توبہ

(13)توبہ

توبہ کی تعریف:

جب بندے کو اس بات کی معرفت حاصل ہوجائے کہ گناہ کا نقصان بہت بڑا ہے، گناہ بندے اور اس کے محبوب کے درمیان رکاوٹ ہے تو وہ اس گناہ کے ارتکاب پر ندامت اختیار کرتا ہے اور اس بات کا قصد واِرادہ کرتا ہے میں گناہ کو چھوڑ دوں گا، آئندہ نہ کروں گا اور جو پہلے کیے ان کی وجہ سے میرے اعمال میں جو کمی واقع ہوئی اسے پورا کرنے کی کوشش کروں گا تو بندے کی اس مجموعی کیفیت کو توبہ کہتے ہیں۔ علم ندامت اور اِرادے ان تینوں کے مجموعے کا نام توبہ ہے لیکن بسا اوقات ان تینوں میں سے ہر ایک پر بھی توبہ کا اطلاق کردیا جاتا ہے۔[1] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۱۰۵، ۱۰۶)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ پاک میں ارشادفرماتا ہے:( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًاؕ-)(پ۲۸، التحریم: ۸)ترجمۂ کنز الایمان: ’’اے ایمان والو اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے کو نصیحت ہوجائے۔‘‘صدرالافاضل حضرتِ علّامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:’’ توبۂ صادِقہ جس کا اثر توبہ کرنے والے کے اَعمال میں ظاہر ہو، اُس کی زندگی طاعتوں اور عبادتوں سے معمورہو جائے اور وہ گناہوں سے مجتنب(یعنی بچتا) رہے۔امیر المؤمنین حضرتِ سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاور دوسرے اَصحاب نے فرمایا کہ توبۂ نصوح وہ ہے کہ توبہ کے بعد آدمی پھر گناہ کی طرف نہ لوٹے جیسا کہ نکلا ہوا دودھ پھر تھن میں واپس نہیں ہوتا۔‘‘[2] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ ۱۰۶)

(حدیث مبارکہ)توبہ کرنے والاربّ تعالی کو پسند ہے:

سردارِ دو جہان، محبوبِ رحمٰن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا فرمان عالیشان ہے: ’’بے شک اللہ عَزَّ وَجَلَّ توبہ کرنے والے ،آزمائش میں مبتلا مؤمن بندے کو پسند فرماتا ہے۔‘‘[3](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ ۱۰۶)

توبہ کا حکم:

ہرمسلمان پر ہر حال میں ہر گناہ سے فوراً توبہ کرنا واجب ہے، یعنی گناہ کی معرفت ہونے کے بعداس پر ندامت اختیار کرنا اور آئندہ نہ کرنے کا عہد کرنا اور گزرے ہوئے گناہوں پر ندامت وشرمندگی اور افسوس کرنا بھی واجب ہے اور وجوبِ توبہ پر اِجماعِ اُمت ہے۔[4](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ ۱۰۶،۱۰۷)

گناہوں سے توبہ کرنے کا طریقہ:

اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: ’’سچی توبہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے وہ نفیس شے بنائی ہے کہ ہر گناہ کے ازالے کو کافی ووافی ہے، کوئی گناہ ایسا نہیں کہ سچی توبہ کے بعد باقی رہے یہاں تک کہ شرک وکفر۔ سچی توبہ کے یہ معنی ہیں کہ گناہ پراس لیے کہ وہ اس کے ربّ عَزَّوَجَلَّکی نافرمانی تھی، نادِم وپریشان ہو کر‏فوراً چھوڑ دے اور آئندہ کبھی اس گُناہ کے پاس نہ جانے کا سچے دِل سے پُورا عزم کرے، جو چارۂ کار اس کی تلافی کا اپنے ہاتھ میں ہوبجا لائے۔مثلاً نماز روزے کے ترک یا غصب (ناجائز قبضہ)، سرقہ(چوری)، رشوت، ربا(سود)سے توبہ کی تو صرف آئندہ کے لیے ان جرائم کا چھوڑ دینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضرور ہے جو نماز روزے ناغہ کیے ان کی قضا کرے، جو مال جس جس سے چھینا، چرایا، رشوت، سود میں لیا انہیں اور وہ نہ رہے ہوں تو ان کے وارثوں کو واپس کردے یا معاف کرائے، پتا نہ چلے تو اتنا مال تصدق (یعنی صدقہ)کردے اور دل میں یہ نیت رکھے کہ وہ لوگ جب ملے اگر تصدق پر راضی نہ ہوئے اپنے پاس سے انہیں پھیر دوں گا۔‘‘[5](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ ۱۰۷)

