زیارتِ قبور

زیارتِ قبور

سوال:مزارات پر جانا کیسا؟

جواب:شریعتِ مطہرہ میں مزاراتِ اولیاءاللّٰہپر جانا جائز اور سنّت سے ثابت ہے کہ سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم خودشُہداءِ اُحُد کے مزار پر تشریف لے جاتے تھے۔ جیساکہ حدیثِ پاک میں ہے:’’بے شک نبی پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم ہر سال شُہداءِ اُحُد کے مزارات پر تشریف لے جاتے۔‘‘[1]

مزید ترمذی شریف کی روایت میں ہے:’’رسولُاللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا تو اب محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کو اجازت دے دی گئی ہے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی، لہٰذا تم بھی قبروں کی زیارت کرو بے شک وہ آخرت کی یاد دلاتی ہے۔‘‘[2]

سوال:مزارات پر جانے سے کیا حاصل ہوتا ہے؟

جواب:مزارات و قبور کی زیارت کرنے سے دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی اور آخرت کی یاد آتی ہے۔حدیثِ پاک میں ہے:سیّدنا بریدہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ سُرورِ قلب و سینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا اب زیارت کیا کرو ۔[3] ’’کیونکہ یہ دنیا میں بے رغبتی اور آخرت کی یاد پیدا کرتی ہے۔‘‘[4]

سوال:کیا مزار کابوسہ لے سکتے ہیں؟

جواب:زیارت کرنے والے کو مزار کابوسہ نہیں لینا چاہئے ،علماء کا ا س میں اختلاف ہے لہٰذا بچنا بہتر ہے اور اسی میں ادب زیادہ ہے۔[5]

سوال:مزار پر حاضری کا طریقہ کیا ہے؟

جواب: اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت مجدّدِدین وملّت مولاناشاہ احمد رضا خان عَـلَيْهِ رَحْمَةُ الـرَّحْمٰن مزارات پر حاضری کی تفصیل یوں ارشادفرماتے ہیں:’’مزارات شریفہ پر حاضر ہونے میں پائنتی کی طرف سے جائے اور کم از کم چارہاتھ کے فاصلہ پر مُواجہہ میں کھڑا ہو اور متوسّط آواز بادب سلام عرض کرے:اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا سَیّدِی وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗپھر درودِ غوثیہ تین بار، الحمد شریف ایک بار ، آیۃُ الکرسی ایک بار ، سورۂ اخلاص سات بار ، پھر درودِ غوثیہ سات بار اور وقت فرصت دے تو سورۂ یٰسین اور سورۂ ملک بھی پڑھ کر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے دعا کرے کہ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ! اس قراءت پر مجھے اتناثواب دے جو تیرے کرم کے قابل ہے نہ اُتنا جو میرے عمل کے قابل ہے اور اُسے میری طرف سے اس بندۂ خدامقبول کو نذر پہنچا پھر اپنا جو مطلب جائز شرعی ہو اُس کے لئے دعاکرے اور صاحبِ مزار کی روح کو اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنا وسیلہ قراردے ، پھر اُسی طرح سلام کرکے واپس آئے، مزار کو نہ ہاتھ لگائے نہ بوسہ دے اور طواف بالاتفاق ناجائز ہے اور سجدہ حرام ۔‘‘[6] (بنیادی عقائد اور معمولاتِ اہلسنت،حصہ دوم،صفحہ ۱۰۶تا۱۰۸)


[1] ۔۔۔۔ مصنف عبد الرزاق،کتاب الجنائز، باب فی زيارة القبور ، ۳ / ۳۸۱،حدیث:۶۸۴۵

[2] ۔۔۔۔ ترمذی،کتاب الجنائز، باب ماجاء فی الرخصة فی زیارة القبور،۲ / ۳۳۰،حدیث:۱۰۵۶

[3] ۔۔۔۔ صحیح مسلم،کتاب الجنائز،باب استئذان النبی ربہ۔۔۔ الخ، ص۴۸۶،حدیث:۹۷۷

[4] ۔۔۔۔ ابن ماجہ،کتاب الجنائز، باب ماجاء فی زیارة القبور،۲ / ۲۵۲،حدیث:۱۵۷۱

[5] ۔۔۔۔ فتاوی رضویہ ،۲۲ / ۴۷۵

[6] ۔۔۔۔۔ فتاوی رضویہ ، ۹ / ۵۲۲

Share