تیمّم کے مسائل

تیمّم کا بیان

اﷲ عَزَّوَجَل ارشاد فرماتا ہے:

(وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآىٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ مِّنْهُ)( پ:۶، المآئدۃ:۶)

یعنی اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں کا کوئی پاخانہ سے آیا یا عورتوں سے مباشرت کی (جِماع کیا) اور پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی کا قصد کرو تو اپنے مونھ اور ہاتھوں کا اس سے مسح کرو۔(بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ دوم،صفحہ۳۴۴)

تیمّم کے مسائل

مسئلہ ۱: جس کا وُضو نہ ہو یا نہانے کی ضرورت ہو اور پانی پر قدرت نہ ہو تو وُضو و غُسل کی جگہ تیمم کرے۔ پانی پر قدرت نہ ہونے کی چند صورتیں ہیں: (۱) ایسی بیماری ہو کہ وُضو یا غُسل سے اس کے زِیادہ ہونے یا دیر میں اچھا ہونے کا صحیح اندیشہ ہو خواہ یوں کہ اس نے خود آزمایا ہو کہ جب وُضو یا غُسل کرتا ہے تو بیماری بڑھتی ہے یا یوں کہ کسی مسلمان اچھے لائق حکیم نے جو ظاہراً فاسق نہ ہو کہہ دیا ہو کہ پانی نقصان کریگا۔ [1]

مسئلہ ۲: محض خیال ہی خیال بیماری بڑھنے کا ہو تو تیمم جائز نہیں۔ یوں ہی کافر یا فاسق یا معمولی طبیب کے کہنے کا اعتبار نہیں۔

مسئلہ ۳: اور اگر پانی بیماری کو نقصان نہیں کرتا مگر وُضو یا غُسل کے لیے حرکت ضرر کرتی ہو یا خود وُضو نہیں کر سکتا اور کوئی ایسا بھی نہیں جو وُضو کرا دے تو بھی تیمم کرے۔ یوہیں کسی کے ہاتھ پھٹ گئے کہ خود وُضو نہیں کر سکتا اور کوئی ایسا بھی نہیں جو وُضو کرا دے تو تیمم کرے۔ [2]

مسئلہ ۴: بے وُضو کے اکثر اعضائے وُضو میں یا جنب کے اکثر بدن میں زخم ہو یا چیچک نکلی ہو تو تیمم کرے، ورنہ جو حصہ عُضْوْ یا بدن کا اچھا ہو اس کو دھوئے اور زخم کی جگہ اور بوقت ضرر اس کے آس پاس بھی مسح کرے اور مسح بھی ضرر کرے تو اس عُضْوْ پر کپڑا ڈال کر اس پر مسح کرے۔ [3]

مسئلہ ۵: بیماری میں اگر ٹھنڈا پانی نقصان کرتا ہے اور گرم پانی نقصان نہ کرے تو گرم پانی سے وُضو اور غُسل ضرور ی ہے تیمم جائز نہیں۔ ہاں اگر ایسی جگہ ہو کہ گرم پانی نہ مل سکے تو تیمم کرے۔ یوہیں اگر ٹھنڈے وقت میں وُضو یا غُسل نقصان کرتا ہے اور گرم وقت میں نہیں تو ٹھنڈے وقت تیمم کرے پھر جب گرم وقت آئے تو آئندہ نماز کے لیے وُضو کرلینا چاہیے جو نماز اس تیمم سے پڑھ لی اس کے اعادہ کی حاجت نہیں۔ [4]

مسئلہ ۶: اگر سر پر پانی ڈالنا نقصان کرتا ہے تو گلے سے نہائے اور پورے سر کا مسح کرے۔

(۲) وہاں چاروں طرف ایک ایک میل تک پانی کا پتا نہیں۔

مسئلہ ۷: اگر یہ گمان ہو کہ ایک میل کے اندر پانی ہوگا تو تلاش کر لینا ضرور ی ہے۔ بلا تلاش کیے تیمم جائز نہیں پھر بغیر تلاش کیے تیمم کر کے نماز پڑھ لی اور تلاش کرنے پر پانی مل گیا تو وُضو کرکے نماز کا اعادہ لازم ہے اور اگر نہ ملا تو ہوگئی۔ [5]

مسئلہ ۸: اگر غالب گمان یہ ہے کہ میل کے اندر پانی نہیں ہے تو تلاش کرنا ضرور ی نہیں پھر اگر تیمم کرکے نماز پڑھ لی اور نہ تلاش کیا نہ کوئی ایسا ہے جس سے پُوچھے اور بعد کو معلوم ہوا کہ پانی یہاں سے قریب ہے تو نماز کا اعادہ نہیں مگر یہ تیمم اب جاتا رہا اور اگر کوئی وہاں تھا مگر اس نے پوچھا نہیں اور بعد کو معلوم ہوا کہ پانی قریب ہے تو اعادہ چاہیے۔ [6]