توبہ میں تاخیر کی سات (7)وجوہات اور ان کا حل:

(1)گناہوں کے انجام سے غافل رہنا:اس کا حل یہ ہے کہ بندہ اپنا یوں ذہن بنائے کہ محض ایک ڈاکٹر کی بات پر اعتبار کرکے آئندہ نقصان سے بچنے کے لئے کئی اشیاء کو ان کی تمام تر لذت کے باوجود چھوڑ دیتا ہوں تو کیا یہ نادانی نہیں ہے کہ میں نے ایک بندے کے ڈرانے پر اپنی لذتوں کو چھوڑ دیا لیکن تمام کائنات کے خالق عَزَّوَجَلکے وعدۂ عذاب کو سچا جانتے ہوئے اپنے نفس کی ناجائز خواہشات کو ترک نہیں کرتا ۔

(2) دل پر گناہوں کی لذت کا غلبہ ہونا: اس کا حل یہ ہے کہ بندہ اس طرح سوچ وبچار کرے کہ جب میں زندگی کے مختصر ایام میں ان لذتوں کو نہیں چھوڑ سکتا تو مرنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لذتوں(یعنی جنت کی نعمتوں)سے محرومی کیسے گوارہ کروں گا؟جب میں صبر کی آزمائش برداشت نہیں کرسکتا تو نارِ جہنم کی تکلیف کس طرح برداشت کروں گا ؟

(3) طویل عرصہ زندہ رہنے کی امید ہونا:اس کا حل یہ ہے کہ بندہ اس طرح غور کرے کہ جب موت کا آنا یقینی ہے اور مجھے اپنی موت کے آنے کا وقت بھی معلوم نہیں تو توبہ جیسی سعادت کو کل پر مو قوف کرنا نادانی نہیں تو اور کیا ہے ؟جس گناہ کو چھوڑنے پر آج میرا نفس تیار نہیں ہورہا کل اس کی عادت پختہ ہوجانے پر میں اس سے اپنادامن کس طرح بچاؤں گا؟اوراس بات کی بھی کیا ضمانت ہے کہ میں بڑھاپے میں پہنچ پاؤں گا یا نوکری سے ریٹائر ہونے تک میں زندہ رہوں گا ؟

(4)رحمت الٰہی کے بارے میں دھوکے کا شکار ہونا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ بڑا غفوررحیم ہے، ہمیں اللہکی رحمت پر بھروسہ ہے وہ ہمیں عذاب نہیں دے گا۔اس کا حل یہ ہے کہ بندہ اس بات پر غور کرے کہ اللہ تَعَالٰی کے رحیم وکریم ہونے میں کسی مسلمان کو شک وشبہ نہیں ہوسکتا لیکن جس طرح یہ دونوں اس کی صفات ہیں اسی طرح قہار اور جبار ہونا بھی ربّ عَزَّوَجَلَّکی صفات ہیں اور یہ بات بھی قرآن وحدیث سے ثابت ہے کہ کچھ نہ کچھ مسلمان جہنم میں بھی جائیں گے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ مسلمان تو غضب ِ الٰہی 1کا شکار ہوں اور جہنم میں جائیں لیکن مجھ پر رحمت الٰہی کی چھماچھم برسات ہو اور مجھے داخل جنت کیا جائے؟[6]

