اُمیدوں کی کمی

(25)اُمیدوں کی کمی

اُمیدوں کی کمی کی تعریف :

نفس کی پسندیدہ چیزوں یعنی لمبی عمر،صحت اور مال میں اضافے وغیرہ کی امید نہ ہونا ’’اُمیدوں کی کمی ‘‘کہلاتاہے۔[1] اگر لمبی عمر کی خواہش مستقبل میں نیکیوں میں اضافے کی نیت کے ساتھ ہوتو اب بھی ’’اُمیدوں کی کمی‘‘ہی کہلائے گی۔[2] (نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۱۹)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ پاک میں اِرشاد فرماتا ہے:(ذَرْهُمْ یَاْكُلُوْا وَ یَتَمَتَّعُوْا وَ یُلْهِهِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ(۳))(پ۱۴، الحجر: ۳) ترجمۂ کنزالایمان: ’’انہیں چھوڑو کہ کھائیں اور برتیں اور امید انہیں کھیل میں ڈالے تو اب جانا چاہتے ہیں۔‘‘ تفسیر خزائن العرفان میں ہے: ’’اس میں تنبیہ ہے کہ لمبی امیدوں میں گرفتار ہونا اور لذاتِ دنیا کی طلب میں غرق ہو جانا ایماندار کی شان نہیں ۔ حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا : لمبی امیدیں آخرت کو بُھلاتی ہیں اور خواہشات کا اِتباع حق سے روکتا ہے۔‘‘[3](نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۱۹، ۲۲۰)

(حدیث مبارکہ)امیدوں میں کمی دخول جنت کا سبب:

سرکارِ دوعالم نورِ مجسم شاہِ بنی آدم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ایک بار صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے دریافت فرمایا: ’’کیا تم سب جنت میں داخل ہونا پسند کرتے ہو؟‘‘ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی:’’جی ہاں، یارسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!‘‘ ارشاد فرمایا: ’’امیدیں کم کرو اوراپنی موت اپنی آنکھوں کے سامنے رکھو اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے حیا کرو جیسےاس سے حیا کرنے کا حق ہے۔‘‘[4](نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۲۰)

امیدوں کی کمی کا حکم:

اُمیدوں کی کمی دنیا سے بے رغبتی اور فکرِآخِرت میں مشغول رکھنے، نجات دلانے اور جنت میں لے جانے والا عمل ہے، لہٰذا ہرمسلمان کو چاہیے کہ لمبی لمبی امیدیں باندھنے کی بجائے جتنا دنیا میں رہنا ہے اتنا دنیا کے لیے اور جتنا آخرت میں رہنا ہے اتنا آخرت کی تیاری میںمشغول رہے۔(نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۲۰)

امیدوں میں کمی کا ذہن بنانے اور کمی کرنے کے نو(9)طریقے:

(1)چھوٹی امید سے متعلق روایات کا مطالعہ کیجئے:چندروایات یہ ہیں:حضور نبی رحمت شفیع اُمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرت عبدُاللہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ارشاد فرمایا: ’’جب تم صبح کرو تو تمہارے دل میں شام کا خیال نہ آئے اور جب شام کرو تو صبح کی اُمید نہ رکھو اور اپنی تندرستی سے بیماری کے لیے اور زندگی سے موت کے لیے کچھ توشہ لے لو۔ اے عبدُاللہ! تم نہیں جانتے کہ کل کس نام سے پکارے جاؤ گے۔‘‘حضرت سیدنا عبدُاللہبن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے طبعی حاجت سے فراغت حاصل کی اور پانی بہایا، پھر تیمم فرمایا تو میں نے عرض کی: ’’یارسولَ اللہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! پانی تو قریب ہے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’میں پانی تک پہنچنے کی از خود امید نہیں رکھتا۔‘‘ایک بار حضور نبی کریم رءوف رحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے پوچھا: ’’کیا تم سب جنت میں داخل ہونا چاہتے ہو؟‘‘ انہوں نے عرض کی: ’’جی ہاں۔‘‘ تو ارشاد فرمایا: ’’اپنی امیدوں کو چھوٹا کرو، موت کو آنکھوں کے سامنے رکھو اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے حیا کرنے کا حق ادا کرو۔‘‘[5]

