تَوَکُّل

(18)تَوَکُّل

توکل کی تعریف:

توکل کی اِجمالی تعریف یوں ہے کہ اسباب وتدابیر کو اختیار کرتے ہوئے فقط اللہ تَبَارَک وَتَعَالٰی پر اِعتماد وبھروسہ کیاجائے اور تمام کاموں کو اُس کے سپرد کر دیا جائے۔ حضرت سیدنا امام غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی نے توکل کی تفصیلی تعریف بھی بیان فرمائی ہے جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے:توکل دراصل علم، کیفیت اور عمل تین چیزوں کے مجموعے کا نام ہے۔یعنی جب بندہ اس بات کو جان لے کہ فاعل حقیقی صرف اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہے، تمام مخلوق، موت وزندگی، تنگدستی ومالداری، ہرشے کو وہ اکیلا ہی پیدا فرمانے والا ہے، بندوں کے کام سنوارنے پر اسے مکمل علم وقدرت ہے، اس کا لطف وکرم اور رحم تمام بندوں پر اجتماعی اعتبار سےاور ہربندے پر انفرادی اعتبارسے ہے، اس کی قدرت سے بڑھ کر کوئی قدرت نہیں، اس کے علم سے زیادہ کسی کا علم نہیں ، اس کا لطف وکرم اور مہربانی بے حساب ہے، اس علم کے نتیجے میں بندے پر یقین کی ایسی کیفیت طاری ہوگی کہ وہ ایک اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی پر بھروسہ کرے گا، کسی دوسرے کی جانب متوجہ نہ ہوگا، اپنی طاقت وقوت اور ذات کی جانب توجہ نہ کرے گا کیونکہ گناہ سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت فقط اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی کی طرف سے ہے، تو اس علم ویقین،اس سے پیدا ہونے والی کیفیت اور اس نتیجے میں حاصل ہونے والے بھروسے کی مجموعی کیفیت کا نام ’’توکل‘‘ ہے۔[1] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ ۱۵۷)

آیت مبارکہ :

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے:( وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗؕ-)(پ۲۸، الطلاق:۳ ) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے۔‘‘ اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: (وَ عَلَى اللّٰهِ فَتَوَكَّلُوْۤا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۳))(پ۶، المائدۃ: ۲۳)ترجمۂ کنز الایمان: ’’اور اللہ ہی پر بھروسہ کرو اگر تمہیں ایمان ہے۔‘‘(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ ۱۵۸)

(حدیث مبارکہ)ربّ تَعَالٰی پر کامل توکل کرنے کا انعام:

دو جہاں کے تاجور، سلطانِ بحرو بَر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکافرمانِ عظمت نشان ہے: ’’اگر تم اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر اس طرح بھروسہ کرو جیسے اس پر بھروسہ کرنے کا حق ہے، تو وہ تمہیں اس طرح رزق عطا فرمائے گاجیسے پرندوں کو عطافرماتاہے کہ وہ صبح کے ‏وقت خالی پیٹ نکلتے ہیں اورشام کو سیر ہوکر لوٹتے ہیں۔‘‘[2](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ ۱۵۸)

توکل کے اَحکام:

اعلیٰ حضرت اِمامِ اَہلسنت مولانا شاہ اِمام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: ’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر (مطلق)توکل کرنا فرضِ عین ہے۔‘‘ [3] واضح رہے کہ اَسباب اور تدابیر کو ترک کرکے گوشی نشینی اِختیارکرلینے اور کسب (یعنی رِزقِ حلال کمانا) ترک کردینے کی شرعاً اِجازت نہیں ہے۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’توکل ترکِ اَسباب کا نام نہیں بلکہ اِعتماد علی الاسباب کا ترک (توکل) ہے۔‘‘[4] یعنی اَسباب کو چھوڑ دینا توکل نہیں بلکہ اسباب پر اعتماد نہ کرنے (وربّ تَعَالٰی پر اعتماد کرنے)کا نام توکل ہے۔