(5) بعد توبہ استقامت نہ ملنے کا خوف ہونا:اس کا حل یہ ہے کہ یہ سراسر شیطانی وسوسہ ہے کیونکہ آپ کو کیا معلوم کہ توبہ کرنے کے بعد آپ زندہ رہیں گے یا نہیں ؟ ہوسکتا ہے کہ توبہ کرتے ہی موت آجائے اور گناہ کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔ وقت توبہ آئندہ کے لئے گناہوں سے بچنے کا پختہ ارادہ ہونا ضروری ہے ، گناہوں سے بچنے پر استقامت دینے والی ذات تو ربّ العالمین کی ہے ۔اگر ارتکاب ِگناہ سے محفوظ رہنا نہ بھی نصیب ہوا تو بھی کم از کم گذشتہ گناہوں سے تو جان چھوٹ جائے گی اور سابقہ گناہوں کا معاف ہوجانا معمولی بات نہیں ۔اگر بعد توبہ گناہ ہو بھی جائے تو دوبارہ پُرخلوص توبہ کرلینی چاہيے کہ ہوسکتا ہے یہی آخری توبہ ہو اور اسی پر دنیا سے جانا نصیب ہو۔

(6)کثرتِ گناہ کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہوجانا:اس کا حل یہ ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہے، رحمت خداوندی کس طرح اپنے امیدوارکو آغوش میں لیتی ہے ،اس کا اندازہ اس روایت سے لگایا جاسکتا ہےکہ مکی مدنی سرکار، جناب احمد مختار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: ’’حق تَعَالٰی اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ مہربان ہے، جتنا کہ ایک ماں اپنے بچے پر شفقت کرتی ہے۔‘‘[7]

(7)توبہ کرنے میں شرم وجھجک محسوس کرنا: توبہ کرنے کے بعد جب میرا اندازِ زندگی تبدیل ہوگا مثلاً پہلے میں نمازیں قضا کردیا کرتا تھا مگر بعد ِ توبہ پانچ وقت مسجد کا رُخ کرتے دکھائی دوں گا ، پہلے میں شیوڈ تھا بعد ِ توبہ میرے چہرے پر سنت مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمیعنی داڑھی شریف سجی ہوئی نظر آئے گی تو لوگ مجھے عجیب نگاہوں سے دیکھیں گے اور مجھے شرم محسوس ہوگی۔ یاد رکھیے! یہ بھی شیطانی وسوسہ ہے، ذرا سوچئے تو سہی کہ آج ان لوگوں کی پرواہ کرتے ہوئے اگر آپ نیکی کے راستے پر چلنے سے کتراتے رہے اور سنتوں سے منہ موڑتے رہے لیکن کل جب قیامت کے دن ساری مخلوق کے سامنے اپنا نامۂ اعمال پڑھ کر سنانا پڑے گااور اگر اس میں گناہ ہی گناہ ہوئے تو کس قدر شرم آئے گی ۔ لہٰذا آخرت میں شرمندہ ہونے سے بچنے کے لئے دنیاکی عارضی شرم وجھجھک کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فوراً توبہ کی سعادت حاصل کرلینی چاہيے ۔(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ ۱۰۹تا۱۱۲)

توبہ کرنے کا ذہن بنانے کےچھ (6)طریقے:

(1)توبہ نہ کرنے کے نقصانات پر غور کیجئے:جو بندہ ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے توبہ کی طرف نہیں بڑھتا تو اسے پہلا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس کے دل پر گناہوں کی سیاہی تہہ درتہہ جمتی رہتی ہے حتی کہ زنگ سارے دل کو گھیر لیتا ہے اور گناہ عادت وطبیعت بن کر رہ جاتا ہے اور پھر وہ صفائی کو قبول نہیں کرتا۔ دوسرا نقصان یہ ہے کہ اُسے بیماری یا موت آگھیرتی ہے اور اُسے گناہ کے اِزالے کی مہلت نہیں مل پاتی۔ اسی لیے روایت میں آیا ہے: ’’دوزخیوں کی زیادہ چیخ وپکار توبہ میں ٹال مٹول کے سبب ہوگی۔‘‘[8]

