طہارت کا بیان

کتاب الطھارۃ

نماز کے لیے طہارت ایسی ضروری چیزہے کہ بے اس کے نماز ہوتی ہی نہیں بلکہ جان بوجھ کر بے طہارت نماز ادا کرنے کو علما کفر لکھتے ہیں اور کیوں نہ ہو کہ اس بے وُضو یا بے غسل نماز پڑھنے والے نے عبادت کی بے ادبی اور توہین کی۔ نبی صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم فرماتے ہیں کہ جنت کی کنجی نماز ہے اورنماز کی کنجی طہارت(المسند، للإمام أحمد بن حنبل، مسند جابر بن عبد اللہ، الحدیث: ۱۴۶۶۸، ج۵، ص۱۰۳)۔ اس حدیث کو امام احمد نے جابر رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت کیا: ''ایک روز نبی صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم صبح کی نماز میں سورہ رُوم پڑھتے تھے اور متشابہ لگا۔ بعد نماز ارشاد فرمایا کیا حال ہے ان لوگوں کا جو ہمارے ساتھ نماز پڑھتے ہیں اور اچھی طرح طہارت نہیں کرتے انھیں کی وجہ سے امام کو قراء ت میں شبہہ پڑتا ہے۔( سنن النسائي، کتاب الافتتاح، باب القراء ۃ في الصبح بالروم، الحدیث: ۹۴۴، ص۱۶۵) اس حدیث کو نَسائی نے شبیب بن ابی روح سے، انہوں نے ایک صحابی سے روایت کیا۔جب بغیر کامل طہارت نماز پڑھنے کا یہ وبال ہے تو بے طہارت نماز پڑھنے کی نحوست کا کیا پوچھنا۔ ایک حدیث میں فرمایا: طہارت نصف ایمان ہے۔(جامع الترمذي، کتاب الدعوات،۸۵۔ باب، الحدیث: ۳۵۲۸،ج۵، ص۳۰۷) اس حدیث کو تِرمذی نے روایت کیا اور کہا کہ یہ حدیث حسن ہے۔ طہارت کی دو قسمیں ہیں۔

(۱) صُغریٰ

(۲) کُبریٰ

طہارتِ صُغریٰ وُضو ہے اور کُبریٰ غسل۔ جن چیزوں سے صرف وُضو لازم ہوتا ہے ان کو حدثِ اَصغَر کہتے ہیں اور جن سے غسل فرض ہو ان کو حدثِ اَکبَر۔ ان سب کا اور ان کے متعلقات کاتفصیلاً ذکر کیا جائے گا۔

تنبیہ: چند ضروری اصطلاحات قابلِ ذکر ہیں کہ ان سے ہر جگہ کام پڑتا ہے۔

فرضِ اعتقادی: جودلیلِ قطعی سے ثابت ہو (یعنی ایسی دلیل سے جس میں کوئی شبہہ نہ ہو) اس کا انکار کرنے والا آئمہ حنفیہ کے نزدیک مطلقاً کافر ہے اور اگر اس کی فرضیت دین ِ اسلام کا عام خاص پر روشن واضح مسئلہ ہو جب تو اس کے منکر کے کفر پر اِجماعِ قطعی ہے ایسا کہ جو اس منکر کے کفر میں شک کرے خود کافر ہے اور بہرحال جو کسی فرضِ اعتقادی کو بلا عذرِ صحیح شَرْعی قَصْداً ایک بار بھی چھوڑے فاسق و مرتکبِ کبیرہ و مستحقِ عذاب نار ہے جیسے نماز ، رکوع، سجود۔

فرضِ عملی: وہ جس کا ثبوت تو ایسا قطعی نہ ہو مگر نظرِ مجتہد میں بحکمِ دلائل شَرْعیہ جزم ہے کہ بے اس کے کیے آدمی بری الذمہ نہ ہو گا یہاں تک کہ اگر وہ کسی عبادت کے اندر فرض ہے تو وہ عبادت بے اس کے باطل و کالعدم ہوگی۔ اس کا بے وجہ انکار فسق و گمراہی ہے ،ہاں اگر کوئی شخص کہ دلائلِ شَرْعیہ میں نظرکا اہل ہے دلیلِ شَرْعی سے اس کا انکار کرے تو کر سکتا ہے۔ جیسے آئمہ مجتہدین کے اختلافات کہ ایک امام کسی چیز کو فرض کہتے ہیں اور دوسرے نہیں مَثَلاًحنفیہ کے نزدیک چوتھائی سر کا مسح وُضو میں فرض ہے اور شافعیہ کے نزدیک ایک بال کا اور مالکیہ کے نزدیک پورے سر کا ، حنفیہ کے نزدیک وُضو میں بسم اللہ کہنا اور نیت سنت ہے اور حنبلیہ و شافعیہ کے نزدیک فرض اور ان کے سوا اور بہت سی مثالیں ہیں ۔اس فرضِ عملی میں ہر شخص اُسی کی پیروی کرے جس کا مقلّد ہے اپنے امام کے خلاف بلا ضرورتِ شَرْعی دوسرے کی پیروی جائز نہیں۔

