صحتِ نماز کی شرطیں

نماز کی شرطوں کا بیان

تنبیہ: اس باب میں جہاں یہ حکم دیا گیا کہ نماز صحیح ہے یا ہو جائے گی یا جائز ہے، اس سے مراد فرض ادا ہونا ہے، یہ مطلب نہیں کہ بلا کراہت و مما نعت و گناہ صحیح و جائز ہوگی، اکثر جگہیں ایسی ہیں کہ مکروہ تحریمی و ترک واجب ہوگا اور کہا جائے گا کہ نماز ہوگئی کہ یہاں اس سے بحث نہیں، اس کو باب مکروہات میں اِنْ شَاءَ اﷲُ تَعَالٰی بیان کیاجائے گا۔ یہاں شروط کا بیان ہے کہ بے [1]اُن کے ہوگی ہی نہیں۔ صحت نماز کی چھ شرطیں ہیں:

(۱) طہارت۔

(۲) ستر عورت۔

(۳) استقبال قبلہ۔

(۴) وقت۔

(۵) نیت۔

(۶) تحریمہ۔[2] (متون)

طہارت: یعنی مصلّی[3] کے بدن کا حدث اکبر و اصغر اور نجاست حقیقیہ قدر مانع سے پاک ہونا، نیز اس کے کپڑے اور اس جگہ کا جس پر نماز پڑھے، نجاست حقیقیہ قدر مانع سے پاک ہونا۔ [4] (متون)

حدث اکبر یعنی موجبات غسل [5] اور حدث اصغر یعنی نواقض وضو [6] اور ان سے پاک ہونے کا طریقہ، غسل و وضو کے بیان میں گزرا اور نجاست حقیقیہ سے پاک کرنے کا بیان باب الانجاس ميں مذکور ہوا، یہ باتیں وہاں سے معلوم کی جائیں۔ شرطِ نماز اس قدر نجاست سے پاک ہونا ہے کہ بغیر پاک کيے نماز ہوگی ہی نہیں، مثلاً نجاست غلیظہ درہم سے زائد اور خفیفہ کپڑے یا بدن کے اس حصہ کی چوتھائی سے زیادہ جس میں لگی ہو، اس کا نام قدر مانع ہے اور اگر اس سے کم ہے تو اس کا زائل کرنا سنت ہے یہ امور بھی باب الانجاس میں ذکر کيے گئے۔

مسئلہ ۱: کسی شخص نے اپنے کو بے وضو گمان کیا اور اسی حالت میں نماز پڑھ لی، بعد کو ظاہر ہوا کہ بے وضو نہ تھا، نماز نہ ہوئی۔[7](درمختار)

مسئلہ ۲: مصلّی اگر ایسی چیز کو اٹھائے ہو کہ اس کی حرکت سے وہ بھی حرکت کرے، اگر اس میں نجاست قدر مانع ہو تو نماز جائز نہیں، مثلاً چاندنی کا ایک سرا اوڑھ کر نماز پڑھی اور دوسرے سرے میں نجاست ہے، اگر رکوع و سجود و قیام و قعود میں اس کی حرکت سے اس جائے نجاست تک حرکت پہنچتی ہے، نماز نہ ہو گی، ورنہ ہو جائے گی۔ یوہیں اگر گود میں اتنا چھوٹا بچہ لے کر نماز پڑھی کہ خود اس کی گود میں اپنی سکت سے نہ رُک سکے بلکہ اس کے روکنے سے تھما ہوا ہو اور اس کا بدن یا کپڑا بقدر مانع نماز ناپاک ہے، تو نما زنہ ہو گی کہ یہی اسے اْٹھائے ہوئے ہے اور اگر وہ اپنی سکت سے رُکا ہوا ہے، اس کے روکنے کا محتاج نہیں، تو نماز ہو جائے گی کہ اب یہ اسے اُٹھائے ہوئے نہیں، پھر بھی بے ضرورت کراہت سے خالی نہیں، اگرچہ اس کے بدن اور کپڑوں پر نجاست بھی نہ ہو۔ [8] (درمختار، عالمگیری، رضا)

مسئلہ ۳: اگر نجاست قدر مانع سے کم ہے، جب بھی مکروہ ہے، پھر نجاست غلیظہ بقدر درہم ہے تو مکروہ تحریمی اور اس سے کم تو خلاف سنت۔[9](درمختار، عالمگیری)

مسئلہ ۴: چھت، خیمہ، سائبان اگر نجس ہوں اور مصلّی کے سر سے کھڑے ہونے میں لگیں، جب بھی نماز نہ ہوگی۔ [10](ردالمحتار) یعنی اگر ان کی نجس جگہ بقدر مانع اس کے سر کو بقدر ادائے رکن لگے۔ (رضا)

مسئلہ ۵: اگر اس کا کپڑا یا بدن، اَثنائے نماز میں بقدر مانع ناپاک ہوگیا، اورتین تسبیح کا وقفہ ہوا، نماز نہ ہوئی اور اگر نماز شروع کرتے وقت کپڑا ناپاک تھا يا کسی ناپاک چیز کو ليے ہوئے تھا اور اسی حالت میں شروع کرلی اور اﷲ اکبر کہنے کے بعد جُدا کیا، تو نماز منعقد ہی نہ ہوئی۔ [11] (ردالمحتار)

مسئلہ ۶: مصلّی کا بدن، جنب یا حیض و نفاس والی عورت کے بدن سے ملا رہا، یا انھوں نے اس کی گود میں سر رکھا، تو نماز ہو جائے گی۔ [12] (درمختار)

مسئلہ ۷: مصلّی کے بدن پر نجس کبوتر بیٹھا، نماز ہو جائے گی۔ [13] (بحر)

مسئلہ ۸: جس جگہ نماز پڑھے، اس کے طاہر [14] ہونے سے مراد موضع سجود و قدم کا پاک ہونا [15]ہے، جس چیز پر نماز پڑھتا ہو، اس کے سب حصہ کا پاک ہونا، شرط صحت نماز نہیں۔ [16] (درمختار)

مسئلہ ۹: مصلّی کے ایک پاؤں کے نیچے قدر درہم سے زیادہ نجاست ہو، نماز نہ ہوگی۔ [17] یوہیں اگر دونوں پاؤں کے نیچے تھوڑی تھوڑی نجاست ہے کہ جمع کرنے سے ایک درم ہو جائے گی اور اگر ایک قدم کی جگہ پاک تھی اور دوسرا قدم جہاں رکھے گا، ناپاک ہے، اس نے اس پاؤں کو اٹھا کر نماز پڑھی ہوگئی، ہاں بے ضرورت ایک پاؤں پر کھڑے ہو کر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ (درمختار)

مسئلہ ۱۰: پيشانی پاک جگہ ہے اور ناک نجس جگہ، تو نماز ہو جائے گی کہ ناک درہم سے کم جگہ پر لگتی ہے اور بلاضرورت یہ بھی مکروہ۔[18] (ردالمحتار)

مسئلہ ۱۱: سجدہ میں ہاتھ یا گھٹنا، نجس جگہ ہونے سے صحیح مذہب میں نماز نہ ہوگی ۔[19] (ردالمحتار) اور اگر ہاتھ نجس جگہ ہو اور ہاتھ پر سجدہ کیا ،تو بالاجماع نماز نہ ہوگی۔ [20] (درمختار)

مسئلہ ۱۲: آستين کے نیچے نجاست ہے اور اسی آستین پر سجدہ کیا، نماز نہ ہوگی۔ [21] (رد المحتار) اگرچہ نجاست ہاتھ کے نیچے نہ ہو بلکہ چوڑی آستین کے خالی حصے کے نیچے ہو، یعنی آستین فاصل نہ سمجھی جائے گی، اگرچہ دبیز [22] ہو کہ اس کے بدن کی تابع ہے، بخلاف اور دبیز کپڑے کے کہ نجس جگہ بچھا کر پڑھی اور اس کی رنگت یا بُو محسوس نہ ہو، تو نماز ہو جائے گی کہ یہ کپڑا نجاست و مصلّی میں فاصل ہو جائے گا کہ بدن مصلّی کا تابع نہیں، یوہیں اگر چوڑی آستین کا خالی حصہ سجدہ کرنے میں نجاست کی جگہ پڑے اور وہاں نہ ہاتھ ہو، نہ پیشانی، تو نماز ہو جائے گی اگرچہ آستین باریک ہو کہ اب اس نجاست کو بدن مصلّی سے کوئی تعلق نہیں۔ (رضا)

مسئلہ ۱۳: اگر سجدہ کرنے میں دامن وغیرہ نجس زمین پر پڑتے ہوں، تو مضر نہیں۔[23] (ردالمحتار)

مسئلہ ۱۴: اگر نجس جگہ پر اتنا باریک کپڑا بچھا کر نماز پڑھی، جو ستر کے کام میں نہیں آسکتا، یعنی اس کے نیچے کی چیز جھلکتی ہو، نما زنہ ہوئی اور اگر شیشہ پر نماز پڑھی اور اس کے نیچے نجاست ہے، اگرچہ نمایاں ہو، نماز ہوگئی۔ [24] (ردالمحتار)

دوسری شرط ستر عورت: یعنی بدن کا وہ حصہ جس کا چھپانا فرض ہے، اس کو چھپانا۔

اﷲ عَزَّوَجَل فرماتا ہے:

(خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ) [25]ہر نماز کے وقت کپڑے پہنو۔

اور فرماتا ہے:

(وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا) [26]

عورتیں زینت یعنی مواضع زینت کو ظاہر نہ کریں، مگر وہ کہ ظاہر ہیں۔ ( کہ ان کے کھلے رہنے پر بروجہ جائز عادت جاری ہے )۔

حدیث ۱: حدیث میں ہے جس کو، ابن عدی نے کامل میں ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت کیا کہ فرماتے ہیں صَلَی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلّمَ: ''جب نماز پڑھو، تہبند باندھ لو اور چادر اوڑھ لو اور یہودیوں کی مشابہت نہ کرو۔'' [27] اور

حدیث ۲: ابو داود وترمذی وحاکم وابن خزیمہ ام المومنین صدیقہ رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہَا سے راوی، کہ فرماتے ہیں صَلَی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلّمَ: ''بالغ عورت کی نماز بغیر دوپٹے کے اﷲ تَعَالٰی قبول نہیں فرماتا۔'' [28]

حدیث ۳: ابو داود نے روایت کی کہ ام المومنین ام سلمہ رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہَا نے عرض کی، کیا بغیر ازار پہنے، کُرتے اور دوپٹے میں عورت نماز پڑھ سکتی ہے؟ ارشاد فرمایا: ''جب کُرتا پورا ہو کہ پشت قدم کو چھپالے۔'' [29] اور

حدیث ۴: دارقطنی بروایت عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدّہ راوی، کہ فرماتے ہیں صَلَی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلّمَ: ''ناف کے نیچے سے گھٹنے تک عورت ہے۔'' [30]اور

حدیث ۵: ترمذی نے عبداﷲ بن مسعود رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت کی فرماتے ہیں صَلَی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلّمَ: ''عورت، عورت ہے يعنی چھپانے کی چیز ہے، جب نکلتی ہے، شیطان اس کی طرف جھانکتا ہے۔'' [31]