(2)لمبی امیدوں کی ہلاکتوں پر غور کیجئے:تین روایات ملاحظہ کیجئے:آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے تین لکڑیاں لیں، ایک اپنے سامنے گاڑی، دوسری اس کے برابر میں جبکہ تیسری کچھ دور۔ پھر صحابہ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے ارشاد فرمایا: ’’تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کی:اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کا رسولصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بہتر جانتے ہیں۔ارشاد فرمایا: ’’ایک لکڑی انسان اور دوسری موت ہے، جبکہ دور والی امید ہے، انسان امید کی جانب ہاتھ بڑھاتا ہے مگر امید کی بجائے موت اسے اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔‘‘ آدمی بوڑھا ہوجاتا ہے مگر اس کی دو چیزیں جوان رہتی ہیں، ایک حرص اور دوسری (لمبی) امید۔اس امت کے پہلوں نے یقین کامل اور پرہیزگاری کے سبب نجات پائی جبکہ آخری زمانے والے بخل اور (لمبی) امید کے سبب ہلاک ہوں گے۔[6]

(3) اُمیدوں کی کمی سے متعلق اَقوالِ بزرگانِ دِین کا مطالعہ کیجئے:چنداقوال یہ ہیں: ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’میں اس شخص کی مانند ہوں جس کی پھیلی ہوئی گردن پر تلوار رکھی جاچکی ہے اور اسے انتظار ہے کہ کب اس کی گردن اڑا دی جائے گی۔‘‘ حضرت سیدنا داود طائی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’اگر میں ایک مہینہ زندہ رہنے کی امید کروں تو تم دیکھو کے کہ یقیناً میں نے بڑا گناہ کیا اور میں یہ اُمید بھی کیسے رکھ سکتا ہوں حالانکہ میں دیکھتا ہوں کہ مصیبتوں نے دن ورات ہر گھڑی میں لوگوں کو گھیرا ہوا ہے۔‘‘[7] حضرت سیدنا قعقاع بن حکیم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْمُبِیْن فرماتے ہیں: ’’میں موت کے لیے 30سال سے تیاری کررہا ہوں، اگر وہ آجائے تو اتنی تاخیر بھی برداشت نہ کروں گا جتنی تاخیر کوئی چیز آگے پیچھے کرنے میں ہوتی ہے۔‘‘ حضرت سیدنا عبدُاللہ بن ثعلبہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرمایا کرتے تھے: ’’حیرت ہے کہ تم ہنستے ہو جبکہ تمہارا کفن دھوبی کے پاس سے آچکا ہوتا ہے۔‘‘[8]

(4) اپنے اندر خوفِ خدا پیدا کیجئے: امیدوں کی کمی کا یہ ایک بہترین علاج ہے، کیونکہ جس کا دل خوف خدا سے معمور ہوتا ہے وہ لمبی لمبی امیدیں لگانے کی بجائے اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّکی عبادت واطاعت میں مصروف ہوجاتا ہے، جتنا دنیا میں رہنا ہے اتنا دنیا کے لیے اور جتنا آخرت میں رہنا ہے اتنا آخرت کے لیے تیاری کرتا ہے، اَحکامات شرعیہ کی پابندی کرتا ہے، گناہوں سے بچنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔

(5)دل کو حب دنیا سے پاک کیجئے: لمبی امیدوں کا ایک بہت بڑا سبب دنیا کی محبت بھی ہے، جب بندے کے دل میں دنیا کی محبت گھرکرجاتی ہے تو وہ لمبی لمبی امیدیں لگانے کی آفت میں مبتلا ہوجاتا ہے، اس کے اندر طویل عرصے تک زندہ رہنے کی خواہش پیدا ہوجاتی ہے، لہٰذا دل کو حب دنیا سے پاک کیجئےکہ جو جتنا زیادہ لذَّتِ نفس کی خاطر راحتوں میں زندگی گزارتا ہے مرنے کے بعد اسےان آسائشوں کے چھوٹنے کا صدمہ بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔

(6)امیدوں کی کمی وزیادتی، فوائد ونقصانات کی معلومات حاصل کیجئے:لمبی امیدوں کا ایک سبب جہالت بھی ہے کہ بندہ اپنی جوانی پر بھروسا کرکے یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ جوانی میں موت نہیں آئے گی اور بے چارہ اس بات پر غور نہیں کرتا کہ زیادہ تر لوگ جوانی میں ہی مَرجاتے ہیں، اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ لمبی امیدوں کے نقصانات اور چھوٹی امیدوں کے فضائل وغیرہ کی تفصیلی معلومات حاصل کرے، اس سلسلے میں مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ،حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی کی مایہ نازتصنیف ’’احیاء العلوم‘‘ جلد۵، صفحہ ۴۸۴سے مطالعہ بہت مفید ہے۔

(7)ہر وقت موت کو پیش نظررکھیے: موت کی یاد اُمیدوں کی کمی کا بہت بڑا سبب ہے۔اِس کا طریقہ یہ ہے کہ بندہ اپنے جوان رشتہ داروں، دوستوںاورمحلے داروں کو یاد کرے جو ہنستے کھیلتے اچانک موت کا شکار ہو کر قبر کی اندھیری کوٹھری میں چلے گئے، وہ لوگ بھی موت کا شکار ہوگئے جنہوں نے کبھی موت کے بارے میں سوچا بھی نہ تھا، مجھے بھی اچانک موت کا مزہ چکھنا ہوگا اور اندھیری قبر میں اترنا ہوگا اور اپنی کرنی کا پھل بھگتنا ہوگا، امید ہے یوں امیدوں کی کمی کا مدنی ذہن بنے گا۔

(8) نزع وقبر کے وحشت ناک ماحول کا تصور کیجئے:یوں تصور کیجئے کہ میری موت کا وقت آپہنچاہے، مجھ پر غشی طاری ہو چکی ہے،زبان خاموش ہوچکی ہے،مجھے سخت پیاس محسوس ہو رہی ہے،میرے گرد کھڑے لوگ مجھے بے بسی کے عالم میں دیکھ رہے ہیں، پھر ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میرے جسم میں سوئیاں چبھودی گئی ہوں، میرے جسمانی اَعضاء ٹھنڈے ہونا شروع ہوگئے، میرے دل کی دھڑکن آہستہ ہوتے ہوتے بند ہوگئی، میری سانس بھی ختم ہوگئی، آہ میری موت واقع ہوگئی، مجھے غسل وکفن دیا گیا، جنازہ گاہ پہنچ کر میری نمازِ جنازہ ادا کی گئی اور قبرستان لے جایا گیا،یہ وہی قبرستان ہے کہ جہاں دن کے اُجالے میں تنہا آنے کے تصور سے ہی میرا کلیجہ کانپتا تھا، یہ وہی قبر ہے جس کے بارے میں کہا گیا کہ جنت کا ایک باغ ہے یا دوزخ کا ایک گڑھا،یہ تو وہی جگہ ہے کہ جہاں دوخوف ناک شکلوں والے فرشتے سر سے پاؤں تک بال لٹکائے، آنکھوں سے شعلے نکالتے ہوئے انتہائی سخت لہجے میں مجھ سے تین سوال کریں گے، آہ! گناہوں کی نحوست کے سبب کہیں میری قبر دوزخ کا گڑھا نہ بنا دیا جائے۔ آہ ! میرا کیا بنے گا ؟ پھراپنے آپ سے مخاطب ہوکرکہیں کہ ابھی تومیں زندہ ہوں،ابھی میری سانسیں چل رہی ہیں،میں اُن حسرت آمیز لمحات کے آنے سے پہلے پہلے اپنی قبر کو جنت کا باغ بنانے کی کوشش میں لگ جاؤں گا، خوب نیکیاں کروں گا ، گناہوں سے کنارہ کشی اختیار کروں گا تاکہ کل مجھے پچھتانا نہ پڑے، لمبی لمبی امیدیں باندھنے کی بجائے فکر آخرت میں مشغول ہوجاؤں گا ۔ اِنْ شَآءَاللّٰہ عَزَّوَجَل

