ولایت کا بیان

ولایت کا بیان

ولایت ایک قربِ خاص ہے کہ مولیٰ عزوجل اپنے برگزیدہ بندوں کو محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرماتا ہے۔

مسئلہ (۱): ولایت وَہبی شے ہے[1]، نہ یہ کہ اَعمالِ شاقّہ[2] سے آدمی خود حاصل کرلے، البتہ غالباً اعمالِ حسنہ اِس عطیۂ الٰہی کے لیے ذریعہ ہوتے ہیں ، اور بعضوں کو ابتداء مل جاتی ہے۔[3]

مسئلہ (۲): ولایت بے علم کو نہیں ملتی، [4] خواہ علم بطورِ ظاہر حاصل کیا ہو، یا اس مرتبہ پر پہنچنے سے پیشتر اﷲ عَزَّوَجَلَّ نے اس پر علوم منکشف کر دیے ہوں ۔

عقیدہ (۱): تمام اولیائے اوّلین و آخرین سے اولیائے محمدیّین یعنی اِس اُمّت کے اولیاء افضل ہیں [5]،اور تمام اولیائے محمدیّین میں سب سے زیادہ معرفت وقربِ الٰہی میں خلفائے اَربعہ رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں اور اُن میں ترتیب وہی ترتیب افضلیت ہے، سب سے زیادہ معرفت و قرب صدیقِ اکبر کو ہے،پھر فاروقِ اعظم، پھر ذو النورَین، پھر مولیٰ مرتضیٰ کو رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْنَ۔[6] ہاں مرتبۂ تکمیل پر حضورِ اقدس صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے جانبِ کمالاتِ نبوت حضراتِ شیخین کو قائم فرمایا اور جانبِ کمالاتِ ولایت حضرت مولیٰ مشکل کشا کو[7] تو جملہ اولیائے مابعد نے مولیٰ علی ہی کے گھر سے نعمت پائی اور انھیں کے دست نگر[8] تھے، اور ہیں ، اور رہیں گے۔

عقیدہ (۲): طریقت منافیٔ شریعت نہیں ۔[9] وہ شریعت ہی کا باطِنی حصہ ہے، بعض جاہل مُتصوِّف جو یہ کہہ دیا کرتے ہیں : کہ طریقت اور ہے شریعت اور، محض گمراہی ہے اور اس زُعمِ باطل کے باعث اپنے آپ کو شریعت سے آزاد سمجھنا صریح کفر واِلحاد۔[10]

مسئلہ (۳): اَحکامِ شرعیّہ کی پابندی سے کوئی ولی کیسا ہی عظیم ہو، سُبکدوش نہیں ہوسکتا۔[11] بعض جہال جو یہ بک دیتے ہیں کہ شریعت راستہ ہے، راستہ کی حاجت اُن کو ہے جو مقصود تک نہ پہنچے ہوں ، ہم تو پہنچ گئے، سیّد الطائفہ حضرت جُنید بغدادی رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہُم نے انھیں فرمایا:

’’صَدَقُوا لَقَدْ وَصَلُوا وَلکِنْ إِلٰی أَیْنَ؟ إِلَی النّارِ۔‘‘[12]

’’وہ سچ کہتے ہیں ، بیشک پہنچے، مگر کہاں ؟ جہنم کو۔‘‘

البتہ! اگر مجذوبیت[13] سے عقلِ تکلیفی زائل ہو گئی ہو، جیسے غشی والا تو اس سے قلمِ شریعت اُٹھ جائے گا[14]،مگر یہ بھی سمجھ لو! جو اس قسم کا ہوگا، اُس کی ایسی باتیں کبھی نہ ہوں گی، شریعت کا مقابلہ کبھی نہ کرے گا۔[15]

مسئلہ (۴): اولیائے کرام کو اﷲ عَزَّوَجَل نے بہت بڑی طاقت دی ہے، ان میں جو اصحابِ خدمت ہیں ، اُن کو تصرّف کا اختیار دیا جاتا ہے، سیاہ، سفید کے مختار بنا دیے جاتے ہیں [16]، یہ حضرات نبی صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے سچے نائب ہیں ، ان کو اختیارات وتصرفات حضور (صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم) کی نیابت میں ملتے ہیں [17]، عُلومِ غیبیہ ان پر منکشف ہوتے ہیں [18] ، ان میں بہت کو مَا کَانَ وَمَا یَکُوْن[19] اور تمام لوحِ محفوظ پر اطلاع دیتے ہیں [20]، مگر یہ سب حضورِ اقدس صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے واسطہ و عطا سے [21]، بے وِساطَت ِرسول کوئی غیرِنبی کسی غیب پر مُطّلع نہیں ہوسکتا۔[22]

عقیدہ (۳): کرامتِ اولیا حق ہے ، اِس کا منکر گمراہ ہے۔[23]

مسئلہ(۵): مردہ زندہ کرنا، مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو شِفا دینا[24]، مشرق سے مغرب تک ساری زمین ایک قدم میں

طے کرجانا، غرض تمام خَوارقِ عادات[25]، اولیاء سے ممکن ہیں [26]، سوا اس معجزہ کے جس کی بابت دوسروں کے لیے ممانعت ثابت

ہوچکی ہے جیسے قرآنِ مجید کے مثل کوئی سورت لے آنا[27]، یا دنیا میں بیداری میں اﷲ عَزَّوَجَلَّ کے دیدار یا کلامِ حقیقی سے مشرف ہونا، اِس کا جو اپنے یا کسی ولی کے لیے دعویٰ کرے، کافر ہے۔[28]

مسئلہ (۶): اِن سے اِستِمداد و اِستِعانت محبوب ہے، یہ مدد مانگنے والے کی مدد فرماتے ہیں [29]،چاہے وہ کسی جائز لفظ کے ساتھ ہو۔ رہا ان کو فاعلِ مستقل جاننا، یہ وہابیہ کا فریب ہے، مسلمان کبھی ایسا خیال نہیں کرتا، مسلمان کے فعل کو خواہ مخواہ قبیح صورت پر ڈھالنا وہابیت کا خاصہ ہے[30]۔

مسئلہ (۷): اِن کے مزارات پر حاضری مسلمان کے لیے سعادت وباعثِ برکت ہے۔[31]

مسئلہ (۸): اِن کو دُور و نزدیک سے پکارنا سلفِ صالح کا طریقہ ہے۔

مسئلہ (۹): اولیائے کرام اپنی قبروں میں حیاتِ اَبدی کے ساتھ زندہ ہیں [32] ، اِن کے عِلم واِدراک وسَمع وبَصر پہلے کی بہ نسبت بہت زیادہ قوی ہیں ۔[33]

مسئلہ (۱۰): اِنھیں ایصالِ ثواب، نہایت مُوجبِ برکات و امرِ مستحب ہے، اِسے عُرفاً براہِ ادب نذر و نیاز کہتے ہیں ، یہ نذرِ شرعی نہیں جیسے بادشاہ کو نذر دینا[34]، اِن میں خصوصاً گیارھویں شریف کی فاتحہ نہایت عظیم برکت کی چیز ہے۔

مسئلہ (۱۱): عُرسِ اولیائے کر ام یعنی قرآن خوانی، و فاتحہ خوانی، و نعت خوانی، و وعظ، و ایصالِ ثواب اچھی چیز ہے۔ رہے مَنہیاتِ شرعیہ[35] وہ تو ہر حالت میں مذموم ہیں اور مزاراتِ طیبہ کے پاس اور زیادہ مذموم۔

تنبیہ: چونکہ عموماً مسلمانوں کو بحمدہٖ تعالیٰ اولیائے کرام سے نیاز مندی اور مشائخ کے ساتھ اِنھیں ایک خاص عقیدت ہوتی ہے، اِن کے سلسلہ میں منسلک ہونے کو اپنے لیے فلاحِ دارَین تصوّر کرتے ہیں ، اس وجہ سے زمانۂ حال کے وہابیہ نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے یہ جال پھیلا رکھا ہے کہ پیری، مریدی بھی شروع کر دی، حالانکہ اولیا کے یہ منکر ہیں ، لہٰذا جب مرید ہونا ہو تو اچھی طرح تفتیش کر لیں ، ورنہ اگر بد مذہب ہوا تو ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے ؎

