تصوف کا بیان

تَصَوُّف

تصوف کیا ہے؟

حضرت سیِّدُنا حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ یقین ومعرفت کے جس مرتبے پر فائز تھے اسی کا نام علم حال یعنی تصوف ہے۔ تصوف کیا ہے؟ اس کے متعلق بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن سے بے شمار اقوال منقول ہیں ، کیونکہ ہر ایکنے اپنے مقام و مرتبہ اور حال کے اعتبار سے تصوف کی تعریف کی ہے۔ چنانچہ، امام ابو القاسم عبد الکریم بن ھوازن قشیری عَلَیْہِ رَحمَۃُاللہِ الْقَوِی (متوفی ۴۶۵ھ) رسالہ قشیریہ میں فرماتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا رُوَیم بن احمد عَلَیْہِ رَحمَۃُاللہِ الصَّمَد سے تصوف کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ارشاد فرمایا: تصوف یہ ہے کہ بندہ اپنے نفس کو اپنے ربّ کی مرضی پر چھوڑ دے کہ وہ جو چاہے اس سے کام لے اور جب حضرت سیِّدُنا جنید بغدادی عَلَیْہِ رَحمَۃُاللہِ الْہَادِی سے تصوف کے متعلق پوچھا گیا تو آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ارشاد فرمایا: تصوف یہ ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سوا کسی سے بھی کوئی تعلق نہ رکھا جائے۔ ([1])

صوفی کون؟

حضرت سیِّدُنا ابو الحسن قناد عَلَیْہِ رَحمَۃُاللہِ الْجَوَّاد سے جب صوفی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ارشاد فرمایا: صوفی وہ ہوتا ہے جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حقوق کی ادائیگی کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہتا ہے۔ ([2])شیخ ابو نصر سراج طوسی عَلَیْہِ رَحمَۃُاللہِ الْقَوِی مزید ایک قول نقل فرماتے ہیں کہ صوفی وہ لوگ ہیں جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو خوب پہچانتے ہیں ، اس کے احکام کا علم رکھتے ہیں ، جو کچھ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے علم میں ہوتا ہے اس پر عمل کرتے ہیں ، اللہ عَزَّ وَجَلَّ ان سے جو کام لینا چاہتا ہے یہ اس کو پورا کرنے کے لیے ثابت قدمی دکھاتے ہیں ، پختہ عمل کی بدولت وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے کچھ پا لیتے ہیں اور جو کچھ ملتا ہے اس کی وجہ سے فنا ہو جاتے ہیں اور ایسا ہوتا ہی رہتا ہے کہ ہر پا لینے والا آخرکار فنا ہو جایا کرتا ہے۔([3])

تصوف کی اصل:

تعلیماتِ تصوف پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تصوف میں دو باتیں اصل کی حیثیت رکھتی ہیں : تزکیۂ نفس اور احسان۔ تزکیۂ نفس کا ذکر قرآنِ کریم میں بعثت نبوی کے مقاصد میں بار بار آیا ہے اور احسان کا ذکر حدیثِ پاک میں ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث ِ جبریل کو تصوف کی اصل سمجھا جاتا ہے جس میں احسان کی تعریف کی گئی ہے۔ چنانچہ،

حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ رسولِ اَکرم، شاہ ِبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ارشاد فرمایا کرتے: ”مجھ سے (دین کی باتیں ) پوچھا کرو۔“ مگر بارگاہِ نبوت کا اَدب بجا لانے اور غلبۂ ہیبت کی وجہ سے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو سوالات کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔ لہٰذا حقائقِ دینیہ سکھانے کے لیے اللہ عَزَّ وَجَلَّنے حضرت سیِّدُنا جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو انسانی شکل میں بھیجا تاکہ وہ سوال کریں اور معلم کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جواب میں اس طرح نایاب موتی نچھاور فرمائیں کہ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا دامن علمی جواہر پاروں سے بھر جائے۔ چنانچہ حضرت سیِّدُنا جبریل عَلَیْہِ السَّلَامنے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر جو سوالات پوچھے وہ دین کی اساس کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس لیے کہ ان سوالات کے جو جوابات سرورِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے عطا فرمائے وہ کل علومِ دینیہ کا خلاصہ و نچوڑ کہے جا سکتے ہیں ۔ مثلاً شارع ہونے کی حیثیت سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے مروی دینی علوم پر مشتمل کل احادیثِ مبارکہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے تو صورت کچھ یوں بنے گی:

(۱)… آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے مروی بعض احادیث مبارکہ ایسی ہیں جن میں دین کے اصول و نظریات یعنی عقائد کی تعلیم مروی ہے۔

