کیا کافر جنّتی یا ولی ہوسکتا ہے؟(تیسری اور آخری قسط)

آخر درست کیا ہے؟

کیا کافر جنتی یا ولی ہوسکتا ہے؟(تیسری اور آخری قسط)

* مفتی محمد قاسم عطاری

ماہنامہ جون 2021

اب رہا یہ سوال کہ اس کے انسانی کارناموں کا صلہ کیا ہوا؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ کافر کے ظاہری اچھے اعمال کے صلے کی ایک صورت تو ایسی ہے کہ اُسے بھی آخرت کی نجات مل جائے گی اور صلے کی وہ صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس کافر کے ظاہری اچھے اعمال کی وجہ سے اُسے توبہ و ایمان کی توفیق دیدے ، جیسے کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی کافر نے کسی اسلامی حکم مثلاً رمضان وغیرہ کی تعظیم کی یا کسی ولیُّ اللہ کی خدمت کی یا کسی سید زادے کی مدد کی یا کسی عالمِ دین کے ساتھ تعاوُن کیا اور انہوں نے اُس بندے کے حق میں ایمان کی دعا کی اور اُسے ایمان کی توفیق نصیب ہوگئی۔ یونہی بعض اوقات خود اچھے اعمال کی ایسی نوعیت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اُس کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اُسے ایمان کی دولت  نواز دیتا ہے ، چنانچہ حضرت حکیم بن حزام  رضی اللہ عنہ  نے ایک مرتبہ نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے دریافت کیا کہ یارسولَ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! ہم نے زمانۂ جاہلیت یعنی کفر کی حالت میں بہت سارے اچھے کام کئے تھے ، اُن اعمال کا کیا ہوگا؟ نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اس سوال کا جواب عطا فرمایا : اسلمتَ علی ما اسلفت۔ اس جملے کے معانی میں سے ایک معنیٰ یہ ہے کہ اُن ہی اعمالِ خیر کی وجہ سے اللہ نے تجھے ایمان کی توفیق دی ہے۔  (مسند احمد ، 5 / 227 ، حدیث : 15319)

کافر کو اعمال کا صلہ ملنے کے حوالے سے دوسرا جواب یہ ہے کہ آخرت میں تو صلہ نہیں ملے گا ، جیسا کہ پچھلی قسط میں کثیر آیات میں بیان کردیا گیا کہ آخرت کے صلے کے لئے ایمان شرط ہے اور جب کافر نے انعام دینے والے خدا کی مقرر کردہ شرط ہی پوری نہیں کی ، تو جیسے دنیا کے لاکھوں کاموں میں کام کرنے کے باوجود اگر بنیادی شرائط کوئی پوری نہ کرے تو انعام کا حق دار نہیں ہوتا ، ایسے ہی خدا نے اپنے اختیار و حکمت و عدل سے ثوابِ آخرت کے لئے ایمان کی شرط کا قانون بنایا ہے جو اِسے پورا نہ کرے ، اُسے انعام نہیں ملے گا۔ البتہ کسی کا اچھا کام اصلاً رائیگاں نہیں جاتا ، بلکہ اللہ تعالیٰ اسے وہ بدلہ دے دیتا ہے جو کافر کو مطلوب ہوتا ہے یعنی دنیا کا بدلہ۔ کافر بھی اِسی کا طلب گار ہوتا ہے اور خدا اِسی کے مطابق اُسے بدلہ بھی دے دیتا ہے۔ وہ بدلہ کیا ہے؟ اس کے لئے حدیث مبار ک پڑھیے۔ حضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ وسلَّم  نے فرمایا : بیشک جب کافر کوئی بھی نیکی کا عمل کرتا ہے تو اسے دنیا کی نعمتیں عطا کردی جاتی ہیں ، جبکہ مومن کیلئے اللہ تعالیٰ اُس کی نیکیاں آخرت کیلئے بھی ذخیرہ کردیتا ہے اور دنیا میں بھی اطاعت گزاری کی وجہ سے اسے رزق عطا فرماتاہے۔ (مسلم ، ص1156 ، حدیث : 7090)