اے بسا ابلیس آدم روئے ہست

پس بہر دستے نباید داد دست[36]

پیری کے لیے چار شرطیں ہیں ، قبل از بیعت اُن کا لحاظ فرض ہے:

او ل۱: سنّی صحیح العقیدہ ہو۔

دوم۲: اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضروریات کے مسائل کتابوں سے نکال سکے۔

سِوم۳: فاسق مُعلِن نہ ہو۔

چہارم۴: اُس کا سلسلہ نبی صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم تک متصل ہو۔[37]

نَسْأَلُ اللہَ الْعَفْوَ وَالعَافِیَۃَ فِي الدِّیْنِ وَالدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَالْاِسْتِقَامَۃَ عَلی الشَّرِیْعَۃِ الطَّاھِرَۃِ وَمَا تَوْفِیْقيْ إِلَّا بِاللہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَإِلَیْہِ أُنِیْبُ، وَصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی حَبِیْبِہٖ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَابْنِہٖ وَحِزْبِہٖ أَبَدَ الْآبِدِیْن، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنط۔(بہارِشریعت،حصہ اول،صفحہ۲۶۴تا۲۷۸)


[1] ولایت، اﷲعزَّوَجَل کی طرف سے عطا کردہ اِنعام ہے۔

[2] سخت مشکل اعمال۔

[3] فتاویٰ رضویہ ، ج ۲۱، ص ۶۰۶ : ''ولایت کسبی نہیں محض عطائی ہے ہاں کوشش اور مجاہدہ کرنے والوں کو اپنی راہ دکھاتے ہیں ۔ ''

''الملفوظ''، معروف بہ ''ملفوظات اعلی حضرت ''رحمۃ اللہ علیہ ، حصہ اول، ص۲۳ و ۲۴۔

[4] (فإنّ اللّٰہ ما اتخذ ولیاً جاہلاً ’’الفتوحات المکیۃ‘‘، ج۳، ص۹۲۔

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مجدد دین ملت امام احمد رضا خان ارشاد فرماتے ہیں : ’’حاشا! نہ شریعت و طریقت دو راہیں ہیں نہ اولیاء کبھی غیر علماء ہو سکتے ہیں ، علامہ مناوی ’’شرح جامع صغیر ‘‘پھر عارف باللہ سیدی عبد الغنی نابلسی ’’حدیقہ ندیہ ‘‘میں فرماتے ہیں : امام مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : علم الباطن لا یعرفہ إلاّ من عرف علم الظاہر [’’الحدیقہ الندیہ‘‘، النوع الثاني، ج۱، ص۱۶۵] ۔ علم باطن نہ جانے گا مگر وہ جو علم ظاہر جانتا ہے، امام شافعی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : وما اتخذ اللّٰہ ولیاً جاہلاً، اللہ نے کبھی کسی جاہل کو اپنا ولی نہ بنایا، یعنی بنانا چاہا تو پہلے اسے علم دے دیا اسکے بعد ولی کیا۔‘‘ ’’فتاوی رضویہ‘‘ ،ج۲۱، ص۵۳۰۔

[5] في ’’الیواقیت والجواہر‘‘: (اعلم أنّ عدد منازل الأولیاء في المعارف والأحوال التي ورثوہا من الرسل علیہم الصلاۃ والسلام، مائتا ألف منزل وثمانیۃ وأربعون ألف منزل وتسعمائۃ وتسعۃ وتسعون منزلاً لا بد لکل من حق لہ قدم الولایۃ أن ینزلہا جمیعہا ویخلع علیہ في کل منزل من العلوم ما لا یحصی، قال الشیخ محیي الدین: وہذہ المنازل خاصۃ بہذہ الأمۃ المحمدیۃ لم ینلہا أحد من الأمم قبلہم ولکل منزل ذوق خاص لا یکون لغیرہ

’’الیواقیت والجواہر‘‘، المبحث السابع والأربعون، الجزء الثاني، ص۳۴۸۔

[6] في ’’المعتمد المستند‘‘، حاشیۃ نمبر: ۳۱۶، ص۱۹۱: (أفضل الأولیاء المحمدیین أبو بکر، ثم عمر ، ثم عثمان، ثم علي رضي اللّٰہ تعالٰی عنھموفي ’’الحد یقۃ الند یۃ‘‘، ج۱، ص۲۹۳: (وأفضلہم) أي: الأولیاء (أبو بکر الصدیق رضياللّٰہ عنہ ثم عمر) بن الخطاب (الفاروق، ثم عثمان) بن عفان (ذو النورین، ثم علي المرتضی) ملتقطا۔

[7] ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۲۹، ص۲۳۴۔

[8] محتاج، حاجت مند۔

[9] یعنی: طریقت، شریعت کے خلا ف نہیں ہے ۔

[10] في ’’إحیاء العلوم ‘‘، کتاب قواعد العقائد، الفصل الثاني: في وجہ التدریج إلی الإرشاد۔۔۔إلخ، ج۱، ص ۱۳۸۔۱۳۹: (إنّ الباطن إن کان مناقضاً للظاہر ففیہ إبطال الشرع، وہو قول من قال: إنّ الحقیقۃ خلاف الشریعۃ وہوکفر لأنّ الشریعۃ عبارۃ عن الظاہر والحقیقۃ عبارۃ عن الباطن)(فمن قال: إنّ الحقیقۃ تخالف الشریعۃ أو الباطن یناقض الظاہر فہو إلی الکفر أقرب منہ إلی الإیمان)، ملتقطاً۔ وفي ’’عوارف المعارف‘‘، ص۵۲، ۱۲۸۔

وفي ’’کشف المحجوب‘‘، ومن ذلک الشریعۃ والحقیقۃ والفرق بینہما، ص۴۲۳۔۴۳۳۔

اعلی حضرت عظیم المرتبت پروانۂ شمع رسالت مجدد دین وملت مولاناشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرحمن ’’فتاوی رضویہ‘‘ میں فرماتے ہیں :’’ شریعت ، طریقت، حقیقت، معرفت میں باہم اصلاً کوئی اختلاف نہیں اس کا مدعی اگر بے سمجھے کہے تو نِرا جاہل ہے اور سمجھ کر کہے تو گمراہ بددین۔ شریعت حضور اقدس سید عالم صلی اللہ تَعَالٰی علیہ وسلم کے اقوال ہیں ، اور طریقت حضور کے افعال ، اور حقیقت حضور کے احوال ، اور معرفت حضور کے علومِ بے مثال ، صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وأصحابہ إلی مالا یزال(ان پر(یعنی آنحضرت صلی اللہ تَعَالٰی علیہ وسلم پر) ان کی آل پر اور صحابہ کرام پر اللہ تَعَالٰی رحمت برسائے جب تک مولیٰ تَعَالٰی فرمائے۔ت) ۔ ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ ، ج۲۱، ص۴۶۰۔ وانظر ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، الرسالۃ: ’’مقال عرفا بإعزاز شرع وعلماء‘‘،ج۲۱، ص ۵۲۱ إلی۵۶۸۔

[11] وفي ’’شرح العقائد النسفیۃ‘‘، مبحث لا یبلغ ولي درجۃ الأنبیاء ، ص۱۶۶: (ولا یصل العبد ما دام عاقلاً بالغاً إلی حیث یسقط عنہ الأمر والنہی لعموم الخطابات الواردۃ في التکالیف، وإجماع المجتہدین علی ذلک، وذہب بعض الإباحیین إلی أنّ العبد إذا بلغ غایۃ المحبۃ وصفا قلبہ واختار الإیمان علی الکفر من غیر نفاق سقط عنہ الأمر والنہي، ولایدخلہ اللہ النار بارتکاب الکبائر، وبعضہم إلی أنّہ تسقط عنہ العبادات الظاہرۃ، وتکون عباداتہ التفکّر، وہذا کفر وضلال، فإنّ أکمل الناس في المحبۃ والإیمان ہم الأنبیاء خصوصاً حبیب اللہ تعالی صلی اللّٰہ علیہ وسلم مع أنّ التکالیف في حقہم أتمّ وأکمل