(2)اَچانک آنے والی موت کو یاد رکھیے:کئی ہنستے بولتے انسان اچانک موت کا شکار ہوکر اندھیری قبر میں پہنچ جاتے ہیں، انہیں توبہ کا موقع ہی نہیں ملتا، جب بندہ اچانک آنے والی موت کو یاد رکھے گا تو امید ہے اسے توبہ کا مدنی ذہن نصیب ہوگا۔ اسی لیے حکمت ودانائی کے پیکر حضرت سیدنا حکیم لقمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے اپنے بیٹے کو یہ نصیحت فرمائی: ’’بیٹا! توبہ میں تاخیر نہ کرنا کیونکہ موت اچانک آتی ہے۔‘‘[9]

(3)خود کو عذابِ جہنم سے ڈرائیے: خدانخواستہ بغیر توبہ کے انتقال ہوگیا اور ربّ تَعَالٰی ناراض ہوگیا تو جہنم کا سخت عذاب میرا مقدر ہوگا، جہنم کا عذاب سہنے کی کس میں طاقت ہے، جہنم کا سب سے ہلکا عذاب یہ ہوگا کہ جہنمی کو آگ کی جوتیاں پہنائی جائیں گی اور سب سے ہلکے عذاب میں مبتلا شخص یہ تصور کرے گا کہ شاید جہنم میں سب سے زیادہ اور شدید عذاب مجھے ہی ہورہا ہے۔امید ہے کہ بندہ جب خود کو جہنم کے عذاب سے ڈرائے گا تو اس کا گناہوں سے توبہ کرنے کا مدنی ذہن بنے گا۔

(4) توبہ کرنے والے کورحمت الٰہی سے جو دُنیوی واُخروی فوائد ملنے کی امید ہے اُن کو پیش نظر رکھیے۔ مثلاً: ٭گناہ سے توبہ کرنے والے کا ایسا ہونا جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں٭ربعَزَّوَجَل کا پسند یدہ بندہ ہونا٭رحمت الٰہی کا متوجہ ہونا٭اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی رضا وخوشنودی حاصل ہونا٭شیطان کو ناراض کرنا ٭ رحمت الٰہی سے ایمان پر خاتمہ ہونا ٭کل بروزِ قیامت سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شفاعت نصیب ہونا ٭حوضِ کوثر سے جام پینا ٭بروزِ قیامت حساب وکتاب میں آسانی ہونا ٭ رحمت الٰہی سے جنت میں داخلہ نصیب ہونا۔

(5)بزرگانِ دِین کے توبہ کے واقعات کا مطالعہ کیجئے: اس کے لیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ۱۲۴صفحات پر مشتمل کتاب ’’توبہ کی روایات وحکایات‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔

(6)اُخروی لذات کو دُنیوی لذات پرترجیح دیجئے: یہ بھی توبہ پر مائل کرنے میں بہت معاونت کرتا ہے، عموماً شیطان بندے کا یہ ذہن بناتا ہے کہ تو نے توبہ کرلی تو فلاں فلاں دُنیوی چیزوں سے محروم ہوجائے گا، فلاں معاملے میں تجھے دنیوی ترقی نہیں مل سکے گی، اس شیطانی وسوسے کی یوں کاٹ کیجئے کہ اگر اچانک مجھے موت آجائے توبھی یہ ساری دُنیوی نعمتیں چھن جائیں گی اور توبہ نہ کرنے کے سبب ربّ تَعَالٰی کی ناراضی کے ساتھ دنیا سے رخصتی ہوگی، کیوں نہ میں گناہوں سے توبہ کرکے ربّ تَعَالٰی کی رضا کے ساتھ دنیا سے رُخصت ہوجاؤں تاکہ ہمیشہ کی اُخروی نعمتیں نصیب ہوں۔فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’جودنیا سے محبت کرتا ہے تو وہ اپنی آخرت کو نقصان پہنچاتا ہے اور جو آخرت سے محبت کرتا ہے وہ اپنی دنیا کو نقصان پہنچاتا ہے تو (اے مسلمانو!) فنا ہونے والی چیز (یعنی دنیا) کو چھوڑ کر باقی رہنے والی چیز (یعنی آخرت) کو اختیار کرلو۔‘‘[10] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ ۱۱۲تا۱۱۴)

