اسلام کے بارے میں منفی رائے کیوں ؟

گزشتہ مضمون میں ہم نے یہ عرض کیا تھاکہ اسلام نے مختصر سے وقت میں لوگوں کو عروج اور دنیا پر غلبہ دیااور انہیں علوم و فنون سے آشنا بھی کیا اور اُن کا موجِد بھی بنادیا۔ اس پر دو سوال قائم ہوتے ہیں ایک یہ کہ جب حقیقت وہ ہے تو پھر مذہب کو افیون اورسست کرنے والا کہنے والے  لوگوں نے ایسی رائے کیوں دی؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ جب مسلمانوں نے ماضی میں اتنے بڑے بڑے کارنامےسرانجام دئیے تو اب مسلمان اس طرح سے متحرک و غالب کیوں نہیں ہیں؟

جہاں تک پہلے سوال کاتعلق ہے کہ اسلام کی عظمتوں کے باوجود کچھ لوگوں نے مذہب کو افیون کیوں قرار دیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ ناقص اور ناکافی معلومات سامنے رکھ کر جب تجزیہ کیا جائے اور کوئی رائے قائم کی جائے تو وہ غلط ہی ہوتی ہے۔ اس کےلئے دو مثالیں عرض کرتا ہوں۔

پہلی مثال توآپ نےپڑھی سنی ہوگی کہ چار اندھوں کو پتا چلا کہ کوئی ہاتھی آیا ہے۔ انہوں نے سوچاکہ چلیں جاکر سمجھتے ہیں کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے۔ہاتھی کے قریب پہنچ کرایک نے اس کی سونڈپر ہاتھ رکھا، دوسرے نے اس کی ٹانگ پر، تیسرے نے پیٹ اورچوتھے نے ہاتھی کی دُم پر۔ اس کے بعد ایک دوسرے کو بتانے لگے کہ ہاتھی کیسا ہوتاہے۔ پیٹ پر ہاتھ رکھنے والے نے کہا، ہاتھی پہاڑ جیسا ہوتا ہے۔ ٹانگ چھونے والے نے کہا، نہیں، ستون جیسا ہوتا ہے۔ دُم پر ہاتھ رکھنے والے نے کہا کہ پرانے موٹے رسے کی طرح ہوتا ہے اور چوتھے نے کچھ اور بیان کردیا۔اب حقیقت کیا ہے اور تجزیہ نگار اندھوں نے کیا کہا اور کیوں کہا۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ چونکہ چاروں اندھے تھے اورانہوں نے پورا ہاتھی نہیں دیکھا تھا اس لئےان میں سے کوئی بھی ہاتھی کے بارے میں صحیح تجزیہ نہیں دے سکتا لیکن اگر وہاں پر کوئی بینا آدمی آئے گا تو وہ ان کو بتائےگا کہ آپ نے مختلف پارٹس دیکھے ہیں پورا ہاتھی نہیں دیکھا، پورا ہاتھی توایسا ہوتا ہے۔

ناقص تجزیہ نگاری کی دوسری مثال یوں سمجھیں کہ اگر دواجنبی افراد کسی شہر میں داخل ہوں، ایک شخص شہر کے پسماندہ علاقے میں جائے جہاں خستہ حال مکانات، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، گندگی کے ڈھیراورگٹروں، نالیوں کا پانی رواں دواں ہو جبکہ دوسرا شخص شہر کےعالیشان علاقے میں داخل ہوجہاں خوبصورت کشادہ بنگلے، صاف ستھری سڑکیں، بڑے بڑے اسکول، شاندار ہسپتال، عمدہ صفائی اور خوبصورت درخت ہوں۔ یہ دونوں شخص اگر اپنے ناقص، ادھورے مشاہدے کی روشنی میں پورے شہر کےبارےمیں کوئی رائےدیں تو یقیناً یہ رائے غلط ہی ہوگی کیونکہ اگر پورے شہر کےبارےمیں رائے قائم کرنی ہے تو اس کے عمدہ اور خستہ حال دونوں طرح کےعلاقے دیکھنے کےبعد ہی معلوم ہوگا کہ یہ شہر کیسا ہے؟ لہٰذاجوشخص ادھورا مشاہدہ، ناقص علم اورناقص تجربہ رکھتا ہے اس کا تجزیہ اوررائے ناقص ہوگی۔

