سننِ نماز

سنن نماز

(۱) تحریمہ کے لیے ہاتھ اٹھانا اور

(۲) ہاتھوں کی انگلیاں اپنے حال پر چھوڑنا ۔یعنی نہ بالکل ملائے نہ بہ تکلف کشادہ رکھے بلکہ اپنے حال پر چھوڑ دے ۔

(۳) ہتھیلیوں اور انگلیوں کے پیٹ کا قبلہ رُو ہونا

(۴) بوقتِ تکبیر سر نہ جھکانا

(۵) تکبیر سے پہلے ہاتھ اٹھانا یوہیں

(۶) تکبیر قنوت و

(۷) تکبیرات عیدین میں کانوں تک ہاتھ لے جانے کے بعد تکبیر کہے اور ان کے علاوہ کسی جگہ نماز میں ہاتھ اٹھانا سنت نہیں ۔[1]

مسئلہ ۶۵: اگر تکبیر کہہ لی اور ہاتھ نہ اٹھایا تو اب نہ اٹھائے اور اﷲ اکبر پورا کہنے سے پیشتر یاد آگیا تو اٹھائے اور اگر موضع مسنون تک ممکن نہ ہو، تو جہاں تک ہو سکے اٹھائے۔ [2] (عالمگیری)

مسئلہ ۶۶: عورت کے لیے سنت یہ ہے کہ مونڈھوں تک ہاتھ اٹھائے۔ [3] (ردالمحتار)

مسئلہ ۶۷: کو ئی شخص ایک ہی ہاتھ اٹھا سکتا ہے تو ایک ہی اٹھائے اور اگر ہاتھ موضع مسنون سے زیادہ کرے جب ہی اٹھتا ہے تو اٹھائے۔ [4] (عالمگیری)

(۹) امام کا بلند آواز سے اﷲ اکبر اور

(۱۰) سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ اور

(۱۱) سلام کہنا جس قدر بلند آواز کی حاجت ہو اور بلا حاجت بہت زیادہ بلند آواز کرنا مکروہ ہے۔ [5]

مسئلہ ۶۸: امام کو تکبیر تحریمہ اور تکبیرات انتقال سب میں جہر مسنون ہے۔[6] (ردالمحتار)

مسئلہ ۶۹: اگر امام کی تکبیر کی آواز تمام مقتدیوں کو نہیں پہنچتی، تو بہتر ہے کہ کوئی مقتدی بھی بلند آواز سے تکبیر کہے کہ نماز شروع ہونے اور انتقالات کا حال سب کو معلوم ہو جائے اور بلا ضرورت مکروہ و بدعت ہے۔ [7] (ردالمحتار)

مسئلہ ۷۰: تکبیر تحریمہ سے اگر تحریمہ مقصود نہ ہو بلکہ محض اعلان مقصود ہو، تو نماز ہی نہ ہوگی۔ یوں ہونا چاہیے کہ نفس تکبیر سے تحریمہ مقصود ہو اور جہر سے اعلان، یوہیں آواز پہنچانے والے کو قصد کرنا چاہیے اگر اس نے فقط آواز پہنچانے کا قصد کیا تو نہ اس کی نماز ہو، نہ اس کی جو اس کی آواز پر تحریمہ باندھے اور علاوہ تکبیر تحریمہ کے اور تکبیرات یا سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ یا رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ میں اگر محض اعلان کاقصد ہو تو نماز فاسد نہ ہوگی، البتہ مکروہ ہوگی کہ ترک سنت ہے۔ [8] (ردالمحتار)

مسئلہ ۷۱: مکبّر کو چاہیے کہ اس جگہ سے تکبیر کہے جہاں سے لوگوں کو اس کی حاجت ہے، پہلی یا دوسری صف میں جہاں تک امام کی آواز بلا تکلف پہنچتی ہے ،یہاں سے تکبیر کہنے کا کیا فائدہ نیز یہ بہت ضروری ہے کہ امام کی آواز کے ساتھ تکبیر کہے امام کے کہہ لینے کے بعد تکبیر کہنے سے لوگوں کو دھوکا لگے گا، نیز یہ کہ اگر مکبّر نے تکبیر میں مد کیا تو امام کے تکبیر کہہ لینے کے بعد اس کی تکبیر ختم ہونے کا انتظار نہ کریں ، بلکہ تشہد وغیرہ پڑھنا شروع کر دیں یہاں تک کہ اگر امام تکبیر کہنے کے بعد اس کے انتظار میں تین بار سبحان اﷲ کہنے کے برابر خاموش رہا، اس کے بعد تشہد شروع کیا ترک واجب ہوا، نماز واجب الاعادہ ہے۔