في ’’منح الروض الأزہر‘‘ للقاریٔ، ص۱۲۲: (أنّ العبد ما دام عاقلاً بالغاً لا یصل إلی مقام یسقط عنہ الأمر والنہي لقولہ تعالی: { وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى یَاْتِیَكَ الْیَقِیْنُ۠(۹۹)} فقد أجمع المفسرون علی أنّ المراد بہ الموت، وذہب بعض أہل الإباحۃ إلی أنّ العبد إذا بلغ غایۃ المحبۃ وصفا قلبہ من الغفلۃ واختار الإیمان علی الکفر والکفران سقط عنہ الأمر والنہي، ولا یدخلہ اللّٰہ النار بارتکاب الکبائر، وذہب بعضہم إلی أنّہ تسقط عنہ العبادات الظاہرۃ، وتکون عباداتہ التفکر وتحسین الأخلاق الباطنۃ، وہذا کفر وزندقۃ وضلالۃ وجہالۃ، فقد قال حجۃ الإسلام: إنّ قتل ہذا أولی من مائۃ کافر

[12] في’’الیواقیت والجواھر‘‘ ، المبحث السادس والعشرون ، ص۲۰۶: (قد سئل القاسم الجنید رضي اللّٰہ عنہ عن قوم یقولون: بإسقاط التکالیف، ویزعمون أنّ التکالیف إنّماکانت وسیلۃ إلی الوصول وقد وصلنا، فقال رضي اﷲ تعالی عنہ: صدقوا في الوصول ولکن إلی سقر)۔ وانظر’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۲۱، ص۵۱۲، ۵۳۸۔

[13] اﷲ تَعَالٰی کی محبت میں غرق ہونے۔

[14] في ’’الیواقیت والجواہر‘‘، ص۲۰۷: (إنّ کل من سلب عقلہ کالبہالیل والمجانین والمجاذیب لا یطالب بأدب من الآداب بخلاف ثابت العقل فإنّہ یجب علیہ معانقۃ الأدب، والفرق أنّ من سلب عقلہ من ہؤلاء حکمہ عند اللّٰہ حکم من مات في حالۃ شہود

[15] ’’ملفوظات‘‘ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ میں ہے : ’’سچے مجذوب کی یہ پہچان ہے کہ شریعت مطہرہ کا کبھی مقابلہ نہ کریگا‘‘۔

’’ملفوظاتِ اعلی حضرت بریلوی‘‘، حصّہ دوم، ص۲۴۰۔

[16] مولاناشاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلوی ’’تفسیر عزیزی ‘‘میں زیر آیۂ کریمہ { وَ الْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَۙ(۱۸)}لکھتے ہیں : بعضے از خواص اولیاء اللہ را کہ آلہ جارحہ تکمیل وارشاد بنی نوع خود گردانیدہ اند دریں حالت ہم تصرف در دنیا دادہ ،و استغراق آنہا بجہت کمال وسعت مدارک آنہا مانع توجہ بایں سمت نمی گردد و اویسیان تحصیل کمالات باطنی از آنہا مے نمایند اربابِ حاجات ومطالب حل مشکلات خود از انہامی طلبند و مے یابند۔ یعنی: اللہ تعالی کے بعض خاص اولیاء ہیں جن کو بندوں کی تربیتِ کاملہ اور راہنمائی کے لئے ذریعہ بنایا گیا ہے، انھیں اس حالت میں بھی دنیا کے اندر تصرف کی طاقت واختیار دیاگیاہے اور کامل وسعتِ مدارک کی وجہ سے ان کا استغراق اس طرف متوجہ ہونے سے مانع نہیں ہوتا، صوفیائے اویسیہ باطنی کمالات ان اولیاء اللہ سے حاصل کرتے ہیں اور غرض مند و محتاج لوگ اپنی مشکلات کا حل ان سے طلب کرتے اور پاتے ہیں ۔’’فتح العزیز‘‘(تفسیر عزیزی تحت الآیۃ: وَ الْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَۙ(۱۸)، ص۲۰۶، بحوالہ ’’فتاوی رضویہ‘‘ ج۲۹، ص۱۰۳۔۱۰۴ ۔

[17] في ’’الیواقیت والجواہر‘‘: (من الأدب أن یقال: فلان یطلع علی قدم الأ نبیاء، ولا یقال: إنّہ علی قلبہم؛ لأنّ الأولیاء علی آثار الأنبیاء مقتدون ولو أنّہم کانوا علی قلوب الأنبیاء لنالوا ما نالتہ الأنبیاء أصحاب الشرائع فلما أطلعني اللّٰہ علی مقامات الأنبیاء علمت أنّ للأولیاء معراجین أحدہما یکونون فیہ علی قلوب الأنبیاء ما عدا محمداً صلی اللّٰہ علیہ وسلم کما سیأتي لکن من حیث ہم أولیاء أو ملہمون فیما لا تشریع والمعراج التالي یکونون فیہ علی أقدام الأنبیاء أصحاب التشریع فیأخذون معاني شرعہم بالتعریف من اللّٰہ ولکن من مشکاۃ نور الأنبیاء فلا یخلص لہم الأخذ عن اللّٰہ ولا عن الروح القدس وما عدا ذلک فإنّہ یخالص لہم من اللّٰہ تعالی ومن الروح القدس من طریق الإلہام

(’’الیواقیت والجواہر‘‘، المبحث السابع والأربعون، الجزء الثاني، ص۳۴۸۔۳۴۹)۔

انظر ’’بہجۃ الاسرار‘‘، ذ کر کلمات أخبر بہا عن نفسہ۔۔۔ إلخ، ص۵۰، وفي ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۳۰، ۴۹۲۔۴۹۳۔

[18] في ’’تفسیرات أحمدیۃ‘‘، پ۲۱، لقمان: تحت الآیۃ: ۳۴، ص۶۰۸۔۶۰۹: (ولک أن تقول إنّ علم ہذہ الخمسۃ وإن کان لا یعلمہ إلاّ اللّٰہ لکن یجوز أن یعلمہا من یشاء من محبّہ وأولیاء ہ بقرینۃ قولہ تعالی: { اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ(۱۳)} علی أن یکون الخبیر بمعنی المخبروفي ’’تفسیر الصاوي‘‘، پ۲۱، لقمان: تحت الآیۃ: ۳۴، ج۵، ص۱۶۰۷: ({وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَكْسِبُ غَدًاؕ-} أي: من حیث ذاتہا، وأمّا بإعلام اللّٰہ للعبد فلا مانع منہ کالأنبیاء وبعض الأولیاء، قال تعالی:{ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَۚ-}۔ وقال تعالی:{ عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ(۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ } قال العلماء: وکذا ولي، فلا مانع من کون اللّٰہ یطلع بعض عبادہ الصالحین علی بعض ہذہ المغیبات، فتکون معجزۃ للنبي وکرامۃ للولي

[19] اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مجدد دین و ملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ’’ما کان و مایکون‘‘ کے معنی بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : ’’ اس کے معنی: ’’ما کان من أول یوم ویکون إلی آخر الأیام‘‘، یعنی: روزِ اول آفرینش سے روزِ قیامت تک جو کچھ ہوا اور ہونے والا ہے ایک ایک ذرے کا علم تفصیلی ۔‘‘ ’’ فتاوی رضویہ‘‘، ج ۱۵ ، ص ۲۷۵۔

[20] ’’الطبقات الکبری‘‘ المسمّاۃ بـ’’لواقح الأنوار في طبقات الأخیار‘‘ للشعراني، الجزء الأول، ص ۲۰۸ و ۲۳۶ و۲۵۷۔