پھرمتوکل کے اَعمال کی مختلف صورتیں اور اُن کے مختلف اَحکام ہیں:اگر کوئی شخص ایسے یقینی اَسباب کو ترک کرے جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حکم سے چیزوں کے ساتھ قائم ہوچکے ہیں اور اُن سے جدا نہیں ہوں گے تو وہ متوکل نہیں، مثلاً سامنے کھانا رکھا ہو، بھوک بھی ہو اور کھانے کی ضرورت بھی ہو لیکن بندہ اپنا ہاتھ اس کی طرف نہ بڑھائے اور یوں کہے: ’’میں توکل کرتا ہوں ۔‘‘تو ایسا کرنا بے وقوفی اور پاگل پن ہے۔ ایسے غیریقینی اسباب کو ترک کردینا جن کے بارے میں غالب گمان ہے کہ چیزیں ان کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتیں، مثلاً کوئی شخص شہروں اور قافلوں سے جدا ہو کر سنسان راستے پر سفر کرے جن پر کبھی کبھار ہی کوئی آتا ہے تو اگر اس کا سفر بغیر زاد راہ کے ہو تو یہ (عام شخص کے لیے) توکل نہیں ہے کیونکہ بزرگانِ دِین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن کا طریقہ یہ رہا ہے کہ ایسے راستوں پر زادِ راہ لے کر سفر کرتے اور توکل بھی باقی رہتا کیونکہ ان کا اعتماد زادِ راہ پر نہیں بلکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے فضل پر ہوتا، اگرچہ زاد راہ کے بغیر سفر کرنا بھی جائز ہے لیکن یہ توکل کا بلند ترین درجہ ہے اور اسی مرتبہ پر فائز ہونے کی وجہ سے حضرت سیدنا ابراہیم خواص رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا سفر بغیر زادِ راہ کے ہوتا تھا۔ اگر کوئی شخص کمانے کی بالکل تدبیر نہ کرے تو یہ توکل نہیں بلکہ یہ چیز توکل کو بالکل ختم کردیتی ہے۔البتہ اگر وہ اپنے گھر یا مسجد میں ایسی جگہ بیٹھ جائے جہاں لوگ اس کی خبرگیری کرتے ہیں تو یہ توکل کے خلاف نہیں۔سنت کے مطابق رِزقِ حلال کماناتوکل کے خلاف نہیں جبکہ اُس کا اِعتماد سامان اور مال وغیرہ پر نہ ہو اور اس کی علامت یہ ہے کہ وہ مال کے چوری یا ضائع ہونے پر غمزدہ نہ ہو۔عیال دار شخص کا اپنے اہل خانہ کے حق میں توکل کرنا درست نہیں، ان کے لیے بقدر حاجت کمانا ضروری ہے، اسی طرح سال بھر کے لیے کھانا وغیرہ جمع کرکے رکھنا بھی توکل کے منافی نہیں۔البتہ توکل کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ بندہ اس وقت کے لیے ضرورت کے مطابق رکھ لے اور بقیہ مال ذخیرہ نہ کرے بلکہ فقراء میں تقسیم کردے۔ اپنے آپ کو تکلیف دہ چیزوں سے بچانا بھی توکل کے خلاف نہیں۔[5] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ ۱۵۸تا۱۶۰)

توکل کا ذہن بنانے اور توکل پیدا کرنے کے گیارہ (11)طریقے:

(1)توکل کی معلومات حاصل کیجئے:جب تک بندے کو کسی چیز کے بارے میں تفصیلی معلومات نہ ہوں اس چیز کو اختیار کرنا یا اس کا ذہن بنانا بہت مشکل ہے، توکل کا ذہن بنانے اور اسے اختیار کرنے کے لیے بھی توکل کی معلومات ہونا ضروری ہے۔ توکل کی معلومات کے لیے احیاء العلوم، جلد۴، ص۷۳۲(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)، مکاشفۃ القلوب، ص۵۱۲(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) سے مطالعہ بہت مفید ہے۔

(2) توکل ومتوکل سے متعلق بزرگانِ دِین کے اَقوال کا مطالعہ کیجئے:چنداقوال یہ ہیں:حضرت سیدنا سہل رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فرمایا: ’’متوکل کی تین علامات ہیں: سوال نہیں کرتا، جب کوئی اسے چیز دے تو رد نہیں کرتا اور جب چیز پاس

