عبادت کے فوائد کہاں ہیں!

آخر درست کیا ہے ؟

عبادت کے فوائد کہاں ہیں !

*مفتی محمد قاسم عطّاری

ماہنامہ فیضان مدینہ اپریل 2023

عبادت کی اہمیت !

دینِ اسلام میں اللہ کی پہچان ، اُس کا عرفان حاصل کرنے اور پھر بارگاہ ِ الٰہی میں مقرَّب انسان بننے کے لیے ” عبادت “ کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔عبادت سے انسان کا خدا سے تعلق مضبوط ہوتا ، روحانی ترقی نصیب ہوتی اور ذوقِ عرفانِ الٰہی کو تسکین ملتی ہے۔ یہی اِخلاص سے بھرپور عبادت اِنسان کو خالق کےقریب کرتی اور مخلوق میں عزیز بناتی ہے۔ عبادت ہی کے لیے انسان کو زندگی بخشی گئی ، چنانچہ خالقِ کائنات جَلَّ جلالُہ نے ارشاد فرمایا :  ( وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ( ۵۶ )  ) ترجمہ : اور میں نے جن اور آدمی اسی لیے بنائے کہ میری عبادت کریں۔ ( پ 27 ، الذاریات : 56 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

عبادات کے فوائد !

عبادت کے بےشمار فوائد ہیں ، چنانچہ نماز کے متعلق قرآنِ مجید میں فرمایا گیا : ( اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ- )  ترجمہ : بیشک نماز بے حیائی اور بری بات سے روکتی ہے۔ ( پ 20 ، العنكبوت : 45 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) نماز کے اِس فائدے کے علاوہ ، اِس کی پابندی فرد میں احساسِ ذمہ داری اور پابندیِ وقت کی عادت پیدا کرتی ہے ، دل کے اطمینان اور روحانیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ روزے کا فائدہ یہ بیان فرمایا :  ( لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ ( ۱۸۳ )  ) ترجمہ : تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ ( پ 2 ، البقرۃ : 183 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) روزہ ضبطِ نفس کی عملی تربیت ہے اور اِس کے علاوہ روزہ رکھنے سے غریبوں کے فقر و فاقہ کی تکلیف اور بھوک کی اذیت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ الغرض ! مختلف عبادات دینی فوائد کے ساتھ ساتھ بےشمار دنیاوی فوائد پر مشتمل ہوتی ہیں۔

ہمیں عبادت کے فوائد نظر کیوں نہیں آتے !

یہاں ایک سوال فوراً ذہن میں ابھرتا ہے کہ جو فوائد قرآن وحدیث اور علمائے اُمَّت نے بیان کیے ہیں ، وہ ہمیں اپنے اِرد گرد نظر کیوں نہیں آتے ! نماز نے بے حیائی اور بری بات سے روکنا تھا مگر نمازی تو مسجد سے باہر آتے ہی زبان کی لگام شیطان کو تھما دیتا ہے ، جیسا نماز سے پہلے تھا ویسا ہی بعد میں ہے ، روحانیت بڑھنے کی بجائے معکوس کیفیت میں ہے ، احساسِ ذمہ داری بیدار ہونے کی بجائے کم یا ختم ہوتا جارہا ہے۔ اِسی طرح روزے دار کا تقویٰ بڑھنا تھا ، مگر وہ اپنے گناہوں میں ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ روزے سے ضبطِ نفس کی صلاحیت پیدا ہونے کی بجائے معمول سے زیادہ غصہ نظر آتا ہے۔ یونہی جس حج نے زندگی میں انقلاب لانا ، مالِ حرام سے باز رکھنااور گناہوں کو ترک کروانا تھا ، وہ حاجی حج کے بعد اُسی طرح حرام کما رہا ، گاہک کو دھوکا دے رہا اور گناہوں کی دَلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ الغرض ! عبادات کے جو فضائل وفوائد بیان کیے جاتے ہیں وہ ہمیں عام زندگی میں یوں نظر نہیں آتے جیسے کتابوں میں لکھے گئے اور اہلِ علم بیان کرتے ہیں ، آخر ایسا کیوں ؟

ہماری عبادتیں کیوں مؤثِّر نہیں !