مسئلہ ۱۵: ستر عورت ہر حال میں واجب ہے، خواہ نماز میں ہو یا نہیں، تنہا ہو یا کسی کے سامنے، بلا کسی غرض صحیح کے تنہائی میں بھی کھولنا جائز نہیں اور لوگوں کے سامنے یا نماز میں توستر بالاجماع فرض ہے۔ یہاں تک کہ اگر اندھیرے مکان میں نماز پڑھی، اگرچہ وہاں کوئی نہ ہو اور اس کے پاس اتنا پاک کپڑا موجود ہے کہ ستر کا کام دے اور ننگے پڑھی، بالاجماع نہ ہوگی۔ مگر عورت کے ليے خلوت میں جب کہ نماز میں نہ ہو، تو سارا بدن چھپانا واجب نہیں، بلکہ صرف ناف سے گھٹنے تک اور محارم کے سامنے پیٹ اور پیٹھ کا چھپانا بھی واجب ہے اور غیر محرم کے سامنے اور نماز کے ليے اگرچہ تنہا اندھیری کوٹھڑی میں ہو، تمام بدن سوا پانچ عضو کے جن کا بیان آئے گا چھپانا فرض ہے، بلکہ جوان عورت کو غیر مردوں کے سامنے مونھ کھولنا بھی منع ہے۔[32](درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۱۶: اتنا باریک کپڑا، جس سے بدن چمکتا ہو، ستر کے ليے کافی نہیں، اس سے نماز پڑھی، تو نہ ہوئی۔ [33] (عالمگیری) یوہیں اگر چادر میں سے عورت کے بالوں کی سیاہی چمکے، نماز نہ ہوگی۔ (رضا) بعض لوگ باریک ساڑیاں اور تہبند باندھ کر نماز پڑھتے ہیں کہ ران چمکتی ہے، ان کی نمازیں نہیں ہوتیں اور ایسا کپڑا پہننا، جس سے ستر عورت نہ ہوسکے، علاوہ نماز کے بھی حرام ہے۔

مسئلہ ۱۷: دبیز کپڑا، جس سے بدن کا رنگ نہ چمکتا ہو، مگربدن سے بالکل ایسا چپکا ہوا ہے کہ دیکھنے سے عضو کی ہيات معلوم ہوتی ہے، ایسے کپڑے سے نماز ہو جائے گی، مگر اس عضو کی طرف دوسروں کو نگاہ کرنا جائز نہیں۔ [34] (ردالمحتار) اور ایسا کپڑا لوگوں کے سامنے پہننا بھی منع ہے اور عورتوں کے ليے بدرجۂ اَولیٰ ممانعت۔ بعض عورتیں جو بہت چست پاجامے پہنتی ہیں، اس مسئلہ سے سبق لیں۔

مسئلہ ۱۸: نماز میں ستر کے ليے پاک کپڑا ہونا ضرور ہے، یعنی اتنا نجس نہ ہو، جس سے نماز نہ ہوسکے، تو اگر پاک کپڑے پر قدرت ہے اور ناپاک پہن کر نماز پڑھی، نماز نہ ہوئی۔ [35] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۹: اس کے علم میں کپڑا ناپاک ہے اور اس میں نماز پڑھی، پھر معلوم ہوا کہ پاک تھا، نماز نہ ہوئی۔ [36] (درمختار)

مسئلہ ۲۰: غیر نماز میں نجس کپڑا پہنا تو حرج نہیں، اگرچہ پاک کپڑا موجود ہو اور جو دوسرا نہیں، تو اُسی کو پہننا واجب ہے۔[37] (در مختار، رد المحتار) یہ اس وقت ہے کہ اس کی نجاست خشک ہو، چھوٹ کر بدن کو نہ لگے، ورنہ پاک کپڑا ہوتے ہوئے ایسا کپڑا پہننا مطلقاً منع ہے کہ بلاوجہ بدن ناپاک کرنا ہے۔ (رضا)

مسئلہ ۲۱: مرد کے ليے ناف کے نیچے سے گھٹنوں کے نیچے تک عورت ہے، یعنی اس کا چھپانا فرض ہے۔ ناف اس میں داخل نہیں اور گھٹنے داخل ہیں۔ [38] (درمختار، ردالمحتار) اس زمانہ میں بہتیرے ایسے ہیں کہ تہبند یا پاجامہ اس طرح پہنتے ہیں، کہ پیڑو[39] کا کچھ حصہ کھلا رہتا ہے، اگر کُرتے وغیرہ سے اس طرح چھپا ہو کہ جلد کی رنگت نہ چمکے تو خیر، ورنہ حرام ہے اور نماز میں چوتھائی کی مقدار کھلا رہا تو نماز نہ ہوگی اور بعض بے باک ایسے ہیں کہ لوگوں کے سامنے گھٹنے، بلکہ ران تک کھولے رہتے ہیں، یہ بھی حرام ہے اور اس کی عادت ہے تو فاسِق ہیں۔

مسئلہ ۲۲: آزاد عورتوں اورخنثیٰ مشکل [40] کے ليے سارا بدن عورت ہے، سوا مونھ کی ٹکلی اور ہتھیلیوں اور پاؤں کے تلووں کے، سر کے لٹکتے ہوئے بال اور گردن اور کلائیاں بھی عورت ہیں، ان کا چھپانا بھی فرض ہے۔ [41] (درمختار)

مسئلہ ۲۳: اتنا باریک دوپٹا، جس سے بال کی سیاہی چمکے، عورت نے اوڑھ کر نماز پڑھی، نہ ہوگی، جب تک اس پر کوئی ایسی چیز نہ اوڑھے، جس سے بال وغیرہ کا رنگ چھپ جائے۔ [42] (عالمگیری)

مسئلہ ۲۴: باندی کے ليے سارا پیٹ اور پیٹھ اور دونوں پہلو اور ناف سے گھٹنوں کے نیچے تک عورت ہے، خنثیٰ مشکل رقیق [43] ہو، تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ [44] (درمختار)

مسئلہ ۲۵: باندی سر کھولے نماز پڑھ رہی تھی، اَثنائے نماز میں مالک نے اسے آزاد کر دیا، اگر فوراً عمل قلیل یعنی ایک ہاتھ سے اس نے سر چھپا لیا، نماز ہوگئی، ورنہ نہیں، خواہ اسے اپنے آزاد ہونے کا علم ہوا یا نہیں، ہاں اگر اس کے پاس کوئی ایسی چیز ہی نہ تھی، جس سے سر چھپائے، تو ہوگئی۔ [45] (درمختار، عالمگیری)

مسئلہ ۲۶: جن اعضا کا ستر فرض ہے، ان میں کوئی عضو چوتھائی سے کم کھل گیا، نماز ہوگئی اور اگر چوتھائی عضو کھل گیا اور فوراً چھپا لیا، جب بھی ہوگئی اور اگر بقدر ایک رکن یعنی تین مرتبہ سبحان اﷲ کہنے کے کھلا رہا یا بالقصد کھولا، اگرچہ فوراً چھپا لیا، نماز جاتی رہی۔ [46](عالمگیری، ردالمحتار)

مسئلہ ۲۷: اگر نماز شروع کرتے وقت عضو کی چوتھائی کھلی ہے، یعنی اسی حالت پر اﷲ اکبر کہہ لیا، تو نماز منعقد ہی نہ ہوئی۔[47](ردالمحتار)

مسئلہ ۲۸: اگر چند اعضا میں کچھ کچھ کھلا رہا کہ ہر ایک اس عضو کی چوتھائی سے کم ہے، مگر مجموعہ ان کا اُن کھلے ہوئے اعضا میں جو سب سے چھوٹا ہے، اس کی چوتھائی کی برابر ہے، نماز نہ ہوئی، مثلاً عورت کے کان کا نواں حصہ اور پنڈلی کا نواں حصہ کھلا رہا تو مجموعہ دونوں کا کان کی چوتھائی کی قدر ضرور ہے، نماز جاتی رہی۔ [48] (عالمگیری، ردالمحتار)

مسئلہ ۲۹: عورتِ غلیظہ یعنی قبل و دبر اور ان کے آس پاس کی جگہ اور عورتِ خفیفہ کہ ان کے ماسوا اور اعضائے عورت ہیں، اس حکم میں سب برابر ہیں، غلظت و خفت باعتبار حرمت نظر کے ہے کہ غلیظہ کی طرف دیکھنا زیادہ حرام ہے کہ اگر کسی کو گھٹنا کھولے ہوئے دیکھے، تو نرمی کیساتھ منع کرے، اگر باز نہ آئے، تو اس سے جھگڑا نہ کرے اور اگر ران کھولے ہوئے ہے، تو سختی سے منع کرے اور باز نہ آیا، تو مارے نہیں اور اگرعورتِ غلیظہ کھولے ہوئے ہے، تو جو مارنے پر قادر ہو، مثلاً باپ یا حاکم، وہ مارے۔[49](ردالمحتار)

مسئلہ ۳۰: ستر کے ليے یہ ضرور نہیں کہ اپنی نگاہ بھی ان اعضا پر نہ پڑے، تو اگر کسی نے صرف لنبا کُرتا پہنا اور اس کا گریبان کھلا ہوا ہے کہ اگر گریبان سے نظر کرے، تو اعضا دکھائی دیتے ہیں نماز ہو جائے گی، اگرچہ بالقصد ادھر نظر کرنا، مکروہ تحریمی ہے۔ [50] (درمختار، عالمگيری)

مسئلہ ۳۱: اوروں سے ستر فرض ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اِدھراُدھر سے نہ دیکھ سکیں، تو مَعَاذَاﷲ اگر کسی شریر نے نیچے جھک کر اعضا کو دیکھ لیا، تو نماز نہ گئی۔ [51] (عالمگیری)

مسئلہ ۳۲: مرد میں اعضائے عورت نو ہیں۔ آٹھ علامہ ابراہیم حلبی و علامہ شامی و علامہ طحطاوی وغیرہم نے گنے۔ (۱)ذکر مع اپنے سب اجزا ،حشفہ و قصبہ و قلفہ کے، (۲) انثيين یہ دونوں مل کر ایک عضو ہیں، ان میں فقط ایک کی چوتھائی کھلنا مفسد نماز نہیں، (۳) دبر یعنی پاخانہ کا مقام، (۴،۵) ہرایک سرین جدا عورت ہے، (۶،۷) ہر ران جدا عورت ہے۔ چڈھے سے گھٹنے تک ران ہے۔ گھٹنا بھی اس میں داخل ہے، الگ عضو نہیں، تو اگر پورا گھٹنا بلکہ دونوں کھل جائیں نماز ہو جائے گی کہ دونوں مل کر بھی ایک ران کی چوتھائی کو نہیں پہنچتے، (۸) ناف کے نیچے سے، عضو تناسل کی جڑ تک اور اس کے سیدھ میں پشت اور دونوں کروٹوں کی جانب، سب مل کر ایک عورت ہے۔ [52]

اعلیٰ حضرت مجدد مأتہ حاضرہ نے یہ تحقیق فرمائی کہ (۹) دبر و انثيين کے درمیان کی جگہ بھی، ایک مستقل عورت ہے اور ان اعضا کا شمار اور انکے تمام احکام کو چار شعروں میں جمع فرمایا ؎

ستر عورت بمرد نہ عضو است از تہِ ناف تاتہ زانو

ہر چہ ربعش بقدرر کن کشود یا کشودی دمے نماز مجو

ذکر و انثيين و حلقہ پس دوسرین ہر فخذ بہ زانوئے او

ظاہرا فصل انثيين و دبر باقی زیر ناف از ہر سو [53]