دوسری روایت میں یوں فرمایا : اللہ تعالیٰ کسی مومن کی ایک نیکی بھی کم نہیں کرے گا ، نیکی کے بدلے مومن کو دنیا میں بھی دیا جائے گا اور اس کی جزا آخرت میں بھی ملے گی ، جبکہ کافر کو دنیا ہی میں اس کی نیکیوں کے بدلے کھلا پلا دیا جاتا ہے ، یہاں تک کہ جب آخرت میں پہنچے گا تو اس کی کوئی نیکی باقی نہیں ہوگی جس پر اسے جزا دی جائے۔ (مسلم ، ص1155 ، حدیث : 7089)

خلاصۂ جواب یہ ہے کہ کافر کے اچھے اعمال کا صلہ اسے دنیا میں یوں دیا جاتا ہے کہ دنیا میں مال و دولت ، عزت و شہرت ، عہدہ و منصب ، تعریف و توصیف ، لوگوں کی نظر میں اعزاز و اِکرام ، رزق میں وسعت ، نعمتوں کی فراوانی ، دنیاوی خواہشات کی تکمیل ، لذتوں کا حصول ، مقاصد تک رسائی ، اچھا گھر ، پُرسکون رہائش ، آرام دہ ماحول ، اچھا پڑوس ، اہلِ خانہ کی طرف سے سکون ، اچھی بیوی ، فرمانبردار اولاد ، اہل و عیال سے آنکھوں کو ٹھنڈک ، بچوں کی ترقی ، پریشانیوں سے نجات ، مصیبتوں کا دفعیہ ، بیماریوں سے شفاء ، بلاء و آفات سے حفاظت ، حادثات سے بچت اور اس طرح کی ہزاروں چیزوں میں سے مختلف چیزیں کافر کو اُس کے اعمال کے صلے میں دی جاتی ہیں اور یہی اس کا اجر ہے۔

آخر میں اس قسم کے وَساوِس و شبہات کا شکار رہنے والے مسلمان کہلانے والوں سے دلی خیر خواہی کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ دنیا چند روزہ ہے۔ کافروں کے ساتھ دوستی ، ان کے ساتھ گھومنے پھرنے ، ان کے لیکچرز (Lectures) سننے اور اُن کی خلافِ اسلام کتابیں پڑھنے ، پھر ایسی چیزوں کو کتابوں ، اخباروں میں لکھ کر یا کسی بھی طرح میڈیا پر پیش کر کے اپنا اور دوسروں کا ایمان برباد نہ کریں۔ موت کا ایک جھٹکا ساری اکڑفوں ، سارے شبہات ، کافروں کے ساتھ دوستیاں اور لاڈ پیار سب نکال دے گا اور پھر آنکھ کھلے گی کہ ہائے کن چیزوں میں ہم نے اپنی زندگی برباد کرلی۔ پھر سمجھیں گے کہ ہماری عقل ناقص تھی ، ہمارا مطالعہ ناکافی تھا ، ہمارا مشاہدہ کمزور تھا ، ہماری فہم میں کجی تھی ، ہماری سوچ غلط تھی اور اپنی جہالت و غباوت سے ہم نے راہِ ضلالت اختیار کرکے ایمان کی نعمت برباد کردی۔ اس وقت کہیں گے : ( یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا(۲۸) لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا(۲۹))ترجمہ : ہائے میری بربادی! اے کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ بیشک اس نے میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے اس سے بہکا دیا اور شیطان انسان کو مصیبت کے وقت بے مدد چھوڑ دینے والا ہے۔ (پ19 ، الفرقان : 28 ، 29)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ایمان کی حفاظت کا ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ عبادت و اطاعت کا راستہ اختیار کریں تاکہ ایمان کی قدر و قیمت دل میں پیدا ہو اور اس کی حفاظت کی فکر ہو۔ دوسری چیز یہ بھی ضروری ہے کہ اہلِ باطل سے میل جول ، ان کی باتیں سننے اور ان کی کتابیں پڑھنے سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے : ( وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُۙ-وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ(۱۱۳)) ترجمہ : اور ظالموں کی طرف نہ جھکو ورنہ تمہیں آگ چھوئے گی اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی حمایتی نہیں پھر تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔ (پ12 ، ھود : 113)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  اور فرمایا : ( وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(۶۸)) ترجمہ : اور اگر شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔ (پ7 ، الانعام : 68)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے ، اٰمین۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران مجلس تحقیقات شرعیہ ، دارالافتاء اہل سنت ، فیضان مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code