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مزار سے شمال مشرق کی جانب زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔ (تاریخِ طبری،ج 5،ص413،412) (4)سجادِ اُمّت، حضرت سیّدنا امام زینُ العابدین ابوالحسن علی اوسط ہاشمی قرشی علیہ رحمۃ اللہ القَوی شعبان 38ھ کو مدینۂ منورہ میں پیدا ہوئے اور محرمُ الحرام 94ھ میں وصال فرمایا۔ آپ کا مزار جنتُ البقیع میں حضرت سیّدنا امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پہلو میں ہے۔ آپ عظیمُ المناقب تابعی، محدث، فقیہ، عابد، سخی، صاحبِ زہد و تقویٰ، جلیلُ القدر، عالی مرتبت اور سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ عطاریہ کے چوتھے شیخِ طریقت ہیں۔(وفیات الاعیان،ج 2،ص127، شرح شجرۂ قادریہ، ص51،54)

(5)مرشدِغوثِ اعظم، حضرت سیّدنا شیخ ابوسعید مبارک مخزومی حنبلی علیہ رحمۃ اللہ القَوی، فقیہ، صوفی،قاضیِ بغداد اور مدرسہ بابُ الازج کے بانی تھے، بغداد شریف میں پیدا ہوئے اور یہیں 12محرمُ الحرام 513ھ میں وصال ہوا، باب حرم میں دفن کئے گئے۔(شذرات الذہب،ج 4،ص179، شریف التواریخ،ج 1،ص13) (6)جدِّامجد خاندانِ گیلانیہ فی الہند حضرت سیّد محمد غوث بندگی گیلانی اوچی قادری علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادتِ باسعادت 833ھ میں حلب شام میں ہوئی۔ آپ ولیِ کامل، جامع علومِ عقلیہ و نقلیہ، صاحبِ زہد و تقویٰ اور فخرِخاندانِ قادریہ تھے، حاکمِ سندھ اور شاہِ ہند آپ کے عقیدت مند تھے۔ وصال 7 محرمُ الحرام 922ھ میں فرمایا، آپ کا مزارِ پُر انوار اُوچ شریف (ضلع بہاولپور جنوبی پنجاب پاکستان) میں مرجعِ خلائق ہے۔(خزینۃ الاصفیاء،ج1،ص189، اقوامِ پاکستان، ص304) (7)ولیِ شہیر حضرت بابا فرید الدین مسعود گنجِ شکر فاروقی چشتی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت مدینۃ الاولیاء ملتان کے قصبہ کوٹھے وال میں 569ھ کو ہوئی اور 5محرمُ الحرام 664ھ میں وصال فرمایا۔آپ کا مزار پاک پتن شریف پنجاب (پاکستان) میں مشہور اور زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔ آپ عالمِ باعمل، ولیِ کامل، سلسلہ نظامیہ اور سلسلہ صابریہ کے جدِّامجد ہیں۔ راحت القلوب اور اسرار الاولیاء آپ کے ملفوظات کا مجموعہ ہے۔ (مرآۃ الاسرار، ص771،فیضان بابا فریدگنج شکر،ص2،96) (8)قطبُ العارفین، شیخُ الاسلام، امامُ المجاہدین حضرتِ سوات، سیدو بابا عبدالغفور اَخُونْد قادری علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1184ھ کو موضع جبڑی سوات میں اور وصال 7محرمُ الحرام 1295ھ کو سیدو شریف سوات خیبر پختونخواہ پاکستان میں ہوا۔ آپ سلسلہ قادریہ کے عظیم شیخِ طریقت، ہر دلعزیز شخصیت اور شیخُ المشائخ ہیں۔ (تذکرہ اکابرِ اہلِ سنت، ص246، اردو دائرۂ معارفِ اسلامیہ،ج 2،ص216) علمائے اسلام رحمہمُ اللہ السَّلام (9) شاگردِامام محمد، حضرت سیّدنا ابوحفص کبیر احمد بن حفص بخاری حنفی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 150ھ کو بخارا ازبکستان میں ہوئی اور یہیں ماہِ محرمُ الحرام 217ھ کو وصال فرمایا۔ آپ فقیہِ مشرق، مجتہدِ عصر، مجدِّدِزمانہ، مصنفِ کتب اور شیخُ الشیوخ تھے۔(حدائق الحنفیہ، ص140، الفوائد البہیہ فی تراجم الحنفیہ،ص24، سير اعلام النبلاء،ج 8،ص458،457) (10)تلمیذِامام محمد، حضرت سیّدنا ابو موسیٰ عیسیٰ بن ابان بصری حنفی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت دوسری سنِ ہجری کے وسط میں عراق میں ہوئی۔ ماہِ محرمُ الحرام 221ھ کو بصرہ عراق میں وصال فرمایا۔ آپ فقیہِ وقت، محدثِ زمانہ، ماہرِ علمِ فلکیات و حساب، قاضیِ بصرہ اور مصنفِ کتب تھے۔(تاریخِ بغداد،ج 11،ص158تا160، سير اعلام النبلاء،ج 9،ص152، تاریخِ اسلام للذھبی،ج 16،ص651) (11)محدثِ شہیر حافظ ابونعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کی ولادت 336ھ کو اَصبہان (ایران) میں ہوئی اور یہیں 20محرمُ الحرام 430ھ میں وصال فرمایا۔ آپ امامِ جلیل، صوفیِ کبیر، مؤرخِ اسلام، تاجُ المحدثین، شیخُ الاسلام اور مصنفِ کتب ہیں۔ 50کتب میں حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء زیادہ مشہور ہے۔ (حلیۃ الاولیاء، مقدمہ،ج 1،ص6تا15، اللہ والوں کی باتیں، ص 34تا 37) (12)شمسُ الائمہ حضرت امام محمد بن عبدُالستار کردری عمادی حنفی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 559ھ براقین (مضافات کردر شہر، نزد جرجانیہ) خوارزم میں ہوئی۔ 9محرمُ الحرام 642ھ کو وصال فرمایا، مزار مبارک بخارا (ازبکستان) میں امام ابومحمد عبداللہ بن محمد بن یعقوب حارثی محدثِ بخاری کے ساتھ ہے۔ استاذُ الائمہ، محیِ اصولِ فقہ، مجددِعلمِ اصول و فروع اور فقیہِ مشرق ہیں۔(تاریخ الاسلام للذہبی،ج 47،ص138، حدائق الحنفیہ، ص279) (13)مشہور عاشقِ رسول حضرت مولانا نورُالدّین عبدالرحمٰن جامی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِی کی ولادت 817ھ ہرات کے علاقہ جام (صوبہ غور) افغانستان میں ہوئی اور وصال 18محرمُ الحرام 898ھ میں ہوا۔آپ کا مزار مبارک ہرات (افغانستان) میں قبولیت دعا کا مقام ہے۔ آپ حافظُ القراٰن، عالمِ دین، خاتمُ الشعراء، مؤرخ، مصنفِ کتب اور سلسلہ نقشبندیہ کے شیخِ طریقت ہیں۔ بہارستان و رسائلِ جامی، نفحاتُ الانس، شرح ملّا جامی اور شواہدُ النبوت وغیرہ آپ کی بہترین کتب ہیں۔(نفحات الانس مترجم، ص20تا28)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…رکن شوریٰ ونگران مجلس المدینۃ العلمیہ ،باب المدینہ کراچی



[1] ٭حضرت سیّدنا ابوالحسن علی بن احمد ہکّاری (یومِ عرس یکم محرمُ الحرام) ٭حضرت سیّدنا معروف کرخی (یومِ عرس 2محرمُ الحرام) ٭ شیخ سیّد احمد جیلانی (یومِ عرس 19محرمُ الحرام) ٭حضرت بابا سیّد محمد تاجُ الدّین اولیا (یومِ عرس 26محرمُ الحرام) ٭شہزادۂ اعلیٰ حضرت، مصطفےٰ رضا خان (یومِ عرس 14محرمُ الحرام) رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اَجْمعین

[2] حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سیرت تفصیل سے جاننے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی 2جلدوں پر مشتمل کتاب ”فیضانِ فاروقِ اعظم“ پڑھئے۔


Share

Gallery

Comments


Security Code