مسئلہ ۷۲: مقتدی و منفرد کو جہر کی حاجت نہیں ، صرف اتنا ضروری ہے کہ خود سنیں ۔ [9] (درمختار، بحر)

(۱۲) بعد تکبیر فوراً ہاتھ باندھ لینا یوں کہ مرد ناف کے نیچے دہنے ہاتھ کی ہتھیلی بائیں کلائی کے جوڑ پر رکھے، چھنگلیا اور انگوٹھا کلائی کے اغل بغل رکھے اور باقی انگلیوں کو بائیں کلائی کی پشت پر بچھائے اور عورت و خنثیٰ بائیں ہتھیلی سینہ پر چھاتی کے نیچے رکھ کر اس کی پشت پر دہنی ہتھیلی رکھے۔[10] (غنیہ وغیرہا) بعض لوگ تکبیر کے بعد ہاتھ سیدھے لٹکا لیتے ہیں پھر باندھتے ہیں یہ نہ چاہیے بلکہ ناف کے نیچے لا کر باندھ لے۔

مسئلہ ۷۳: بیٹھے یا لیٹے نماز پڑھے، جب بھی یوہیں ہاتھ باندھے۔ [11] (ردالمحتار)

مسئلہ ۷۴: جس قیام میں ذکر مسنون ہو اس میں ہاتھ باندھنا سنت ہے تو ثنا اور دُعائے قنوت پڑھتے وقت اور جنازہ میں تکبیر تحریمہ کے بعد چوتھی تکبیر تک ہاتھ باندھے اور رکوع سے کھڑے ہونے اور تکبیرات عیدین میں ہاتھ نہ باندھے۔ [12] (ردالمحتار)

(۱۳) ثنا و

(۱۴) تعوذ و

(۱۵) تسمیہ و

(۱۶) آمین کہنا اور

(۱۷) ان سب کا آہستہ ہونا

(۱۸) پہلے ثنا پڑھے

(۱۹) پھر تعوذ [13]

(۲۰) پھر تسمیہ [14]

(۲۱) اور ہر ایک کے بعد دوسرے کو فوراً پڑھے، وقفہ نہ کرے، (۲۲) تحریمہ کے بعد فوراً ثنا پڑھے اور ثنا میں وَجَلَّ ثَنَاؤُکَ غیر جنازہ میں نہ پڑھے اور دیگر اذکار جو احادیث میں وارد ہیں ، وہ سب نفل کے لیے ہیں ۔

مسئلہ ۷۵: امام نے بالجہر قراء ت شروع کر دی تو مقتدی ثنا نہ پڑھے اگرچہ بوجہ دُور ہونے یا بہرے ہونے کے امام کی آواز نہ سنتا ہو جیسے جمعہ و عیدین میں پچھلی صف کے مقتدی کہ بوجہ دُور ہونے کے قراء ت نہیں سنتے۔ [15] (عالمگیری، غنیہ) امام آہستہ پڑھتا ہو تو پڑھ لے۔ [16] (ردالمحتار)

مسئلہ ۷۶: امام کو رکوع یا پہلے سجدہ میں پایا، تو اگر غالب گمان ہے کہ ثنا پڑھ کر پالے گا تو پڑھے اور قعدہ یا دوسرے سجدہ میں پایا تو بہتریہ ہے کہ بغیر ثنا پڑھے شامل ہو جائے۔ [17] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۷۷: نماز میں اعوذ و بسم اﷲ قراء ت کے تابع ہیں اور مقتدی پر قراء ت نہیں ، لہٰذا تعوذ و تسمیہ بھی ان کے لیے مسنون نہیں ، ہاں جس مقتدی کی کوئی رکعت جاتی رہی ہو تو جب وہ اپنی باقی رکعت پڑھے، اس وقت ان دونوں کو پڑھے۔[18] (درمختار)

مسئلہ ۷۸: تعوذ صرف پہلی رکعت میں ہے اور تسمیہ ہر رکعت کے اوّل میں مسنون ہے فاتحہ کے بعد اگر اوّل سورت شروع کی تو سورت پڑھتے وقت بسم اﷲ پڑھنا مستحسن ہے، قراء ت خواہ سری ہو یا جہری، مگر بسم اﷲ بہرحال آہستہ پڑھی جائے۔ [19] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۷۹: اگر ثنا و تعوذ و تسمیہ پڑھنا بھول گیا اور قراء ت شروع کر دی تو اعادہ نہ کرے کہ ان کا محل ہی فوت ہوگیا، یوہیں اگر ثنا پڑھنا بھول گیا اور تعوذ شروع کر دیا تو ثنا کا اعادہ نہیں ۔[20] (ردالمحتار)

