عُجُبْ یعنی خود پسندی

(2)…عُجُبْ یعنی خود پسندی

عجب یعنی خود پسندی کی تعریف:

شیخ طریقت، امیر اہلسنت، بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنے رسالے ’’شیطان کے بعض ہتھیار‘‘ صفحہ۱۷ پر’’عُجُبْ یعنی خود پسندی ‘‘کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’اپنے کمال (مثلاً عِلم یا عمل یا مال) کو اپنی طرف نسبت کرنااور اس بات کا خوف نہ ہونا کہ یہ چِھن جائے گا۔گویا خود پسند شخص نعمت کو مُنْعِمِ حقیقی (یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ ) کی طرف منسوب کرنا ہی بھول جاتا ہے۔[1](یعنی ملی ہوئی نعمت مثلاً صِحّت یاحسن و جمال یا دولت یا ذِہانت یا خوش الحانی یا منصب وغیرہ کو اپنا کارنامہ سمجھ بیٹھنا اوریہ بھول جانا کہ سب ربُّ العزّت ہی کی عنایت ہے۔) (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۳۶،۳۷)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (فَلَا تُزَكُّوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى۠(۳۲))(پ۲۷، النجم: ۳۲) ترجمۂ کنزالایمان: ’’تو آپ اپنی جانوں کو ستھرا نہ بتاؤ وہ خوب جانتا ہے جو پرہیزگار ہیں۔‘‘

حضرت سیِّدُنا اِبنِ جُرَیْج رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’اِس آیت مبارکہ کا معنیٰ یہ ہے کہ جب تم کوئی اچھا عمل کرو تو یہ نہ کہو کہ یہ کام میں نے کیا ہے۔‘‘ حضرت سیِّدُنا زَید بن اَسلم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’اپنے آپ کو نیکوکار قرار نہ دو یعنی یہ نہ کہو کہ میں نیک ہوں کیونکہ یہ تو عُجُب یعنی خود پسندی ہے۔‘‘[2]

صدر الافاضل حضرتِ علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی اس آیت مبارکہ کے تحت ’’خزائن العرفان‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’یعنی تَفَاخُراً اپنی نیکیوں کی تعریف نہ کروکیونکہ اللہ تعالٰی اپنے بندوں کے حالات کا خود جاننے والا ہے وہ ان کی ابتداءِ ہستی سے آخرِ ایام کے جملہ احوال جانتا ہے ۔ مسئلہ : اس آیت میں ریا اور خود نمائی اور خود سرائی کی ممانعت فرمائی گئی لیکن اگر نعمتِ الٰہی کے اعتراف اور اطاعت و عبادتِ پر مسرّت اور اس کے ادائے شکر کے لئے نیکیوں کا ذکر کیا جائے تو جائز ہے ۔‘‘ (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۳۷)

حدیث مبارکہ، خود پسندی کا نقصان:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب، دانائے غُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ ہدایت نشان ہے: ’’گناہوں پر نادِم ہونے والا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت کا مُنْتَظِرہوتا ہے جبکہ خود پسند ی کرنے والا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ناراضگی کامُنْتَظِرہوتا ہے ۔‘‘[3](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۳۸)

عجب یعنی خود پسندی کا حکم:

عُجُب یعنی خود پسندی ناجائز وممنوع و گناہ ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’اگرچہ تم سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو لیکن مجھے تم پر گناہ سے بھی بڑے جرم کا خوف ہے اور وہ ہے عُجُبْ ، عُجُبْ یعنی خود پسندی۔‘‘اس فرمان مبارک میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے عُجُبْ کو بہت بڑا گناہ قرار دیا۔[4]

اور کسی بھی ظاہری وباطنی گناہ سے بچنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔ چنانچہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (وَ ذَرُوْا ظَاهِرَ الْاِثْمِ وَ بَاطِنَهٗؕ-) (پ۶، الانعام: ۱۲۰) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور چھوڑ دو کھلا اور چُھپا گناہ۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۳۸)

خود پسندی کی اہم وضاحت:

حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت ِسیِّدُنا امام ابو حامد محمدبن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْوَالِی لکھتے ہیں کہ جو شخص علم، عمل اورمال کے ذَرِیعے اپنےنفس میں کمال جانتا ہواُس کی ’’دو حالتیں ‘‘ ہیں : (1)ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے اُس کمال کے زَوال کا خوف ہو یعنی اِس بات کا ڈر ہو کہ اس میں کوئی تبدیلی آجائے گی یا بالکل ہی سَلْب اور ختم ہوجائے گا تو ایسا آدَمی’’ خود پسند ‘‘ نہیں ہوتا۔(2) دوسری حالت یہ ہے کہ وہ اس کے زَوال (یعنی کم یا خَتْم ہونے)کا خوف نہیں رکھتا بلکہ وہ اِس بات پر خوش اور مطمئن ہوتا ہے کہ اس نے مجھے یہ نعمت عطا فرمائی ہے اِس میں میرا اپنا کمال نہیں۔ یہ بھی ’’ خود پسندی‘‘ نہیں ہے اور اس کے لیے ایک تیسری حالت بھی ہے جو خود پسندی ہے اور وہ یہ ہے کہ اسے اس کمال کے زَوال(یعنی کم یا ختم ہونے) کا خوف نہیں ہوتا بلکہ وہ اس پر مَسرورو مطمئن ہوتا ہے اور اس کی مَسرَّت کا باعِث یہ ہوتا ہے کہ یہ کمال ، نعمت و بھلائی اور سر بُلندی ہے،وہ اس لیے خوش نہیں ہوتا کہ یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عنایت اور نعمت ہے بلکہ اِس (یعنی خود پسند بندے) کی خوشی کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اُسے اپنا وَصْف (یعنی خوبی) اور خود اپنا ہی کمال سمجھتا ہے وہ اِسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عطاء وعنایت تصوُّر نہیں کرتا۔[5] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۳۸،۳۹)