مسئلہ ۹: اور اگر قریب میں پانی ہونے اور نہ ہونے کسی کا گمان نہیں تو تلاش کرلینا مستحب ہے اور بغیر تلاش کیے تیمم کرکے نماز پڑھ لی ہوگئی۔ [7]

مسئلہ ۱۰: ساتھ میں زم زم شریف ہے جو لوگوں کے لیے تبرکاً لیے جا رہا ہے یا بیمار کو پلانے کے لیے اور ا تنا ہے کہ وُضو ہو جائے گا تو تیمم جائز نہیں۔[8]

مسئلہ ۱۱: اگر چاہے کہ زمزم شریف سے وضونہ کرے اور تیمم جائز ہو جائے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی ایسے شخص کو جس پر بھروسا ہو کہ پھر دے دے گا وہ پانی ہبہ کردے اور اس کا کچھ بدلہ ٹھہرائے تو اب تیمم جائز ہو جائے گا۔ [9]

مسئلہ ۱۲: جو نہ آبادی میں ہو نہ آبادی کے قریب اور اس کے ہمراہ پانی موجود ہے اور یاد نہ رہا اور تیمم کرکے نماز پڑھ لی ہو گئی اور اگر آبادی یا آبادی کے قریب میں ہو تو اعادہ کرے۔ [10]

مسئلہ ۱۳: اگر اپنے ساتھی کے پاس پانی ہے اور یہ گمان ہے کہ مانگنے سے دے دے گا تو مانگنے سے پہلے تیمم جائز نہیں پھر اگر نہیں مانگا اور تیمم کرکے نماز پڑھ لی اور بعد نماز مانگا اور اس نے دے دیا یا بے مانگے اس نے خود دے دیا تو وُضو کرکے نماز کا اعادہ لازم ہے اور اگر مانگا اور نہ دیا تو نماز ہو گئی اور اگر بعد کو بھی نہ مانگا جس سے دینے نہ دینے کا حال کُھلتا اور نہ اس نے خود دیا تو نماز ہوگئی اور اگر دینے کا غالب گمان نہیں اور تیمم کر کے نماز پڑھ لی جب بھی یہی صورتیں ہیں کہ بعد کو پانی دے دیا تو وُضو کرکے نماز کا اعادہ کرے ورنہ ہوگئی۔ [11]

مسئلہ ۱۴: نماز پڑھتے میں کسی کے پاس پانی دیکھا اور گمان غالب ہے کہ دے دیگا تو چاہیے کہ نماز توڑ دے اور اس سے پانی مانگے اور اگر نہیں مانگا اور پوری کرلی اب اس نے خود یا اس کے مانگنے پر دے دیا تو اعادہ لازم ہے اور نہ دے تو ہو گئی اور اگر دینے کا گمان نہ تھا اور نماز کے بعد اس نے خود دے دیا یا مانگنے سے دیا جب بھی اعادہ کرے اور اگر اس نے نہ خود دیا نہ اس نے مانگا کہ حال معلوم ہوتا تو نماز ہو گئی اور اگر نماز پڑھتے میں اس نے خود کہا کہ پانی لو وُضو کر لو اور وہ کہنے والا مسلمان ہے تو نماز جاتی رہی توڑ دینا فرض ہے اور کہنے والا کافر ہے تو نہ توڑے پھر نماز کے بعد اگر اس نے پانی دے دیا تو وُضو کرکے اعادہ کرلے۔ [12]

مسئلہ ۱۵: اور اگر یہ گمان ہے کہ میل کے اندر تو پانی نہیں مگر ایک میل سے کچھ زِیادہ فاصلہ پر مل جائے گا تو مستحب ہے کہ نماز کے آخر وقت مستحب تک تاخیر کرے یعنی عصر و مغرب و عشاء میں اتنی دیر نہ کرے کہ وقتِ کراہت آجائے۔ اگر تاخیر نہ کی اور تیمم کرکے پڑھ لی تو ہوگئی۔

(۳) اتنی سردی ہو کہ نہانے سے مر جانے یا بیمار ہونے کا قوی اندیشہ ہو اور لحاف وغیرہ کوئی ایسی چیز اس کے پاس نہیں جسے نہانے کے بعد اوڑھے اور سردی کے ضرر سے بچے نہ آگ ہے جسے تاپ سکے تو تیمم جائز ہے۔

(۴) دشمن کا خوف کہ اگر اس نے دیکھ لیا تو مار ڈالے گا یا مال چھین لے گا یا اس غریب نادار کا قرض خواہ ہے کہ اسے قیدکر ادے گا یا اس طرف سانپ ہے وہ کاٹ کھائے گا یا شیر ہے کہ پھاڑ کھائے گا یا کوئی بدکار شخص ہے اور یہ عورت یاا مرد ہے جس کو اپنی بے آبروئی کا گمان صحیح ہے تو تیمم جائز ہے۔ [13]