مسئلہ ۳۳: آزاد عورتوں کے ليے، باستثنا پانچ عضو کے، جن کا بیان گزرا، سارا بدن عورت ہے اور وہ تیس اعضا پر مشتمل کہ ان میں جس کی چوتھائی کھل جائے، نماز کا وہی حکم ہے، جو اوپر بیان ہوا۔ (۱) سر یعنی پیشانی کے اوپر سے شروع گردن تک اور ایک کان سے دوسرے کان تک، یعنی عادۃً جتنی جگہ پر بال جمتے ہیں۔ (۲) بال جو لٹکتے ہوں۔ (۳،۴) دونوں کان۔ (۵) گردن اس میں گلا بھی داخل ہے۔ (۶،۷) دونوں شانے۔ (۸،۹) دونوں بازو ان میں کہنياں بھی داخل ہیں۔ (۱۰،۱۱) دونوں کلائیاں یعنی کہنی کے بعد سے گٹوں کے نیچے تک۔ (۱۲) سینہ یعنی گلے کے جوڑ سے دونوں پستان کی حد زیریں تک۔ (۱۳،۱۴) دونوں ہاتھوں کی پشت۔ (۱۵،۱۶) دونوں پستانیں، جب کہ اچھی طرح اٹھ چکی ہوں، اگر بالکل نہ اٹھی ہوں يا خفیف اُبھری ہوں کہ سینہ سے جدا عضو کی ہیأت نہ پیدا ہوئی ہو، تو سینہ کی تابع ہیں، جدا عضو نہیں اور پہلی صورت میں بھی، ان کےدرمیان کی جگہ سینہ ہی میں داخل ہے، جدا عضو نہیں۔ (۱۷) پیٹ یعنی سینہ کی حد مذکور سے ناف کے کنارۂ زیریں تک، یعنی ناف کا بھی پیٹ میں شمار ہے۔ (۱۸) پیٹھ یعنی پيچھے کی جانب سینہ کے مقابل سے کمر تک۔ (۱۹) دونوں شانوں کے بیچ میں جو جگہ ہے، بغل کے نیچے سینہ کی حد زیریں تک، دونوں کروٹوں میں جو جگہ ہے، اس کا اگلا حصہ سینہ میں اور پچھلا شانوں یا پیٹھ میں شامل ہے اور اس کے بعد سے دونوں کروٹوں میں کمر تک جو جگہ ہے، اس کا اگلا حصہ پیٹ میں اور پچھلا پیٹھ میں داخل ہے۔ (۲۰،۲۱) دونوں سرین۔ (۲۲) فرج۔ (۲۳) دبر۔ (۲۴،۲۵) دونوں رانیں، گھٹنے بھی انھيں میں شامل ہیں۔ (۲۶) ناف کے نیچے پیڑو اور اس کے متصل جو جگہ ہے اور انکے مقابل پشت کی جانب سب مل کر ایک عورت ہے۔ (۲۷،۲۸) دونوں پنڈلیاں ٹخنوں سمیت۔ (۲۹،۳۰) دونوں تلوے اور بعض علماء نے پشتِ دست اور تلوؤں کو عورت میں داخل نہیں کیا۔ [54]

مسئلہ ۳۴: عورت کا چہرہ اگرچہ عورت نہیں، مگر بوجہ فتنہ غیر محرم کے سامنے مونھ کھولنا منع ہے۔ [55] یوہیں اس کی طرف نظر کرنا، غیر محرم کے ليے جائز نہیں اور چھونا تو اور زیادہ منع ہے۔ [56] (درمختار)

مسئلہ ۳۵: اگر کسی مرد کے پاس ستر کے ليے جائز کپڑا نہ ہو اور ریشمی کپڑا ہے تو فرض ہے کہ اسی سے ستر کرے اور اسی میں نماز پڑھے، البتہ اور کپڑا ہوتے ہوئے، مرد کو ریشمی کپڑا پہننا حرام ہے اور اس میں نما زمکروہ تحریمی۔[57] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۳۶: کوئی شخص برہنہ اگر اپنا سارا جسم مع سر کے، کسی ایک کپڑے میں چھپا کر نماز پڑھے، نماز نہ ہوگی اور اگر سر اس سے باہر نکال لے، ہو جائے گی۔ [58] (ردالمحتار)

مسئلہ ۳۷: کسی کے پاس بالکل کپڑا نہیں، تو بیٹھ کر نماز پڑھے۔ دن ہو یا رات، گھر میں ہو یا میدان میں، خواہ ویسے بیٹھے جیسے نماز میں بیٹھتے ہیں، یعنی مرد مردوں کی طرح اور عورت عورتوں کی طرح یا پاؤں پھیلا کر اور عورت غلیظہ پر ہاتھ رکھ کر اور یہ بہتر ہے اور رکوع و سجود کی جگہ اشارہ کرے اور یہ اشارہ رکوع و سجود سے اس کے ليے افضل ہے اور یہ بیٹھ کر پڑھنا، کھڑے ہو کر پڑھنے سے افضل، خواہ قیام میں رکوع و سجود کے ليے اشارہ کرے يا رکوع و سجود کرے۔ [59] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۳۸: ایسا شخص برہنہ نماز پڑھ رہا تھا، کسی نے عاریتہ اس کو کپڑا دے دیا یا مباح کر دیا [60] نماز جاتی رہی۔ کپڑا پہن کر سرے سے پڑھے۔ [61] (درمختار، رد المحتار)

مسئلہ ۳۹: اگر کپڑا دینے کا کسی نے وعدہ کیا، تو آخر وقت تک انتظار کرے، جب دیکھے کہ نماز جاتی رہے گی، تو برہنہ ہی پڑھ لے۔[62] (ردالمحتار)

مسئلہ ۴۰: اگر دوسرے کے پاس کپڑا ہے اور غالب گمان ہے کہ مانگنے سے دے دے گا، تو مانگنا واجب ہے۔ [63] (ردالمحتار)

مسئلہ ۴۱: اگر کپڑا مول [64] ملتا ہے اور اس کے پاس دام حاجت اصلیہ سے زائد ہیں، تو اگر اتنے دام مانگتا ہو، جو اندازہ کرنے والوں کے اندازہ سے باہر نہ ہوں، تو خریدنا واجب۔ [65] (ردالمحتار) یوہیں اگر اُدھار دینے پر راضی ہو، جب بھی خریدنا واجب ہونا چاہيے۔

مسئلہ ۴۲: اگر اس کے پاس کپڑا ایسا ہے کہ پورا نجس ہے، تو نماز میں اسے نہ پہنے اور اگر ایک چوتھائی پاک ہے، تو واجب ہے کہ اسے پہن کر پڑھے، برہنہ جائز نہیں، یہ سب اس وقت ہے کہ ایسی چیز نہیں کہ کپڑا پاک کر سکے یا اس کی نجاست قدر مانع سے کم کرسکے، ورنہ واجب ہو گا کہ پاک کرے یا تقلیل نجاست کرے۔ [66] (درمختار)

مسئلہ ۴۳: چند شخص برہنہ ہیں، تو تنہا تنہا، دُور دُور، نمازیں پڑھیں اور اگر جماعت کی، تو امام بیچ میں کھڑا ہو۔ [67] (عالمگیری)

مسئلہ ۴۴: اگر برہنہ شخص کو چٹائی یا بچھونا مل جائے، تو اسی سے ستر کرے، ننگا نہ پڑھے۔ یوہيں گھاس یا پتوں سے ستر کر سکتا ہے تو یہی کرے۔ [68] (عالمگیری)

مسئلہ ۴۵: اگر پورے ستر کے ليے کپڑا نہیں اور اتنا ہے کہ بعض اعضا کا ستر ہو جائے گا تو اس سے ستر واجب ہے اور

اس کپڑے سے عورت غلیظہ یعنی قبل و دبر کو چھپائے اور اتنا ہو کہ ایک ہی کو چھپا سکتا ہے، تو ایک ہی کو چھپائے۔ [69] (درمختار)

مسئلہ ۴۶: جس نے ایسی مجبوری میں برہنہ نماز پڑھی، تو بعد نماز کپڑا ملنے پر اعادہ نہیں، نماز ہوگئی۔ [70] (درمختار)

مسئلہ ۴۷: اگر ستر کا کپڑا یا اس کے پاک کرنے کی چیز نہ ملنا، بندوں کی جانب سے ہو، تو نماز پڑھے، پھر اعادہ کرے۔ [71] (درمختار)

تيسری شرط استقبال قبلہ : یعنی نما زمیں قبلہ یعنی کعبہ کی طرف مونھ کرنا۔

اﷲ عَزَّوَجَل فرماتا ہے:

سَیَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِیْ كَانُوْا عَلَیْهَاؕ-قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُؕ-یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۱۴۲)[72]

بے وقوف لوگ کہیں گے کہ جس قبلہ پر مسلمان لوگ تھے، انھيں کس چیزنے اس سے پھیر دیا، تم فرما دو اﷲ ہی کے ليے مشرق و مغرب ہے، جسے چاہتا ہے، سیدھے راستہ کی طرف ہدایت فرماتا ہے۔

حضور اقدس صَلَی اللہُ تَعَالٰی عَلَيْہِ وَسَلَّم نے سولہ یا سترہ مہینہ تک بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی اور حضور (صَلَی اللہُ تَعَالٰی عَلَيْہِ وَسَلَّم) کو پسند یہ تھا کہ کعبہ قبلہ ہو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کما ھو مروی فی صحیح البخاری وغیرہ من الصحاح اور فرماتا ہے:

وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ-وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ كُنْتَ عَلَیْهَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِـعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰى عَقِبَیْهِؕ-وَ اِنْ كَانَتْ لَكَبِیْرَةً اِلَّا عَلَى الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُؕ-وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۴۳)قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِۚ-فَلَنُوَلِّیَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىهَا۪-فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِؕ-وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗؕ-وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَیَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْؕ-وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ(۱۴۴)[73]

جس قبلہ پر تم پہلے تھے، ہم نے پھر وہی اس ليے مقرر کیا کہ رسول کے اتباع کرنے والے ان سے متمیز ہوجائیں، جو ایڑیوں کے بل لوٹ جاتے ہیں اور بے شک یہ شاق ہے، مگر ان پر جن کو اﷲ نے ہدایت کی اور اﷲ تمہارا ایمان ضائع نہ کریگا، بیشک اﷲ لوگوں پر بڑا مہربان رحم والا ہے۔ اے محبوب! آسمان کی طرف تمہارا بار بار مونھ اٹھانا ہم دیکھتے ہیں، تو ضرور ہم تمھيں اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے، جسے تم پسند کرتے ہو، تو اپنا مونھ (نماز میں) مسجد حرام کی طرف پھیرو اور اے مسلمانوں! تم جہاں کہیں ہو، اسی کی طرف (نماز میں) مونھ کرو اور بے شک جنھيں کتاب دی گئی، وہ ضرور جانتے ہیں کہ وہی حق ہے، ان کے رب کی طرف سے اور اﷲ ان کے کوتکوں سے غافل نہیں۔