خود پسندی کا ایک مجرب علاج:

حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْوَالِی فرماتے ہیں :’’صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اپنے زُہْد وتقوٰی کے باوجودیہ تمنا کیا کرتے کہ کاش وہ مٹی،بھوسہ یا پرند ہوتے۔ تو صاحب ِ بصیرت شخص کیسے اپنے عمل پرخود پسندی کرسکتاہے یااِترا سکتا ہے اور کیونکر اپنے نفس سے بے خوف ہوسکتاہے؟یہ خود پسندی کا علاج ہے جس سے خود پسندی کا مادہ بالکل جڑ سے کٹ جاتا ہے۔جب خود پسندی میں مبتلا شخص اس طریقہ ٔ علاج کے مطابق خود پسندی کا علاج کرتاہے تو جس وقت اس کے دل پرخود پسندی غالب آتی ہے تو سَلْب ِ نعمت کا خوف اسے اترانے سے بچاتا ہے بلکہ جب وہ کافروں اور فاسقوں کو دیکھتا ہے کہ کسی گناہ کے بغیران کو ایمان اور اِطاعَت ِالٰہی کی دولت سے محرومی ملی ہے تووہ ڈرتے ہوئے یہ سوچتا ہے کہ جس ذات کو اس بات کی پروا نہیں کہ وہ بغیر کسی جرم کےکسی کومحروم کردے یا بغیر کسی وسیلے کےکسی کو عطا کرے تووہ دی ہوئی نعمت کو واپس بھی لے سکتا ہے۔ کتنے ہی ایمان والے مرتدہوکراور اطاعت گزار فاسق ہوکربرے خاتمے کا شکارہوئے۔ جب آدمی اس طرح سوچے گا تو خود پسندی اس میں باقی نہیں رہے گی۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۴۰،۴۱)

خود پسندی کے آٹھ اسباب وعلاج:

حُجَّۃُالاسلام، حضرت سیِّدُنا امام غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْوَالِی نے اپنی مایہ ناز تصنیف ’’اِحیاء العلوم‘‘ میں عُجُب یعنی خودپسندی کے آٹھ اَسباب اور اُن کے علاج بیان فرمائے ہیں ، اُن کا اجمالی خاکہ پیش خدمت ہے:

(1)…پہلاسبب: اپنی جسمانی خوب صورتی کے حوالے سےخودپسندی میں مبتلا ہوناہے اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنی باطنی گندگیوں پرغور کرے اوراپنے آغاز وانجام کے بارے میں سوچ و بچار کرے ۔

(2)…دوسراسبب: اپنی طاقت وقوت پر ناز کرنا ہے اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ یہ سوچے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ معمولی سی آزمائش میں مبتلا فرماکر یہ قوت واپس لے سکتا ہے۔

(3)…تیسرا سبب: عَقْل اور ذہانت کےحوالے سےخودپسندی میں مبتلا ہونا ہے اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ یہ سوچے کہ کسی مرض یا حادثے کے سبب یہ نعمت چھینی جاسکتی ہے۔

(4)…چوتھا سبب: عالی نسب ہونے پر فخرکا اِظہار ہے اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ یہ سوچے کہ’’ اپنے آباء واجداد کی مخالفت کے باوجودان کے درجے تک پہنچ جانا کیسے ممکن ہے؟‘‘

(5)…پانچواں سبب: ظالم کی حمایت پر اِتراناہے اس کا علاج یہ ہے کہ’’بندہ اِن ظالم لوگوں کے اُخروی اَنجام پر نظر رکھے۔‘‘ (6)…چھٹا سبب: اپنےنوکر چاکر وغیرہ پر اِترانا ہےاس کا علاج یہ ہے کہ اپنی کمزوری پر نظر رکھے اور اور یہ ذہن نشین کرلے کہ تمام لوگ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے عاجز بندے ہیں۔

(7)…ساتواں سبب : مال پر اِترانا ہے اس کا علاج یہ کہ مال کی آفات،اس کے حقوق اور اس سے پیدا ہونے والے فتنوں کو پیش نظر رکھے۔

(8)… آٹھواں سبب اپنی غلط رائے پر اِترانا ہےاس کا علاج یہ ہے کہ’’بندہ اپنی رائے کی صحت پر ہرگز ہر گز بھروسہ نہ کرے۔[6](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۴۲،۴۳)


[1] ۔۔۔احیاء العلوم، کتاب ذم الکبر والعجب، بیان حقیقۃ العجب، ج ۳، ص، ۴۵۴

[2]۔۔۔ احیاء علوم الدین، کتاب ذم الکبر والعجب، ج۳، ص۴۵۴۔

[3]۔۔۔ شعب الایمان، باب فی معالجۃ کل ذنب بالتوبۃ، ج۵، ص۴۳۶، حدیث: ۷۱۷۸۔

[4]۔۔۔ احیاء العلوم، کتاب ذم الکبر والعجب، باب ذم العجب۔۔۔الخ، ج۳، ص۴۵۳۔

[5] ۔۔۔احیاء العلوم، کتاب ذم الکبر والعجب، باب ذم العجب۔۔۔الخ، ج۳، ص۴۵۴۔

[6] ۔۔۔۔۔ احیاء العلوم،ج۳،ص۱۱۰۷تا۱۱۱۹ملخصاً۔

Share