مسئلہ ۸۰: مسبوق شروع میں ثنا نہ پڑھ سکا تو جب اپنی باقی رکعت پڑھنا شروع کرے، اس وقت پڑھ لے۔ [21] (غنیہ)

مسئلہ ۸۱: فرائض میں نیت کے بعدتکبیر سے پہلے یا بعد اِنِّیْ وَجَّهْتُ ۔۔۔ الخ نہ پڑھے اور پڑھے تو اس کے آخر میں وَاَنَا اَوَّلُ الْمَسْلِمِیْن کی جگہ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْن کہے۔[22] (غنیہ وغیرہا)

مسئلہ ۸۲: (۲۳) عیدین میں تکبیر تحریمہ ہی کے بعد ثنا کہہ لے اور ثنا پڑھتے وقت ہاتھ باندھ لے اور اعوذباﷲ چوتھی تکبیر کے بعد کہے۔ [23] (درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۸۳: آمین کو تین طرح پڑھ سکتے ہیں ، مد کہ الف کو کھینچ کر پڑھیں اور قصر کہ الف کو دراز نہ کریں اور امالہ کہ مد کی صورت میں الف کو یا کی طرح مائل کریں ۔ [24] (درمختار)

مسئلہ ۸۴: اگر مد کے ساتھ میم کو تشدید پڑھی[25] یا یا کو گرا دیا[26] تو بھی نماز ہو جائے گی ،مگر خلاف سنت ہے اور اگر مد کے ساتھ میم کو تشدید پڑھی اور یا کو حذف کر دیا[27] یا قصر کے ساتھ تشدید[28]یا حذفِ یا ہو[29] تو ان صورتوں میں نماز فاسد ہو جائے گی۔[30] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۸۵: امام کی آواز اس کو نہ پہنچی مگر اس کے برابر والے دوسرے مقتدی نے آمین کہی اور اس نے آمین کی آوازسن لی، اگرچہ اس نے آہستہ کہی ہے تو یہ بھی آمین کہے، غرض یہ کہ امام کا وَ لَا الضَّآلِّیْنَکہنا معلوم ہو تو آمین کہنا سنت ہو جائے گا، امام کی آواز سُنے یا کسی مقتدی کے آمین کہنے سے معلوم ہوا ہو۔ [31] (درمختار)

مسئلہ ۸۶: سرّی نماز میں امام نے آمین کہی اور یہ اس کے قریب تھا کہ امام کی آواز سن لی، تو یہ بھی کہے۔ [32] (درمختار) اور

(۲۴) رکوع میں تین بار سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم کہنا اور

(۲۵) گھٹنوں کو ہاتھ سے پکڑنا اور

(۲۶) انگلیاں خوب کھلی رکھنا، یہ حکم مردوں کے لیے ہے اور

(۲۷) عورتوں کے لیے سنت گھٹنوں پر ہاتھ رکھنا اور

(۲۸) انگلیاں کشادہ نہ کرنا ہے آج کل اکثر مرد رکوع میں محض ہاتھ رکھ دیتے اور انگلیاں ملا کر رکھتے ہیں یہ خلاف سنت ہے۔

(۲۹) حالت رکوع میں ٹانگیں سیدھی ہونا، اکثر لوگ کمان کی طرح ٹیڑھی کر لیتے ہیں یہ مکروہ ہے۔

(۳۰) رکوع کے لیے اﷲ اکبر کہنا۔

مسئلہ ۸۷: اگر ’’ ظ ‘‘ ادا نہ کرسکے تو سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم کی جگہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْکَرِیْم کہے۔[33] (ردالمحتار)

مسئلہ ۸۸: بہتر یہ ہے کہ اﷲ اکبر کہتا ہوا رکوع کو جائے یعنی جب رکوع کے لیے جھکنا شروع کرے، تو اﷲ اکبر شروع کرے اور ختم رکوع پر تکبیر ختم کرے۔[34] (عالمگیری) اس مسافت کے پورا کرنے کے لیے اﷲ کے لام کو بڑھائے اکبر کی ب وغیرہ کسی حرف کو نہ بڑھائے ۔

مسئلہ ۸۹: (۳۱) ہر تکبیر میں اﷲ اکبر کی ’’ر ‘‘ کو جزم پڑھے۔ [35] (عالمگیری)