مسئلہ ۴۸: نماز اﷲ ہی کے ليے پڑھی جائے اور اسی کے ليے سجدہ ہو نہ کہ کعبہ کو، اگر کسی نے مَعَاذْ اَﷲ کعبہ کے ليے سجدہ کیا، حرام و گناہ کبیرہ کیا اور اگر عبادت کعبہ کی نیت کی، جب تو کھلا کافر ہے کہ غیر خدا کی عبادت کفر ہے۔ [74] (درمختار و افاداتِ رضویہ)

مسئلہ ۴۹: استقبال قبلہ عام ہے کہ بعینہٖ کعبۂ معظمہ کی طرف مونھ ہو، جیسے مکہ مکرمہ والوں کے ليے یا اس جہت کو مونھ ہو جیسے اوروں کے ليے۔[75](درمختار) یعنی تحقیق یہ ہے کہ جو عین کعبہ کی سمت خاص تحقیق کر سکتا ہے، اگرچہ کعبہ آڑ میں ہو، جیسے مکۂ معظمہ کے مکانوں میں جب کہ مثلاً چھت پر چڑھ کر کعبہ کو دیکھ سکتے ہیں، تو عین کعبہ کی طرف مونھ کرنا فرض ہے، جہت کافی نہیں اور جسے یہ تحقیق نا ممکن ہو، اگرچہ خاص مکۂ معظمہ میں ہو،اس کے ليے جہت کعبہ کو مونھ کرناکافی ہے۔ (افاداتِ رضویہ)

مسئلہ ۵۰: کعبۂ معظمہ کے اندر نماز پڑھی، تو جس رُخ چاہے پڑھے، کعبہ کی چھت پر بھی نماز ہو جائے گی، مگر اس کی چھت پر چڑھنا ممنوع ہے۔[76](غنیہ وغیرہا)

مسئلہ ۵۱: اگر صرف حطیم کی طرف مونھ کیا کہ کعبۂ معظمہ محاذات میں نہ آیا، نماز نہ ہوئی۔[77] (غنیہ)

مسئلہ ۵۲: جہت کعبہ کو مونھ ہونے کے یہ معنی ہیں کہ مونھ کی سطح کا کوئی جز کعبہ کی سمت میں واقع ہو، تو اگر قبلہ سے کچھ انحراف ہے، مگر مونھ کا کوئی جز کعبہ کے مواجہہ میں ہے، نماز ہو جائے گی، اس کی مقدار ۴۵ درجہ رکھی گئی ہے، تو اگر ۴۵ درجہ سے زائد انحراف ہے، استقبال نہ پایا گیا، نماز نہ ہوئی، مثلاً ا، ب، ایک خط ہے اس پر ہ، ح، عمود ہے اور فرض کرو کہ کعبۂ معظمہ عین نقطہ ح کے محاذی ہے، دونوں قائمے ا، ہ، ح اور ح، ہ ب کی تنصیف کرتے ہوئے خطوط ہ، ر، ہ، ح خطوط کھینچے، تو یہ زاویہ ۴۵،۴۵ درجے کے ہوئے کہ قائمہ ۹۰ درجے ہے، اب جو شخص مقام ہ پر کھڑا ہے، اگر نقطۂ ح کی طرف مونھ کرے، تو اگرعین کعبہ کو مونھ ہے اور اگر دہنے بائیں ریا ح کی طرف جھکے تو جب تک ر ح یا ح ح کے اندر ہے، جہت کعبہ میں ہے اور جب ر سے بڑھ کر ا یا ح سے گزر کر ب کی طرف کچھ بھی قریب ہوگا، تو اب جہت سے نکل گیا، نماز نہ ہوگی۔ [78] (درمختار و افاداتِ رضویہ)

مسئلہ ۵۳: قبلہ بنائے کعبہ کا نام نہیں، بلکہ وہ فضاہے، اس بنا کی محاذات میں ساتویں زمین سے عرش تک قبلہ ہی ہے، تو اگروہ عمارت وہاں سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دی جائے اور اب اس عمارت کی طرف مونھ کرکے نماز پڑھی نہ ہوگی يا کعبۂ معظمہ کسی ولی کی زیارت کو گیا اور اس فضا کی طرف نماز پڑھی ہوگئی، یوہیں اگر بلند پہاڑ پر یا کوئيں کے اندر نماز پڑھی اور قبلہ کی طرف مونھ کیا، نماز ہوگئی کہ فضا کی طرف توجہ پائی گئی، گو عمارت کی طرف نہ ہو۔[79] (ردالمحتار)

مسئلہ ۵۴: جو شخص استقبال قبلہ سے عاجز ہو، مثلاً مریض ہے کہ اس میں اتنی قوت نہیں کہ ادھر رُخ بدلے اور وہاں کوئی ایسا نہیں جو متوجہ کردے يا اس کے پاس اپنا یا امانت کا مال ہے جس کے چوری ہوجانے کا صحیح اندیشہ ہو يا کشتی کے تختہ پر بہتا جا رہا ہے اور صحیح اندیشہ ہے کہ استقبال کرے تو ڈوب جائے گا يا شریر جانور پر سوار ہے کہ اترنے نہیں دیتا یا اتر تو جائے گا مگر بے مددگار سوار نہ ہونے دے گا يا یہ بوڑھا ہے کہ پھر خود سوار نہ ہو سکے گا اور ایسا کوئی نہیں جو سوار کرا دے، تو ان سب صورتوں میں جس رُخ نماز پڑھ سکے، پڑھ لے اور اعادہ بھی نہیں، ہاں سواری کے روکنے پر قادر ہو تو روک کر پڑھے اور ممکن ہو تو قبلہ کو مونھ کرے، ورنہ جیسے بھی ہو سکے اور اگرروکنے میں قافلہ نگاہ سے مخفی ہو جائے گا تو سواری ٹھہرانا بھی ضروری نہیں، یوہیں روانی میں پڑھے۔[80] (ردالمحتار)

مسئلہ ۵۵: چلتی کشتی میں نماز پڑھے، تو بوقت تحریمہ قبلہ کو مونھ کرے اور جیسے جيسے وہ گھومتی جائے یہ بھی قبلہ کو مونھ پھیرتا رہے، اگرچہ نفل نماز ہو۔ [81] (غنیہ)

مسئلہ ۵۶: مصلّی کے پاس مال ہے اور اندیشہ صحیح ہے کہ استقبال کریگا تو چوری ہو جائے گی، ایسی حالت میں کوئی ایسا شخص مل گیا جو حفاظت کرے، اگرچہ باجرت مثل استقبال فرض ہے۔ [82] (ردالمحتار) یعنی جب کہ وہ اجرت حاجتِ اصلیہ سے زائد اس کے پاس ہو يا محافظ آئندہ لینے پر راضی ہو اور اگر وہ نقد مانگتا ہے اور اس کے پاس نہیں يا ہے مگر حاجتِ اصلیہ سے زائد نہیں یا ہے مگر وہ اجرت مثل سے بہت زیادہ مانگتا ہے، تو اجیر کرنا ضرور نہیں، یوہیں پڑھے۔ (افاداتِ رضویہ)

مسئلہ ۵۷: کوئی شخص قید میں ہے اور وہ لوگ اسے استقبال سے مانع ہیں تو جیسے بھی ہوسکے، نماز پڑھ لے، پھر جب موقعہ ملے وقت میں یا بعد، تو اس نماز کا ا عادہ کرے۔[83] (ردالمحتار)

مسئلہ ۵۸: اگر کسی شخص کو کسی جگہ قبلہ کی شناخت نہ ہو، نہ کوئی ایسا مسلمان ہے جو بتادے، نہ وہاں مسجديں محرابیں ہیں، نہ چاند، سورج، ستارے نکلے ہوں يا ہوں مگر اس کو اتنا علم نہیں کہ ان سے معلوم کرسکے، تو ایسے کے ليے حکم ہے کہ تحری کرے (سوچے جدھر قبلہ ہونا دل پر جمے ادھر ہی مونھ کرے)، اس کے حق میں وہی قبلہ ہے۔[84] (عامۂ کتب)

مسئلہ ۵۹: تحری کر کے نماز پڑھی، بعد کو معلوم ہوا کہ قبلہ کی طرف نماز نہیں پڑھی، ہوگئی، اعادہ کی حاجت نہیں۔ [85] (تنویر الابصار وغیرہ)

مسئلہ ۶۰: ایسا شخص اگر بے تحری کسی طرف مونھ کرکے نماز پڑھے، نماز نہ ہوئی، اگرچہ واقع میں قبلہ ہی کی طرف مونھ کیا ہو، ہاں اگر قبلہ کی طرف مونھ ہونا، بعد نماز یقین کے ساتھ معلوم ہوا، ہوگئی اورا گر بعد نماز اس کا جہت قبلہ ہونا گمان ہو، یقین نہ ہو يا اثنائے نماز میں اسی کا قبلہ ہونا معلوم ہوا، اگرچہ یقین کے ساتھ تو نماز نہ ہوئی۔ [86] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۶۱: اگر سوچا اور دل میں کسی طرف قبلہ ہونا ثابت ہوا، مگر اس کے خلاف دوسری طرف اس نے مونھ کیا، نماز نہ ہوئی، اگرچہ واقع میں وہی قبلہ تھا، جدھر مونھ کیا، اگرچہ بعد کو یقین کیساتھ اسی کا قبلہ ہونا معلوم ہو۔ [87] (درمختار)

مسئلہ ۶۲: اگر کوئی جاننے والا موجود ہے، اس سے دریافت نہیں کیا، خود غور کرکے کسی طرف کو پڑھ لی، تو اگر قبلہ ہی کی طرف مونھ تھا، ہوگئی، ورنہ نہیں۔ [88] (ردالمحتار)

مسئلہ ۶۳: جاننے والے سے پوچھا اس نے نہیں بتایا، اس نے تحری کرکے نماز پڑھ لی، اب بعد نماز اس نے بتایا نماز ہوگئی، اعادہ کی حاجت نہیں۔ [89] (غنیہ)

مسئلہ ۶۴: اگر مسجدیں اور محرابیں وہاں ہیں، مگر ان کا اعتبار نہ کیا، بلکہ اپنی رائے سے ایک طرف کو متوجہ ہو لیا، یا تارے وغیرہ موجود ہیں اور اس کو علم ہے کہ ان کے ذریعہ سے معلوم کرلے اور نہ کیا بلکہ سوچ کر پڑھ لی، دونوں صورت میں نہ ہوئی، اگر خلاف جہت کی طرف پڑھی۔[90] (ردالمحتار)

مسئلہ ۶۵: ایک شخص تحری کرکے (سوچ کر) ایک طرف پڑھ رہا ہے، تو دوسرے کو اس کا اتباع جائز نہیں، بلکہ اسے بھی تحری کا حکم ہے، اگر اس کا اتباع کیا، تحری نہ کی، اس کی نماز نہ ہوئی۔ [91] (ردالمحتار)

مسئلہ ۶۶: اگر تحری کرکے نماز پڑھ رہا تھا اور اثنائے نماز میں اگرچہ سجدۂ سہو میں رائے بدل گئی يا غلطی معلوم ہوئی تو فرض ہے کہ فوراً گھوم جائے اور پہلے جو پڑھ چکا ہے، اس میں خرابی نہ آئے گی۔ اسی طرح اگر چاروں رکعتیں چار جہات میں پڑھیں، جائز ہے اور اگر فوراً نہ پھرا یہاں تک کہ ایک رکن یعنی تین بار سبحان اﷲ کہنے کا وقفہ ہوا، نماز نہ ہوئی۔ [92] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۶۷: نابینا غیر قبلہ کی طرف نماز پڑھ رہا تھا، کوئی بینا آیا، اس نے اسے سیدھا کر کے اس کی اقتدا کی، تو اگر وہاں کوئی شخص ایسا تھا، جس سے قبلہ کا حال نابینا دریافت کر سکتا تھا، مگرنہ پوچھا، دونوں کی نمازیں نہ ہوئیں اور اگر کوئی ایسا نہ تھا، تو نابینا کی ہوگئی اور مقتدی کی نہ ہوئی۔[93](خانیہ، ہندیہ، غنيہ، ردالمحتار)

