طلبِ شہرت

(8)…طلبِ شہرت

طلب شہرت کی تعریف:

’’اپنی شہرت کی کوشش کرنا طلب شہرت کہلاتا ہے۔‘‘[1] (یعنی ایسے افعال کرنا کہ مشہور ہو جاؤں۔)(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۸۵)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتاہے: (وَ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-وَ مَنْ یَّكُنِ الشَّیْطٰنُ لَهٗ قَرِیْنًا فَسَآءَ قَرِیْنًا(۳۸))(پ۵، النساء: ۳۸) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور وہ جو اپنے مال لوگوں کے دکھاوے کو خرچتے ہیں اور ایمان نہیں لاتے اللہ اور نہ قیامت پر اور جس کا مصاحب شیطان ہوا تو کتنا برا مصاحب ہے۔‘‘

صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی ’’خزائن العرفان‘‘ میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ’’بخل کے بعد صرفِ بیجا کی برائی بیان فرمائی کہ جو لوگ محض نمود و نمائش اور نام آوری (یعنی طلب شہرت) کے لئے خرچ کرتے ہیں اور رضائے الٰہی اِنہیں مقصُود نہیں ہوتی جیسے کہ مشرکین و منافقین یہ بھی اِنہیں کے حکم میں ہیں جن کا حکم اُوپر گزر گیا۔‘‘’’جس کا مصاحب شیطان ہوا ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : ’’دنیاو آخرت میں ، دنیا میں تو اس طرح کہ وہ شیطانی کام کرکے اُس کو خوش کرتا رہا اور آخرت میں اس طرح کہ ہر کافر ایک شیطان کے ساتھ آتشی زنجیر میں جکڑا ہوا ہوگا۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۸۵،۸۶)

حدیث مبارکہ، طالب شہرت کے لیے رسوائی:

رسولِ اکرم،نورِ مجسَّم ،شاہ ِبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: ’’جو شہرت کے لئے عمل کرے گا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے رسوا کرے گا، جو دکھاوے کے لئے عمل کرے گا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ (بروز قیامت اس کے عیوب) لوگوں پر ظاہر فرمادے گا۔‘‘[2](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۸۶)

طلب شہرت کا حکم:

طلب شہرت نہایت ہی قبیح ومذموم کام ہے، طلب شہرت بسا اوقات کئی گناہوں میں مبتلا ہونے کا سبب بن جاتا ہے لہٰذا ہرمسلمان کو اس سے بچنا لازم ہے۔امام غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْوَالِی فرماتے ہیں : ’’جاہ ومنصب کا مطلب شہرت اور ناموری ہے اور یہ قابل مذمت ہے، قابل تعریف صرف گمنامی ہے، ہاں یہ الگ بات ہے کہ بغیر شہرت وناموری کی مشقت اٹھائے محض دین پھیلانے کے سبب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کسی کو مشہور کردے تو یہ شہرت وناموری قابل مذمت نہیں۔‘‘ [3](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۸۶)

طلب شہرت کے چھ اسباب و علاج :

(1)…بعض اوقات اپنی نیک نامی کی فکردامن گیر ہوتی ہےاسی لیے بند ہ اپنی شہرت کا خواہش مند ہوتا ہے۔اس کا علا ج یہ ہے کہ بند ہ بزرگان دین کے ایسے واقعات اپنے پیش نظر رکھے کہ جن میں شہر ت سے بچنے کے لیے’’ نیکیاں چھپاؤ‘‘کے مدنی نسخے پر عمل کی ترغیب ہو۔

(2)…بعض اوقات لوگوں کی تعریفیں نفس کی تسکین کا سبب بنتی ہیں اسی لیےبندہ زیادہ سے زیا دہ شہرت حاصل کرکےاپنے نفس کو عارضی سکون دینے کی کوشش کرتا ہے۔اس کا علا ج یہ ہے کہ ایسی صورت میں بند ہ اپنی خامیوں پر نظر رکھے اور ایسے موقعے پراپنے ضمیر سے یہ سوال کرے: ’’کہیں اِن مصنوعی تعریفات کی آگ میرے ٹوٹے پھوٹے اعمال کو جلا کر راکھ تو نہیں کررہی؟‘‘

(3)…بعض اوقات خوشامد پسند طبیعت بھی شہرت کی طلب کرتی ہے۔اس کا علا ج یہ ہے کہ بندہ خوشامد کرنے والوں سے دُور رہے اور ایسے مخلص افراد کی صحبت اختیار کرے جو حسن نیت کے ساتھ عیوب کی نشاندہی کریں۔

(4)…بعض اوقات ناجائز مفادات کا حصول بھی طلب شہرت کا سبب بنتا ہے۔اس کا علا ج یہ ہے کہ بندہ کامیابی کے حصول کے لیے خفیہ اورچور دروازے تلاش نہ کرے بلکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ذات پر توکل کرےاور اپنی محنت سے کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرے۔

(5)…بعض اوقات اپنی خامیوں کو چھپانے کے لیےبھی طلب شہرت کا طریقہ اپنایا جاتا ہے۔اس کا علا ج یہ ہے کہ بندہ یہ ذہن بنائے :’’اگر میں اپنی خامیوںکو خوبیوں میں بدلنے کی اتنی کوشش کروں تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں بھی سرخروئی حاصل ہوگی اورمیر ی آخرت بھی بہتر ہوگی۔‘‘

(6)…بعض اوقات لوگوں کو با آسانی دھوکہ دینےاور لوگوں کی آنکھوں میں دُھو ل جَھونکنے کے لیے طلب شہرت جیسا حربہ استعمال کیا جا تا ہے۔اس کا علا ج یہ ہے کہ بندہ اپنے دل میں مسلمانوں کی خیر خواہی کا جذبہ پیدا کرےاور اس وقتی نفع کے حُصُول کے اُخرَوِی وَبال کو ہمیشہ اپنے پیشِ نظر رکھے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۹۰تا۹۲)


[1] ۔۔۔۔مراۃ المناجیح،ج۷، ص۲۶ ماخوذا۔

[2] ۔۔۔۔بخاری، کتاب الرقاق، باب الرباء والسمعۃ، ج۴، ص۲۴۷، حدیث: ۶۴۹۹۔

[3] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ج۳، ص۸۲۲۔

Share