مسئلہ ۹۰: آخر سورت میں اگر اﷲ عَزَّوَجَلَّ کی ثنا ہو تو افضل یہ کہ قراء ت کو تکبیر سے وصل کرے جیسے وَ كَبِّرْهُ تَكْبِیْرًا اللّٰہُ اَکْبَرُ وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْاللّٰہُ اَکْبَر (ث) کو کسرہ پڑھے اور اگر آخر میں کوئی لفظ ایسا ہے جس کا اسم جلالت کے ساتھ ملانا ناپسند ہو تو فصل بہتر ہے یعنی ختم قراء ت پر ٹھہرے پھر اﷲ اکبر کہے، جیسے اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ میں وقف و فصل کرے پھر رکوع کے لیے اﷲ اکبر کہے اور اگر دونوں نہ ہوں ، تو فصل و وصل دونوں یکساں ہیں ۔[36] (ردالمحتار، فتاویٰ رضویہ)

مسئلہ ۹۱: کسی آنے والے کی وجہ سے رکوع یا قراء ت میں طول دینا مکروہ تحریمی ہے، جب کہ اسے پہچانتا ہو یعنی اس کی خاطر ملحوظ ہو اور نہ پہنچانتا ہو تو طویل کرنا افضل ہے کہ نیکی پر اعانت ہے، مگر اس قدر طول نہ دے کہ مقتدی گھبرا جائیں ۔[37] (ردالمحتار)

مسئلہ ۹۲: مقتدی نے ابھی تین بار تسبیح نہ کہی تھی کہ امام نے رکوع یا سجدہ سے سر اٹھالیا تو مقتدی پر امام کی متابعت واجب ہے۔ اور اگر مقتدی نے امام سے پہلے سر اُٹھا لیا تو مقتدی پر لوٹنا واجب ہے، نہ لوٹے گا تو کراہت تحریم کا مرتکب ہوگا، گناہ گار ہوگا۔ [38] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۹۳: (۳۲) رکوع میں پیٹھ خوب بچھی رکھے یہاں تک کہ اگر پانی کا پیالہ اس کی پیٹھ پر رکھ دیا جائے، تو ٹھہر جائے۔[39] (فتح القدیر)

مسئلہ ۹۴: رکوع میں نہ سر جھکائے نہ اونچا ہو بلکہ پیٹھ کے برابر ہو۔[40] (ہدایہ) حدیث میں ہے: ’’اس شخص کی نماز ناکافی ہے (یعنی کامل نہیں ) جو رکوع و سجود میں پیٹھ سیدھی نہیں کرتا۔‘‘ [41] یہ حدیث ابو داود و ترمذی و نَسائی و ابن ماجہ و دارمی نے ابو مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت کی اور ترمذی نے کہا، یہ حدیث حسن صحیح ہے اور فرماتے ہیں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ : ’’رکوع و سجود کو پورا کرو کہ خدا کی قسم میں تمہیں اپنے پیچھے سے دیکھتا ہوں۔‘‘ [42] اس حدیث کو بُخاری و مُسلِم نے انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کیا۔

مسئلہ ۹۵: (۳۳) عورت رکوع میں تھوڑا جھکے یعنی صرف اس قدر کہ ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ جائیں ، پیٹھ سیدھی نہ کرے اور گھٹنوں پر زور نہ دے، بلکہ محض ہاتھ رکھ دے اور ہاتھوں کی انگلیاں ملی ہوئی رکھے اور پاؤں جھکے ہوئے رکھے مردوں کی طرح خوب سیدھے نہ کر دے۔[43] (عالمگیری)

مسئلہ ۹۶: تین بار تسبیح ادنیٰ [44] درجہ ہے کہ اس سے کم میں سنت ادا نہ ہوگی اور تین بار سے زیادہ کہے تو افضل ہے مگر ختم طاق عدد[45] پر ہو، ہاں اگر یہ امام ہے اور مقتدی گھبراتے ہوں تو زیادہ نہ کرے۔[46] (فتح القدیر) حلیہ میں عبداﷲ بن مبارک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ وغیرہ سے ہے کہ’’ امام کے لیے تسبیحات پانچ بار کہنا مستحب ہے۔ ‘‘[47] حدیث میں ہے کہ فرماتے ہیں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ : ’’جب کوئی رکوع کرے اور تین بار سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمکہے تو اس کا رکوع تمام ہوگیا اور یہ ادنیٰ درجہ ہے اور جب سجدہ کرے اور تین بار سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہے تو سجدہ پورا ہوگیا اور یہ ادنی درجہ ہے۔‘‘ [48] اس کو ابو داود اور ترمذی و ابن ماجہ نے عبداﷲ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کیا۔

مسئلہ ۹۷: (۳۴) رکوع سے جب اٹھے، تو ہاتھ نہ باندھے لٹکا ہوا چھوڑ دے۔[49] (عالمگیری)