(۲)… بعض احادیث اعمالِ ظاہرہ کی اصلاح سے متعلق ہیں۔

(۳)… اور بعض اصلاحِ باطن سے متعلق ہیں ۔

پس حضرت سیِّدُنا جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے پوچھے گئے سوال ٭ مَا الْاِيمَانُ؟ ایمان کیا ہے؟ کے جواب میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اصلاحِ عقائد کے حوالے سے دین کے اصول و نظریات کچھ یوں بیان فرمائے کہ ایمان یہ ہےکہ تم اللہ عَزَّ وَجَلَّ ، اسکے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں ، قیامت کے دن اور ہر خیر و شر کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی تقدیر سے وابستہ مانو۔٭ مَا الْاِسْلَامُ؟ اسلام کیا ہے؟ کے جواب میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اعمال ظاہرہ کی اصلاح یوں فرمائی کہ تم توحید و رسالت کی گواہی دو، نماز پڑھو، زکوٰۃ ادا کرو، رمضان شریف کے روزے رکھو اور اگر توفیق ہو تو حج کرو۔٭ اور مَا الْاِحْسَانُ؟ احسان کیا ہے؟ کے جواب میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اصلاحِ باطن کے حوالے سے کچھ یوں ارشاد فرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو دیکھ رہے ہو اور اگر اس مقام کو نہ پا سکو تو یہ یقین رکھو کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے۔ یہی تصوف کی اصل ہے۔

تصوف کی بنیادی خصوصیات:

حضرت سید علی بن عثمان جلابی المعروف حضور داتا گنج بخش ہجویری عَلَیْہِ رَحمَۃُاللہِ الْقَوِی اپنی شہرۂ آفاق کتاب کشف المحجوب کے صفحہ ۳۹ پر سید الطائفہ حضرت سیِّدُنا جنید بغدادی عَلَیْہِ رَحمَۃُاللہِ الْہَادِی کا یہ قول نقل فرماتے ہیں کہ تصوف کی بنیادی خصوصیات آٹھ ہیں : (1)… سخاوت(2)… رضا(3)… صبر (4)… اشارہ (5)… غربت (6)… گدڑی (لباس) (7)… سیاحت اور (8)… فقر۔

یہ آٹھ خصلتیں آٹھ انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہیں ۔ چنانچہ،

(1)سخاوت حضرت سیِّدُنا ابراہیم عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔ کیونکہ آپ نے راہِ خدا میں اپنے جگر گوشہ کی قربانی دینے سے بھی گریز نہ کیا۔

(2)رضا حضرت سیِّدُنا اسماعیل عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔ کیونکہ آپ نے ربّ کی رضا کے لیے اپنی جانِ عزیز کو بھی بارگاہِ خداوندی میں پیش کر دیا۔

(3)صبر حضرت سیِّدُنا ایوب عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔ کیونکہ آپنے بے انتہا مصائب پر صبر کا دامن نہ چھوڑا اور اپنے ربّ کی آزمائش پر ثابت قدم رہے۔

(4)اشارہ حضرت سیِّدُنا زکریا عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔ کیونکہ ربّ تعالیٰ نے ان سے ارشاد فرمایا:

اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَةَ اَیَّامٍ اِلَّا رَمْزًاؕ- (پ۳، اٰل عمران: ۴۱)

ترجمۂ کنز الایمان: تین دن تو لوگوں سے بات نہ کرے مگر اشارہ سے۔

اور ایک جگہ ارشاد فرمایا:

اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ نِدَآءً خَفِیًّا(۳)(پ۱۶، مریم:۳)

ترجمۂ کنز الایمان: جب اسنے اپنے رب کو آہستہ پکارا۔

(5)غربت حضرت سیِّدُنا یحییٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے کہ انہوں نے اپنے وطن میں بھی مسافروں کی طرح زندگی بسر کی اور خاندان میں رہتے ہوئے بھی اپنوں سے بیگانہ رہے۔

(6)گدڑی (صوف کا لباس) حضرت سیِّدُنا موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے جنہوں نے سب سے پہلے پشمینی لباس زیبِ تن فرمایا۔

(7)سیاحت حضرت سیِّدُنا عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے جنہوں نے تنہا زندگی گزاری اور ایک پیالہ و کنگھی کے سوا کچھ بھی پاس نہ رکھا۔ بلکہ ایک مرتبہ کسی کو اپنے دونوں ہاتھوں کو ملا کر پانی پیتے دیکھا تو پیالہ بھی توڑ دیا اور جب کسی کو دیکھا کہ انگلیوں سے بالوں میں کنگھی کر رہا ہے تو کنگھی بھی توڑ دی۔

(8)فقر محسنِ کائنات، فخر موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنت ہے جنہیں رُوئے زمین کے تمام خزانوں کی کنجیاں عنایت فرمائی گئیں مگر آپ نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کی: اے خدا! میری خواہش تو یہ ہے کہ ایک روز شکم سیر ہوں تو دو روز فاقہ کروں ۔ 


[1] الرسالۃ القشیریۃ، باب التصوف، ص ۳۱۳

[2] اللمع فی التصوف ، ص۴۶

[3] اللمع فی التصوف ، ص۴۷

Share