واجبِ اعتقادی: وہ کہ دلیلِ ظنی سے اس کی ضرورت ثابت ہو۔ فرضِ عملی و واجبِ عملی اسی کی دو قسمیں ہیں اور وہ انھیں دو میں منحصر۔

واجبِ عملی: وہ واجبِ اعتقادی کہ بے اس کے کیے بھی بری الذمہ ہونے کا احتمال ہو مگر غالب ظن اس کی ضرورت پر ہے اور اگر کسی عبادت میں اس کا بجا لانا درکار ہو تو عبادت بے اس کے ناقص رہے مگر ادا ہو جائے ۔مجتہد دلیلِ شَرْعی سے واجب کا انکار کر سکتا ہے اور کسی واجب کا ایک بار بھی قَصْداً چھوڑنا گناہِ صغیرہ ہے اور چند بار ترک کرنا کبیرہ۔

سنّتِ مؤ کَّدہ: وہ جس کو حضورِ اقدس صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ہمیشہ کیا ہو ،البتہ بیانِ جواز کے واسطے کبھی ترک بھی فرمایا ہو یا وہ کہ اس کے کرنے کی تاکید فرمائی ہو مگر جانبِ ترک باِلکل مسدود نہ فرمادی ہو، اس کا ترک اساء ت اور کرنا ثواب اور نادراً ترک پر عتاب اور اس کی عادت پر استحقاقِ عذاب ۔

سنّتِ غیر مؤکَّدہ: وہ کہ نظرِ شرع میں ایسی مطلوب ہو کہ اس کے ترک کو ناپسند رکھے مگر نہ اس حد تک کہ اس پر وعیدِ عذاب فرمائے عام ازیں کہ حضور سیّد عالم صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے اس پر مداومت فرمائی یا نہیں ،اس کا کرنا ثواب اور نہ کرنا اگرچہ عادۃً ہو مو جبِ عتاب نہیں۔

مُستَحب: وہ کہ نظرِ شرع میں پسند ہو مگر ترک پر کچھ ناپسندی نہ ہو، خواہ خود حضورِ اقدس صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے اسے کیا یا اس کی ترغیب دی یا علمائے کِرام نے پسند فرمایا اگرچہ احادیث میں اس کا ذکر نہ آیا۔ اس کا کرنا ثواب اور نہ کرنے پر مطلقاً کچھ نہیں۔

مُباح: وہ جس کا کرنا اور نہ کرنا یکساں ہو۔

حَرامِ قَطعی: یہ فرض کا مُقابِل ہے ،اس کا ایک بار بھی قَصْداً کرنا گناہِ کبیرہ و فِسق ہے اور بچنا فرض و ثواب۔

مَکروہ تَحْرِیمی: یہ واجب کا مقابل ہے اس کے کرنے سے عبادت ناقص ہو جاتی ہے اور کرنے والا گنہگار ہوتا ہے اگرچہ اس کا گناہ حرام سے کم ہے اور چند بار اس کا ارتکاب کبیرہ ہے۔

اِساءَ ت: جس کا کرنا بُرا ہو اور نادراً کرنے والا مستحقِ عِتاب اور اِلتزامِ فعل پر استحقاقِ عذاب۔ یہ سنّتِ مؤ کدہ کے مقابل ہے۔

مَکروہِ تَنزِیہی: جس کا کرنا شرع کو پسند نہیں مگر نہ اس حد تک کہ اس پر وعیدِ عذاب فرمائے ۔یہ سنّتِ غیر مؤکدہ کے مقابل ہے۔

خِلافِ اَولیٰ: وہ کہ نہ کرنا بہتر تھا ، کیا توکچھ مضایقہ و عتاب نہیں، یہ مستحب کا مقابل ہے۔ ان کے بیان میں عبارتیں مختلف ملیں گی مگر یہی عطرِ تحقیق ہے۔

وللہ الحمد حمدًا کثیرًا مبارکًا فیہ مبارکًا علیہ کما یحب ربنا و یرضٰی۔

Share