توبہ پر استقامت پانے کے چھ (6)طریقے:

(1)روزانہ سونے سے قبل صلاۃ التوبہ ادا کیجئے:توبہ پر استقامت پانے کا ایک بہترین طریقہ یہ بھی ہے کہ بندہ سونے سے قبل اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرکے سوئے اور دو رکعت نماز صلاۃ التوبہ بھی ادا کرلے، امید ہے کہ اس طرح توبہ پر استقامت پانے میں آسانی ہوگی۔

(2)گناہ سے توبہ کرنے کے فوراً بعد کوئی نیکی کرلیجئے:توبہ پر استقامت پانے کا ایک بہترین طریقہ یہ بھی ہےکہ کسی بھی گناہ سے توبہ کرنے کے بعد فوراً بعد کوئی نیکی کرلیجئے کہ وہ نیکی اس گناہ کو مٹا دے گی اور آئندہ بھی توبہ پر توفیق نصیب ہوگی۔ فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’گناہ کے بعد نیکی کرلو یہ اسے مٹادے گی۔‘‘[11]

(3)توبہ کرنے والوں کی صحبت اختیار کیجئے:جب بندہ ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرے گا جو گناہوں سے توبہ کرتے رہتے ہیں تو امید ہے کہ اسے بھی توبہ کی توفیق اور اس پر استقامت نصیب ہوجائے گی، اَلْحَمْدُلِلّٰہعَزَّوَجَل دعوت اسلامی کے مدنی ماحول میں بھی وقتاً فوقتاً توبہ کرنے کی ترغیب دلائی جاتی بلکہ توبہ کروائی جاتی اور توبہ پر استقامت کی ترغیب دلائی جاتی ہے، آپ بھی دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہوجائیے، رحمت الٰہی سے توبہ پر استقامت نصیب ہوجائے گی۔امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہارشاد فرماتے ہیں: ’’توبہ کرنے والوں کے پاس بیٹھا کرو کیونکہ وہ بہت زیادہ نرم دل ہوتے ہیں۔‘‘[12]

(4) خود کو خوش فہمی کا شکار مت ہونے دیجئے: بندہ جب اس خوش فہمی کا شکار ہو جاتا ہے کہ میں تو ایک بار توبہ کرچکا ہوں لہٰذا اب مجھے توبہ کرنے کی حاجت نہیں تو اسے توبہ پر استقامت نصیب نہیں ہوتی۔ اس خوش فہمی کو دور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بندہ اپنی توبہ پر غور کرے کہ کیا میں نے سچی توبہ کرلی ہے؟ کیا مجھےسابقہ گناہوں پر ندامت ہے؟ کیا ان کے ازالے کی بھی کوشش کرلی ہے؟ اگر بالفرض توبہ میں یہ تمام شرائط پائی بھی جائیں تو کیا مجھے یہ معلوم ہے کہ میری توبہ بارگاہِ رَبّ العزت میں قبول بھی ہوئی ہے یا نہیں؟

(5)اجتماعات میں شرکت کا معمول بنالیجیے:‏گناہوں کی ہلاکتوں ،جنت کی نعمتوں اور جہنم کی تباہ کاریوں کو بار بار سننانہ صرف تو بہ پر استقامت فراہم کرتا ہے بلکہ اس کی برکت سے نیکیاں کرنے کا جذبہ بھی بڑھتا ہے۔ لہٰذا اگر آپ تو بہ پر استقامت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو دعوت اسلامی کے سنتوں بھرے اجتماعات میں شرکت کو اپنا معمول بنالیجیے ۔