مسئلہ ۹۸: (۳۵) سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ کی ہ کو ساکن پڑھے، اس پر حرکت ظاہر نہ کرے، نہ دال کو بڑھائے۔ [50] (عالمگیری)

(۳۶) رکوع سے اٹھنے میں امام کے لیے سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہنا اور

(۳۷) مقتدی کے لیے اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد کہنا اور

(۳۸) منفرد کو دونوں کہنا سنت ہے۔

مسئلہ ۹۹: رَبَّنَا لَکَ الْحَمْد سے بھی سنت ادا ہو جاتی ہے مگر واو ہونا بہتر ہے اور اَللّٰھُمَّ ہونا اس سے بہتر اور سب میں بہتر یہ ہے کہ دونوں ہوں ۔[51] (درمختار) حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں : ’’جب امام سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہے، تو اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدکہو کہ جس کا قول فرشتوں کے قول کے موافق ہوا، اس کے اگلے گناہ کی مغفرت ہو جائے گی۔‘‘ [52] اس حدیث کو بُخاری و مُسلِم نے ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کیا۔

مسئلہ ۱۰۰: منفرد سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہکہتا ہوا رکوع سے اٹھے اور سیدھا کھڑا ہو کر اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد کہے۔ [53] (درمختار)

(۳۹) سجدہ کے لیے اور

(۴۰) سجدہ سے اٹھنے کے لیے اﷲ اکبر کہنا اور

(۴۱) سجدہ میں کم از کم تین بار سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہنا اور

(۴۲) سجدہ میں ہاتھ کا زمین پر رکھنا

مسئلہ ۱۰۱: (۴۳) سجدہ میں جائے تو زمین پر پہلے گھٹنے رکھے پھر

(۴۴) ہاتھ پھر

(۴۵) ناک پھر

(۴۶) پیشانی اور جب سجدہ سے اٹھے تو اس کا عکس کرے یعنی

(۴۷) پہلے پیشانی اٹھائے پھر

(۴۸) ناک پھر

(۴۹) ہاتھ پھر

(۵۰) گھٹنے۔[54] (عالمگیری)

رسول اﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب سجدہ کو جاتے، توپہلے گھٹنے رکھتے پھر ہاتھ اور جب اٹھتے تو پہلے ہاتھ اٹھاتے پھر گھٹنے۔[55] اصحاب سُنن اربعہ اور دارمی نے اس حدیث کو وائل ابن حجر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کیا۔

مسئلہ ۱۰۲: (۵۱) مرد کے لیے سجدہ میں سنت یہ ہے کہ بازو کروٹوں سے جدا ہوں ، (۵۲) اور پیٹ رانوں سے (۵۳) اور کلائیاں زمین پر نہ بچھائے، مگر جب صف میں ہو تو بازو کروٹوں سے جدا نہ ہوں گے۔ [56] (ہدایہ، عالمگیری، درمختار) (۵۴) حدیث میں ہے جس کو بُخاری و مُسلِم نے انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کیا کہ فرماتے ہیں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ : ’’سجدہ میں اعتدال کرے اور کُتے کی طرح کلائیاں نہ بچھائے۔‘‘ [57] اور صحیح مُسلِم میں براء بن عازب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی، کہ حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) فرماتے ہیں : ’’جب تو سجدہ کرے، تو ہتھیلی کو زمین پر رکھ دے اور کہنیاں اٹھالے۔‘‘ [58] ابو داود نے اُم المومنین میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا سے روایت کی کہ جب حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) سجدہ کرتے تو دونوں ہاتھ کروٹوں سے دُور رکھتے، یہاں تک کہ ہاتھوں کے نیچے سے اگر بکری کا بچہ گزرنا چاہتا، تو گزر جاتا۔‘‘ [59] اور مُسلِم کی روایت بھی اسی کے مثل ہے، دوسری روایت بُخاری و مُسلِم کی عبداﷲ بن مالک ابن بحلینہ سے یوں ہے کہ ہاتھوں کو کشادہ رکھتے، یہاں تک کہ بغل مبارک کی سپیدی ظاہر ہوتی۔[60]

مسئلہ ۱۰۳: (۵۵) عورت سمٹ کر سجدہ کرے، یعنی بازو کروٹوں سے ملا دے، (۵۶) اور پیٹ ران سے، (۵۷) اور ران پنڈلیوں سے، (۵۸) اور پنڈلیاں زمین سے۔ [61] (عالمگیری وغیرہ)

مسئلہ ۱۰۴: (۵۹) دونوں گھٹنے ایک ساتھ زمین پر رکھے اور اگر کسی عذر سے ایک ساتھ نہ رکھ سکتا ہو، تو پہلے داہنا رکھے پھر بایاں ۔[62] (ردالمحتار)