[21] ’’إرشاد الساري‘‘ ، کتاب تفسیر القرآن، تحت الحدیث: ۴۶۹۷، ج۱۰، ص۳۶۹: ( ’’مفاتیح الغیب‘‘ أي: خزائن الغیب ’’خمس لا یعلمھا إلاّ اللّٰہ‘‘ ذکر خمساً وإن کان الغیب لا یتناھی؛ لأنّ العدد لا ینفي الزائد، أو لأنّھم کانوا یعتقدون معرفتھا ’’لا یعلم ما في غد إلاّ اللّٰہ ولا یعلم ما تغیض الأرحام‘‘ أي: ما تنقصہ، ’’إلاّ اللّٰہ ولا یعلم متی یأتي المطر أحد إلاّ اللّٰہ‘‘ أي: إلاّ عند أمر اللّٰہ بہ فیعلم حینئذ کالسابق إذا أمر تعالی بہ، ’’ولا تدري نفس بأي أرض تموت‘‘ أي: في بلدھا أم في غیرھا کما ل اتدري في أيّ وقت تموت، ’’ولا یعلم متی تقوم الساعۃ‘‘ أحد، ’’إلاّ اللّٰہ‘‘ إلاّ من ارتضی من رسول فإنّہ یطلعہ علی ما یشاء من غیبہ والولي التابع لہ یأخذ عنہ)۔انظر التفصیل في ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۲۹، ص۴۰۸، ۴۱۵، ۴۴۸، ۴۷۵، ۴۷۶۔

[22] في ’’إرشاد الساري‘‘، کتاب الإیمان، باب سؤال جبریل النبيصلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۔۔۔إلخ ، تحت الحد یث: ۵۰، ج۱، ص۲۴۳: (فمن ادّعی علم شيء منہا غیر مستند إلی الرسول صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کان کاذباً في دعواہ

وفي’’فتح الباري‘‘، کتاب الإیمان، باب سؤال جبریل النبي صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۔۔۔إلخ ، ج۱، ص۱۱۴۔

وفي ’’عمدۃ القاري‘‘، ج۱، ص۴۲۵۔ ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج ۲۹، ص۴۷۲۔

[23] في ’’منح الروض الأزہر‘‘ للقاریٔ، ص۷۹: (والکرامات للأولیاء حق أي: ثابت بالکتاب والسنۃ، ولا عبرۃ بمخالفۃ المعتزلۃ وأھل البدعۃ في إنکار الکرامۃ

وفي ’’الحدیقۃ الندیۃ‘‘، ج۱، ص۲۹۰: (کرامات الأولیاء باقیۃ بعد موتہم أیضاً کما أنّہا باقیۃ فيحال نومہم، ومن زعم خلاف ذلک في الکرامات فہو جاھل متعصّب ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۸، ص۷۵، ج۹، ص۷۶۶، ج ۱۴، ص۳۲۴۔

[24] أخبرنا الشیخ القدوۃ أبو الحسن علي القرشي رضي اللّٰہ عنہ بجبل قاسیون، سنۃ ثماني عشرۃ وستمائۃ، قال: کنت أنا والشیخ أبو الحسن علي بن الہیتي عند الشیخ محیي الدین عبد القادر رضي اللّٰہ عنہ بمدرستہ بباب الأزج سنۃ تسع وأربعین

وخمسمائۃ، فجاء ہ أبو غالب فضل اللّٰہ بن إسماعیل البغدادي الأزجي التاجر، فقال لہ: یا سیدي قال جدک رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من دعي فلیجب، وھا أنا ذا قد دعوتک إلی منزلي، فقال: إن أذن لي أجبت، ثم أطرق ملیاً ثم قال: نعم، فرکب بغلتہ وأخذ الشیخ علي برکابہ الأیمن وأخذت أنا بالأیسر فأتینا دارہ، وإذا فیہا مشایخ بغداد وعلماؤہا وأعیانہا، فمد سماطاً فیہ من کل حلو وحامض، وأتی بسلۃ کبیرۃ مختومۃ یحملہا اثنان وضعت آخر السماط، فقال أبو غالب: الصلاۃ والشیخ مطرق فلم یأکل ولا أذن في الأکل ولا أکل أحد وأہل المجلس کأن رؤوسہم الطیر من ہیبتہ، فأشار إلي وإلی الشیخ علي بن الہیتي أن قدما إلي تلک السلۃ، فقمنا نحملہا وہي ثقیلۃ حتی وضعناہا بین یدیہ، فأمرنا بفتحہا ففتحناہا فإذا فیہا ولد لأبي غالب أکمہ مقعد مجذوم مفلوج، فقال لہ الشیخ: قم بإذن اللّٰہ معافی، فإذا الصبي یعدو وہو یبصر ولا بہ عاہۃ، فضج الحاضرون وخرج الشیخ في غفلات الناس، ولم یأکل شیئاً، فجئت إلی سیدي الشیخ أبي سعد القیلوي وأخبرتہ بذلک، فقال: الشیخ عبد القادر یبریٔ الأکمہ والأبرص ویحیي الموتی بإذن اللّٰہ۔ قال: ولقد شہدت مجلسہ مرۃ في سنۃ تسع وخمسین وخمسمائۃ، فأتاہ جمع من الرافضۃ بقفتین مخیطتین مختومتین، وقالوا لہ: قل لنا ما في ہاتین القفتین، فنزل من علی الکرسي ووضع یدہ علی إحداہما وقال: في ہذہ صبي مقعد، وأمر ابنہ عبد الرزاق بفتحہا فإذا فیہا صبي مقعد، فأمسک بیدہ وقال لہ: قم فقام یعدو، ثم وضع یدہ علی الأخری وقال: وفي ہذہ صبي لا عاہۃ بہ وأمر ابنہ بفتحہا ففتحہا، وإذا فیہا صبي یمشي فأمسک بناصیتہ وقال لہ: اقعد فأقعد، فتابوا عن الرفض علی یدہ، ومات في المجلس یومئذ ثلاثۃ، ولقد أدرکت المشایخ من صدر القرن الماضي یقولون أربعۃ ہم الذین یبرؤن الأکمہ والأبرص الشیخ عبد القادر، والشیخ بقا بن بطو، والشیخ أبو سعد القیلوي، والشیخ علي ابن الہیتي رضي اللّٰہ عنہم، ولقد رأیت أربعۃ من المشایخ یتصرفون في قبورہم کتصرف الإحیاء، الشیخ عبد القادر، والشیخ معروف الکرخي، والشیخ عقیل المنجبي، والشیخ حیا بن قیس الحراني رضي اللّٰہ عنہم، ولقد حضرت عندہ یوماً فاستقضاني حاجۃ، فأسرعت في قضائہا، فقال لي: تمن ما ترید، قلت: أرید کذا وذکرت أمراً من أمور الباطن، فقال: خذہ إلیک فوجدتہ في ساعتي رضي اللّٰہ عنہ۔ ’’بھجۃ الأسرار‘‘، ذکر فصول من کلامہ مرصعا بشيئ۔۔۔إلخ، ص۱۲۳۔۱۲۴۔

25 تمام خلافِ عادات باتیں یعنی کرامات۔

[26] وفي ’’شرح العقائد النسفیۃ‘‘، مبحث کرامات الأولیاء حق، ص۱۴۶ تا ۱۴۹: (فتظھر الکرامۃ علی طریق نقض العادۃ للولي من قطع المسافۃ البعیدۃ في المدۃ القلیلۃ کإتیان صاحب سلیمان علیہ السلام وھو آصف بن برخیا علی الأشھر بعرش بلقیس قبل ارتداد الطرف مع بُعد المسافۃ، وظھور الطعام والشراب واللباس عند الحاجۃ کما في حق مریم فإنّہ { كُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَكَرِیَّا الْمِحْرَابَۙ-وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًاۚ-قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰى لَكِ هٰذَاؕ-قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِؕ-}، والمشي علی الماء کما نقل