مسئلہ ۱۶: اگر ایسا دشمن ہے کہ ویسے اس سے کچھ نہ بولے گا مگر کہتا ہے کہ وُضو کے لیے پانی لو گے تو مار ڈالوں گا یا قید کرادوں گا تو اس صورت میں حکم یہ ہے کہ تیمم کرکے نماز پڑھ لے پھر جب موقع ملے تو وُضو کرکے اعادہ کرلے۔ [14]

مسئلہ ۱۷: قیدی کو قید خانہ والے وُضو نہ کرنے دیں تو تیمم کرکے پڑھ لے اور اعادہ کرے اور اگر وہ دشمن یا قید خانہ والے نماز بھی نہ پڑھنے دیں تو اشارہ سے پڑھے پھر اعادہ کرے۔ [15]

(۵) جنگل میں ڈول رسی نہیں کہ پانی بھرے تو تیمم جائز ہے۔ [16]

مسئلہ ۱۸: اگر ہمراہی کے پاس ڈول رسّی ہے وہ کہتا ہے کہ ٹھہر جا میں پانی بھر کر فارغ ہو کر تجھے دونگا تو مستحب ہے کہ انتظار کرے اور اگر انتظار نہ کیا اور تیمم کرکے پڑھ لی ہوگئی۔ [17]

مسئلہ ۱۹: رسّی چھوٹی ہے کہ پانی تک نہیں پہنچتی مگر اس کے پاس کوئی کپڑا (رومال، عمامہ، دوپٹا وغیرہ) ایسا ہے کہ اس کے جوڑنے سے پانی مل جائے گا تو تیمم جائز نہیں۔ [18]

(۶) پیاس کا خوف یعنی اس کے پاس پانی ہے مگر وُضو یا غُسل کے صرف میں لائے تو خود یا دوسرا مسلمان یا اپنا یااس کا جانور اگرچہ وہ کتّا جس کا پالنا جائز ہے پیاسا رہ جائے گا اور اپنی یا ان میں کسی کی پیاس خواہ فی الحال موجود ہو یا آئندہ اس کا صحیح اندیشہ ہو کہ وہ راہ ایسی ہے کہ دور تک پانی کا پتا نہیں تو تیمم جائز ہے۔ [19]

مسئلہ ۲۰: پانی موجود ہے مگر آٹا گوندھنے کی ضرورت ہے جب بھی تیمم جائز ہے شوربے کی ضرورت کے لیے جائز نہیں۔ [20]

مسئلہ ۲۱: بدن یا کپڑا اس قدر نجس ہے جو مانع جواز نماز ہے اور پانی صرف اتنا ہے کہ چاہے وُضو کرے یا اُس کو پاک کرلے دونوں کام نہیں ہو سکتے تو پانی سے اس کو پاک کرلے پھر تیمم کرے اور اگر پہلے تیمم کر لیا اس کے بعد پاک کیا تو اب پھر تیمم کرے کہ پہلا تیمم نہ ہوا۔[21]

مسئلہ ۲۲: مسافر کو راہ میں کہیں رکھا ہوا پانی ملا تو اگر کوئی وہاں ہے تو اس سے دریافت کرلے اگر وہ کہے کہ صرف پینے کے لیے ہے تو تیمم کرے وُضو جائز نہیں چاہے کتنا ہی ہو اور اگر اس نے کہا کہ پینے کے لیے بھی ہے اور وُضو کے لیے بھی تو تیمم جائز نہیں اور اگر کوئی ایسا نہیں جو بتا سکے اور پانی تھوڑا ہو تو تیمم کرے اور زِیادہ ہو تو وُضو کرے۔ [22]

(۷) پانی گراں ہونا یعنی وہاں کے حساب سے جو قیمت ہونی چاہیے اس سے دو چند مانگتا ہے تو تیمم جائز ہے اور اگر قیمت میں اتنا فرق نہیں تو تیمم جائز نہیں۔ [23]

مسئلہ ۲۳: پانی مول ملتا ہے اور اس کے پاس حاجتِ ضروریہ سے زِیادہ دام نہیں تو تیمم جائز ہے۔ [24]

(۸) یہ گمان کہ پانی تلاش کرنے میں قافلہ نظروں سے غائب ہو جائے گا یا ریل چھوٹ جائے گی۔ [25]

(۹) یہ گمان کہ وُضو یا غُسل کرنے میں عیدین کی نماز جاتی رہے گی خواہ یوں کہ امام پڑھ کر فارغ ہو جائے گا یا زوال کا وقت آجائے گا دونوں صورتوں میں تیمم جائز ہے۔ [26]

مسئلہ ۲۴: وُضو کرکے عیدین کی نماز پڑھ رہا تھا اثنائے نماز میں بے وُضو ہو گیا اور وُضو کریگا تو وقت جاتا رہے گا یا جماعت ہو چکے گی تو تیمم کرکے نماز پڑھ لے۔ [27]

مسئلہ ۲۵: گہن کی نماز کے لیے بھی تیمم جائز ہے جب کہ وُضو کرنے میں گہن کھل جانے یا جماعت ہو جانے کا اندیشہ ہو۔ [28]