(9)حشریعنی قیامت کی ہولناکیوں کا تصور کیجئے:یوں تصور کیجئے کہ میں نے قبر سے نکل کر بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَل میں حاضری کے لئے میدانِ محشر کی طرف بڑھنا شروع کر دیا ہے، سورج آگ برسا رہا ہے، لیکن اس کی تپش سے بچنے کے لئے کوئی سایہ میسر نہیں، ہر ایک کو پسینوں پر پسینے آرہے ہیں جس کی بدبو سے دماغ پھٹا جارہا ہے،ہر کوئی پیاس سے نڈھال ہے، زندگی بھر کی جانے والی نافرمانیوں کا سوچ کردل ڈوبا جارہا ہے،ان کے نتیجے میں ملنے والی جہنم کی ہولناک سزاؤں کے تصور سے کلیجہ کانپ رہا ہے، آہ صد آہ ! اپنے رب عزوجل کی نافرمانی کرکے اسی کی بارگاہ میں حاضر ہو کرزندگی بھر کے اعمال کا حساب کیسے دوں گا؟ دوسری طرف اپنی مختصر سی زندگی میں نیک اعمال اختیار کرنے والوں کو ملنے والے انعامات دیکھ کر اپنے کرتوتوں پرشدید افسوس ہو رہا ہے کہ وہ خوش نصیب تو سیدھے ہاتھ میں نامۂ اعمال لے کر شاداں وفرحاں جنت کی طرف بڑھے چلے جارہے ہیں، لیکن نہ جانے میرا کیا بنے گا؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے جہنم میں جانے کا حکم سناکر الٹے ہاتھ میں اَعمال نامہ تھما دیا جائے اور سارے عزیز واقارب کی نظروں کے سامنے مجھے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے، ہائے میری ہلاکت!آہ میری رسوائی(مَعَاذَاللّٰہ) یہاں پہنچ کراپنی آنکھیں کھول دیجئے اور اپنے آپ سے مخاطب ہوکر یوں کہے کہ گھبراؤ نہیں!ابھی مجھ پریہ وقت نہیں آیا ، ابھی میں زندہ ہوں ، یہ زندگی میرے لئے غنیمت ہے ،مجھے لمبی لمبی امیدیں لگانے کی بجائے اپنی آخر ت سنوارنے کی کوشش میں لگ جانا چاہے، میں اپنے ربّ تَعَالٰی کا اطاعت گزار بندہ بننے کے لئے اس کے اَحکامات پر ابھی اور اسی وقت عمل شروع کر دوں گا تاکہ کل میدانِ محشر میں مجھے پچھتانا نہ پڑے۔اِنْ شَآءَاللّٰہ عَزَّوَجَل (نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۲۱تا۲۲۶)


[1] ۔۔۔۔فیض القدیر، ۲ / ۷۰۹، تحت الحدیث: ۲۵۵۰ ماخوذا۔

[2] ۔۔۔۔الحدیقۃ الندیۃ،۲ / ۳۸۳ماخوذا۔

[3] ۔۔۔۔خزائن العرفان،پ۱۴،الحجر، تحت الآیۃ:۳۔

[4] ۔۔۔۔موسوعۃ ابن ابی دنیا،قصر الامل،۳ / ۳۱۰، حدیث: ۳۱۔

[5] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۵ / ۴۸۴تا۴۸۷ ملتقطا۔

[6] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۵ / ۴۸۵ تا ۴۸۷ملتقطا۔

[7] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۵ / ۴۸۹۔

[8] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۵ / ۴۹۳، ۴۹۴ملتقطا۔

Share

Comments


Security Code