نقل عن کثیر من الأو لیاء والطیران في الھواء کما نقل عن جعفر بن أبي طالب ولقمان السرخسي وغیرھما وکلام الجماد والعجمائ، أمّا کلام الجماد فکما روي أنّہ کان بین یدي سلمان وأبي الدرداء قصعۃ فسبحت وسمعا تسبیحاً، وأما کلام العجماء فکتکلم الکلب لأصحاب الکہف وکما روی النبيعلیہ السلام قال بینما رجل یسوق بقرۃ قد حمل علیہا إذا التفتت البقرۃ إلیہ وقالت إنّي لم أخلق لہذا وإنّما خلقت للحرث، فقال الناس: سبحان اللّٰہ تتکلم البقرۃ، فقال النبيصلی اللّٰہ علیہ السلام آمنت بہذا واندفاع المتوجہ من البلاء وکفایۃ المہمّ عن الأعداء وغیر ذلک من الأشیاء مثل رؤیۃ عمر وہو علی المنبر في ’’المدینۃ‘‘ جیشہ بـ’’نہاوند‘‘ حتی قال لأمیر جیشہ: یا ساریۃ الجبل الجبل تحذیراً لہ من وراء الجبل لمکر العدو ہناک وسماع ساریۃ کلامہ مع بُعد المسافۃ وکشرب خالد السمّ من غیر تضرر بہ وکجریان النیل بکتاب عمر، وأمثال ھذا أکثر من أن یحصی ولما استدلت المعتزلۃ المنکرۃ لکرامۃ الأولیاء بأنّہ لو جاز ظہور خوارق العادات من الأولیاء لاشتبہ بالمعجزۃ فلم یتمیز النبي من غیر النبي أشار إلی الجواب بقولہ: ویکون ذلک أي: ظہورخوارق العادات من الولي الذي ہو من آحاد الأمۃ معجزۃ للرسول الذي ظہرت ہذہ الکرامۃ لواحد من أمتہ؛ لأنّہ یظہر بہا أي: بتلک الکرامۃ أنّہ ولي ولن یکون ولیاً إلاّ وأن یکون محقا في دیانتہ ودیانتہ الإقرار بالقلب واللسان برسالۃ رسولہ مع الطاعۃ لہ في أوامرہ ونواہیہ حتی لو ادعی ھذا الولي الاستقلا ل بنفسہ وعدم المتابعۃ لم یکن ولیاً ولم یظہرذلک علی یدہ، والحاصل أنّ الأمر الخارق للعادۃ فہو بالنسبۃ إلی النبي علیہ السلام معجزۃ سواء ظہر من قبلہ أو من قبل آحاد أمتہ وبالنسبۃ إلی الوليکرامۃ لخلوہ عن دعوی نبوۃ من ظہر ذلک من قبلہ فالنبي لا بد من علمہ بکونہ نبیاً ومن قصدہ إظھار خوارق العادات ومن حکمہ قطعاً بموجب المعجزات بخلا ف الولي

27 في ’’روح المعاني‘‘، پ ۲۳، یس: ۳۸، الجزء الثالث والعشرون، ص۲۰: (وأنت تعلم أنّ المعتمد عندنا جواز ثبوت الکرامۃ للولي مطلقاً إلاّ فیما یثبت بالدلیل عدم إمکانہ کالإتیان بسورۃ مثل إحدی سور القرآن في ’’رد المحتار‘‘، کتاب النکاح، باب العدۃ، ج۵، ص ۲۵۳: (والحاصل أنّہ لا خلاف عندنا في ثبوت الکرامۃ، وإنّما الخلاف فیما کان من جنس المعجزات الکبار، والمعتمد الجواز مطلقاً إلاّ فیما ثبت بالدلیل عدم إمکانہ کالإتیان بسورۃ

[28] وفي ’’منح الروض الأزہر‘‘ للقاریٔ، ومنہا: ہل یجوز رؤیۃ اللّٰہ تعالی في الدنیا، ص۱۲۴: (وقال الأردبیلي في کتابہ ’’الأنوار‘‘: ولو قال: إنّي أری اللّٰہ تعالی عیاناً في الدنیا أو یکلمني شفاھاً کفر)۔

في ’’الفتاوی الحدیثیۃ‘‘، مطلب: في رؤیۃ اللّٰہ تعالٰی في الدنیا، ص۲۰۰: (لا یجوز لأحد أن یدعي أنّہ رأی اللّٰہ بعین رأسہ، ومن زعم ذلک فہو کافر مراق الدم، کما صرح بہ من أئمتنا صاحب ’’الأنوار‘‘ ونقلہ عنہ جماعۃ وأقروہ۔ وحاصل عبارتہ: أنّ من قال: إنّہ یری اللّٰہ عیاناً في الدنیا ویکلمہ شفاہاً فہو کافر)۔

في ’’المعتقد المنتقد‘‘، منہ أنّہ تعالٰی مرئي بالأبصار في دار القرار، ص۵۸: (وکفروا مدعي الرؤیۃ کما أنّ القاریٔ في ذیل قول القاضي، وکذلک من ادعی مجالسۃ اللّٰہ تعالی والعروج إلیہ ومکالمتہ قال: وکذا من ادّعی رؤیتہ سبحانہ في الدنیا بعینہ

[29] في ’’المدخل‘‘، فصل في زیارۃ القبور، الجزء الأول، ج۱، ص۱۸۴: (فإن کان المیت المزار ممن ترجی برکتہ فیتوسل إلی اللّٰہ تعالی بہ ، وکذلک یتوسل الزائر بمن یراہ المیت ممن ترجی برکتہ إلی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بل یبدأ بالتوسل إلی اللّٰہ تعالی بالنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، إذ ہو العمدۃ في التوسل، والأصل في ہذا کلہ، والمشرع لہ فیتوسل بہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وبمن تبعہ بإحسان إلی یوم الدین، وقد روی البخاري عن أنس رضي اللّٰہ عنہ ((أنّ عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ کان إذا قحطوا استسقی بالعباس فقال: اللہم إنا کنا نتوسل إلیک بنبیک صلی اللّٰہ علیہ وسلم فتسقینا وإنا نتوسل إلیک بعمّ نبیک فاسقنا فیسقون))[’’صحیح البخاري‘‘، کتاب الاستسقائ، باب سؤال الناس۔۔۔إلخ، ج۱، ص ۳۴۶، الحدیث: ۱۰۱۰]انتہی، ثم یتوسل بأہل تلک المقابر أعني بالصالحین منہم في قضاء حوائجہ ومغفرۃ ذنوبہ، ثم یدعو لنفسہ ولوالدیہ ولمشایخہ ولأقاربہ ولأہل تلک المقابر ولأموات المسلمین ولأحیائہم وذریتہم إلی یوم الدین ولمن غاب عنہ من إخوانہ ویجأر إلی اللّٰہ تعالی بالدعاء عندہم ویکثر التوسل بہم إلی اللہ تعالی؛ لأنّہ سبحانہ وتعالی اجتباہم وشرّفہم وکرمہم فکما نفع بہم في الدنیا ففي الآخرۃ أکثر، فمن أراد حاجۃ فلیذہب إلیہم ویتوسل بہم، فإنّہم الواسطۃ بین اللہ تعالی وخلقہ، وقد تقرر في الشرع وعلم ما للّٰہ تعالی بہم من الاعتنائ، وذلک کثیر مشہور، وما زال الناس من العلماء والأکابر کابراً عن کابر مشرقاً ومغرباً یتبرکون بزیارۃ قبورہم ویجدون برکۃ ذلک حساً ومعنًی، وقد ذکر الشیخ الإمام أبو عبد اللہ بن النعمان رحمہ اللّٰہ فی کتابہ المسمی بـ ’’سفینۃ النجاء لأہل الالتجائ‘‘ في کرامات الشیخ أبي النجاء في أثناء کلامہ علی ذلک ما ہذا لفظہ: تحقق لذوي البصائر والاعتبار أن زیارۃ قبور الصالحین محبوبۃ لأجل التبرک مع الاعتبار؛ فإنّ برکۃ الصالحین جاریۃ بعد مماتہم کما کانت فی حیاتہم والدعاء عند قبور الصالحین، والتشفع بہم معمول بہ عند علمائنا المحققین من أئمۃ الدین انتہی۔