اوپر بیان کیے گئے سوال کا جواب یہ ہے کہ سوال میں بہت سے حقائق کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔ پہلی حقیقت یہ ہے کہ ان عبادات کے بیان کردہ فوائدو نتائج یقینی طور پر درست ہیں ، کیونکہ ہمیں ہزاروں بلکہ لاکھوں سلف صالحین اور بزرگانِ دین کی زندگی میں بہت واضح طور پر یہ تمام ثمرات و برکات نظر آتی ہیں۔ اِن عبادتوں نے بزرگوں میں نورِ ایمان ، قوتِ یقین ، اطمینانِ قلب ، باطنی روحانیت ، وقت کی قدر ، تقویٰ و طہارت ، فکرِ آخرت ، جذبۂ ادائے حقوق ، ضبطِ نفس ، غریبوں کا احساس ، محروموں کی خیرخواہی ، دکھیوں کی غمخواری اور مال حرام سے بچنے کا جذبہ پیدا کیا ، بلکہ اسے بڑھا کر مرتبہِ کمال تک پہنچادیا۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ ہم بعض اوقات سوال میں قائم کردہ تاثُّر صرف اپنے شہر یا اپنے ملک کو سامنے رکھ کر بیان کرتے ہیں ، جبکہ اگر دوسرے شہروں اور ملکوں کو سامنے رکھ کر غور کریں تو واضح ہوتا ہے کہ ہمارے آس پاس ہی کی صورت حال خراب ہے ، ورنہ مجموعی طور پر عبادت اپنے فوائد پہنچا رہی ہے چنانچہ عرب اور افریقی ممالک میں یہی عبادت کے شائقین کی حالت بدرجہا بہتر ہے۔ تیسری حقیقت یہ ہے کہ ہمارے قرب و جوار میں بھی عبادت کے عادی اور مسجد و عُلَماء سے وابستہ افراد حلال و حرام کی تمیز اور دیگر معاملات میں دوسروں سے بہت بہتر ہوتے ہیں ، جیسے تھوڑا سا غور سے مشاہدہ اور سَروے  ( Survey ) کریں تو پتا چل جائےگا کہ   لاکھوں لوگ اوپر بیان کردہ خوبیوں سے مُتَّصِف ہوتے ہیں اور اس کے پیچھے بڑا سبب عبادت کی برکت ہی ہوتی ہے۔

لیکن تین وجوہات سے لوگوں کی اِس طرف نظر نہیں جاتی ، ایک وجہ یہ ہےکہ برے لوگوں ، بری عادتوں اور ” شر “ کی اتنی کثرت ہے کہ اُس کے مقابلے میں تھوڑی مقدار میں ” خیر “ بہت کم نظر آتی ہے ، لہٰذا یہاں سبب بُروں اور برائی کی کثرت ہے ، نہ کہ نیکوں کی عبادت کا مفید نہ ہونا۔

 دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگوں تک معلومات پہنچانے اور ذہن سازی کرنے والے سب سے بڑے ذرائع یعنی اخبار اور ٹی وی پر سیکولر اور لبرل لوگ قابض ہیں اور اُن کے زہرناک تجزیے چونکہ دین سے دور کرنے اور دین داروں کو بدنام کرنے پر مشتمل ہوتے ہیں ، اس لیے وہ ” رائی “ کو ” پہاڑ “ بنا کر پیش کرتے ہیں اور چند غافل نمازیوں یا بے کیف قسم کے حاجیوں کی غلطی کو ایسے پیش کریں گے کہ گویا ہر نمازی اور حاجی کا یہی حال ہے۔ یہ پروپیگنڈا  ( Propaganda ) صرف دل کا مَیل اور باطن کی گندگی ہے ، اور کچھ نہیں۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ لوگ عبادت کے فوائد میں موجودہ زمانے کے لوگوں کا تقابل پہلے زمانے کے اولیاء کے ساتھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، مثلاً آج کے زمانے کے لوگوں میں حضرت بشر حافی ، داؤد طائی ، ابراہیم بن ادہم ، فضیل بن عیاض رحمۃُ اللہ تعالیٰ علیہم اور اس طرح کے اکابرین کی روحانیت اور کردار کو پیش نظر رکھتے ہیں ، حالانکہ یہ تقابل ہی غلط ہے زمانے کے بدلنے سے ویسے اعلیٰ نتائج کی امید رکھنا ہی عجیب ہے۔ جو بنیادی فوائد ِ عبادت ہیں وہ آج بھی حاصل ہوتے ہیں ، باقی اتنا بڑا ولی بننا جدا چیز ہے۔ اس کمال تک پہنچنے کے لیے عناصر ترکیبی ہی جدا ہوتے ہیں اور ایسے اکابرین ہمیشہ ہی قلیل رہے ہیں ، پہلے بھی اور اب بھی ، جیسے ہر سائنس دان آئن سٹائن اور نیوٹن نہیں ایسے ہی ہر عبادت گزار اتنا بڑا ولی نہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اوپر کے تمام تر جوابات کے باوجود یہ بات تو سب کو تسلیم ہے کہ ہمارے ارد گرد کے نمازیوں اور حاجیوں کی حالت وکیفیت ، عبادت سے حاصل ہونے والے اُن فوائد کے برعکس ہے جو بیان کیے جاتے ہیں ، تو آخر اس کی کیا وجہ ہے ؟ اس کا جواب بھی لیجیے : بات یہ ہے کہ ہمارے ملک و وطن کے بعض یا کثیر افراد میں عبادت کے مطلوبہ فوائد ظاہر نہیں ہیں یا بالفرض ہم کہیں کہ اِس وقت دنیا کے اکثر عبادت گزار ہی اِن ثمرات سے محروم ہیں ، تب بھی عبادت کے فوائد کی بات اپنی جگہ پر درست ہے کیونکہ اگر لوگوں کے کردارو عمل میں وہ ایمان افروز انقلاب پیدا نہ ہوا  جو ہونا چاہیے تھا ، تو یہ عبادت کا قصور نہیں  بلکہ اس کا سبب عبادت کی ادائیگی کے مطلوب معیار کو پورا نہ کرنا ہے۔

بے حیائی اور برائی سے روکنے والی ، پابندیِ وقت اور روحانیت پیدا کرنے والی نماز کا حقیقی معیاروانداز وہ ہے جو حدیث میں یوں بیان کیا گیا ہے : ان تعبد اللہ ‌كأنك ‌تراه فإن لم تكن تراه فانه يراك۔ترجمہ : تم اللہ کی عبادت یوں کرو گویا تم اُسے دیکھ رہے ہواور اگر یہ نہ ہو سکے تو یہ یقین رکھو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ ( بخاری ، 1/31 ، حدیث : 50 ) غور کیجیے کہ اِس تصور کے ساتھ کتنے لوگ نمازیں پڑھتے ہیں ؟ شایدنمازیوں کی زندگیاں گزرجاتی ہیں مگر ایسی نماز پڑھنے کی توفیق نہیں ہوتی ، جبکہ یہی وہ اندازِ نماز تھا کہ جس کے فوائد ، فضائل اور ثمرات ظاہر ہونے تھے ، لہٰذا جب یوں نماز ادا ہی نہیں کی ، تو یہ کہنا کہ ” نماز زندگی میں تبدیلی نہیں لا رہی “ درست نہیں ، کہ خامی ” عبادت “ میں نہیں بلکہ نمازی کے عمل میں ہے۔