آجائے تو اسے جمع نہیں کرتا۔‘‘خلیفہ اعلیٰ حضرت، مرشد امیراہلسنت، قطب مدینہ حضرت علامہ مولانا ضیاء الدین احمد مدنی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی اسی کو ان الفاظ میں بیان فرمایا کرتے تھے: ’’طمع نہیں، منع نہیں، جمع نہیں۔‘‘[6] ٭حضرت سیدنا حمدون رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’توکل اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ساتھ مضبوط تعلق کا نام ہے۔‘‘٭حضرت سیدنا سہل بن عبداللہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’توکل کا پہلا مقام یہ ہے کہ بندہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سامنے اس طرح ہو جس طرح مردہ غسل دینے والے کے سامنے ہوتا ہے، وہ اسے جس طرح چاہے الٹ پلٹ کرتا ہے۔‘‘٭ حضرت سیدنا ابو عبداللہ قرشی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: ’’ہر وقت اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے تعلق قائم رہنا توکل ہے۔‘‘٭حضرت سیدنا اِبن مسروق رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’ ٭ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے فیصلے اور احکام کے سامنے سرجھکانا توکل ہے۔‘‘٭حضرت سیدنا ابو عثمان حیری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر اعتماد کرتے ہوئے اسی پر اکتفا کرنا توکل ہے۔‘‘[7]

(3)ربّ تَعَالٰی کی قدرت ِ کاملہ پر یقین رکھیے:‏بندہ رِزق اور دیگر ضروریات کے متعلق اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ضامن اور کفیل ہونے کا تصور رکھے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے کمالِ علم، اس کی کمالِ قدرت کا تصور کرے اور اِس بات پر یقین رکھے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ خلافِ وعدہ ، بھول ، عجز اور ہر نقص سے منزہ اورپاک ہے، جب ہمیشہ ایسا تصور ذہن میں رکھے گا تو ضرور اُسے رِزق کے بارے میں ربّ تَعَالٰی پر توکل کی سعادت نصیب ہوجائے گی۔‘‘[8]

(4)متوکل کے آداب کا مطالعہ کیجئے:حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی نے متوکل کے لیے گھریلو سامان سے متعلق درج ذیل 6آداب بیان فرمائے ہیں:(۱)پہلا ادب: دروازہ بند کردے،البتہ زیادہ حفاظتی انتظامات نہ کرے جیسے تالا لگانے کے باوجود پڑوسی کو دیکھ بھال کا کہنا یا کئی تالے لگا دینا۔ (۲) دوسرا ادب: گھر میں ایسا سامان نہ رکھے جو چوروں کو چوری پر آمادہ کرے کہ یہ ان کے گناہ میں پڑنے کا سبب ہوگا یا ان کی دل چسپی کا باعث ہوگا۔(۳) تیسرا ادب: بحالت مجبوری کوئی چیز چھوڑکر جانا پڑے تو یہ نیت کرے کہ چور کو مسلط کرنے کا جو فیصلہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے فرمایا ہے اس پر راضی ہوں اور یوں کہے: ’’چور جو مال لے گا وہ اس کے لیے حلال ہے یا وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا کے لیے مباح ہے اور اگر چور فقیر ہوا تو اس پر صدقہ ہے، بہتر یہ ہے کہ فقیر کی شرط نہ لگائے۔ (۴)چوتھا ادب: جب لوٹ کر آئے اور مال چوری پائے تو غم نہ کرے بلکہ ممکن ہو تو خوش ہو کر یہ کہے: ’’اگر چوری ہونے میں بہتری نہ ہوتی تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ مال واپس نہ لیتا۔‘‘ اگر مال وقف نہ کیا تھا تو اسے زیادہ تلاش نہ کرے، نہ کسی مسلمان پر بدگمانی کرے۔اگر وقف کی نیت کے بعد وہ مال مل جائے تو بہتر یہ ہے کہ اسے قبول نہ کرے اور اگر قبول کربھی لیا تو فتوی کی رو سے جائز ہے کیونکہ فقط نیت کرنے سے ملکیت ختم نہیں ہوتی، البتہ متوکلین کے نزدیک یہ عمل ناپسندیدہ ہے۔(۵)پانچواں ادب:چور کے لیے بددعا نہ کرے، اگر بددعا کرے گا تو توکل ختم ہوجائے گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے چوری ہونے کو ناپسند کیا اور افسوس کیا یوں اس کا زُہد ختم ہوگیا اور اگر بددعا کی تووہ ثواب بھی نہ ملے گا جو اس مصیبت پر ملتا، فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’جس نے اپنے اوپر ظلم کرنے والے کو بددعا دی اس نے بدلہ لے لیا۔‘‘[9] (۶)چھٹا ادب: اس بات پر غمگین ہو کہ چور چوری کرکے گناہ گار ہو اور عذابِ الٰہی کا مستحق ٹھہرا اور اس بات پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شکر ادا کرے کہ وہ ظالم کے بجائے مظلوم بنا اور اسے دنیا کا نقصان پہنچا دِین کا نہیں۔[10]