مسئلہ ۱۰۵: اگر کوئی کپڑا بچھا کر اس پر سجدہ کرے تو حرج نہیں اور جو کپڑا پہنے ہوئے ہے اس کا کونا بچھا کر سجدہ کیا یا ہاتھوں پر سجدہ کیا، تو اگر عذر نہیں ہے تو مکروہ ہے اور اگر وہاں کنکریاں ہیں یا زمین سخت گرم یا سخت سرد ہے تو مکروہ نہیں اور وہاں دھول ہو اور عمامہ کو گرد سے بچانے کے لیے پہنے ہوئے کپڑے پر سجدہ کیا تو حرج نہیں اور چہرے کو خاک سے بچانے کے لیے کیا، تو مکروہ ہے۔[63] (درمختار)

مسئلہ ۱۰۶: اچکن [64] وغیرہ بچھا کر نماز پڑھے، تو اس کا اوپر کا حصّہ پاؤں کے نیچے رکھے اور دامن پر سجدہ کرے۔ [65] (درمختار)

مسئلہ ۱۰۷: سجدہ میں ایک پاؤں اٹھاہوا رکھنا مکروہ و ممنوع ہے۔ [66] (درمختار) (۶۰) دونوں سجدوں کے درمیان مثل تشہد کے بیٹھنا یعنی بایاں قدم بچھانا اور داہنا کھڑا رکھنا، (۶۱) اور ہاتھوں کا رانوں پر رکھنا، (۶۲) سجدوں میں انگلیاں قبلہ رُو ہونا، (۶۳) ہاتھوں کی انگلیاں ملی ہوئی ہونا۔

مسئلہ ۱۰۸: (۶۴) سجدہ میں دونوں پاؤں کی دسوں انگلیوں کے پیٹ زمین پر لگنا سنت ہے اور ہر پاؤں کی تین تین انگلیوں کے پیٹ زمین پر لگنا واجب اور دسوں کا قبلہ رُو ہونا سُنت۔[67] (فتاویٰ رضویہ)

مسئلہ ۱۰۹: (۶۵) جب دونوں سجدے کرلے تو رکعت کے لیے پنجوں کے بل، (۶۶) گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اُٹھے، یہ سُنت ہے، ہاں کمزوری وغیرہ عذر کے سبب اگر زمین پر ہاتھ رکھ کر اُٹھا جب بھی حرج نہیں ۔ [68] (درمختار، ردالمحتار) اب دوسری رکعت میں ثنا و تعوذ نہ پڑھے۔ (۶۷) دوسری رکعت کے سجدوں سے فارغ ہونے کے بعد بایاں پاؤں بچھا کر، (۶۸) دونوں سرین اس پر رکھ کر بیٹھنا، (۶۹) اور داہنا قدم کھڑا رکھنا، (۷۰) اور داہنے پاؤں کی انگلیاں قبلہ رُخ کرنا یہ مرد کے لیے ہے، (۷۱) اور عورت دونوں پاؤں داہنی جانب نکال دے، (۷۲) اور بائیں سرین پر بیٹھے، (۷۳) اور داہنا ہاتھ داہنی ران پر رکھنا، (۷۴) اور بایاں بائیں پر، (۷۵) اور انگلیوں کو اپنی حالت پر چھوڑنا کہ نہ کھلی ہوئی ہوں ، نہ ملی ہوئی، (۷۶) اور انگلیوں کے کنارے گھٹنوں کے پاس ہونا، گھٹنے پکڑنا نہ چاہیے، (۷۷) شہادت پر اشارہ کرنا، یوں کہ چھنگلیا اور اس کے پاس والی کو بند کرلے، انگوٹھے اور بیچ کی اُنگلی کا حلقہ باندھے اور لَا پر کلمہ کی انگلی اٹھائے اور اِلَّا پررکھ دے اور سب اُنگلیاں سیدھی کرلے۔ حدیث میں ہے جس کو ابو داود و نَسائی نے عبداﷲ بن زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت کیا کہ نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب دُعا کرتے (تشہد میں کلمہ شہادت پر پہنچتے) تو انگلی سے اشارہ کرتے اور حرکت نہ دیتے۔ [69] نیز ترمذی و نَسائی و بیہقی ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے راوی، کہ ایک شخص کو دو انگلیوں سے اشارہ کرتے دیکھا، فرمایا: ’’توحید کر۔ توحید کر‘‘ [70] (ایک انگلی سے اشارہ کر)۔