(6) مدنی انعامات پر عمل اور مدنی قافلوں میں شرکت کیجئے:مدنی انعامات دراصل شیخ طریقت امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی طرف سے عطا کردہ مختلف نیک اعمال کا بصورتِ سوالات مجموعہ ہے،یہ دونوں اُمور توبہ پر استقامت پانے میں بہت ہی معاون ہیں کہ ان دونوں میں توبہ پر استقامت کی نہ صرف ترغیب دلائی جاتی ہے بلکہ عملی طریقہ بھی سکھایا جاتا ہے۔(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ ۱۱۴تا۱۱۶)

گناہوں سے توبہ کرنے کا طریقہ:

کلی طور پر گناہوں کی چھ اقسام ہیں، گناہوں کے مختلف ہونے کی وجہ سے توبہ بھی مختلف طریقے سے ہوگی، تفصیل کچھ یوں ہے:

(1) بعض گناہوں کاتعلق حقوقُ اللہ سے ہوتا ہے۔جیسے نماز ، روزہ، حج، قربانی اورزکوٰۃ وغیرہ کی ادائیگی میں سستی کرنا، بدنگاہی کرنا، قرآنِ پاک کو بے وضو ہاتھ لگانا، شراب نوشی کرنا ، فحش گانے سننا وغیرھا۔ حقوق اللہسے تعلق رکھنے والے گناہ اگر کسی عبادت میں کوتاہی کی وجہ سے سرزد ہوں تو توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان عبادات کی قضا بھی واجب ہے۔ مثلاً اگر نمازیں فوت ہوئی ہوں یا رمضان کے روزے چھوٹے ہوں تو ان کا حساب لگائے اور ان کی قضا کرے ،اگر زکوۃ کی ادائیگی میں کوتاہی ہوئی ہو تو حساب لگا کر ادائیگی کرے، اگر حج فرض ہوجانے کے باوجود ادا نہیں کیا تھا تو اب ادا کرےاور اگر گناہوں کا تعلق عبادات میں کوتاہی سے نہ ہومثلاً بدنگاہی کرنا، شراب نوشی کرنا وغیرہ ،تو اِن پر ندامت وحسرت کا اِظہار کرتے ہوئے بارگاہِ الٰہی میں توبہ کرے اور نیکیاں کرنے میں مشغول ہو جائے۔

(2) بعض ایسے گناہ ہوتے ہیں جن کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہوتا ہے۔ جیسے چوری، غیبت ،چغلی ،اذیت دینا ، ماں باپ کو ستانا ،امانت میں خیانت کرنا،قرض لے کر دبا لینا وغیرھا۔بندوں کے حقوق سے متعلق گناہ اگر ان کی عزت وآبرو میں دست اندازی کی وجہ سے سرزد ہوئے ہوں۔ مثلاً کسی کوگالی دی تھی یا تہمت لگائی تھی یا ڈرایا دھمکایا تھا تو توبہ کی تکمیل اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس مظلوم سے معافی طلب کرنے سے ہوگی۔ اور اگر مالی معاملے میں شریعت کی خلاف ورزی کی وجہ سے گناہ واقع ہوا تھا۔مثلاً امانت میں خیانت کی تھی یا قرض لے کر دبا لیا تھا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس مظلوم سے معافی طلب کرنے کے ساتھ ساتھ اسے اس کا مال بھی لوٹائے اور اگر وہ شخص انتقال کر گیا ہو تو اس کے ورثاء کو دے دے یا پھر اس شخص سےیااس کے نہ ہونے کی صورت میں اس کے ورثاء سے معاف کروا لے، اگر اس شخص کا علم نہیں، نہ ہی اس کے ورثاء کا، تو اتنا مال اس مظلوم کی طرف سے اس نیت کے ساتھ صدقہ کردے کہ اگر وہ شخص یا اس کے ورثاء بعدمیں مل گئے اور انہوں نے اپنے حق کا مطالبہ کیا تو میں انہیں ان کا حق لوٹا دوں گا اور ان کے لئے دعائے مغفرت کرتا رہے۔