في ’’أشعۃ اللمعات‘‘، کتاب الجنائز، باب زیارۃ القبور، ج۱، ص۷۶۲: (واثبات کردہ اند آن را مشایخ صوفیہ قدس اللّٰہ اسرارھم وبعض فقہاء رحمۃ اللّٰہ علیھم واین امری محقق ومقرراست نزداہل کشف وکمل ازایشان تاآنکہ بسیاری رافیوض وفتوح ازارواح رسیدہ واین طائفہ رادراصطلاح ایشان اویسی خوانند امام شافعی گفتہ است قبرموسی کاظم تریاق مجرب ست مراجابت وعاراوحجۃ الاسلام محمد غزالی گفتہ ہرکہ استمداد کردہ شود بوی درحیات استمدادکردہ میشود بوے بعد ازوفات ویکی ازمشایخ عظام گفتہ است دیدم چہارکس را ازمشایخ کہ تصرف میکنند درقبور خود مانند تصرفہاے ایشان درحیات خود یابیشتروشیخ معروف کرخی وشیخ عبدالقادرجیلانی ودوکس دیگرراازاولیاشمردہ ومقصود حصرنیست انچہ خود دیدہ یافتہ است گفتہ وسیدی احمد بن مرزوق کہ از اعاظم فقہاو علماومشایخ دیارمغرب ست گفت کہ روزے شیخ ابوالعباس حضرمی از من پرسید کہ امدادحی اقوی است یاامداد میت من بگفتم قوی میگویند کہ امدادحی قوی تراست ومن میگویم کہ امداد میت قوی ترست پس شیخ گفت نعم زیراکہ دی دربساط حق است ود رحضرت اوست نقل درین معنی ازین طائفہ بیشترازان است کہ حصرواحصارکردہ شودویافتہ نمیشود درکتاب وسنت واقوال سلف صالح کہ منافی ومخالف این باشد ورد کند این را وبتحقیق ثابت شدہ است بآیات واحادیث کہ روح باقی است و اورا علم وشعور بزائران واحوال ایشان ثابت است وارواح کاملان را قربے ومکانتے درجناب حق ثابت ست چنانکہ در حیات بود یا بیشتر ازان واولیا را کرامات وتصرف در اکوان حاصل است وآن نیست مگر ارواح ایشان را وارواح باقی ست وتصرف حقیقی نیست مگر خدا عز شانہ وہمہ بقدرت اوست وایشان فانی اند در جلال حق در حیات وبعد از ممات پس اگر دادہ شود مراحدی را چیزے بوساطت یکی از دوستان حق ومکانتی کہ نزد خدا دارد ودر نبا شد چنانکہ در حالت حیات بود ونیست فعل وتصرف در ہر دوحالت مگر حق را جل جلالہ وعم نوالہ ونیست چیزے کہ فرق کند میان ہر دوحالت و یافتہ نشدہ است دلیلی بران در شرح شیخ ابن حجر ہیتمی مکی در شرح حدیث: ((لعن اللّٰہ الیہود والنصاری اتخذوا قبور أنبیائہم مساجد))[’’صحیح البخاري‘‘، کتاب الصلاۃ، الحدیث: ۴۲۷، ج ۱، ص ۱۶۴]گفتہ است کہ این برتقدیرے ست کہ نماز گزارد بجانب قبر از جہت تعظیم وے کہ آن حرام ست باتفاق واما اتخاذ مسجد در جوار پیغمبرے یاصالحی ونماز گزاردن نزد قبروے نہ بقصد تعظیم قبر وتوجہ بجانب قبر بلکہ بہ نیت حصول مدد از وے تا کامل شود ثواب عبادت ببرکت قبر ومجاورت مرآن روح پاک را حرجے نیست)۔ ’’أشعۃ اللمعات‘‘، کتاب الجنائز، باب زیارۃ القبور، ص ۷۶۲۔۷۶۳۔یعنی: ’’مشائخ صوفیہ اور بعض فقہائے کرام رحمۃ اللہ علیہم نے اولیاء کرام سے مدد حاصل کرنے کو ثابت اور جائز قرار دیا ہے اور یہ عقیدہ اہل کشف اور ان کے کاملین کے ہاں محقق اور طے شدہ عقیدہ ہے یہاں تک کہ بہت سے حضرات کو ان ارواح سے فیوض اور فتوح حاصل ہوئے ہیں اور اس گروہ صوفیہ کی اصطلاح میں انھیں اویسی کہتے ہیں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حضرت موسی کاظم کی قبر انور قبولیت دعا کے لیے تریاق مجرب ہے ،حجۃ الاسلام امام محمد غزالی نے فرمایا: جس سے اس کی زندگی میں مدد لینا جائز ہے ، اس سے بعد وفات بھی مدد طلب کرنا جائز ہے ۔ مشائخ عظام میں سے ایک نے فرمایا :میں نے چار مشائخ کو دیکھا ہے کہ وہ اپنی قبور میں اس طرح تصرف کرتے ہیں جس طرح اپنی زندگی میں تصرف کرتے تھے یا اس سے بڑھ کر حضرت شیخ معروف کرخی، حضرت شیخ عبد القادر جیلانی اور دو اور بزرگ شمار کیے اوران چار میں حصر مقصود نہیں جو کچھ اس بزرگ نے خود دیکھا اور پایا اس کا بیان کردیا ۔

سیدی احمد بن مرزوق رضی اللہ عنہ کہ اعاظم فقہا وعلماء اور مشائخ دیار مغرب میں سے ہیں ، فرماتے ہیں : کہ ایک دن شیخ ابو العباس حضرمی نے مجھ سے دریافت کیا :کہ زندہ کی امداد زیادہ قوی ہے یا میت کی ؟میں نے کہا: ایک قوم کہتی ہے کہ زندہ کی امداد قوی تر ہے اور میں کہتا ہوں کہ میت کی امداد قوی تر ہے ۔شیخ نے فرمایا :ہاں ؛کیونکہ وفات یافتہ بزرگ حق تَعَالٰی کی درگاہ میں اسکے سامنے ہے ۔اس بارے میں اس گروہ صوفیہ سے اس قدر رویات منقول ہیں کہ حد شمار سے باہر ہیں ۔

پھر کتاب وسنت واقوال سلف و صالحین میں ایسی کوئی چیز نہیں جو ا س عقیدہ کے منافی اور مخالف ہواور اسکی تردید کرتی ہو بلکہ آیات و احادیث سے تحقیقی طور پر یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ روح باقی ہے اور اسے زائرین اور انکے حالات کا علم وشعور ہوتاہے اور یہ کہ ارواح کاملین کو جناب حق تَعَالٰی میں قرب ومرتبہ حاصل ہے جس طرح زندگی میں انھیں حاصل تھا بلکہ اس سے بڑھ کر ، اور اولیاء کرام کی کرامات بر حق ہیں اور انھیں کائنات میں تصرف کی قوت وطاقت حاصل ہے یہ سب کچھ انکی ارواح کرتی ہیں ،اور وہ باقی ہیں اور متصرف حقیقی تو اللہ عزشانہ ہے، یہ سب کچھ حقیقۃً اسی کی قدرت کا کرشمہ ہے یہ حضرات اپنی زندگی میں اور بعداز وصال جلال حق میں فانی اور مستغرق ہیں ، لہذااگر کسی کو دوستانِ حق کی وساطت سے کوئی چیز اور مرتبہ حاصل ہوجائے تو کوئی بعید نہیں (اور اس کا انکار درست نہیں )جیساکہ انکی ظاہری زندگی میں تھا اور حقیقۃً تو فعل و تصرف حق جل جلالہ وعم نوالہ کا ہوتا ہے اور ایسی کوئی دلیل اور وجہ موجود نہیں جو زندگی اور موت میں فرق کرے۔

حضرت شیخ ابن حجر ہیتمی مکی رحمہ اللہ تَعَالٰی نے حدیث پاک: ((لعن اللّٰہ الیہود والنصاری اتخذوا قبور أنبیائہم مساجد))[’’صحیح البخاري‘‘، کتاب الصلاۃ، الحدیث: ۴۲۷، ج ۱، ص ۱۶۴] (اللہ تعالی نے یہود ونصاری پر لعنت کی ہے کیونکہ انھوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کی قبور کو سجدہ گاہ بنالیا) کی شرح میں فرمایاکہ یہ اس صورت میں ہے کہ انکی تعظیم کی خاطر ان کی قبور کی طرف منہ کرکے نماز پڑھے کہ ایسا کرنا بالاتفاق حرام ہے لیکن کسی پیغمبر یا ولی کے پڑوس میں مسجد بنانا اور اسکی تعظیم کے ارادہ اور قبر کی طرف توجہ کیے بغیر نماز ادا کرنا جائز ہے بلکہ حصول مدد کی نیت سے تاکہ اس کی قبر کی برکت سے عبادت کا ثواب کامل ملے اور اسکی روح پاک کا قرب وپڑوس نصیب ہوتو اس میں کوئی حرج وممانعت نہیں ۔‘‘ ’’اشعۃ اللمعات‘‘ (مترجم)، کتاب الجنائز، زیارت قبور کابیان، ج۲، ص۹۲۳۔۹۲۴۔ انظر ’’الفتاوی الرضویہ‘‘، ج۹، ص۷۹۱ إلی ۷۹۸۔