مسئلہ ۱۱۰: (۷۸) قعدۂ اُولیٰ کے بعد تیسری رکعت کے لیے اُٹھے تو زمین پر ہاتھ رکھ کر نہ اُٹھے، بلکہ گھٹنوں پر زور دے کر، ہاں اگر عذر ہے تو حرج نہیں ۔[71] (غنیہ)

مسئلہ ۱۱۱: نماز فرض کی تیسری اور چوتھی رکعت میں افضل سورۂ فاتحہ پڑھنا ہے اور سبحان اﷲ کہنا بھی جائز ہے اور بقدر تین تسبیح کے چپکا کھڑا رہا، تو بھی نماز ہو جائے گی، مگر سکوت نہ چاہیے۔ [72] (درمختار)

مسئلہ ۱۱۲: دوسرے قعدہ میں بھی اسی طرح بیٹھے جیسے پہلے میں بیٹھا تھا اور تشہد بھی پڑھے۔ [73] (درمختار) بعد (۷۹) تشہد دوسرے قعدہ میں دُرود شریف پڑھنا اور افضل وہ دُرود ہے، جو پہلے مذکور ہوا۔

مسئلہ ۱۱۳: دُرود شریف میں حضور سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور حضور سیدنا ابراہیمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے اسمائے طیبہ کے ساتھ لفظ سیّدنا کہنا بہتر ہے۔ [74] (درمختار، ردالمحتار) (بہارِ شریعت،حصہ۳جلداول،ص۵۲۰تا ۵۳۱)


[1] ’’الدرالمختار‘‘ و ’’ردالمحتار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في قولھم الإساء ۃ دون الکراھۃ، ج۲، ص۲۰۸۔

و ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث، ج۱، ص۷۲۔

و ’’غنیۃ المتملي‘‘، صفۃ الصلاۃ، ص۳۰۰۔

[2] ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث، ج۱، ص۷۳۔

[3] ’’الدرالمختار‘‘، کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ، فصل، ج۲، ص۲۲۲۔

[4] ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث، ج۱، ص۷۳۔

[5] ’’الدرالمختار‘‘ و ’’ردالمحتار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في قولھم الإساء ۃ دون الکراھۃ، ج۲، ص۲۰۸۔

[6] المرجع السابق۔

[7] ’’ردالمحتار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في التبلیغ خلف الامام، ج۲، ص۲۰۹۔

[8] ’’ردالمحتار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في التبلیغ خلف الامام، ج۲، ص۲۰۹۔

[9] ’’الدرالمختار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ج۲، ص۲۰۹۔

[10] ’’غنیۃ المتملي‘‘، صفۃ الصلاۃ، ص۳۰۰، وغیرہا ۔

[11] ’’ردالمحتار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ،فصل، مطلب في بیان المتواتر بالشاذ، ج۲، ص۲۲۹۔

[12] ’’ردالمحتار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، فصل، مطلب في بیان المتواتر بالشاذ، ج۲، ص۲۳۰۔

[13] یعنیاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم۔

[14] یعنی بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔

[15] ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع ج۱، ص۹۰۔

و ’’غنیۃ المتملي‘‘، صفۃ الصلاۃ، ص۳۰۴۔

[16] ’’ردالمحتار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في بیان المتواتر بالشاذ، ج۲، ص۲۳۲۔

[17] ’’الدرالمختار‘‘ و ’’ردالمحتار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في بیان المتواتر بالشاذ، ج۲، ص۲۳۲۔

[18] ’’الدرالمختار‘‘ و ’’ردالمحتار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في بیان المتواتر بالشاذ، ج۲، ص۲۳۴۔

[19] ’’الدرالمختار‘‘ و ’’ردالمحتار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في بیان المتواتر بالشاذ، ج۲، ص۲۳۲۔

[20] ’’ردالمحتار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في بیان المتواتر بالشاذ، ج۲، ص۲۳۳۔

[21] ’’غنیۃ المتملي‘‘، صفۃ الصلاۃ، ص۳۰۴۔

[22] ’’غنیۃ المتملي‘‘، صفۃ الصلاۃ، ص۳۰۳، وغیرہا ۔

[23] ’’الدرالمختار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ج۲، ص۲۳۴، وغیرہ ۔

[24] ’’الدرالمختار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ج۲، ص۲۳۷۔

[25] آمِّیْن۔

[26] آمِنْ۔

[27] آمِّنْ۔

[28] اَمِّیْنْ۔

[29] اَمِنْ۔ ۱۲

[30] ’’الدرالمختار‘‘، و ’’ردالمحتار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: قراء ۃ البسملۃ۔۔۔ إلخ، ج۲، ص۲۳۷۔