(5)ہر وقت اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے پناہ مانگئے:‏کہ یہ عمل توکل اور اس میں پختگی پیدا کرنے میں بہت معاون ہے۔حضرت سیدنا امام غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں: ’’شیطان خبیث ہے اور تیری عداوت پر ہر وقت کمر بستہ ہے، تو اس لعین کتے سے بچنے کے لیے ہر وقت اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے پناہ مانگتا رہے اور کسی وقت بھی اس کی مکاریوں اور عیاریوں سے غافل نہ ہو، بلکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ذکر سے اس کتے کو بھگا دے، جب تو مردانِ خدا جیسا عزم و یقین اپنے اندر پیدا کرلے گا تو بفضل خدا اِس لعین کے دائو تجھے کچھ ضرر نہیں پہنچاسکیں گے۔ جیساکہ پارہ۱۴سورۃ النحل آیت ۹۹ میں ربّ تَعَالٰی نے خود فرمایا ہے: ( اِنَّهٗ لَیْسَ لَهٗ سُلْطٰنٌ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَ(۹۹)) ترجمۂ کنز الایمان: ’’بیشک اس کا کوئی قابو اُن پر نہیں جو ایمان لائے اور اپنے ربّ ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔‘‘ یعنی ’’وہ شیطانی وسوسے قبول نہیں کرتے ۔‘‘[11]

(6)توکل کے فوائد اور فضائل پر غور کیجیے :‏چند یہ ہیں: ٭توکل کرنے والا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور ا س کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے فرمان پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ ٭توکل کرنے والا لوگوں سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔٭توکل کرنے والے کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ غیب سے رز ق عطا فرماتا ہے۔٭توکل کرنے والے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو پسند ہیں۔٭توکل کرنے والے کو دنیا وآخرت کی بے شمار بھلائیاں نصیب ہوتی ہیں۔ ٭توکل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے ایمان محفوظ ہوجاتا ہے، کیونکہ شیطان جب کسی کے ایمان پر حملہ آورہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کا اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر یقین اور بھر وسہ کمزور کردیتا ہے۔ لہٰذا گر آپ اپنے ایمان کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ پرکامل بھر وسہ رکھیے۔چنانچہ ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ میرے ایک دوست نے مجھ سے ذکر کیا کہ میری ایک نیک آدمی سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا: ’’کیا حال ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’حال تو اُن کا ہے جن کا ایمان محفوظ ہے اور وہ صرف متوکلین ہی ہیں جن کا اِیمان محفوظ ہے۔‘‘[12]

(7)متوکلین کے واقعات کا مطالعہ کیجئے:کہ جب بندہ متوکلین کے واقعات کا مطالعہ کرے گا تو اس کا بھی توکل کرنے کا ذہن بنے گا، اس سلسلے میں حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی کی مایہ ناز تصنیف ’’احیاء العلوم‘‘ جلد۴، صفحہ ۸۰۷(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)سے مطالعہ کیجئے۔