مسئلہ ۶۸: تحری کرکے غیر قبلہ کو نماز پڑھ رہا تھا، بعد کو اسے اپنی رائے کی غلطی معلوم ہوئی اور قبلہ کی طرف پھر گیا، تو جس دوسرے شخص کو اس کی پہلی حالت معلوم ہو، اگر یہ بھی اسی قسم کا ہے کہ اس نے بھی پہلے وہی تحری کی تھی اور اب اس کو بھی غلطی معلوم ہوئی، تو اس کی اقتدا کر سکتا ہے، ورنہ نہیں۔ [94] (ردالمحتار)

مسئلہ ۶۹: اگر امام تحری کر کے ٹھیک جہت میں پہلے ہی سے پڑھ رہا ہے، تو اگرچہ مقتدی تحری کرنے والوں میں نہ ہو، اس کی اقتدا کر سکتا ہے۔ [95] (درمختار)

مسئلہ ۷۰: اگر امام و مقتدی ایک ہی جہت کو تحری کرکے نماز پڑھ رہے تھے اور امام نے نماز پوری کر لی اور سلام پھیر دیا اب مسبوق [96] و لاحق[97] کی رائے بدل گئی، تو مسبوق گھوم جائے اور لاحق سرے سے پڑھے۔ [98] (درمختار)

مسئلہ ۷۱: اگر پہلے ایک طرف کو رائے ہوئی اور نماز شروع کی، پھر دوسری طرف کو رائے پلٹی، پلٹ گیا پھر تیسری یا چوتھی بار وہی رائے ہوئی، جو پہلے مرتبہ تھی تو اسی طرف پھرجائے، سرے سے پڑھنے کی حاجت نہیں۔ [99] (درمختار)

مسئلہ ۷۲: تحری کرکے ایک رکعت پڑھی، دوسری میں رائے بدل گئی، اب یاد آیا کہ پہلی رکعت کا ایک سجدہ رہ گیا تھا، تو سرے سے نماز پڑھے۔[100](درمختار)

مسئلہ ۷۳: اندھیری رات ہے، چند شخصوں نے جماعت سے تحری کرکے مختلف جہتوں میں نماز پڑھی، مگر اثنائے نماز میں یہ معلوم نہ ہوا کہ اس کی جہت امام کی جہت کے خلاف ہے، نہ مقتدی امام سے آگے ہے، نماز ہوگئی اور اگر بعد نماز معلوم ہوا کہ امام کے خلاف اسکی جہت تھی، کچھ حرج نہیں اور اگر امام کے آگے ہونا معلوم ہوا نماز میں یا بعد کو، تو نماز نہ ہوئی۔ [101] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۷۴: مصلّی نے قبلہ سے بلا عذر قصداً سینہ پھیر دیا، اگرچہ فوراً ہی قبلہ کی طرف ہوگیا، نماز فاسد ہوگئی اور اگر بلاقصد پھر گیا اور بقدر تین تسبیح کے وقفہ نہ ہوا، تو ہوگئی۔ [102] (منیہ، بحر)

مسئلہ ۷۵: اگر صرف مونھ قبلہ سے پھیرا، تو اس پر واجب ہے کہ فوراً قبلہ کی طرف کرلے اور نماز نہ جائے گی، مگر بلاعذر مکروہ ہے۔[103] (منیہ، بحر)

چوتھی شرط وقت ہے : اس کے مسائل اوپر مستقل باب میں بیان ہوئے۔

پانچويں شرط نیت ہے : اﷲ عَزَّوَجَل فرماتا ہے :

(وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ ﳔ) [104]

انھيں تو یہی حکم ہوا کہ اﷲ ہی کی عبادت کریں، اسی کے ليے دین کو خالص رکھتے ہوئے۔

حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَيْہِ وَسَلَّم فرماتے ہیں:

(( اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَلِکُلِّ امْرِءٍ مَانَوٰی )) [105]

''اعمال کا مدار نیت پر ہے اور ہر شخص کے ليے وہ ہے، جو اس نے نیت کی۔''

اس حدیث کو بُخاری و مُسلِم اور دیگر محدثین نے امیر المومنین عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت کیا۔

مسئلہ ۷۶ : نيت دل کے پکے ارادہ کو کہتے ہيں، محض جاننا نيت نہيں، تا وقت يہ کہ ارادہ نہ ہو۔[106] (تنوير الابصار)

مسئلہ ۷۷: نیت میں زبان کا اعتبار نہیں، یعنی اگر دل میں مثلاً ظہر کا قصد کیا اور زبان سے لفظ عصر نکلا، ظہر کی نماز ہوگئی۔[107](درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۷۸: نیت کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ اگر اس وقت کوئی پوچھے، کون سی نماز پڑھتا ہے؟ تو فوراً بلا تأمل بتا دے، اگر حالت ایسی ہے کہ سوچ کر بتائے گا، تو نماز نہ ہوگی۔ [108] (درمختار)

مسئلہ ۷۹: زبان سے کہہ لینا مستحب ہے اور اس میں کچھ عربی کی تخصیص نہیں، فارسی وغیرہ میں بھی ہو سکتی ہے اور تلفظ میں ماضی کا صیغہ ہو، مثلاً نَوَیْتُ یا نیت کی میں نے۔ [109] (درمختار)

مسئلہ ۸۰: احوط یہ ہے کہ اﷲ اکبر کہتے وقت نیت حاضر ہو۔ [110] (منیہ)

مسئلہ ۸۱: تکبیر سے پہلے نیت کی اور شروع نماز اور نیت کے درمیان کوئی امر اجنبی، مثلاً کھانا، پینا، کلام وغیرہ وہ امور جو نماز سے غیر متعلق ہیں، فاصل نہ ہوں نماز ہو جائے گی، اگرچہ تحریمہ کے وقت نیت حاضر نہ ہو۔ [111] (درمختار)

مسئلہ ۸۲: وضو سے پیشتر نیت کی، تو وضو کرنا فاصل اجنبی نہیں، نماز ہو جائے گی۔ یوہیں وضو کے بعد نیت کی اس کے بعد نماز کے ليے چلنا پایا گیا، نماز ہو جائے گی اور یہ چلنا فاصل اجنبی نہیں۔ [112] (غنیہ)

مسئلہ ۸۳: اگر شروع کے بعد نیت پائی گئی، اس کا اعتبار نہیں، یہاں تک کہ اگر تکبير تحریمہ میں اﷲ کہنے کے بعد اکبر سے پہلے نیت کی، نماز نہ ہوگی۔ [113] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۸۴: اصح یہ ہے کہ نفل و سنت و تراویح میں مطلق نماز کی نیت کافی ہے، مگر احتیاط یہ ہے کہ تراویح میں تراویح یا سنت وقت یا قیام اللیل کی نیت کرے اور باقی سنتوں میں سنت يا نبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم کی متابعت [114] کی نیت کرے، اس ليے کہ بعض مشائخ ان میں مطلق نیت کو ناکافی قرار دیتے ہیں۔ [115] (منیہ)

مسئلہ ۸۵: نفل نماز کے ليے مطلق نماز کی نیت کافی ہے، اگرچہ نفل نیت میں نہ ہو۔ [116] (درمختار)

مسئلہ ۸۶: فرض نماز میں نیت فرض بھی ضرور ہے، مطلق نماز یا نفل وغیرہ کی نیت کافی نہیں، اگر فرضیت جانتا ہی نہ ہو، مثلاً پانچوں وقت نماز پڑھتا ہے، مگر ان کی فرضیت علم میں نہیں، نماز نہ ہوگی اور اس پر ان تمام نمازوں کی قضا فرض ہے، مگر جب امام کے پیچھے ہو اور یہ نیت کرے کہ امام جو نماز پڑھتا ہے، وہی میں بھی پڑھتا ہوں، تو یہ نماز ہو جائے گی اور اگر جانتا ہو مگر فرض کو غیر فرض سے متمیّز نہ کیا تو دو صورتیں ہیں، اگر سب میں فرض ہی کی نیت کرتا ہے، تو نماز ہو جائے گی، مگر جن فرضوں سے پیشتر سنتیں ہيں، اگر سنتيں پڑھ چکا ہے، تو اِمامت نہیں کر سکتا کہ سنتیں بہ نیت فرض پڑھنے سے اس کا فرض ساقط ہوچکا، مثلاً ظہر کے پیشتر چار رکعت سنتیں بہ نیت فرض پڑھیں، تو اب فرض نماز میں اِمامت نہیں کرسکتا کہ یہ فرض پڑھ چکا، دوسری صورت یہ کہ نیتِ فرض کسی میں نہ کی، تو نماز ِ فرض ادا نہ ہوئی۔ [117] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۸۷: فرض میں یہ بھی ضرور ہے کہ اس خاص نماز مثلاً ظہر یا عصر کی نیت کرے يا مثلاً آج کے ظہر یا فرضِ وقت کی نیت وقت میں کرے، مگر جمعہ میں فرض وقت کی نیت کافی نہیں، خصوصیت جمعہ کی نیت ضروری ہے۔ [118] (تنویر الابصار)

مسئلہ ۸۸: اگر وقت نماز ختم ہوچکا اور اس نے فرض وقت کی نیت کی، تو فرض نہ ہوئے خواہ وقت کا جاتا رہنا اسکے علم میں ہو یا نہیں۔ [119] (ردالمحتار)

مسئلہ ۸۹: نماز فرض میں یہ نیت کہ آج کے فرض پڑھتا ہوں کافی نہیں، جبکہ کسی نماز کو معین نہ کیا، مثلاً آج کی ظہر یا آج کی عشا۔[120](ردالمحتار)

مسئلہ ۹۰: اَولیٰ یہ ہے کہ یہ نیت کرے آج کی فلاں نماز کہ اگرچہ وقت خارج ہوگیا ہو، نماز ہو جائے گی، خصوصاً اس کے ليے جسے وقت خارج ہونے میں شک ہو۔ [121] (درمختار، عالمگیری)

مسئلہ ۹۱: اگر کسی نے اس دن کو دوسرا دن گمان کرلیا، مثلاً وہ دن پیر کا ہے اور اس نے اسے منگل سمجھ کر منگل کی ظہر کی نیت کی، بعد کو معلوم ہوا کہ پیر تھا، نماز ہو جائے گی۔ [122] (غنیہ) یعنی جبکہ آج کا دن نیت میں ہو کہ اس تعیین کے بعد پیر یا منگل کی تخصیص بے کار ہے اور اس میں غلطی مضر نہیں، ہاں اگر صرف دن کے نام ہی سے نیت کی اور آج کے دن کا قصد نہ کیا، مثلاً منگل کی ظہر پڑھتا ہوں، تو نماز نہ ہوگی اگرچہ وہ دن منگل ہی کا ہو کہ منگل بہت ہیں۔ (افاداتِ رضویہ)