مسئلہ ۲۶: وُضو میں مشغول ہو گا تو ظہر یا مغرب یا عشاء یا جمعہ کی پچھلی سُنّتوں کا یا نماز چاشت [29] کا وقت جاتا رہے گا تو تیمم کرکے پڑھ لے۔ [30]

(۱۰) غیر ولی کو نماز جنازہ فوت ہو جانے کا خوف ہو تو تیمم جائز ہے ولی کو نہیں کہ اس کا لوگ انتظار کریں گے اور لوگ بے اس کی اجازت کے پڑھ بھی لیں تو یہ دوبارہ پڑھ سکتا ہے۔ [31]

مسئلہ ۲۷: ولی نے جس کو نماز پڑھانے کی اجازت دی ہو اسے تیمم جائز نہیں اور ولی کو اس صورت میں اگر نماز فوت ہونے کا خوف ہو تو تیمم جائز ہے۔ یوہیں اگر دوسرا ولی اس سے بڑھ کر موجود ہے تو اس کے لیے تیمم جائز ہے۔ خوف فوت کے یہ معنی ہیں کہ چاروں تکبیریں جاتی رہنے کا اندیشہ ہو اور اگر یہ معلوم ہو کہ ایک تکبیر بھی مل جائے گی تو تیمم جائز نہیں۔ [32]

مسئلہ ۲۸: ایک جنازہ کے لیے تیمم کیا اور نماز پڑھی پھر دوسرا جنازہ آیا اگر درمیان میں اتنا وقت ملا کہ وُضو کرتا تو کر لیتا مگر نہ کیا اور اب وُضو کرے تو نماز ہو چکے گی تو اس کے لیے اب دوبارہ تیمم کرے اور اگر اتنا وقفہ نہ ہو کہ وُضو کر سکے تو وہی پہلا تیمم کافی ہے۔[33]

مسئلہ ۲۹: سلام کا جواب دینے یا درود شریف وغیرہ وظائف پڑھنے یا سونے یا بے وُضو کو مسجد میں جانے یا زبانی قرآن پڑھنے کے لیے تیمم جائز ہے اگرچہ پانی پر قدرت ہو۔

مسئلہ ۳۰: جس پر نہانا فرض ہے اسے بغیر ضرورت مسجد میں جانے کے لیے تیمم جائز نہیں ہاں اگر مجبوری ہو جیسے ڈول رسّی مسجد میں ہو اور کوئی ایسا نہیں جو لا دے تو تیمم کر کے جائے اور جلد سے جلد لے کر نکل آئے۔ [34]

مسئلہ ۳۱: مسجد میں سویا تھا اور نہانے کی ضرورت ہوگئی تو آنکھ کھلتے ہی جہاں سویا تھا وہیں فوراً تیمم کر کے نکل آئے[35]تاخیرحرام ہے۔ [36]

مسئلہ ۳۲: قرآن مجید چھونے کے لیے یا سجدہ تلاوت یا سجدہ شکر کے لیے تیمم جائز نہیں جب کہ پانی پر قدرت ہو۔ [37]

مسئلہ ۳۳: وقت اتنا تنگ ہو گیا کہ وُضو یا غُسل کریگا تو نماز قضا ہو جائے گی تو چاہیے کہ تیمم کرکے نماز پڑھ لے پھر وُضو یا غُسل کر کے اعادہ کرنا لازم ہے۔ [38]

مسئلہ ۳۴: عورت حَیض و نِفاس سے پاک ہوئی اور پانی پر قادر نہیں تو تیمم کرے۔ [39]

مسئلہ ۳۵: مُردے کواگر غُسل نہ دے سکیں خواہ اس وجہ سے کہ پانی نہیں یا اس وجہ سے کہ اُس کے بدن کو ہاتھ لگانا جائز نہیں جیسے اجنبی عورت یا اپنی عورت کہ مرنے کے بعد اسے چھو نہیں سکتا تو اسے تیمم کرایا جائے، غیر محرم کو اگرچہ شوہر ہو عورت کو تیمم کرانے میں کپڑا حائل ہونا چاہیے۔ [40]

مسئلہ ۳۶: جنب اور حائض اور میّت اور بے وُضو یہ سب ایک جگہ ہیں اور کسی نے اتنا پانی جو غُسل کے لیے کافی ہے لاکر کہا جو چاہے خرچ کرے تو بہتر یہ ہے کہ جنب اس سے نہائے اور مردے کو تیمم کرایا جائے اور دوسرے بھی تیمم کریں اور اگر کہا کہ اس میں تم سب کا حصہ ہے اور ہر ایک کو اس میں اتنا حصہ ملا جو اس کے کام کے لیے پورا نہیں تو چاہیے کہ مُردے کے غُسل کے لیے اپنا اپنا حصہ دے دیں اور سب تیمم کریں۔[41]

مسئلہ ۳۷: دو شخص باپ بیٹے ہیں اور کسی نے اتنا پانی دیا کہ اس سے ایک کا وُضو ہو سکتا ہے تو وہ پانی باپ کے صرف میں آنا چاہیے۔ [42]