(8) متوکلین کی صحبت اختیار کیجئے:کہ صحبت اثر رکھتی ہے، جب بندہ توکل کرنے والوں کی صحبت اختیار کرتا ہے تو اس کا بھی توکل کا ذہن بن جاتا ہے اور جو ناشکرے لوگوں کی صحبت اختیار کرتا ہے وہ بھی ویسا ہی بن جاتا ہے، لہٰذا توکل کی دولت حاصل کرنے کے لیے متوکلین کی صحبت اختیار کرنا بہت ضروری ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَل شیخ طریقت، امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی صحبت بھی ایک متوکل ولیٔ کامل کی صحبت ہے، آپ بھی دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہوجائے، ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات اورمدنی مذاکروں میں شرکت کیجئے، امیر اہلسنتدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی صحبت اختیار کیجئے اوررحمت الٰہی سے توکل کی دولت پائیے۔

(9)مخلوق کی محتاجی سے بچنے کا عز م کرلیجیے :‏کہ اس طرح بندہ مخلوق سے بے نیاز ہو کر فقط خالق عَزَّوَجَل ہی پر بھروسہ کرے گاکیونکہ توکل کی بے شمار برکتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بندہ مخلوق کی محتاجی سے بچ جاتا ہے ۔جیسا کہ حضرت سیدنا سلیمان خواص رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:’’اگر کوئی شخص صدق نیت سے اللہ ‏سُبحانہ وتَعَالٰی پر توکل کرے، تو اُمراء اور غیر اُمراء سب اُس کے محتاج ہوجائیں گے اور وہ کسی کا محتاج نہیں ہوگا کیونکہ اس کا مالک عَزَّوَجَل غنی وحمید ہے۔‘‘[13]

(10)پرسکون اور خوشحال زندگی پر نظر رکھیے :‏ہماری کامیابی میں ذہنی اور قلبی سکون کا بہت بڑا کردارہے، ذہنی اور قلبی طور پر مطمئن شخص عموماً پرسکون اور خوشحال زندگی گزارتا ہے اور توکل سے ذہنی وقلبی سکون اور راحت حاصل ہوتی ہے۔ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ‏فرماتے ہیںکہ میرے شیخ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اکثر مجلس میں فرمایا کرتے تھے:’’ اپنی تدبیر اُس ذات کے سپرد کردے جس نے تجھے پیدا فرمایا ہے (یعنی فقط اللہ رَبّ العزت پر توکل کر) توراحت پائے گا۔‘‘[14]

(11) ربّ تَعَالٰی کی بارگاہ میں توکل کی دعا کیجئے:کہ اس کی رحمت بہت بڑی ہے، اس سے جو مانگو وہ اپنے فضل سے عطا فرماتا ہے، توکل کی یوں دعا مانگئے: ’’اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! مجھے اپنے حبیب، ہم گناہگاروں کے طبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے وسیلہ سے توکل کی دولت عطا فرما، مجھے اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کرنا، مجھے ہر ہر معاملے میں بس تیری ہی ذات پر بھروسہ کرنے کی توفیق عطا فرما۔‘‘آمین(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ ۱۶۱تا۱۶۶)


[1] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۴ / ۷۴۵ ،۷۸۰ ملخصا۔

[2] ۔۔۔۔ترمذی، ابواب الزھد، باب فی التوکل علی اﷲ، ۴ / ۱۵۴،حدیث:۲۳۵۱۔

[3] ۔۔۔۔فضائل دعا، ص۲۸۷۔

[4] ۔۔۔۔فتاویٰ رضویہ‏،۲۴ / ۳۷۹۔

[5] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۴ / ۷۹۴، ۷۹۵، لباب الاحیاء، ص۳۴۶، ۳۴۷ملخصا۔

[6] ۔۔۔۔سیدی قطب مدینہ، ص۱۲۔

[7] ۔۔۔۔الرسالۃ القشیریۃ، باب التوکل، ص۲۰۰۔

[8] ۔۔۔۔منہاج العابدین، ص ۲۸۹۔

[9] ۔۔۔۔ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی دعاء النبی، ۵ / ۳۲۴، حدیث: ۳۵۶۳۔

[10] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۴ / ۸۳۸ ملخصا۔

[11] ۔۔۔۔خزائن العرفان، پ۱۴، النحل، تحت الآیۃ:۹۹۔

[12] ۔۔۔۔منہاج العابدین، ص۱۰۶۔

[13] ۔۔۔۔منہاج العابدین، ص۱۰۴۔

[14] ۔۔۔۔منہاج العابدین ص۱۱۳۔

Share