[31] ’’الدرالمختار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ج۲، ص۲۳۹۔

[32] ’’الدرالمختار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ج۲، ص۲۳۹۔

[33] ’’ردالمحتار‘‘، کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: قراء ۃ البسملۃ۔۔۔ إلخ، ج۲، ص۲۴۲۔

[34] ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث، ج۱، ص۷۴۔

[35] المرجع السابق۔

[36] ’’ردالمحتار‘‘، کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: قراء ۃ البسملۃ۔۔۔ إلخ، ج۲، ص۲۴۰۔

و ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۶، ص۳۳۵۔

[37] ’’ردالمحتار‘‘، کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائی، ج۲، ص۲۴۲۔

[38] ’’الدرالمختار‘‘ و ’’ردالمحتار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائی، ج۲، ص۲۴۳۔

[39] ’’فتح القدیر‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ج۱، ص۲۵۹۔

[40] ’’الھدایۃ‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ج۱، ص۵۰۔

[41] ’’سنن أبي داود‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ في الرکوع و السجود، الحدیث: ۸۵۵، ج۱، ص۳۲۵۔

[42] ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب الأذان، باب الخشوع في الصلاۃ، الحدیث: ۷۴۲، ج۱، ص۲۶۳۔

[43] ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث، ج۱، ص۷۴۔

[44] یعنی کم از کم۔

[45] مثلاً پانچ، سات، نو۔

[46] ’’فتح القدیر‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ج۱، ص۲۵۹۔

[47] ’’حلیۃ‘‘،

[48] ’’جامع الترمذي‘‘، ابواب الصلاۃ، باب ماجاء في التسبیح في الرکوع و السجود، الحدیث: ۲۶۱، ج۱، ص۲۹۶۔

[49] ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث، ج۱، ص۷۳۔

[50] المرجع السابق، ص۷۵۔

[51] ’’الدرالمختار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ج۲، ص۲۴۶۔ یعنی اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد ۔۱۲

[52] ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب الأذان، باب فضل اللّٰھم ربنا لک الحمد، الحدیث: ۷۹۶، ج۱، ص۲۷۹۔

[53] ’’الدرالمختار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ج۲، ص۲۴۷۔

[54] ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث، ج۱، ص۷۵۔

[55] ’’سنن ابي داود‘‘، کتاب الصلاۃ، باب کیف یضع رکبتیہ قبل یدیہ، الحدیث: ۸۳۸، ج۱، ص۳۲۰۔

[56] ’’الھدایۃ‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ج۱، ص۵۱۔

و ’’الدرالمختار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، فصل، ج۲، ص۲۵۷۔

[57] ’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الصلاۃ، باب الاعتدال في السجود،۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۴۹۳، ص۲۵۴۔

[58] ’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الصلاۃ، باب الاعتدال في السجود،۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۴۹۴، ص۲۵۴۔

[59] ’’سنن ابي داود‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ السجود، الحدیث: ۸۹۸، ج۱، ص۳۴۰۔

[60] ’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الصلاۃ، باب الاعتدال في السجود،۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۴۹۵، ص۲۵۵۔

[61] ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث، ج۱، ص۷۵، وغیرہ ۔

[62] ’’ردالمحتار‘‘، کتاب الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي، ج۲، ص۲۴۷۔

[63] ’’الدرالمختار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، فصل، ج۲، ص۲۵۵۔

[64] یعنی ایک لمبا لباس جو کپڑوں کے اوپر پہنا جاتا ہے۔

[65] ’’الدرالمختار‘‘، کتاب الصلاۃ، فصل، ج۲، ص۲۵۵۔

[66] ’’الدرالمختار‘‘ و ’’ردالمحتار‘‘، کتاب الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي،، ج۲، ص۲۵۸۔

[67] انظر: ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۷، ص۳۷۶۔

[68] ’’الدرالمختار‘‘ و ’’ردالمحتار‘‘، کتاب الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي، ج۲، ص۲۶۲۔

[69] ’’سنن ابي داود‘‘، کتاب الصلاۃ، باب الاشارۃ في التشہد، الحدیث: ۹۸۹، ج۱، ص۳۷۱۔

[70] ’’جامع الترمذي‘‘، کتاب الدعوات،۱۰۴۔باب، الحدیث: ۳۵۶۸، ج۵، ص۳۲۶۔

[71] ’’غنیۃ المتملي‘‘، صفۃ الصلاۃ، ص۳۳۱۔

[72] ’’الدرالمختار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ج۲، ص۲۷۰۔

[73] المرجع السابق، ص۲۷۲۔

[74] ’’ردالمحتار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في جواز الترحم علی النبي ابتداء، ج۲، ص۲۷۴۔

Share