مسئلہ ۳۸: اگر کوئی ایسی جگہ ہے کہ نہ پانی ملتا ہے نہ پاک مٹی کہ تیمم کرے تو اسے چاہیے کہ وقت نماز میں نماز کی سی صورت بنائے یعنی تمام حرکات نماز بلا نیت نماز بجا لائے۔

مسئلہ ۳۹: کوئی ایسا ہے کہ وُضو کرتا تو پیشاب کے قطرے ٹپکتے ہیں اور تیمم کرے تو نہیں تو اسے لازم ہے کہ تیمم کرے۔ [43]

مسئلہ ۴۰: اتنا پانی ملا جس سے وُضو ہو سکتا ہے اور اسے نہانے کی ضرورت ہے تو اس پانی سے وُضو کر لینا چاہیے اور غُسل کے لیے تیمم کرے۔ [44]

مسئلہ ۴۱: تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھ کی انگلیاں کشادہ کر کے کسی ایسی چیز پر جو زمین کی قسم سے ہو مار کر لوٹ لیں اور زِیادہ گرد لگ جائے تو جھاڑ لیں اور اس سے سارے مونھ کا مسح کریں پھر دوسری مرتبہ یوہیں کریں اور دونوں ہاتھوں کا ناخن سے کہنیوں سمیت مسح کریں۔ [45]

مسئلہ ۴۲: وُضو اور غُسل دونوں کا تیمم ایک ہی طرح ہے۔ [46]

مسئلہ ۴۳: تیمم میں تین فرض ہیں:

(۱) نیت: اگر کسی نے ہاتھ مٹی پر مار کر مونھ اور ہاتھوں پر پھیر لیا اور نیت نہ کی تیمم نہ ہوگا ۔ [47]

مسئلہ ۴۴: کافر نے اسلام لانے کے لیے تیمم کیا اس سے نماز جائز نہیں کہ وہ اس وقت نیت کا اہل نہ تھا بلکہ اگر قدرت پانی پر نہ ہو تو سِرے سے تیمم کرے۔ [48]

مسئلہ ۴۵: نماز اس تیمم سے جائز ہو گی جو پاک ہونے کی نیت یا کسی ایسی عبادت مقصودہ کے لیے کیا گیا ہو جو بلاطہارت جائز نہ ہو تو اگر مسجد میں جانے یا نکلنے یا قرآن مجید چھونے یا اذان و اقامت (یہ سب عبادت مقصود ہ نہیں) یا سلام کرنے یا سلام کا جواب دینے یا زیارت قبور یا دفن میت یا بے وُضو نے قرآن مجید پڑھنے (ان سب کے لیے طہارت شرط نہیں)

کے لیے تیمم کیا ہو تو اس سے نماز جائز نہیں بلکہ جس کے لیے کیا گیا اس کے سوا کوئی عبادت بھی جائز نہیں۔ [49]

مسئلہ ۴۶: جنب نے قرآن مجید پڑھنے کے لیے تیمم کیا ہو تو اس سے نماز پڑھ سکتا ہے سجدہ شکر کی نیت سے جو تیمم کیا ہو اس سے نماز نہ ہوگی۔

مسئلہ ۴۷: دوسرے کو تیمم کا طریقہ بتانے کے لیے جو تیمم کیا اس سے بھی نماز جائز نہیں۔ [50]

مسئلہ ۴۸: نماز جنازہ یا عیدین یا سنتوں کے لیے اس غرض سے تیمم کیا ہو کہ وُضو میں مشغول ہو گا تو یہ نمازیں فوت ہو جائیں گی تو اس تیمم سے اس خاص نماز کے سوا کوئی دوسری نماز جائز نہیں۔ [51]

مسئلہ ۴۹: نماز جنازہ یا عیدین کے لیے تیمم اس وجہ سے کیا کہ بیمار تھا یا پانی موجود نہ تھا تو اس سے فرض نماز اور دیگر عبادتیں سب جائز ہیں۔

مسئلہ ۵۰: سجدہ تلاوت کے تیمم سے بھی نمازیں جائز ہیں۔ [52]

مسئلہ ۵۱: جس پر نہانا فرض ہے اسے یہ ضرور نہیں کہ غُسل اور وُضو دونوں کے لیے دوتیمم کرے بلکہ ایک ہی میں دونوں کی نیت کرلے دونوں ہو جائیں گے اور اگر صرف غُسل یا وُضو کی نیت کی جب بھی کافی ہے۔

مسئلہ ۵۲: بیمار یا بے دست و پا اپنے آپ تیمم نہیں کر سکتا تو اسے کوئی دوسرا شخص تیمم کرا دے اور اس وقت تیمم کرانے والے کی نیت کا اعتبار نہیں بلکہ اس کی نیت چاہے جسے کرایا جارہا ہے۔ [53]

(۲) سارے مونھ پر ہاتھ پھیرنا: اس طرح کہ کوئی حصہ باقی رہ نہ جائے اگر بال برابر بھی کوئی جگہ رہ گئی تیمم نہ ہوا۔ [54]