مسئلہ ۹۲: نیت میں تعداد رکعات کی ضرورت نہیں البتہ افضل ہے، تو اگر تعداد رکعات میں خطا واقع ہوئی مثلاً تین رکعتیں ظہر یا چار رکعتيں مغرب کی نیت کی، تو نماز ہو جائے گی۔ [123] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۹۳: فرض قضا ہوگئے ہوں، تو ان میں تعیین یوم اور تعیین نماز ضروری ہے، مثلاً فلاں دن کی فلاں نماز مطلقاً ظہر وغیرہ يا مطلقاً نماز قضا نیت میں ہونا کافی نہیں۔ [124] (درمختار)

مسئلہ ۹۴: اگر اس کے ذمہ ایک ہی نماز قضا ہو، تو دن معین کرنے کی حاجت نہیں، مثلاً میرے ذمہ جو فلاں نماز ہے، کافی ہے۔[125] (ردالمحتار)

مسئلہ ۹۵: اگر کسی کے ذمہ بہت سی نمازیں ہیں اور دن تاریخ بھی یاد نہ ہو، تو اس کے ليے آسان طریقہ نیت کا یہ ہے کہ سب میں پہلی یا سب میں پچھلی فلاں نماز جو میرے ذمہ ہے۔ [126] (درمختار)

مسئلہ ۹۶: کسی کے ذمہ اتوار کی نماز تھی، مگر اس کو گمان ہوا کہ ہفتہ کی ہے اور اس کی نیت سے نماز پڑھی، بعد کو معلوم ہوا کہ اتوار کی تھی، ادا نہ ہوئی۔ [127] (غنیہ)

مسئلہ ۹۷: قضا یا ادا کی نیت کی کچھ حاجت نہیں، اگرقضا بہ نیت ادا پڑھی يا ادا بہ نیت قضا، تو نماز ہوگئی، یعنی مثلاً وقت ظہر باقی ہے اور اس نے گمان کیا کہ جاتا رہا اور اس دن کی نماز ظہر بہ نیت قضا پڑھی يا وقت جاتا رہا اور اس نے گمان کیا کہ باقی ہے اوربہ نیت ادا پڑھی ہوگئی اور اگر یوں نہ کیا، بلکہ وقت باقی ہے اور اس نے ظہر کی قضا پڑھی، مگر اس دن کے ظہر کی نیت نہ کی تو نہ ہوئی، یوہیں اس کے ذمہ کسی دن کی نماز ظہر تھی اور بہ نیت ادا پڑھی نہ ہوئی۔ [128] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۹۸: مقتدی کو اقتدا کی نیت بھی ضروری ہے اور امام کو نیت اِمامت مقتدی کی نماز صحیح ہونے کے ليے ضروری نہیں، یہاں تک کہ اگر امام نے یہ قصد کرلیا کہ ميں فلاں کا امام نہیں ہوں اور اس نے اس کی اقتدا کی نماز ہوگئی، مگر امام نے اِمامت کی نیت نہ کی تو ثواب جماعت نہ پائے گا اور ثواب جماعت حاصل ہونے کے ليے مقتدی کی شرکت سے پیشتر نیت کر لینا ضروری نہیں، بلکہ وقت شرکت بھی نیت کر سکتا ہے۔ [129] (عالمگیری، درمختار)

مسئلہ ۹۹: ایک صورت میں امام کو نیت اِمامت بالاتفاق ضروری ہے کہ مقتدی عورت ہو اور وہ کسی مرد کے محاذی کھڑی ہو جائے اور وہ نماز، نمازِ جنازہ نہ ہو تو اس صورت میں اگر امام نے اِمامت زناں [130] کی نیت نہ کی، تو اس عورت کی نماز نہ ہوئی۔ [131] (درمختار) اور امام کی یہ نیت شروع نماز کے وقت درکار ہے، بعد کو اگر نیت کر بھی لے، صحت اقتدائے زن کے ليے کافی نہیں۔ [132] (ردالمحتار)

مسئلہ ۱۰۰: جنازہ میں تومطلقاً خواہ مرد کے محاذی ہو یا نہ ہو، اِمامت زناں کی نیت بالاجماع ضروری نہیں اور اصح یہ ہے کہ جمعہ و عیدین میں بھی حاجت نہیں، باقی نمازوں میں اگر محاذی مرد کے نہ ہوئی، تو عورت کی نماز ہو جائے گی، اگرچہ امام نے اِمامت زناں کی نیت نہ کی ہو۔ [133] (درمختار)

مسئلہ ۱۰۱: مقتدی نے اگر صرف نماز امام یا فرض امام کی نیت کی اور اقتدا کا قصد نہ کیا، نماز نہ ہوئی۔ [134] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۰۲: مقتدی نے بہ نیت اقتدا یہ نیت کی کہ جو نماز امام کی وہی نماز میری، تو جائز ہے۔ [135] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۰۳: مقتدی نے یہ نیت کی کہ وہ نماز شروع کرتا ہوں جو اس امام کی نماز ہے، اگر امام نماز شروع کر چکا ہے، جب تو ظاہر کہ اس نیت سے اقتدا صحیح ہے اور اگر امام نے اب تک نماز شروع نہ کی تو دو صورتیں ہیں، اگر مقتدی کے علم میں ہو کہ امام نے ابھی نماز شروع نہ کی، تو بعد شروع وہی پہلی نیت کافی ہے اور اگر اس کے گمان میں ہے کہ شروع کر لی اور واقع میں شروع نہ کی ہو تو وہ نیت کافی نہیں۔ [136] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۰۴: مقتدی نے نیت اقتدا کی، مگر فرضوں میں تعیین فرض نہ کی، تو فرض ادا نہ ہوا۔ [137] (غنیہ) یعنی جب تک یہ نیت نہ ہو کہ نماز امام میں اس کا مقتدی ہوتا ہوں۔

مسئلہ ۱۰۵: جمعہ میں بہ نیت اقتدا نماز امام کی نیت کی ظہر یا جمعہ کی نیت نہ کی، نماز ہوگئی، خواہ امام نے جمعہ پڑھا ہو یا ظہر اور اگر بہ نیت اقتدا ظہر کی نیت کی اور امام کی نماز جمعہ تھی تو نہ جمعہ ہوا، نہ ظہر۔ [138] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۰۶: مقتدی نے امام کو قعدہ میں پایا اور یہ معلوم نہ ہو کہ قعدۂ اُولیٰ ہے یا اخیرہ اور اس نیت سے اقتدا کی کہ اگر یہ قعدۂ اُولیٰ ہے تو میں نے اقتدا کی ورنہ نہیں، تو اگرچہ قعدۂ اُولیٰ ہو اقتدا صحیح نہ ہوئی اور اگر بایں نیت اقتدا کی کہ قعدۂ اُولیٰ ہے، تو میں نے فرض میں اقتدا کی، ورنہ نفل میں تو اس اقتدا سے فرض ادا نہ ہوگا، اگرچہ قعدۂ اُولیٰ ہو۔ [139] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۰۷: یوہیں اگر امام کو نما زمیں پایا اور یہ نہیں معلوم کہ عشا پڑھتا یا تراویح اور یوں اقتدا کی کہ اگر فرض ہے تو اقتدا کی، تراویح ہے تو نہیں، تو عشا ہو، خواہ تراویح اقتدا صحیح نہ ہوئی۔ [140] (عالمگیری)

اس کو يہ چاہيے کہ فرض کی نیت کرے کہ اگر فرض کی جماعت تھی تو فرض، ورنہ نفل ہو جائیں گے۔ [141] (درمختار)

مسئلہ ۱۰۸: امام جس وقت جائے اِمامت پر گیا، اس وقت مقتدی نے نیت اقتدا کرلی، اگرچہ بوقت تکبیر نیت حاضر نہ ہو، اقتدا صحیح ہے، بشرطیکہ اس درمیان میں کوئی عمل منافی نماز نہ پایا گیا ہو۔ [142] (غنیہ)

مسئلہ ۱۰۹: نیت اقتدا میں یہ علم ضرور نہیں کہ امام کون ہے؟ زید ہے یا عمرو اور اگر یہ نیت کی کہ اس امام کے پیچھے اور اس کے علم میں وہ زید ہے، بعد کو معلوم ہوا کہ عمرو ہے اقتدا صحیح ہے اور اگر اس شخص کی نیت نہ کی، بلکہ یہ کہ زید کی اقتدا کرتا ہوں، بعد کو معلوم ہوا کہ عمرو ہے، تو صحیح نہیں۔ [143] (عالمگیری، غنیہ)

مسئلہ ۱۱۰: جماعت کثیر ہو تو مقتدی کو چاہيے کہ نیت اقتدا میں امام کی تعیین نہ کرے، یوہیں جنازہ میں یہ نیت نہ کرے کہ فلاں میت کی نماز۔ [144] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۱۱: نماز جنازہ کی یہ نیت ہے، نماز اﷲ کے ليے اور دُعا اس میت کے ليے۔ [145] (درمختار)

مسئلہ ۱۱۲: مقتدی کو شبہہ ہو کہ میت مرد ہے یا عورت، تو يہ کہہ لے کہ امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہوں جس پر امام نماز پڑھتا ہے۔[146] (درمختار)

مسئلہ ۱۱۳: اگر مرد کی نیت کی، بعد کو عورت ہونا معلوم ہوا یا بالعکس، جائز نہ ہوئی، بشرطیکہ جنازہ حاضرہ کی طرف اشارہ نہ ہو، یوہیں اگر زید کی نیت کی بعد کو اس کا عمرو ہونا معلوم ہوا صحیح نہیں اور اگر یوں نیت کی کہ اس جنازہ کی اور اس کے علم میں وہ زید ہے بعد کو معلوم ہوا کہ عمرو ہے، تو ہوگئی۔ [147] (درمختار، ردالمحتار) یوہیں اگر اس کے علم میں وہ مرد ہے، بعد کو عورت ہونا معلوم ہوا یا بالعکس، تو نماز ہو جائے گی، جب کہ اس میت پر نماز نیت میں ہے۔[148] (ردالمحتار)

مسئلہ ۱۱۴: چند جنازے ایک ساتھ پڑھے، تو ان کی تعداد معلوم ہونا ضروری نہیں اور اگر اس نے تعداد معین کرلی اور اس سے زائد تھے، تو کسی جنازے کی نہ ہوئی۔ [149] (درمختار) یعنی جب کہ نیت میں اشارہ نہ ہو، صرف اتنا ہو کہ دس (۱۰) ميّتوں کی نماز اور وہ تھے گیارہ (۱۱) تو کسی پر نہ ہوئی اور اگر نیت میں اشارہ تھا، مثلاً ان دس (۱۰) ميّتوں پر نماز اور وہ ہوں بیس (۲۰) تو سب کی ہوگئی، یہ احکام امامِ نمازِ جنازہ کے ہیں اور مقتدی کے بھی، اگر اس نے یہ نیت نہ کی ہو کہ جن پر امام پڑھتا ہے، ان کے جنازہ کی نماز کہ اس صورت میں اگر اس نے ان کو دس (۱۰) سمجھا اور وہ ہیں زیادہ تو اس کی نماز بھی سب پر ہو جائے گی۔ [150] (ردالمحتار)