اِسی طرح جس رمضان کے روزوں نے تقویٰ ، ضبطِ نفس ، غریبوں کی ہمدردی اور فقراء کی بھوک پیاس کا احساس پیدا کرنا تھا ، وہ ایسے روزے تھے جن کے دِن میں بھوک پیاس کے ساتھ تمام اعضاء بھی گناہوں سے باز رہتے ، پھر دن کے ساتھ رات تراویح و تلاوت میں گزرتی ، جبکہ ہم جس رمضان سے اِن ثمرات کے اُمید وار ہیں اُس رمضان میں روزے داروں کے دن سونے کی حالت میں یا دکان یا دفتر میں کام چوری کرتے یا حسب ِ معمول ناجائز طریقے سے کاروبار کرتے یا حسبِ عادت رشوتیں لیتے دیتے گزرتے ہیں اور راتوں کا حال یہ ہے کہ نوجوانوں کی راتیں تراویح چھوڑ کر چوری کی بجلی سے کرکٹ ٹورنامنٹ میں یا رات بھر دوستوں کے ساتھ گپیں ہانکنے یا کوئی ٹی وی سیریز دیکھتے ہوئے گزرتی ہیں۔ایسے روزے رمضان سے تقویٰ اور ضبطِ نفس کی امید قائم کرنا ” کریلے کے بیج سے آم کھانے کی امید رکھنے “ کے برابر ہے۔

اِسی طرح اعتکاف کی مثال ہے کہ اسلامی نقطہِ نظر سے روحِ اعتکاف یہ ہے کہ معتکِف مخلوق سے تعلق توڑ کرخالق سے جوڑ لے۔ تلاوتِ قرآن ، ذکرِ الٰہی ، درود و سلام ، فکرِ آخرت ، علمِ دین اور رضائے الٰہی کے لیے کوشاں رہے۔ ایسا اعتکاف یقیناً حیران کُن تبدیلیاں سامنے لائے گا۔اِس نوعیت کا معتِکف ، اعتکاف کے بعد بھی نماز کا پابند اور نظروں کا محافظ رہے گا ، اُس کا دل مسجد میں معلق اور یادِ الٰہی میں دھڑکتا رہےگا ، جبکہ دوسری طرف ایک ایسا معتکف ہے کہ اِفطار ہوتے ہی اُس کے دوست گروپ بنا کر گپیں مارنے کے لیے اُس کے پاس مسجد پہنچ جاتے ہیں۔ اب اگلی صفوں میں تراویح کی جماعت ہو گی اور یہ معتکف اپنے گروپ کے ساتھ سیاسی ، سماجی اور کرکٹ میچ کی کہانیاں سننے ، سنانے میں وقت گزارتا ہوگا ایسا اعتکاف قطعاً ثمر آور ثابت نہیں ہو سکتا۔

عبادات کے غیر مؤثِّر ہونے کی مثال !

مذکورہ بالا گفتگو کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر ایک ڈاکٹر کسی زکام کے مریض کو دنیا کی مہنگی اور عمدہ ترین دوائی دے کہ اِسے استعمال کیجیے ، مرض یقیناً دور ہو جائےگا۔ اب وہ زکام کا مریض برف جیسے ٹھنڈے پانی سے دوائی کھائے ، پھر ٹھنڈے پانی سے نہائے اور قمیص اتار کر اے سی کےبالکل سامنے لیٹ کر سو جائے اور پھر اگلے دن زکام دور نہ ہونے کی شکایت کے ساتھ ڈاکٹر کے  پاس جا کرشکوہ کرےکہ اِتنی مہنگی اور عمدہ دوائی کے باوجود میرا زکام ٹھیک کیوں نہیں ہوا ؟  تَو ڈاکٹر کی طرف سے یہی جواب ہو گا کہ اِس طرح تو پوری زندگی زکام دور نہیں ہو گا ، آپ دوا کے ساتھ دوا کے دیگر تقاضوں پر بھی عمل کریں  تب ہی دوا مؤثر ہو گی ، ورنہ دنیا کی مہنگی اور عمدہ دوائی ساری عمر بھی کھاتے رہیں تو کبھی ٹھیک نہیں ہوں گے۔

کچھ ایسی ہی حالت ہمارے اعمال کی ہےکہ حکمِ شریعت تو بے شمار فوائدو ثمرات سے بھر پور ہے لیکن ہماری عملی حالت اور انفرادی رویے اُس عبادت کی حقیقی تاثیر کو زائل کر کے ہمارے لیے اُسے بے ثمر اور غیرمفید کر دیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی تقاضوں کے مطابق عبادت کرنے والا بنائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ ، دارالافتاء اہل سنّت ، فیضان مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code