مسئلہ ۵۳: داڑھی اور مونچھوں اور بھووں کے بالوں پر ہاتھ پھر جانا ضروری ہے۔ مونھ کہاں سے کہاں تک ہے اس کو ہم نے وُضو میں بیان کر دیا بھوؤں کے نیچے اور آنکھوں کے اوپر جو جگہ ہے اور ناک کے حصہ زیریں کا خیال رکھیں کہ اگر خیال نہ رکھیں گے تو ان پر ہاتھ نہ پھرے گا اور تیمم نہ ہوگا۔ [55]

مسئلہ ۵۴: عورت ناک میں پھول پہنے ہو تو نکال لے ورنہ پھول کی جگہ باقی رہ جائے گی اور نَتھ پہنے ہو جب بھی خیال رکھے کہ نَتھ کی وجہ سے کوئی جگہ باقی تو نہیں رہی۔

مسئلہ ۵۵: نتھنوں کے اندر مسح کرنا کچھ درکار نہیں۔

مسئلہ ۵۶: ہونٹ کا وہ حصہ جو عادۃمونھ بند ہونے کی حالت میں دکھائی دیتا ہے اس پر بھی مسح ہو جانا ضرور ی ہے تو اگر کسی نے ہاتھ پھیرتے وقت ہونٹوں کو زور سے دبالیا کہ کچھ حصہ باقی رہ گیا تیمم نہ ہوا۔ یوہیں اگر زور سے آنکھیں بند کرلیں جب بھی تیمم نہ ہوگا۔

مسئلہ ۵۷: مونچھ کے بال اتنے بڑھ گئے کہ ہونٹ چھپ گیا تو ان بالوں کو اٹھا کر ہونٹ پر ہاتھ پھیرے، بالوں پر ہاتھ پھیرنا کافی نہیں۔

(۳) دونوں ہاتھ کا کُہنیوں سمیت مسح کرنا: اس میں بھی یہ خیال رہے کہ ذرّہ برابر باقی نہ رہے ورنہ تیمم نہ ہو گا۔

مسئلہ ۵۸: انگوٹھی چھلّے پہنے ہو تو انھیں اتار کر ان کے نیچے ہاتھ پھیرنا فرض ہے۔[56] عورتوں کو اس میں بہت اِحْتِیاط کی ضرورت ہے۔ کنگن چوڑیاں جتنے زیور ہاتھ میں پہنے ہو سب کو ہٹا کر یا اتار کر جلد کے ہر حصہ پر ہاتھ پہنچائے اس کی احیتاطیں وُضو سے بڑھ کر ہیں۔

مسئلہ ۵۹: تیمم میں سر اور پاؤں کا مسح نہیں۔

مسئلہ ۶۰: ایک ہی مرتبہ ہاتھ مار کر مونھ اور ہاتھوں پرمسح کر لیا تیمم نہ ہوا ہاں اگر ایک ہاتھ سے سارے مونھ کا مسح کیا اور دوسرے سے ایک ہاتھ کا اور ایک ہاتھ جو بچ رہا اُس کے لیے پھر ہاتھ مارا اور اس پر مسح کر لیا تو ہوگیا مگر خلافِ سنّت ہے۔ [57]

مسئلہ ۶۱: جس کے دونوں ہاتھ یا ایک پہنچے سے کٹا ہو تو کُہنیوں تک جتنا باقی رہ گیا اُس پر مسح کرے اور اگر کُہنیوں سے اوپر تک کٹ گیا تو اسے بقیہ ہاتھ پر مسح کرنے کی ضرورت نہیں پھر بھی اگر اس جگہ پر جہاں سے کٹ گیا ہے مسح کرلے تو بہتر ہے۔ [58]

مسئلہ ۶۲: کوئی لنجھا ہے یا اس کے دونوں ہاتھ کٹے ہیں اور کوئی ایسا نہیں جو اسے تیمم کرا دے تو وہ اپنے ہاتھ اور رخسار جہاں تک ممکن ہو زمین یا دیوار سے مس کرے اور نماز پڑھے مگر وہ ایسی حالت میں امامت نہیں کر سکتا۔ ہاں اس جیسا کوئی اور بھی ہے تو اس کی امامت کر سکتا ہے۔[59]

مسئلہ ۶۳: تیمم کے ارادے سے زمین پر لوٹا اور مونھ اور ہاتھوں پر جہاں تک ضرورہے ہر ذرّہ پر گرد لگ گئی تو ہو گیا ورنہ نہیں اور اس صورت میں مونھ اور ہاتھوں پر ہاتھ پھیر لینا چاہیے۔ [60]

مسئلہ ۱: اگر مسح کرنے میں صرف تین انگلیاں کام میں لایا جب بھی ہو گیا اور اگر ایک یا دو سے مسح کیا تیمم نہ ہوا اگرچہ تمام عُضْوْ پر ان کو پھیر لیا ہو۔

مسئلہ ۲: تیمم ہوتے ہوئے دوبارہ تیمم نہ کرے۔[61]

مسئلہ ۳: خلال کے لیے ہاتھ مارنا ضروری نہیں۔ [62] (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ دوم،صفحہ۳۴۶تا۳۵۷)


[1] ۔۔۔۔۔۔ ۔الفتاوی الھندیۃ۔، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع في التیمم، الفصل الأول، ج۱، ص۲۸.