مسئلہ ۱۱۵: نماز واجب میں واجب کی نیت کرے اور اسے معین بھی کرے، مثلاً نماز عیدالفطر، عید اضحی، نذر، نماز بعد طواف یا نفل، جس کو قصداً فاسد کیا ہو کہ اس کی قضا بھی واجب ہو جاتی ہے، یوہیں سجدۂ تلاوت میں نیت تعیین ضرور ہے، مگر جب کہ نماز میں فوراً کیا جائے اور سجدۂ شکر اگرچہ نفل ہے مگر اس میں بھی نیت تعیین درکار ہے یعنی یہ نیت کہ شکر کا سجدہ کرتا ہوں اور سجدۂ سہو کو درمختار میں لکھا کہ اس میں نیت تعیین ضروری نہیں، مگر'' نہرالفائق '' میں ضروری سمجھی اور یہی ظاہر تر ہے۔ [151] (ردالمحتار) اور نذریں متعدد ہوں تو ان میں بھی ہر ایک کی الگ تعیین درکار ہے اور وتر میں فقط وتر کی نیت کافی ہے، اگرچہ اس کے ساتھ نیت وجوب نہ ہو، ہاں نیت واجب اولیٰ ہے، البتہ اگر نیت عدمِ وجوب ہے تو کافی نہیں۔ [152] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۱۱۶: یہ نیت کہ مونھ میرا قبلہ کی طر ف ہے شرط نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ قبلہ سے اعراض کی نیت نہ ہو۔ [153] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۱۱۷: نماز بہ نیت فرض شروع کی پھر درمیان نماز میں یہ گمان کیا کہ نفل ہے اور بہ نیت نفل نماز پوری کی تو فرض ادا ہوئے اور اگر بہ نیت نفل شروع کی اور درمیان میں فرض کا گمان کیا اور اسی گمان کے ساتھ پوری کی، تو نفل ہوئی۔ [154] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۱۸: ایک نماز شروع کرنے کے بعد دوسری کی نیت کی، تو اگر تکبیر جدید کے ساتھ ہے، تو پہلی جاتی رہی اور دوسری شروع ہوگئی، ورنہ وہی پہلی ہے، خواہ دونوں فرض ہوں یا پہلی فرض دوسری نفل يا پہلی نفل دوسری فرض۔[155] (عالمگیری، غنیہ) یہ اس وقت میں ہے کہ دوبارہ نیت زبان سے نہ کرے، ورنہ پہلی بہرحال جاتی رہی۔[156] (ہندیہ)

مسئلہ ۱۱۹: ظہر کی ایک رکعت کے بعد پھر بہ نیت اسی ظہر کے تکبیر کہی، تو یہ وہی نماز ہے اور پہلی رکعت بھی شمار ہوگی، لہٰذا اگر قعدۂ اخيرہ کیا، تو ہوگئی ورنہ نہیں، ہاں اگر زبان سے بھی نیت کا لفظ کہا تو پہلی نماز جاتی رہی اور وہ رکعت شمار میں نہیں۔ [157](عالمگیری، غنیہ)

مسئلہ ۱۲۰: اگر دل میں نماز توڑنے کی نیت کی، مگر زبان سے کچھ نہ کہا، تو وہ بدستور نماز میں ہے۔[158] (درمختار) جب تک کوئی فعل قاطع نماز نہ کرے۔

مسئلہ ۱۲۱: دو نمازوں کی ایک ساتھ نیت کی اس میں چند صورتیں ہیں۔ (۱) ان میں ایک فرض عین ہے، دوسری جنازہ، تو فرض کی نیت ہوئی، (۲) اور دونوں فرض عین ہیں، تو ایک اگر وقتی ہے اور دوسری کا وقت نہیں آیا، تو وقتی ہوئی، (۳) اور ایک وقتی ہے، دوسری قضا اور وقت میں وسعت نہیں جب بھی وقتی ہوئی، (۴) اور وقت میں وسعت ہے تو کوئی نہ ہوئی اور (۵) دونوں قضا ہوں، تو صاحب ترتیب کے ليے پہلی ہوئی اور (۶) صاحب ترتیب نہیں، تو دونوں باطل اور ایک (۷) فرض، دوسری نفل، تو فرض ہوئے، (۸) اور دونوں نفل ہیں تو دونوں ہوئیں، (۹) اور ایک نفل، دوسری نماز جنازہ، تو نفل کی نیت رہی۔ [159] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۱۲۲: نماز خالصاًشروع کی، پھر مَعَاذَ اﷲ ریا کی آمیزش ہوگئی، تو شروع کا اعتبار کیا جائے گا۔ [160] (درمختار، عالمگیری)

مسئلہ ۱۲۳: پورا ریا یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے ہے، اس وجہ سے پڑھ لی ورنہ پڑھتا ہی نہیں اور اگر یہ صورت ہے کہ تنہائی میں پڑھتا تو، مگر اچھی نہ پڑھتا اور لوگوں کے سامنے خوبی کے ساتھ پڑھتا ہے، تو اس کو اصل نماز کا ثواب ملے گا اور اس خوبی کا ثواب نہیں۔ [161] (درمختار، عالمگیری) اور ریا کا استحقاق عذاب بہرحال ہے۔

مسئلہ ۱۲۴: نماز خلوص کے ساتھ پڑھ رہا تھا، لوگوں کو دیکھ کر یہ خیال ہوا کہ ریا کی مداخلت ہو جائے گی يا شروع کرنا چاہتا تھا کہ ریا کی مداخلت کا اندیشہ ہوا تو، اس کی وجہ سے ترک نہ کرے، نماز پڑھے اور استغفار کرلے۔[162] (درمختار، ردالمحتار)

چھٹی شرط تکبیر تحریمہ ہے : اﷲ عَزَّوَجَل فرماتا ہے:

(وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰىؕ(۱۵)) [163]

اپنے رب کا نام لے کر نماز پڑھی۔

اور احادیث اس بارے میں بہت ہیں کہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَيْہِ وَسَلَّم اَللہُ اَکْبَرْ سے نماز شروع فرماتے۔

مسئلہ ۱۲۵: نماز جنازہ میں تکبیر تحریمہ رکن ہے۔ باقی نمازوں میں شرط۔[164] (درمختار)

مسئلہ ۱۲۶: غیر نماز جنازہ میں اگر کوئی نجاست ليے ہوئے تحریمہ باندھے اور اﷲ اکبر ختم کرنے سے پیشتر [165]پھینک دے، نماز منعقد ہو جائے گی۔ یوہیں بر وقت ابتدائے تحریمہ ستر کھلا ہوا تھا يا قبلہ سے منحرف [166] تھا، یا آفتاب خط نصف النہار پر تھا اور تکبیر سے فارغ ہونے سے پہلے عمل قلیل کے ساتھ ستر چھپا لیا، یا قبلہ کو مونھ کر لیا یا نصف النہار سے آفتاب ڈھل گیا، نماز منعقد ہو جائے گی۔ یوہیں مَعَاذَ اﷲ بے وضو شخص دریا میں گر پڑا اور اعضائے وضو پر پانی بہنے سے پیشتر تکبیر تحریمہ شروع کی، مگر ختم سے پہلے اعضا دھل گئے، نماز منعقد ہوگئی۔[167] (ردالمحتار)

مسئلہ ۱۲۷: فرض کی تحریمہ پر نفل نماز کی بنا کر سکتا ہے، مثلاً عشا کی چاروں رکعتیں پوری کر کے بے سلام پھیرے سنتوں کے ليے کھڑا ہوگیا، لیکن قصداً ایسا کرنا مکروہ و منع ہے اور قصداً نہ ہو تو حرج نہیں، مثلاً ظہر کی چار رکعت پڑھ کر قعدۂ اخيرہ کر چکا تھا، اب خیال ہوا کہ دو ہی پڑھیں اٹھ کھڑا ہوا اور پانچويں رکعت کا سجدہ بھی کر لیا، اب معلوم ہوا کہ چار ہو چکی تھیں، تو یہ رکعت نفل ہوئی، اب ایک اور پڑھ لے کہ دو رکعتیں ہو جائیں، تو یہ بنا بقصد نہ ہوئی، لہٰذا اس میں کوئی کراہت نہیں۔[168] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۱۲۸: ایک نفل پر دوسری نفل کی بنا کر سکتا ہے اور ایک فرض کی دوسرے فرض یا نفل پر بنا نہیں ہوسکتی۔ [169] (درمختار)(بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ سوم،صفحہ۴۷۵تا ۵۰۱)


[1] ۔۔۔۔۔۔ بغير۔

[2] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۸۹.

[3] ۔۔۔۔۔۔ نمازی۔

[4] ۔۔۔۔۔۔ ''شرح الوقایۃ''، کتاب الصلوۃ، باب شروط الصلوۃ، ج۱، ص۱۵۶.

[5] ۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ چيزيں جن سے غسل واجب ہوتا ہے۔

[6] ۔۔۔۔۔۔ یعنی وضو توڑنے والی چيزيں۔

[7] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۴۷.

[8] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۹۱، و ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثاني، ج۱، ص۶۰.

[9] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، المرجع السابق، ص۵۸، و ''الدرالمختار''، کتاب الطھارۃ، باب الأنجاس، ج۱، ص۵۷۱.

[10] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۹۱.

[11] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''،

[12] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۹۱، موضحاً.

[13] ۔۔۔۔۔۔ ''البحرالرائق''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۱، ص۴۶۴.

[14] ۔۔۔۔۔۔ پاک۔

[15] ۔۔۔۔۔۔ یعنی سجدہ اور پاؤں رکھنے کی جگہ کا پاک ہونا۔

[16] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۹۲.

[17] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۹۲.

[18] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۹۲.

[19] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[20] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۹۲.

[21] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۹۲.

[22] ۔۔۔۔۔۔ یعنی موٹی۔

[23] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب في ستر العورۃ، ج۲، ص۹۲.

[24] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب في ستر العورۃ، ج۲، ص۹۲. و باب مایفسد الصلاۃ، وما یکرہ فیہا، مطلب في التشبہ باھل الکتاب، ص۴۶۷.

[25] ۔۔۔۔۔۔ پ۸، الاعراف: ۳۱.

[26] ۔۔۔۔۔۔ پ۱۸،النور: ۳۱.

[27] ۔۔۔۔۔۔ ''الکامل في ضعفاء الرجال''، رقم الترجمۃ، نصر بن حماد ۱۹۷۴، ج۸، ص۲۸۷.

[28] ۔۔۔۔۔۔ ''سنن أبي داود''، کتاب الصلاۃ، باب المرأۃ تصلی بغير خمار، الحدیث: ۶۴۱، ج۱، ص۲۵۸.

[29] ۔۔۔۔۔۔ ''سنن أبي داود''، کتاب الصلاۃ، باب في کم تصلی المرأۃ، الحديث: ۶۴۰، ج۱، ص۲۵۸.

[30] ۔۔۔۔۔۔ ''سنن الدارقطني''، کتاب الصلاۃ، باب الأمر بتعليم الصلوٰت، الحديث: ۸۷۶، ج۱، ص۳۱۶.

[31] ۔۔۔۔۔۔ ''جامع الترمذي''، أبواب الرضاع، ۱۸۔باب، الحديث:۱۱۷۶، ج۲، ص۳۹۲.

[32] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، مطلب في ستر العورۃ، ج۲، ص۹۳، ۹۷.

[33] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الأوّل، ج۱، ص۵۸.

[34] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب في النظر إلی وجہ الأمرد، ج۲، ص۱۰۳.