(3) بعض گناہوں کا تعلق انسان کے ظاہر سے ہوتا ہے ،مثلاً قتل کرناوغیرہ اور بعض وہ ہوں گے جن کا تعلق انسان کے باطن سے ہوتا ہے مثلاً بدگمانی کرنا ، کسی سے حسد کرنا ، تکبر میں مبتلا ہونا وغیرہ ۔ظاہری گناہوں سے توبہ کا طریقہ تو اوپر گزر چکا لیکن باطنی گناہوں سے بھی توبہ کرنے سے ہرگز غفلت نہ کرے ۔چنانچہ اپنے دل پر غور کرے اور اگر حسد ، تکبر ، ریاء کاری، بغض، کینہ ، غرور، شماتت اوربدگمانی جیسےگناہ دکھائی دیں تو نادم وشرمسار ہوکر بارگاہ ِ الٰہی میں معافی طلب کرے ۔

(4) بعض گناہ صرف توبہ کرنے والے کی ذات تک محدود ہوتے ہیں۔مثلاً خود شراب پینا اور بعض ایسے ہوتے ہیں جن کی طرف اس شخص نے کسی دوسرے کوراغب کیا ہوگا ،اسے گناہِ جاریہ بھی کہتے ہیں۔ مثلاً کسی کو شراب نوشی کی ترغیب دینا یا فحش ویب سائٹ دیکھنے کی ترغیب دینا وغیرہ۔جو گناہ اس کی ذات تک محدود ہوں ان سے مذکورہ طریقے کے مطابق توبہ کرے اور اگر گناہِ جاریہ کا ارتکاب کیا ہو توجس طرح اس گناہ سے خود تائب ہوا ہے اس کی ترغیب دینے سے بھی توبہ کرے اور دوسرے شخص کو جس طرح گناہ کی رغبت دی تھی اب توبہ کی ترغیب دے ، جہاں تک ممکن ہو نرمی یا سختی سے سمجھائے، اگر وہ مان جائے تو ٹھیک ورنہ یہ بری الذمہ ہوجائے گا۔[13]

(5) بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جو پوشیدہ طورپر کیے۔ مثلاً اپنے کمرے میں فحش فلمیں دیکھنا جبکہ کچھ گناہ وہ ہوں گے جو اعلانیہ کیے مثلاًداڑھی منڈانا، سرعام شراب پیناوغیرہ۔ جو گناہ بندے اور اس کے رب عَزَّ وَجَلَّ کے درمیان ہو یعنی کسی پر ظاہر نہ ہوا ہو تو اس کی توبہ پوشیدہ طور پر کرے یعنی اپنا گناہ کسی پر ظاہر نہ کرے اور اگر گناہ اعلانیہ کیا ہو تو اس کی توبہ بھی اعلانیہ کرے۔[14]

(6)کچھ گناہ ایسے ہوتے ہیںجن کے ارتکاب پر آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہوکر کافر ہوجاتا ہے ۔مثلاً اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو ظالم کہنا ، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شان میں گستاخی کرنا۔ اگر مَعَاذَ اللّٰہ کلمۂ کفر یا کوئی ایسا فعل صادر ہوجائے جس سے انسان کافرہو جاتا ہے تو فوراً توبہ کر کے تجدیدایمان کر لینی چاہيے۔(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ ۱۱۶تا۱۱۹)

تجديداِيمان کا طريقہ:

