سوالات و جوابات

چھ سوالات و جوابات

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اب دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 112 صَفْحات پر مشتمل کتاب ، ’’ چندے کے بارے میں سوال جواب‘‘ صَفْحَہ84تا88سے ’’ چھ سوالات و جوابات ‘‘ مُلاحظہ ہوں ۔ یہ ہر ادارے بلکہ ہر مسلمان کیلئے مفید ہی نہیں مفید ترین ہیں ۔

چندے کی رقم سے اجتِماعی قُربانی کیلئے گائیں خریدنا

سُوال: مذہبی یا فلاحی اِدارے کے چندے کی رقم سے اجتِماعی قربانی کیلئے بیچنے کے واسِطے گائیں خریدی جا سکتی ہیں یا نہیں ؟

جواب: چندے کی رقم کاروبار میں لگانا جائز نہیں ۔ اِس کیلئے چندہ دینے والے سے صَراحَۃً یعنی صاف لفظوں میں اجازت لینی ضَروری ہے۔(جو اس کی اجازت دے تو صِرْف اُسی کے چندے کی رقم جائز کاروبار میں لگائی جاسکتی ہے یونہی بِلا اجازتِ مالک اُس کے دیئے ہوئے چندے کی رقم قرض دینے کی بھی اجازت نہیں )

غُرَبا کو کھالیں لینے دیجئے

سُوال:اگر کوئی شخص ہر سال غریبوں کو کھال دیتا ہو، اُس پر انفِرادی کوشِش کر کے اپنے مدرَسے یا دیگر دینی کاموں کیلئے کھال لینا اور غریبوں کو محروم کر دینا کیسا ہے؟

جواب: اگر واقِعی کوئی ایسا غریبمُسْتَحِق آدَمی ہے جس کا گزارہ اُسی کھال یا زکوٰۃ و فِطرہ پر موقوف ہے تو اب اُس کو ملنے والے اِن عطِیّات کی اپنے ادارے کیلئے ترکیب کر کے اُس غریب کو محروم کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ۔(اور اگر ان غریبوں کا گزارہ کھال وغیرہ پر موقوف نہ ہو تو کھال کا مالِک جس مَصرف میں چاہے دے سکتا ہے مَثَلاً دینی مدرسے کو دیدے)میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،مولاناشاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں : اگر کچھ لوگ اپنے یہاں کی کھالیں حاجت مند یتیموں ، بیو اؤں ، مسکینوں کو دیناچاہیں کہ ان کی صورتِ حاجت روائی یہی ہو ، اُسے کوئی واعِظ ( یعنی وعظ کہنے والا) یا مدرَسے والا روک کر مدرَسے کیلئے لے لے تو یہ اُس کا ظلم ہو گا۔وَاللّٰہُ تَعالٰی اَعلَم ۔(مُلَخَّص از فتاوٰی رضویہ ج ۲۰ ص ۵۰۱)

کھالوں کیلئے بے جا ضِد مت کیجئے

سُوال: اگر کوئی شخص اہلسنَّت کے کسی مدرَسے یاکسی غریب مسلمان کو کھال دینے کا وعدہ کر چکاہو اُس کو بَاِصرار اپنے اِدارے مثَلاً دعوتِ اسلامی کیلئے کھال دینے پر آمادہ کرنا کیسا؟

جواب:ایسا نہ کرے کہ یوں آپس میں عداوت ومُنافَرت کا سلسلہ ہو گا ، فِتنوں ، غیبتوں ، چغلیوں ، بدگمانیوں ،الزام تراشیوں اوردل آزاریوں وغیرہ گناہوں کے دروا ز ے کُھلیں گے۔میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،مولاناشاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فتاوٰی رضویہ جلد21 صَفْحَہ 253 پر فرماتے ہیں : مسلمانوں میں بِلا وجہِ شَرْعی اختِلاف و فِتنہ پیدا کرنا نَیابتِ شیطان ہے ۔ (یعنی ایسے لوگ اس مُعامَلے میں شیطان کے نائِب ہیں ) حدیثِ پاک میں ہے: ’’ فِتنہ سو رہا ہے اُس کے جگانے والے پراللہ عَزَّ وَجَلَّ کی لعنت۔‘‘ (اَلْجامِعُ الصَّغِیر لِلسُّیُوطی ص۳۷۰حدیث ۵۹۷۵)