[35] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الأوّل، ج۱، ص۵۸.

[36] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۴۷.

[37] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب في النظر إلی وجہ الأمرد، ج۲، ص۹۳،۱۰۷.

[38] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب في ستر العورۃ، ج۲، ص۹۳.

[39] ۔۔۔۔۔۔ ناف کے نيچے۔

[40] ۔۔۔۔۔۔ جس میں مردوعورت دونوں کی علامتیں پائی جائیں اور یہ ثابت نہ ہو کہ مرد ہے یا عورت۔ (بہار شريعت حصہ ۷، نکاح کا بيان)

[41] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب في النظر إلی وجہ الأمرد، ج۲، ص۹۳،۱۰۷.

[42] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃج۲، ص۹۵.

[43] ۔۔۔۔۔۔ یعنی غلام۔

[44] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۹۴.

[45] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۹۴. و ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الأوّل، ج۱، ص۵۹.

[46] ۔۔۔۔۔۔''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب في النظر إلی وجہ الأمرد، ج۲، ص۱۰۰. و ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الأول، ج۱ ص۵۸.

[47] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ مطلب في النظر إلی وجہ الأمرد، ج۲، ص۱۰۰.

[48] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۱۰۲.

[49] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۱۰۱.

[50] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۰۲.و ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الأول، ج۱، ص۵۸.

[51] ۔۔۔۔۔۔''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الأول، ج۱، ص۵۸.

[52] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ مطلب في النظر إلی وجہ الأمرد، ج۲، ص۱۰۱.

[53] ۔۔۔۔۔۔''الفتاوی الرضویۃ'' ، ج۶، ص۳۹.

[54] ۔۔۔۔۔۔''الفتاوی الرضویۃ ''، ج۶، ص۳۹۔۴۰.

[55] ۔۔۔۔۔۔ ان مسائل کی تحقيق اور ان کے متعلق جزئيات کتاب الحظر و الاباحۃ ميں انشاء اﷲ تعالٰی مذکور ہونگے۔ ۱۲ منہ

[56] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۹۷.

[57] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب في النظر إلی وجہ الأمرد، ج۲، ص۱۰۳.

[58] ۔۔۔۔۔۔''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، مطلب في النظر إلی وجہ الأمرد، ج۲، ص۱۰۴.

[59] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، مطلب في النظر إلی وجہ الأمرد، ج۲، ص۱۰۵.

[60] ۔۔۔۔۔۔ یعنی کسی کے پاس کپڑا تھا اس نے کہا تم اسے استعمال کرسکتے ہو۔

[61] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب في النظر إلی وجہ الأمرد، ج۲، ص۱۰۶.

[62] ۔۔۔۔۔۔''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب في النظر إلی وجہ الأمرد، ج۲، ص۱۰۶.

[63] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[64] ۔۔۔۔۔۔ یعنی قيمت سے۔

[65] ۔۔۔۔۔۔''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب في النظر إلی وجہ الأمرد، ج۲، ص۱۰۷.

[66] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۰۷.

[67] ۔۔۔۔۔۔''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث، في شروط الصلاۃ، الفصل الأول، ج۱، ص۵۹.

[68] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[69] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۰۸.

[70] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۱۰.

[71] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۱۱۰.

[72] ۔۔۔۔۔۔ پ۲، البقرۃ: ۱۴۲.

[73] ۔۔۔۔۔۔ پ۲، البقرۃ: ۱۴۳۔ ۱۴۴.

[74] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، بحث النیۃ، ج۲، ص۱۳۴.

[75] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[76] ۔۔۔۔۔۔''غنیۃ المتملي''، فصل مسائل شتی، ص۶۱۶، وغیرہا.

[77] ۔۔۔۔۔۔ ''غنیۃ المتملي''، فروع في شرح الطحاوی، ص۲۲۵.

[78] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، ج۲، ص۱۳۵.

[79] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، مطلب: کرامات الأولياء ثابتۃ، ج۲، ص۱۴۱.

[80] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، مطلب: کرامات الأولياء ثابتۃ، ج۲، ص۱۴۲.

[81] ۔۔۔۔۔۔ ''غنیۃ المتملي''، فروع في شرح الطحطاوي، ص۲۲۵.

[82] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، مطلب: کرامات الأولياء ثابتۃ، ج۲، ص۱۴۲.

[83] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، مطلب: کرامات الأولياء ثابتۃ، ج۲، ص۱۴۳.

[84] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، مطلب: مسائل التحری في القبلۃ، ج۲، ص۱۴۳.

[85] ۔۔۔۔۔۔ ''تنوير الأبصار''، کتاب الصلاۃ، ج۲، ص۱۴۳، وغیرہ .

[86] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، مطلب: مسائل التحری في القبلۃ، ج۲، ص۱۴۷.

[87] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، ج۲، ص۱۴۷.

[88] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، مطلب: مسائل التحری... إلخ، ج۲، ص۴۳ا.

[89] ۔۔۔۔۔۔ ''منیۃ المصلي''، مسائل تحری القبلۃ... إلخ، ص۱۹۲.

[90] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، مطلب: مسائل التحری في القبلۃ، ج۲، ص۱۴۳.

[91] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[92] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، مطلب: مسائل التحری في القبلۃ، ج۲، ص۱۴۳.

[93] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، مطلب: مسائل التحری في القبلۃ، ج۲، ص۱۴۴.

[94] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، مطلب: مسائل التحری في القبلۃ، ج۲، ص۱۴۴.

[95] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۴۴.

[96] ۔۔۔۔۔۔ وہ کہ امام کی بعض رکعتيں پڑھنے کے بعد شامل ہوا اور آخر تک شامل رہا۔

[97] ۔۔۔۔۔۔ وہ کہ امام کے ساتھ پہلی رکعت ميں شريک ہوا، مگر اقتدا کے بعد اس کی کل رکعتيں يا بعض فوت ہوگئيں، خواہ عذر سے يا بلا عذر۔

[98] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۴۴.

[99] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۴۶.

[100] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۴۶.

[101] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب: اذا ذکر في مسألۃ ثلاثۃ اقوال... إلخ، ج۲، ص۱۴۷.

[102] ۔۔۔۔۔۔''منیۃ المصلي''، مسائل التحری القبلۃ... إلخ، ص۱۹۳. و ''البحرالرائق''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۱، ص۴۹۷.

[103] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۴۴.

[104] ۔۔۔۔۔۔ پ۳۰، البينۃ: ۵.

[105] ۔۔۔۔۔۔ ''صحيح البخاري''، کتاب بدء الوحي، باب کيف کان بدء الوحي إلی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم... إلخ، الحديث: ۱، ج۱، ص۵.

[106] ۔۔۔۔۔۔ ''تنوير الأبصار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۱۱.

[107] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، بحث النیۃ، ج۲، ص۱۱۲.

[108] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۱۳.

[109] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۱۳.

[110] ۔۔۔۔۔۔ ''منیۃ المصلي''، استحباب ان ينوی بقبلہ ويتکلم باللسان، ص۲۳۲.

[111] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۱۴.

[112] ۔۔۔۔۔۔ ''غنیۃ المتملي''، الشرط السادس النیۃ، ص۲۵۵.

[113] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب في حضور القلب والخشوع، ج۲، ص۱۱۶.

[114] ۔۔۔۔۔۔ یعنی پيروی۔

[115] ۔۔۔۔۔۔ ''منیۃ المصلي''، الشرط السادس النیۃ، ص۲۲۵.

[116] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب في حضور القلب والخشوع، ج۲، ص۱۱۶.

[117] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب في حضور القلب والخشوع، ج۲، ص۱۱۷.

[118] ۔۔۔۔۔۔ ''تنوير الأبصار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۱۷، ۱۲۳.

[119] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب في حضور القلب والخشوع، ج۲، ص۱۲۳.

[120] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، مطلب في حضور القلب والخشوع، ج۲، ص۱۲۳.

[121] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۲۳. و ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الرابع، ج۱، ص۶۶.

[122] ۔۔۔۔۔۔ ''غنیۃ المتملي''، الشرط السادس النیۃ، ص۲۵۳.

[123] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب في حضور القلب والخشوع، ج۲، ص۱۲۰.

[124] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۱۹.

[125] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب في حضور القلب والخشوع، ج۲، ص۱۱۹.

[126] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۱۹.

[127] ۔۔۔۔۔۔ ''غنیۃ المتملي''، الشرط السادس النیۃ، ص۲۵۴.

[128] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب: يصح القضاء بنیۃ الأداء و عکسہ، ج۲، ص۱۲۵.

[129] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۲۱، و ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الرابع، ج۱، ص۶۶.

[130] ۔۔۔۔۔۔ یعنی عورتوں کی امامت۔

[131] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۲۸.

[132] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب: مضیٰ علیہ سنوات... إلخ، ج۲، ص۱۲۹.

[133] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۲۹.

[134] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الرابع، ج۱، ص۶۶.

[135] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۶۷.

[136] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۶۶.

[137] ۔۔۔۔۔۔ غنیۃالمتملي، الشرط السادس النیۃ، ص۲۵۱.

[138] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الرابع، ج۱، ص۶۶.

[139] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۶۷.

[140] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الرابع، ج۱، ص۶۷.

[141] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۵۳.

[142] ۔۔۔۔۔۔ ''غنیۃ المتملي''، الشرط السادس النیۃ، ص۲۵۲.

[143] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، و ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الرابع، ج۱، ص۶۷.

[144] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الرابع، ج۱، ص۶۷.

[145] ۔۔۔۔۔۔ ''تنوير الأبصار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۲۶.

[146] ۔۔۔۔۔۔ ''تنوير الأبصار'' و ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۲۷.

[147] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب: مضیٰ علیہ سنوات... إلخ، ج۲، ص۱۲۷.

[148] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب: مضیٰ علیہ سنوات... إلخ، ج۲، ص۱۲۷.

[149] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۲۷.

[150] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب: مضیٰ علیہ سنوات وھو يصلي... إلخ، ج۲، ص۱۲۷.

[151] ۔۔۔۔۔۔''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب في حضور القلب و الخشوع، ج۲، ص۱۱۹.

[152] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب: مضیٰ علیہ سنوات... إلخ، ج۲، ص۱۲۹.

[153] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الرابع، ج۱، ص۶۶.

[154] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، و ''غنیۃ المتملي''، الشرط السادس النیۃ، ص۲۴۹.

[155] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الرابع، ج۱، ص۶۶.

[156] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، و ''غنیۃ المتملي''، الشرط السادس النیۃ، ص۲۵۰.

[157] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''،

[158] ۔۔۔۔۔۔ ''غنیۃ المتملي''، الشرط السادس النیۃ، ص۲۵۰، و ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب: فروع في النیۃ، ج۲، ص۱۵۳.

[159] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۵۱. و ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الرابع، ج۱، ص۶۷.

[160] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[161] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[162] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب: فروع في النیۃ، ج۲، ص۱۵۱.

[163] ۔۔۔۔۔۔ پ۳۰، الاعلیٰ: ۱۵.

[164] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۵۸.

[165] ۔۔۔۔۔۔ پہلے۔

[166] ۔۔۔۔۔۔ یعنی پھرا ہوا۔.

[167] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، بحث القيام، ج۲، ص۱۶۲.

[168] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب: قد يطلق الفرض... إلخ، ج۲، ص۱۵۹.

[169] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۵۹.

Share