طُوْلِ اَمَل

(16)طُوْلِ اَمَل

طول اَمل کی تعریف:

’’طولِ اَمل‘‘ کا لغوی معنی لمبی لمبی امیدیں باندھنا ہے۔اور جن چیزوں کا حصول بہت مشکل ہواان کے لئےلمبی امیدیں باندھ کر زندگی کے قیمتی لمحات ضائع کرنا طولِ اَمل کہلاتا ہے۔[1](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۳۳)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (ذَرْهُمْ یَاْكُلُوْا وَ یَتَمَتَّعُوْا وَ یُلْهِهِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ(۳)) (پ۱۴، لحجر: ۳) ترجمۂ کنزالایمان: ’’انہیں چھوڑو کہ کھائیں اور برتیں اور امید انہیں کھیل میں ڈالے تو اب جانا چاہتے ہیں۔‘‘

صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْہَادِی ’’خزائن العرفان‘‘ میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ’’اس میں تنبیہ ہے کہ لمبی امیدوں میں گرفتار ہونا اور لذاتِ دنیا کی طلب میں غرق ہو جانا ایماندار کی شان نہیں۔ حضرت علی مرتضٰی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا لمبی امیدیں آخرت کو بھلاتی ہیں اور خواہشات کا اِتِّباع حق سے روکتا ہے۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۳۳)

حدیث مبارکہ،لمبی لمبی امیدیں دنیا کی محبت کا سبب:

امیرالمؤمنین حضرت سَیِّدُنا علی المرتضیٰ شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے مروی کہ سیِّدُ الْمُبَلِّغِیْن، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمان عالیشان ہے: ’’مجھے تم پر دوباتوں کا بہت زیادہ خوف ہے، خواہش کی پیروی کرنا اور لمبی لمبی امیدیں رکھنا ۔ خواہش کی پیروی تو حق بات سے روکتی ہے اور لمبی لمبی امیدیں دنیا کی محبت میں مبتلا کردیتی ہیں۔یاد رکھو! بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے بھی دنیا عطا فرماتاہے جس سے محبت کرتا ہے اوراسے بھی دیتا ہے جسے ناپسند کرتا ہے مگر جب وہ کسی بندے سے محبت فرماتا ہے تو اسے ایمان (کی دولت ) عطا فرماتا ہے۔ سن لو ! کچھ لوگ دین والے ہیں اور کچھ دنیا والے۔ تم دین والے بنو،دنیا والے نہ بنو۔ یاد رکھو! دنیا پیٹھ پھیرکرجارہی ہے۔ جان لو ! آخرت قریب آچکی ہے۔خبر دار!آج تم عمل کے دن میں ہو، اس میں حساب نہیں اور عنقریب تم حساب کے دن میں ہوگے جہاں کوئی عمل نہ ہوگا ۔‘‘[2](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۳۳،۱۴۳)

طول امل کا حکم:

حضرت سیِّدُنا امام غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْوَالِی فرماتے ہیں : ’’(طول امل یعنی) لمبی امیدیں نیکی وطاعت کی راہ میں رُکاوٹ ہیں ، نیز ہر فتنے اور شر کا باعث ہیں ، لمبی امیدوں میں مبتلا ہوجانا ایک لاعلاج مرض ہے جو لوگوں کو اور بہت سے امراض میں مبتلا کرتا ہے۔‘‘[3](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۳۴)

طول امل کے اسباب وعلاج:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اگرچہ طولِ امل ایک لاعلاج مرض ہے مگر ہر مرض کے کئی اسباب ہوتے ہیں ، اگر ان اسباب کو ختم کردیا جائے تو وہ مرض بھی ختم ہوسکتا ہے، لہٰذا طولِ امل کے اسباب وعلاج پیش خدمت ہیں :

(1)…لمبی امیدوں کا پہلاسبب حب دنیا (یعنی دنیا کی محبت) ہے۔ جب بندہ دنیاسےاس قدر مانوس ہو جائے کہ دنیاوی خواہشات، لذتوں اور معاملات کا جداہونا اس کے دل پر ناگوار گزرے تو اس کادل اس موت کےبارے میں غوروفکر سے رُک جاتاہے جو دنیا وی خواہشات ولذتوں سے جدائی کا سبب ہے۔جوچیزانسان کو ناپسند ہوتی ہے اُسےخودسےدُور کرنے کی کوشش کرتاہےجبکہ یہی انسان بے کار قسم کی آرزوؤں میں مصروف نظر آتاہےاور چاہتاہے کہ ہر کام خواہشات کے مطابق ہوجائے۔ لہٰذا دنیا میں ہمیشہ رہنا ہی اس کی اصل چاہت ہوتی ہےاور اسی وجہ سے مسلسل انہیں خیالات میں گھرا رہتاہےاور اپنے دل میں گھر بار، بیوی بچے ،دوست احباب، مال ودولت اور دیگر تمام اسباب کو ضروری سمجھتاہےاور پھر اسی سوچ پر اس کا دل جَم جاتاہےاور یوں موت کو بھول جاتاہے۔