[2] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[3] ۔۔۔۔۔۔ ۔الفتاوی الھندیۃ۔، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع في التیمم، الفصل الأول، ج۱، ص۲۸. و ۔الدرالمختار۔ و ۔ردالمحتار۔، کتاب الطہارۃ، باب التیمم، مطلب في فاقد الطہورین، ج۱، ص۴۸۱.

[4] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الھندیۃ۔، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع في التیمم، الفصل الأول، ج۱، ص۲۸.

[5] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الھندیۃ۔، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع في التیمم، الفصل الأول، ج۱، ص۲۹.

[6] ۔۔۔۔۔۔ ۔ المرجع السابق.

[7] ۔۔۔۔۔۔ ۔ المرجع السابق.

[8] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الطہارۃ، الفصل الخامس في التیمم، نوع آخر في بیان شرائطہم، ج۱، ص۲۳۴.

[9] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الدرالمختار۔ و۔ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب التیمم، مطلب في فاقد الطہورین، ج۱، ص۴۷۵.

[10] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الدرالمختار وردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب التیمم، مطلب في الفرق بین الظن وغلبۃ الظن، ج۱، ص۴۶۷.

[11] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الھندیۃ، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع، الفصل الأول، ج۱، ص۲۹. والدرالمختار وردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب التیمم، مطلب في الفرق... إلخ، ج۱، ص۴۶۸،۴۷۲.

[12] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الھندیۃ، المرجع السابق، وخلاصۃ الفتاوی، کتاب الطہارات، ج۱، ص۳۳.

[13] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الدرالمختار۔ و۔ردالمحتار۔، کتاب الطہارۃ، باب التیمم، ج۱، ص۴۴۴.

[14] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الھندیۃ۔، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع في التیمم، الفصل الأول، ج۱، ص۲۸.

[15] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الھندیۃ۔، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع في التیمم، الفصل الأول، ج۱، ص۲۸.

[16] ۔۔۔۔۔۔ ۔ المرجع السابق

[17] ۔۔۔۔۔۔ ۔ المرجع السابق

[18] ۔۔۔۔۔۔ ۔ المرجع السابق

[19] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الھندیۃ۔، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع في التیمم، الفصل الأول، ج۱، ص۲۸. و۔الدرالمختار۔، کتاب الطہارۃ، باب التیمم، ج۱، ص۴۴۵.

[20] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الھندیۃ۔، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع في التیمم، الفصل الأول، ج۱، ص۲۸.

[21] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الھندیۃ۔، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع في التیمم، الفصل الثاني، ج۱، ص۲۹.

[22] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الخانیۃ۔، کتاب الطھارۃ، باب التیمم، ج۱، ص۲۹.

[23] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الھندیۃ۔، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع في التیمم، الفصل الأول، ج۱، ص۲۹. و ۔الفتاوی الرضویۃ۔، ج۳، ص۴۱۴.

[24] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الھندیۃ۔، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع في التیمم، الفصل الأول، ج۱، ص۲۹.

[25] ۔۔۔۔۔۔ ۔ البحر الرائق۔، کتاب الطہارۃ، باب التیمم، ج۱، ص۲۴۳، و ۔الفتاوی الرضویۃ۔،ج۳، ص۴۱۷.

[26] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الدرالمختار۔ و۔ردالمحتار۔، کتاب الطہارۃ، باب التیمم، ج۱، ص۴۵۶.

[27] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الھندیۃ۔، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع في التیمم، الفصل الثالث، ج۱، ص۳۱.

[28] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الدرالمختار۔ و۔ردالمحتار۔، کتاب الطہارۃ، باب التیمم، ج۱، ص۴۵۷.

[29] ۔۔۔۔۔۔ ۔ مجدّد اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:۔پانی نہ ہونے کی حالت میں بے وضو نے مسجد میں ذکر کے لیے بیٹھنے بلکہ مسجد میں سونے کے لیے (کہ سرے سے عبادت ہی نہیں) یا پانی ہوتے ہوئے سجدہ تلاوت یا سجدہ شکر یا مسِ مصحف یا باوجود وسعت وقت نمازِ پنجگانہ یا جمعہ یا جنب نے تلاوت قرآن کے لیے تیمم کیا لغووباطل وناجائز ہوگا کہ ان میں سے کوئی بے بدل فوت نہ ہوتا تھا، یونہی ہماری تحقیق پرتہجد یا چاشت یا چاند گہن کی نماز کے لیے، اگرچہ اُن کا وقت جاتا ہوکہ یہ نفل ہیں سنّتِ مؤکدہ نہیں تو باوجودِ آب (یعنی پانی کی موجودگی میں) زیارتِ قبور یا عیا دتِ مریض یا سونے کے لیے تیمم بدرجہ اَولیٰ لغو ہے۔۔ ( ۔الفتاوی الرضویۃ۔، ج۳، ص۵۵۷).