[30] ’’ فتاوی رضویہ‘‘، ج ۲۱، ص ۳۳۱۔۳۳۲ میں ہے: ’’اہل استعانت سے پوچھو تو کہ تم انبیاء واولیاء علیہم افضل الصلوۃ والسلام والثناء کو عیاذا باللہ خدا یا خدا کا ہمسر یا قادر بالذات یا معین مستقل جانتے ہو یا اللہ عزوجل کے مقبول بندے اس کی سرکار میں عزت ووجاہت والے اس کے حکم سے اس کی نعمتیں بانٹنے والے مانتے ہو، دیکھو تو تمھیں کیا جواب ملتاہے۔

اما م علامہ خاتمۃ المجتہدین تقی الملۃ والدین فقیہ محدث ناصر السنۃ ابوالحسن علی بن عبدالکافی سبکی رضی اللہ تعالی عنہ کتاب مستطاب ’’شفاء السقام ‘‘میں استمداد واستعانت کو بہت احادیث صریحہ سے ثابت کرکے ارشاد فرماتے ہیں :

لیس المراد نسبۃ النبي صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم إلی الخلق والاستقلال بالأفعال ہذا لا یقصدہ مسلم فصرف الکلام إلیہ ومنعہ من باب التلبیس في الدین والتشویش علی عوام الموحدین۔ [’’ شفاء السقام في زیارۃ خیر الأنام‘‘، الباب الثامن في التوسل ۔۔۔إلخ، ص۱۷۵]۔

یعنی: نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے مددمانگنے کا یہ مطلب نہیں کہ حضور انور کو خالق اور فاعل مستقل ٹھہراتے ہوں یہ تو اس معنی پر کلام کو ڈھال کر استعانت سے منع کرنا دین میں مغالطہ دینا اور عوام مسلمانوں کو پریشانی میں ڈالنا ہے۔

صدقت یا سیدی جزاک اﷲعن الإسلام والمسلمین خیراً، اٰمین!

اے میرے آقا! آپ نے سچ فرمایا اللہ تعالی آپ کو اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیرعطا فرمائے۔ آمین (ت)

فقیہ محدث علامہ محقق عارف باللہ امام ابن حجر مکی قدس سرہ الملکی کتاب افادت نصاب ’’جوہر منظم‘‘ میں حدیثوں سے استعانت کا ثبوت دے کر فرماتے ہیں : فالتوجّہ والاستغاثۃ بہ صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم بغیرہ لیس لہما معنی في قلوب المسلمین غیر ذلک ولا یقصد بہما أحد منہم سواہ فمن لم ینشرح صدرہ لذلک فلیبکِ علی نفسہ نسأل اﷲ العافیۃ والمستغاث بہ في الحقیقۃ ہو اﷲ، والنبي صلی اﷲ تعالی علیہ واسطۃ بینہ وبین المستغیث فہو سبحانہ مستغاث بہ والغوث منہ خلقاً وإیجاداً والنبي صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم مستغاث والغوث منہ سبباً وکسباً۔ [’’الجوہر المنظم‘‘، الفصل السابع، فیما ینبغي للزائر۔۔۔ إلخ، ص۶۲]۔

یعنی :’’رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یا حضور اقدس کے سوا اور انبیاء واولیاء علیہم افضل الصلاۃ والثناء کی طرف توجہ اور ان سے فریاد کے یہی معنی مسلمانوں کے دل میں ہیں اس کے سوا کوئی مسلمان اور معنی نہیں سمجھتا ہے نہ قصد کرتا ہے تو جس کا دل اسے قبول نہ کرے وہ آپ اپنے حال پر روئے، ہم اللہ تبارک وتعالی سے عافیت مانگتے ہیں حقیقتاً فریاد اللہ عزوجل کے حضور ہے اور نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اس کے اور اس فریادی کے بیچ میں وسیلہ و واسطہ ہیں ، تو اللہ عزوجل کے حضور فریاد ہے اور اس کی فریاد رسی یوں ہے کہ مراد کو خلق وایجاد کرے، اور نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے حضور فریاد ہے اور حضور کی فریاد رسی یوں ہے کہ حاجت روائی کے سبب ہوں اور اپنی رحمت سے وہ کام کریں جس کے باعث اس کی حاجت روا ہو۔‘‘

[31] ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ میں ہے: ’’زیارتِ قبور سنت ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ تَعَالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : ((ألا فزوروہا فإنّہا تزہّدکم في الدنیا وتذکّرکم الآخرۃ))، [’’سنن ابن ماجہ‘‘، ج۲، ص۲۵۲، الحدیث: ۱۵۷۱، ’’المستدرک‘‘، ج۱، ص۷۰۸۔۷۰۹، الحدیث: ۱۴۲۵۔۱۴۲۸]، سن لو! قبور کی زیارت کرو کہ وہ تمہیں دنیا میں بے رغبت کرے گی اور آخرت یاددلائے گی۔ خصوصاً زیارتِ مزاراتِ اولیائے کرام کہ ُموجبِ ہزاراں ہزار برکت وسعادت ہے، اسے بدعت نہ کہے گا مگر وہابی نابکار ،ابنِ تیمیہ کا فضلہ خوار۔وہاں جاہلوں نے جوبدعات مثل رقص ومزامیر ایجاد کرلئے ہیں وہ ضرور ناجائز ہیں ، مگر ان سے زیارت کہ سنت ہے بدعت نہ ہوجائے گی ۔جیسے نماز میں قرآن شریف غلط پڑھنا، رکوع وسجود صحیح نہ کرنا، طہارت ٹھیک نہ ہونا عام عوام میں جاری وساری ہے اس سے نماز بُری نہ ہو جائیگی‘‘۔ ’’فتاویٰ رضویہ‘‘، ج۲۹، ص۲۸۲۔

[32] في ’’تفسیر روح البیان‘‘، ج۳، ص۴۳۹: قال الإمام الإسماعیل حقي رحمۃ اللّٰہ تعالی علیہ: (أجساد الأنبیاء والأولیاء والشہداء لا تبلی ولا تتغیر لما أنّ اللّٰہ تعالی قد نفی أبدانہم من العفونۃ الموجبۃ للتفسخ وبرکۃ الروح المقدس إلی البدن کالإکسیراعلی حضرت عظیم المرتبت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرحمن ’’فتاوی رضویۃ‘‘، میں ارشاد فرماتے ہیں : ’’اہلسنت کے نزدیک انبیاء وشہداء علیہم التحیۃ والثناء اپنے ابدان شریفہ سے زندہ ہیں بلکہ انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کے ابدان لطیفہ زمین پر حرام کئے گئے ہیں کہ وہ ان کو کھائے اسی طرح شہداء واولیاء علیہم الرحمۃ والثناء کے ابدان وکفن بھی قبور میں صحیح وسلامت رہتے ہیں وہ حضرات روزی ورزق دئے جاتے ہیں۔

اور شیخ الہند محدث دہلوی علیہ الرحمۃ شرح ’’مشکوٰۃ ‘‘میں فرماتے ہیں : اولیائے خدائے تعالی نقل کر دہ شدہ اند ازیں دار فانی بدار بقا وزندہ اند نزد پر وردگار خود، ومرزوق اند وخوشحال اند، ومردم را ازاں شعور نیست)۔