اس سبب کا علاج یہ ہےکہ قیامت کےدن اور اس میں پہنچنےوالے سخت عذاب اورملنے والے بہت بڑے ثواب پر ایمان لائےاور جب اس پر یقین کامل ہوجائے گاتو دل سے دنیا کی محبت نکل جائے گی کیونکہ عمدہ چیز کی محبت دل سے گھٹیا چیز کی محبت نکال دیتی ہےاور جب بندہ دنیا کو حقارت اور آخرت کو پسندیدہ نگاہوں سے دیکھے گاتو دنیا کی جانب توجہ کرنے میں ناگواری محسوس کرے گااگرچہ مشرق و مغرب کی بادشاہت ہی اسے کیوں نہ دے دی جائے ۔وہ کس طرح دنیاپر خوش ہوگا یا اس کے دل میں دنیاکی محبت جڑ بناسکے گی؟ جبکہ اس کےدل میں تو آخرت پر ایمان پختہ ہو چکا ہے۔ ہم اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا کرتے ہیں کہ دنیا کو ہماری نظروں میں ایسی ہی وقعت دے جیسی اس نے اپنے نیک بندوں کی نظروں میں دی۔

(2)…لمبی امیدوں کا دوسراسبب جہالت ہے۔جہالت یا تو یوں پائی جاتی ہےکہ انسان اپنی جوانی پر بھروسا کرکے یہ سمجھ بیٹھتاہے کہ جوانی میں موت نہیں آئے گی اوربے چارہ اس بات پر غور نہیں کرپاتاکہ شہر بھر کے بوڑھوں کو شمار کیا جائےتو ان کی تعداد مَردوں کے دسویں حصہ کو بھی نہ پہنچے گی اور تعدادکم ہونے کی وجہ یہی ہے کہ زیادہ تر لوگ جوانی میں ہی مَر جاتے ہیں۔ایک بوڑھا مرتاہے توہزاربچے اور جوان مَررہے ہوتے ہیں یا جہالت یوں پائی جاتی ہےکہ صحت مند رہنے کی وجہ سے موت نہیں آئے گی اور اچانک موت آنے کو ایک آدھ واقعہ شمار کرتاہے اور یہی اس کی جہالت ہےکہ یہ ایک واقعہ نہیں ہےاوراگر ایک آدھ واقعہ شمار کربھی لیاجائے توبیماری کا اچانک ظاہر ہوجانا کچھ مشکل نہیں کیونکہ ہر بیماری اچانک آسکتی ہےاور جب انسان اچانک بیمارہوسکتاہےتو اچانک موت کا آنا ذرا بھی مشکل نہیں۔

اس کا علاج یہ ہے کہ اپناذہن یوں بنائے کہ دوسرے جس طرح مَرتے ہیں میں بھی مَروں گا ،میراجنازہ بھی اٹھایا جائےگا اور قبر میں ڈال دیاجائے گاشاید میری قبر کو ڈھانپ دینے والی سِلیں تیار ہوچکی ہوں گی ۔ اس غفلت سے چھٹکاراحاصل نہ کرنا اور یوں ٹال مٹول کرتے رہنا سَراسَر جہالت ہے۔[4](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۳۸تا۱۴۰)


[1] ۔۔۔۔ فیض القدیر ،حرف الھمزۃ، ج۱،ص۲۷۷، تحت الحدیث: ۲۹۴۔

[2] ۔۔۔۔ موسوعۃ ابن ابی الدنیا، قصر الامل، ج۳، ص۳۰۳،الرقم: ۳۔

[3] ۔۔۔۔ منہاج العابدین ،ص۱۱۸۔

[4] ۔۔۔۔ احیاء العلوم،کتاب ذکر الموت،بیان السبب ۔۔۔الخ،ج۵،ص۲۰۱، ۲۰۲ماخوذا۔

Share