[30] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الدرالمختار۔ و ۔ردالمحتار۔، کتاب الطہارۃ، باب التیمم، ج۱، ص۴۵۷.

[31] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الھندیۃ۔، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع في التیمم، الفصل الثالث، ج۱، ص۳۱.

[32] ۔۔۔۔۔۔ ۔ المرجع السابق،وغیرہ.

[33] ۔۔۔۔۔۔ ۔ المرجع السابق.

[34] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الرضویۃ۔، ج۱، ص۷۹۱.

[35] ۔۔۔۔۔۔ ۔ ہاں جو شخص عین کنارہ مسجدمیں ہو کہ پہلے ہی قدم میں خارج ہو جائے جیسے دروازے یا حُجرے یا زمین پیشِ حجرہ (یعنی حجرہ کے سامنے والی زمین )کے متصل سوتا تھا اور احتلام ہوا یا جنابت یاد نہ رہی اور مسجد میں ایک ہی قدم رکھا تھا، ان صورتوں میں فوراََ ایک قدم رکھ کر باہر ہو جائے کہ اس خروج(یعنی نکلنے میں) میں مرور في المسجد (یعنی مسجد میں چلنا ) نہ ہوگا اور جب تک تیمم پُورانہ ہو بحالِ جنابت(یعنی جنابت کی حالت میں) مسجد میں ٹھہرنا رہے گا۔ ( ۔الفتاوی الرضویۃ۔، ج۳، ص۴۸۰ ) .

[36] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الرضویۃ۔، ج۳، ص۴۷۹.

[37] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الرضویۃ۔، ج۳، ص۳۰۵.

[38] ۔۔۔۔۔۔ ۔ المرجع السابق، ص۳۱۰.

[39] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الدرالمختار۔ و۔ردالمحتار۔، کتاب الطہارۃ، باب التیمم، ج۱، ص۴۴۹.

[40] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الدرالمختار۔ و۔ردالمحتار۔، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في قراء ۃ عند المیت، ج۳، ص۱۰۵، ۱۱۰.

[41] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الدرالمختار۔ و۔ردالمحتار۔، کتاب الطہارۃ، باب التیمم، ج۱، ص۴۷۴.

[42] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الھندیۃ۔، کتاب ا لطہارۃ، الباب الرابع في التیمم، الفصل الثالث، ج۱، ص۳۰.

[43] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الھندیۃ۔، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع في التیمم، الفصل الثالث، ج۱، ص۳۱.

[44] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی التاتارخانیۃ۔، کتاب الطہارۃ، الفصل الخامس في التیمم، ج۱، ص۲۵۵.

[45] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الھندیۃ۔، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع في التیمم، الفصل الثالث، ج۱، ص۳۰.

[46] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الجوہرۃ النیرۃ۔، کتاب الطہارۃ، باب التیمم، ص۲۸.

[47] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الرضویۃ۔، ج۳، ص۳۷۳.

[48] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الھندیۃ۔، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع في التیمم، الفصل الأول، ج۱، ص۲۶.

[49] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الھندیۃ۔، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع في التیمم، الفصل الأول، ج۱، ص۲۶.

[50] ۔۔۔۔۔۔ ۔ المرجع السابق.

[51] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الدرالمختار۔ و۔ردالمحتار۔، کتاب الطہارۃ، باب التیمم، ج۱، ص۴۵۵،۴۵۸.

[52] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الھندیۃ۔، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع في التیمم، الفصل الأول، ج۱، ص۲۶.

[53] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الھندیۃ۔، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع في التیمم، الفصل الأول، ج۱، ص۲۶.

[54] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الدرالمختار۔، کتاب الطھارۃ، باب التیمم، ج۱، ص ۴۴۸.

[55] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الھندیۃ۔، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع في التیمم، الفصل الأول، ج۱، ص۲۶.

[56] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الھندیۃ۔، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع في التیمم، الفصل الأول، ج۱، ص۲۶.

[57] ۔۔۔۔۔۔ ۔ المرجع السابق.

[58] ۔۔۔۔۔۔ ۔ المرجع السابق.

[59] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الھندیۃ۔، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع في التیمم، الفصل الأول، ج۱، ص۲۶،وغیرہ.

[60] ۔۔۔۔۔۔ ۔ الفتاوی الرضویۃ۔، ج۳، ص۳۷۶.

[61] ۔۔۔۔۔۔ ۔ البحر الرائق۔، کتاب الطہارۃ، باب التیمم، ج۱، ص۲۵۳.

[62] ۔۔۔۔۔۔ ۔ خلاصۃ الفتاوی۔، کتاب الطہارات، الفصل الخامس في التیمم، ج۱، ص۳۵.

Share