یعنی: اللہ تَعَالٰی کے اولیاء اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرگئے ہیں اور اپنے پروردگار کے پاس زندہ ہیں انہیں رزق دیا جاتا ہے وہ خوش حال ہیں اور لوگوں کو اس کا شعور نہیں ۔

اور علامہ علی قاری شرح ’’مشکوٰۃ‘‘ میں لکھتے ہیں : (لا فرق لہم في الحالین ولذا قیل: أولیاء اللّٰہ لا یموتون ولکن ینتقلون من دار إلی دار ۔۔۔إلخ)، ملتقطا۔ ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۹، ص۴۳۱۔۴۳۳۔

[33] اعلی حضرت عظیم المرتبت مولاناشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرحمن ’’فتاوی رضویہ‘‘، میں ارشاد فرماتے ہیں : نوع اول: بعد موت بقائے روح وصفات وافعال روح میں ۔ یہاں وہ حدیثیں مذکور ہوں جن سے ثابت کہ روح فنا نہیں ہوتی اور اس کے افعال وادراکات جیسے دیکھنا

دیکھنا بولنا سننا سمجھنا آناجانا چلنا پھرنا سب بدستور رہتے ہیں بلکہ اس کی قوتیں بعد مرگ اور صاف وتیز ہوجاتی ہیں حالت حیات میں جو کام ان آلات خاکی یعنی آنکھ کان ہاتھ پاؤں زبان سے لیتے تھے اب بغیر ان کے کرتی ہے اگرچہ جسم مثالی کی یاد آوری سہی، ہر چند اس مطلب نفیس کے ثبوت میں وہ بیشمار احادیث وآثار سب حجۃ کافیہ دلائل شافیہ جن میں ۔۔۔إلخ)۔ ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۹، ص۷۰۳۔ انظر للتفصیل: الرسالۃ ’’حیات الموات في بیان سماع الأموات‘‘، ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۹۔

34 في ’’جد الممتار‘‘، (حاشیۃ الإمام أحمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن علی ’’ردّ المحتار‘‘) ج۳، ص۲۸۵: (إنّ النذور لہم بعد تجافیہم عن الدنیا کالنذور لہم وہم فیہا، وہي شائعۃٌ بین المسلمین، والعلمائ، والصلحائ، والأولیاء منذ قدیم، ولیس نذراً مصطلح الفقہ، وقد بیّناہ في ’’فتاوی أفریقہ‘‘۔

في ہامش ’’جد الممتار‘‘، ج۳، ص۲۸۵۔۲۸۷: قولہ: (وقد بیّناہ في ’’فتاوی أفریقہ‘‘)، وإلیکم تلخیص کلامہ في الفتاوی المذکورۃ:(لا یجوز النذر الفقہي لغیر اللّٰہ تعالی وما یقدّم إلی الأولیاء الکرام ویسمّی بالنذر لیس بنذر فقہي بل العرف جارٍ بأنّ ما یقدّم إلی حضرات الأکابر من الہدایا یسمّونہ بالنذر یقولون: أقام الملک مجلسہ وقدّم الناس إلیہ النذور.

کتب الشاہ رفیع الدین أخو الشاہ عبد العزیز المحدّث الدہلوي في ’’رسالۃ النذور‘‘ بالفارسیّۃ ما معناہ: النذر الذي یطلق ہنا لیس علی المعنی الشرعي؛ لأنّ العرف جارٍ بأنّ ما یقدّم إلی الأولیاء یسمّی بالنذر.

قال الإمام الأجلّ سیّدي عبد الغنيّ النابلسيّ قدّس سرّہ في ’’الحدیقۃ الندیۃ‘‘: (ومن ہذا القبیل زیارۃ القبور، والتبـرّک بضرائح الأولیاء والصّالحین، والنذر لہم بتعلیق ذلک علی حصول شفائ، أو قدوم غائب، فإنّہ مجاز عن الصدقۃ علی الخادمین لقبورہم، کما قال الفقہاء في من دفع الزکاۃ لفقیرٍ وسمّاہا قرضاً صحّ؛ لأنّ العبرۃ بالمعنَی لا باللفظ۔ ’’الحدیقۃ الندیۃ‘‘، الخلق الثامن والأربعون، ج۲، ص۱۵۱.

ومن البیّن: أنّہ لو کان نذراً فقہیّاً لَم یجز للأحیاء أیضاً، مع أنّ العرف والعمل یجري من قدیم في الصالحین وأکابر الدّین في الحالتین أي: حالۃ الحیاۃ وبعد الموت.

بعد ہذا التمہید عرض الإمام أحمد رضا شواہد کثیرۃ علی أنّ الأولیاء والعلماء یستعملون لفظ النذر لِما یقدّم إلی الأکابر من الہدایا۔ فأورد عشر عبارات وحکایات من ’’بہجۃ الأسرار‘‘ ونصّاً من ’’طبقات الشافعیۃ الکبری‘‘ للإمام العارف باللہ سیدی عبد الوہاب الشعراني وعبارتین للشاہ وليّ اللہ الدہلوي من کتابہ ’’أنفاس العارفین‘‘ وعبارۃ للشاہ عبد العزیز المحدّث الدہلوي من کتابہ ’’تحفۃ الاثنا عشریۃ‘‘، و’’بہجۃ الأسرار‘‘ في مناقب سیّدنا الشیخ عبد القادر الجیلاني للإمام الأجل سیّدي

سیّدي أبي الحسن نور الملّۃ والدین علي بن یوسف بن جریر اللخمي الشطنوفي الذی لقّبہ إمام فنّ الرجال شمس الدین الذہبي في کتابہ ’’طبقات القراء ‘‘ والإمام الجلیل جلال الدین السیوطي في کتابہ ’’حسن المحاضرۃ‘‘بـ ’’الإمام الأوحد‘‘.

وکتابہ ’’بہجۃ الأسرار‘‘ یتناول الوقائع والحکایات وکلّ ما ینتمي إلی سیّدنا الشیخ عبد القادر الجیلاني بالأسانید الصحیحۃ المعتبرۃ علی منہج المحدّثین وجمیل طریقہم في تنقیح الأخبار والآثار.

وفي ہذہ العبارات والنصوص ما یدلّ علی أنّ الأولیاء کان طریقہم إطلاق النذر لِما یقدّم إلیہم، کما یدلّ أنّ قبولہ کان من دأبہم، وفیہا ما یشہد أنّ تقدیم النذور إلی أرواحہم وضرائحہم وطلب الحوائج من قوّاتہم الروحانیّۃ کان من أعمالہم، والشاہ ولي اللہ الدہلوي والشّاہ عبد العزیز الدہلوي الذین تعدّہما الفرقۃ المنکرۃ لنذر الأولیاء وطلب الحاجات منہم إمامین، وتمثّلہما کقدوۃ لہا، في عباراتہما أیضاً صراحۃ جلیّۃ بطلب الحاجات من الأولیاء بعد وفاتہم وتقدیم النذور إلیہم بعد مماتہم أفہولاء الأجلّۃ من العصور القدیمۃ کلّہم یرتکبون المحظور ویقعون في الإشراک باللہ ویجمعون علی الآثام والقبائح؟ کلاّ! لن یکون ذلک أبداً، بل ہذا یجلّي الفرق بین النذر الفقہيّ ونذر الأولیاء العرفيّ، فالنذر الفقہي لا یجوز إلاّ للّٰہ تعالی، والنذر العرفيّ الذي أصلہ تقدیم الہدیۃ إلی الأکابر یجوز للصالحین والأولیاء بعد وفاتہم أیضاً کما یجوز في حیاتہم۔ ۱۲).(محمّد أحمد الأعظمي المصباحي).

35 یعنی وہ افعال جو شرعاً منع ہیں ۔

[36] کبھی ابلیس آدمی کی شکل میں آتا ہے، لہٰذا ہر ہاتھ میں ہاتھ نہیں دیناچاہیے (یعنی ہر کسی سے بیعت نہیں کرنی چاہیے)۔

[37] ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۲۱، ص۴۹۲ ، ۵۰۵ ، ۶۰۳۔ وانظر ’’سبع سنابل‘‘، سنبلۂ دوم در بیان پیری و مریدی و حقیقت و ماہیت آن، ص ۳۹۔۴۰

Share