سُنّی مدارِس کی کھالیں مت کاٹئے

سُوال:اگر کوئی کہے کہ میں ہر سال فُلاں سُنّی اِدارے کو کھال دیتا ہوں ۔ اُس کو یہ سمجھانا کیسا کہ اِس سال ہمارے دینی ادارے مَثَلاً دعوتِ اسلامی کو کھال دے دیجئے۔

جواب: اگر وہ صاحِب کسی ایسی جگہ کھال دیتے ہیں جو کہ اُس کا صحیح مَصرف ہے تو اُ س ادارے کو محروم کر کے اپنی تنظیم کیلئے کھال حاصِل کر لینا اُس اِدارے والوں کیلئے صدمے کا باعِث ہو گا،یوں آپس میں کشیدگی پیدا ہو گی لہٰذا ہر اُس کام سے اجتِناب کیجئے جس سے مسلمانوں میں باہم رَنجِشیں ہوں مسلمانوں کو نفرت و وَحشت سے بچانا بَہُت ضَروری ہے۔ جیسا کہ حُضُورِ اکرم، نُورِ مُجَسَّم ، شاہِ بنی آدم ، رسولِ مُحتَشَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارشادِ معظَّم ہے: بَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا۔یعنی خوشخبری سناؤ اور( لوگوں کو) نفرت نہ دلاؤ۔ (صَحیح بُخاری ج۱ص ۴۲حدیث ۶۹)

سُنّی مدرَسے کو کھال خود دے آئیے

سُوال: اگر کہیں دعوتِ اسلامی کیلئے کھال لینے پہنچے، اُس نے ایک ہمیں دی اور ایک کھال بچا کر رکھتے ہوئے کہا کہ یہ اہلسنّت کے فُلاں دارالعلوم کو دینی ہے ۔ آپ آدھے گھنٹے کے بعد معلوم کر لیجئے اگر وہ لینے نہ آئیں تو یہ کھال بھی آپ ہی لے لیجئے ۔ ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے؟

جواب: یہ ذِہن میں رہے کہ قربانی کی کھالیں اِکٹھی کرنا دعوتِ اسلامی کا’’ مقصد ‘ ‘ نہیں ’’ضَرورت‘‘ ہے ۔ دعوتِ اسلامی کا ایک مقصد نیکی کی دعوت عام کرنے کی غَرَض سے نفرتیں مٹانا اور مسلمانوں کے دلوں میں مَحَبَّتوں کے چَراغ جَلانا بھی ہے ۔تمام سنّی ادارے ایک طرح سے دعوتِ اسلامی ہی کے ادارے ہیں اور دعوتِ اسلامی تمام سُنّی اداروں کی اپنی اپنی اور اپنی سنّتوں بھری تحریک ہے۔مُمکِنہ صورت میں اچھی اچھی نِیتَّیں کر کے آپ خود اُس سُنّی دارالعلوم کو کھال پہنچاد یجئے۔ اِس طرح اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ مسلمانوں کا دل بھی خوش کرنے کی سعادت حاصِل ہو گی۔ تاجدارِ رسالت ، شَہَنْشاہِ نُبُوَّت ، مصطَفٰے جانِ رحمت، شمعِ بزمِ ہِدایت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :’’ فرائض کے بعد سب اَعمال میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو زیادہ پیارا مسلمان کا دل خوش کرنا ہے ۔ ‘‘ (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر لِلطّبَرانی ج۱۱ص۵۹حدیث۱۱۰۷۹)

اپنی قربانی کی کھال بیچ دی تو؟

سُوال: کسی نے اپنی قربانی کی کھال بیچ کر رقم حاصِل کر لی اب وہ مسجِد میں دے سکتا ہے یا نہیں ؟

جواب: یہاں نیّت کا اعتِبار ہے۔ اگر اپنی قربانی کی کھال اپنی ذات کیلئے رقم کے عِوَض بیچی تو یوں بیچنا بھی ناجائز ہے اور یہ رقم اِس شخص کے حق میں مالِ خَبیث ہے اوراِس کا صَدَقہ کرنا واجِب ہے لہٰذا کسی شَرعی فقیر کو دیدے ۔اور توبہ بھی کرے اور اگر کسی کارِ خیر کیلئے مَثَلاً مسجِد میں دینے ہی کی نیّت سے بیچی تو بیچنا بھی جائز ہے اوراب مسجِد میں دینے میں کوئی حَرَج(بھی) نہیں ۔(ابلق گھوڑے سوار، ص۲۴ تا ۲۸)

Share

ویڈیوز

Comments


Security Code