اسلام کے بارے میں منفی تبصرے کرنےوالوں کا حال یہی ہے کہ جو مذہب کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ انسان کو سست کردیتا ہے یا جنہوں نے اس سے بڑھ کر گھٹیا جملہ کہا کہ مذہب افیون ہے اوریہ انسان کو سلا دیتا ہے تواس کی وجہ یہی ہے کہ ایسے لوگوں نے اپنے پاس پڑوس میں کوئی ایسا مذہب دیکھا ہوگا جو انسانوں کو سلا دیتا اوران کے اندر تحریک، جذبہ، ہمت اور جوش و ولولہ پیدا نہیں کرتا۔ ایسے مذہب کو دیکھ کر اسلام کے متعلق بھی اُسی طرح کاتأثر دینے والوں کی رائے بھی بلاشک و شبہ ویسی ہی ہے جیسی اندھوں نے ہاتھی کے بارے میں اور شہر کےایک حصےکودیکھ کرپورے شہر کے بارےمیں رائے قائم کرنےوالوں کی تھی توجیسے ان کی رائے ناقص، غلط اور خلافِ حقیقت تھی ویسے ہی اسلام کے متعلق اُلٹے سیدھے تبصرے کرنےوالوں کی رائےغلط و بے حقیقت ہے۔

اور جہاں تک اسلام کے ماننے والے کسی تاجر کی دھوکہ دہی، بدتہذیبی یا غلط کاری کا تعلق ہے تو یہ اسلام کی نہیں بلکہ اس مسلمان کی غلطی ہے اور یہ اسلام پر عمل کی وجہ سے نہیں بلکہ اسلام پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہے۔

اورجہاں تک دوسرےسوال کاتعلق ہے کہ مسلمانوں کا ماضی اگراتنا شاندار ہےتواب مسلمان متحرک و غالب کیوں نہیں ہیں؟ توجواباًعرض ہے کہ اس کے پیچھے اَسْباب و عِلَل کی ایک پوری دنیا ہے جس کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جب تک مسلمان اسلام پر عمل کرتےرہے تب تک غالب رہے اور جب مسلمانوں نے اسلام پرعمل ختم کردیا، اسے گھروں، حکومتی امور اور نظامِ زندگی سےنکال کر مسجدوں تک محدود کردیا، صرف عبادات کو دین سمجھ لیا، دین اور آخرت کی بجائے دنیا کی لذتوں کو اپنا لیا، ذاتی مفادات کو دینی و قومی مفادات پرترجیح دی تو پستی مقدر بنتی گئی۔ جب یہ طرزِ عمل اختیار کیا کہ ہماری تجارت، نوکری، معاملات اور حکومت، دین کےتحت نہیں بلکہ ہم ان امور میں آزاد ہیں اور ان چیزوں میں اسلام کو داخل نہیں کریں گے بلکہ تجارت، حکومت، گھر میں اسلام کی بجائے فلاں فلاں غیر مسلم کے اصول اور تعلیم پر عمل ہوگا جیسے کئی ممالک میں مساجد تو بھری پڑی ہیں لیکن بقیہ پوری زندگی میں اسلامی حمیت و غیرت اور احکامِ شریعت کی اطاعت غائب ہوگئی ہے تو پھر وہی نتیجہ نکلا جس کا اللہ تعالیٰ نےپہلے ہی بتادیاکہ(اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَ تَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍۚ-) کیا تم کتاب اللہ کے کچھ حصے کو مانتے ہو اور کچھ کا انکار کرتے ہو؟(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اگر ایسا کروگےتواس کانتیجہ کیا ہوگا؟ فرمایا: (فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-تو تم میں جو ایسا کرے تواس کی جزا یہ ہے کہ ان پر دنیا میں ذلت و رسوائی مسلط کردی جائے گی۔ (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اب دیکھ لیں کہ مسلمان عالمی سطح پرذلت و پستی کاشکار ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں او ریقینا ہیں تواس کی سب سے بڑی وجہ اسلام کو دینِ کامل سمجھ کر زندگی کے ہر شعبے میں عمل کی بجائے اُسے ایک طرف کردینا ہے جس میں بے عمل لوگوں کا بھی قصور ہے اور اس سے زیادہ اُن سیکولر اور لبرل لوگوں کاہاتھ ہے جو اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑاکر، انہیں پرانی اور دقیانوسی قرار دے کر، ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا کے نعرے مار کر دن رات لوگوں کو اسلام سے دور کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…مفتی محمد قاسم عطاری

٭…دارالافتاء اہل سنت عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ ،کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code