دِل کی تصديق کے بغيرصرف زبانی توبہ کافی نہيں ہو تی۔مثلاً کسی نے کفربک ديا، اس کو دوسرے نے بہلا پھسلا کر اس طرح توبہ کروا دی کہ کفر بکنے والے کو معلوم تک نہيں ہوا کہ ميں نے فلاں کفر کيا تھا ،يوں توبہ نہيں ہو سکتی،اس کا کفر بدستور باقی ہے۔ لہٰذاجس کفر سے توبہ مقصود ہو وہ اسی وقت مقبول ہو گی جبکہ وہ اس کفر کو کفر تسليم کرتا ہو اور دل ميں اس کفر سے نفرت و بيزاری بھی ہو جو کفر سرزد ہواتوبہ ميں اس کا تذکرہ بھی ہو ۔ مثلاً جس نے ويزا فارم پر اپنے آپ کو عيسائی لکھ ديا وہ اس طرح کہے:’’يا اللہ عزوجل!ميں نے جو ويزا فارم ميں اپنے آپ کو عيسائی ظاہر کيا ہے اس کفر سے توبہ کرتا ہوں ۔لَااِلٰہَ اِلَّااللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہیعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہيں اور محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے رسول ہيں۔‘‘ اس طرح مخصوص کفر سے توبہ بھی ہو گئی اور تجديد ايمان بھی۔ اگر مَعَاذَ اللّٰہ کئی کفريات بکے ہوں اور ياد نہ ہو کہ کيا کيا بکا ہے تو يوں کہے:’’ یَااللہ عَزَّ وَجَلَّ ! مجھ سے جو جو کفريات صادر ہوئے ہيں ميں ان سے توبہ کرتا ہوں ۔‘‘پھر کلمہ پڑھ لے، (اگر کلمہ شريف کا ترجمہ معلوم ہے تو زبان سے ترجمہ دہرانے کی حاجت نہيں)اگر يہ معلوم ہی نہيں کہ کفر بکا بھی ہے يا نہيں تب بھی اگر احتياطا توبہ کرنا چاہيں تو اس طرح کریں: ’’یَااللہ عَزَّ وَجَلَّ !اگر مجھ سے کوئی کفر ہو گيا ہو تو ميں اس سے توبہ کرتا ہوں ۔‘‘يہ کہنے کے بعد کلمہ پڑھ ليں۔[15] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ ۱۱۹، ۱۲۰)


[1] ۔۔۔۔اِحیاء العلوم، ۴ / ۱۱ ملخصا،

[2] ۔۔۔۔خزائن العرفان، پ ۲۸، التحریم ، تحت الآیۃ: ۸۔

[3] ۔۔۔۔خزائن العرفان، پ ۲۸، التحریم ، تحت الآیۃ: ۸۔

[4] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ج۴، ص۱۷ماخوذا۔

[5] ۔۔۔۔فتاوی رضویہ،۲۱ / ۱۲۱۔

[6] ۔۔۔۔توبہ کی روایات وحکایات، ص۲۱ماخوذا۔

[7] ۔۔۔۔مسلم، کتاب التو بۃ ،باب فی سعۃ رحمۃ اللہ تعالی ، ص ۱۴۷۲، حدیث:۲۷۵۴ ۔

[8] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۴ / ۳۸۔

[9] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۴ / ۳۸۔

[10] ۔۔۔۔مسند امام احمد، حدیث ابی موسی الاشعری، ۷ / ۱۶۵، حدیث: ۱۹۷۱۷۔

[11] ۔۔۔۔مسند امام احمد، حدیث معاذ بن جبل،۸ / ۲۴۵، حدیث: ۲۲۱۲۰۔

[12] ۔۔۔۔مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الزھد، کلام عمر بن الخطاب، ۸ / ۱۵۰، حدیث: ۲۴۔

[13] ۔۔۔۔فتاویٰ رضویہ قدیم، ۱۰ / ۹۷ماخوذا۔

[14] ۔۔۔۔فتاویٰ رضویہ ،۲۱ / ۱۴۲۔

[15] ۔۔۔۔کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، ص۶۲۲، ۲۸کلمات کفر، ص۹۔

Share