مذہبی حساسیت اور بےحسی(دوسری اور آخری قسط)

آخر درست کیا ہے؟

مذہبی حساسیت اور بےحسی (قسط:02)

*مفتی محمد قاسم عطّاری

ماہنامہ فیضان مدینہ نومبر2023

کافروں سے محبت منع ہے تو کتابیہ یعنی عیسائی یا یہودی عورتوں سے نکاح کی اجازت کیوں ہے؟

یہ بات تسلیم ہے کہ قرآن مجید میں اہلِ کتاب عورتوں سے نکاح چند شرائط کے ساتھ جائز قرار دیا گیا ہے اور بیوی کے معاملے کو تو نہ بھی دیکھیں کہ وہ تو آدمی اختیار ہی سے شادی کرتا ہے، ہم اُس سے آگے کی بات بھی بتادیتے ہیں کہ ”ماں باپ، بہن بھائی“ تو بندے کے اختیاری نہیں ہوتے کہ آدمی چاہے تو کسی کو ماں باپ، بہن بھائی بنائے اور چاہے تو نہ بنائے۔ وہ تو جو بن گئے، سو بن گئے اور یہاں بھی اوپر کا سوال موجود ہے کہ جیسے بیوی سے آدمی کو طبعی محبت ہوتی ہے، ایسے ہی ماں باپ، بہن بھائیوں سے بھی ہوتی ہے اور ہم کہہ رہے ہیں کہ ہر طرح کے غیر مسلم سے دوستی ممنوع ہے تو دونوں چیزوں میں تطبیق کیا ہے؟

جواب یہ ہے کہ اہلِ کتاب عورتوں سے نکاح کی اجازت اور کافر ماں باپ وغیرہ سے رشتے داری اور تعلق کے باوجود کافروں سے محبت و دوستی کی ممانعت ہے۔ اس حکم کو سمجھنے کے لیے چند آیات اور ان کے مفاہیم مطالعہ فرمائیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَكُمْ هُزُوًا وَّ لَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ اَوْلِیَآءَۚ-وَاتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۵۷))

ترجمہ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی ان میں سے وہ لوگ جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اورکھیل بنالیا ہے، انہیں اور کافر وں کو اپنا دوست نہ بناؤ اور اگر ایمان رکھتے ہوتواللہ سے ڈرتے رہو۔ (پ 6، المآئدۃ: 57) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اس آیت میں آیاتِ الٰہیہ کو مذاق اور کھیل بنانے والے ہر قسم کے کافر سے دوستی کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اب اگلی آیت پڑھئے جس میں خاص رشتے داروں کی تصریح کے ساتھ انہیں دوست بنانے سے منع کیا گیا، چنانچہ فرمایا:

(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ وَاِخْوَانَكُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْاِیْمَانِؕ-وَمَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۲۳))

ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے باپ اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ سمجھو اگر وہ ایمان کے مقابلے میں کفر کو پسند کریں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی کرے گا تو وہی ظالم ہیں۔(پ 10، التوبۃ:23) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تیسری آیت پڑھئے کہ جس میں فرمایا کہ مومن ایسے ہوں گے ہی نہیں کہ اللہ و رسول کے دشمنوں سے دوستی کریں، چنانچہ فرمایا گیا:

(لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَلَوْ كَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ اَوْ اَبْنَآءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِیْرَتَهُمْؕ )

ترجمہ: تم ایسے لوگوں کو نہیں پاؤ گے جو اللہ اورآخرت کے دن پرایمان رکھتے ہوں کہ وہ ان لوگوں سے دوستی کریں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کی اگرچہ وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یاان کے بھائی یا ان کے خاندان والے ہوں۔(پ 28، المجادلۃ:22) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اِن آیات سے یہ تو واضح ہوگیا کہ کافروں سے دوستی اور محبت کا رشتہ شریعت نے سختی سے منع کردیا ہے۔اب رہی یہ بات کہ کتابیہ غیر مسلمہ بیوی ہوگی، تو اُس سے محبت بھی ہوگی یا کسی غیر مسلم خاندان میں سے کوئی سعادت مند شخص اسلام قبول کرلے اور اس کے ماں باپ یا بہن بھائی غیر مسلم ہی رہیں تو بہرحال اُن سے فطری طبعی رشتے کی وجہ سے محبت ضرور ہوگی۔ بعض لوگوں کو یہاں تَرَدُّد ہوتا ہے کہ ان دونوں کو ساتھ کیسے چلایا جاسکتا ہے۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ انسان کو اپنے ماں باپ، اولاد اور اپنی بیوی سے جو محبت ہوتی ہے وہ طبعی، غیر اختیاری ہے، یعنی وہ محبت بندے کے اختیار میں نہیں، لہٰذا وہ ممانعت میں داخل بھی نہیں کہ اللہ تعالیٰ اُسی کام کا حکم دیتا ہے، جو آدمی کے اختیار میں ہو، جیسا کہ قرآن پاک میں فرمایا :

(لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ   )

ترجمہ: اللہ کسی جان پر اس کی طاقت کے برابر ہی بوجھ ڈالتا ہے۔(پ3، البقرۃ: 286) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اب یہاں دو باتیں ہیں، ایک تو یہ کہ غیر مسلم ماں باپ سے طبعی محبت کے باوجود یہ کہاں لازم آیا کہ دنیا جہان کے سارے غیر مسلموں سے دوستی، یاری، سب جائز ہو گئی۔ اگر اجازت بنتی بھی ہو تو صرف ان رشتوں میں بنے گی جو غیر اختیاری ہیں، نہ کہ اختیاری تعلقات میں دوستیوں کی اجازت ہوگی۔ دوسری بات یہ ہے کہ خودغیر مسلم بیوی، ماں، باپ وغیرہ سے طبعی غیر اختیاری رخصت کے باوجود حکمِ شریعت یہ ہے کہ ان رشتوں میں بھی یہ تصور رکھیں کہ یہ لوگ اسلام کے تارِک ہیں، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جھوٹا کہتے، ان کا انکار کرتے اور ان کے مخالف و دشمن ہیں اوراس وجہ سے اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتے اور نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کافروں کے دشمن ہیں۔ان حقائق کو تصور کرکے یہ ذہن رکھیں کہ ان رشتے داروں سے دوستی کرنا بھی حرام ہے اور جہاں تک ان کے ساتھ طبعی محبت ہے، اسے بھی حتی الامکان دبانے کی کوشش کریں، یہاں تک کہ ہوسکے تو اس طبعی محبت کو بھی ختم کردیں، کیونکہ طبعی محبت کا آجانا تو اختیار میں نہیں، لیکن ختم کرنا تو اپنے اختیار میں ہے، تو جان بوجھ کر ایسی طبعی محبت کو بھی اپنے دل میں رہنے دینا،اختیارِ موالات ہے اور یہ حرام قطعی ہے۔ (خلاصہ از فتاویٰ رضویہ، 14/465)

کیا غیر مسلموں کے قومی و مذہبی تہواروں میں مسلمانوں کی شرکت سے اسلام کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے؟

اسلام خالصۃً دینِ حق ہے اور کفر باطل ہے، جب حق کے ساتھ باطل کی ملاوٹ ہوگی تو کیا حق کو کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا؟اب اگر اسلامی ملک کے تعلیمی اداروں میں غیرمسلموں کے قومی و مذہبی تہوار زور و شور سے منائے جائیں اور مسلمان طلبہ و طالبات اس میں دیدہ دلیری کے ساتھ شرکت کریں تو یہ اسلام کے غیر مسلموں سےتعلقات کے بنیادی حکم کے خلاف ہے اور حکمِ اسلام کے مطابق کفر و کافر سے جس طرح کی ناپسندیدگی اور دوری مسلمان کی سوچ میں ہونی چاہیے، وہ ہرگز باقی نہیں رہے گی اور یہ مسلمان کے ایمان کے لئے خطرناک ہے اور اس خطرے کے وقوع پر واضح دلیل یہ ہے کہ جو مسلمان، غیرمسلموں کے ساتھ اس طرح کے تعلقات رکھتے ہیں، آہستہ آہستہ ان کے دلوں سے اسلامی شعائر کی عظمت، اسلامی احکام کی وقعت اور کفر و علاماتِ کفر سے نفرت ختم ہوجاتی ہے جیسا کہ مشاہدہ ہے۔

ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ دین اسلام کوپوری طرح اپنائے۔ صرف کلمہ اور چند اعمال پر اکتفاء کرلینا اور کفر و شرک کے خلاف دل میں احساس کا مردہ ہوجانا مسلمان کا وطیرہ نہیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ بہت واضح ہے، فرمایا: اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔(پ2، البقرۃ: 208) لہٰذا اسلام سے محبت اور کفر سے شدید ترین ناپسندیدگی، اسلام کے مرکزی احکام میں سے ہے بلکہ اسلام و کفر کے درمیان حدِ فاصل جیسی حیثیت رکھتی ہے، اس لئے اسے یوں ٹھنڈا ٹھار نہیں چھوڑا جاسکتا بلکہ غیروں کے تہوار منانے والوں کے لئے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حدیث نہایت عبرت آمیز ہے: جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے، تو وہ انہیں میں سے ہے۔ (ابو داؤد، 4/62، حدیث:4031) اور کسی کافر قوم کے دینی شعار، علامت، تہوار کو اپنانے، منانے کے متعلق امت کے فقہاء کرام نے فرمایا ہے کہ جو شخص کفار کے کسی فعل کو اچھا سمجھے،تو بالتحقیق اُس نے کفر کیا۔(غمز عیون البصائر فی شرح الأشباه والنظائر،2/88 )

بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسلام اللہ کا دین ہے، اِس کی حفاظت خدا کے ذمہ ہے، ہمیں اِس کی فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

جواب یہ ہے کہ بیشک اسلام اللہ کا دین ہے، لیکن کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ اب اُمَّتِ مسلمہ اپنے فریضے سے سبکدوش ہوجائے؟ کیا ”اسلام پھیلانے، کفر و شرک سے روکنے، نیکی کی دعوت دینے، برائی سے منع کرنے“ کو چھوڑ دے؟ ذرا یہ بتائیے کہ دین اسلام کی حفاظت کا ذمہ اللہ ہی کے سپرد ہے، تو پھر اس نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا ءِ کرام علیہمُ السّلام کیوں مبعوث فرمائے ؟حضرت موسیٰ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کو فرعون کے مقابلہ کے لیےکیوں بھیجا؟حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو کفار سے مقابلے کا حکم کیوں دیا ؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اولیاءِ عظام نے اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر اپنے گھروں سے دور رَہ کر اشاعت و حفاظتِ اسلام کے لیے کیوں سفر کئے؟

بلکہ اس سے آگے کی بات پڑھئے کہ جب دین اللہ کا ہے اور اُس کی حفاظت کا ذمہ اللہ ہی پر ہے۔تو ذرا یہ بھی بتائیے کہ کیا رزق کا ذمہ اللہ پر نہیں؟خود اس نے قرآن مجید فرمایا ہے:

(وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا)

ترجمہ:اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ کرم پر نہ ہو۔ (پ 12، ھود: 6) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تو کیا اِس آیت کو پڑھ کر کوئی اپنے گھر بیٹھ کر روزی کا انتظار کرتا ہے یا باہر نکل کر رزق کو تلاش کرتا ہے؟ اگر باہر جاکر محنت مزدوری کرکے رِزق حاصل کرتا ہے، تو اُس سے یہ سوال ہے کہ کیا آپ کو رب پر بھروسا نہیں،جب اُس نے خود قرآن میں رزق کا ذمہ لیا ہے، تو باہر نکل کر اتنی محنت ومشقت کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی؟در اصل معاملہ یہ ہے کہ لوگوں نے دین کو بہت ہلکا سمجھ لیا ہے،اپنی ذات کے معاملہ میں تو بہت حَسَّاس ہیں، مگر دین کی فکر نہیں۔ اسی لیے جب دین کی بات آتی ہے تو کہتے ہیں کہ بھائی!دین تو اللہ کا ہے، اللہ خود ہی اُس کی حفاظت کرے گا۔در اصل یہ اپنے نصیب کی بات ہے، واقعی اللہ جس سے چاہتا ہے، اُسی سے دین کی خدمات لیتا ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* (نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ، دارالافتاء اہل سنّت، فیضان مدینہ کراچی)


Share

Articles

Comments


Security Code