صِدق

(26)صِدق (سچ بولنا)

صدق کی تعریف :

حضرت علامہ سید شریف جرجانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی صدق یعنی سچ کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’صدق کا لغوی معنی واقع کے مطابق خبر دینا ہے۔‘‘[1] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۲۷)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتاہے:( وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳))(پ۲۴، الزمر: ۳۳) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی ڈر والے ہیں ۔‘‘اس آیت مبارکہ میں سچ لے کر تشریف لانے والے سے مراد حضور نبی رحمت شفیع اُمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہیں اور تصدیق کرنے والے سے مراد امیر المؤمنین حضرت سیدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہیا تمام مؤمنین ہیں۔[2]ایک اور مقام پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشادفرماتا ہے: ( مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَیْهِۚ-)(پ۲۱، الاحزاب: ۲۳) ترجمۂ کنزالایمان: ’’مسلمانوں میں کچھ وہ مرد ہیں جنہوں نے سچا کر دیا جو عہد اللہسے کیا تھا ۔‘‘(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۲۷)

(حدیث مبارکہ)سچ جنت کی طرف لے جاتا ہے:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب، دانائے غیوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: ’’بے شک صدق (سچ)نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور بے شک آدمی سچ بولتا رہتاہے یہاں تک کہ وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ہاں صدیق (بہت بڑا سچا)لکھ دیا جاتا ہے اور بے شک کذب (جھوٹ) گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے اور بے شک آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ہاں کذاب (بہت بڑا جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘[3] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۲۷،۲۲۸)

سچ بولنے کا حکم:

ہرمسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے دِینی ودُنیوی تمام معاملات میں سچ بولے کہ سچ بولنا نجات دلانے اور جنت میں لے جانے والا کام ہے۔(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۲۸)

سچ بولنے کا ذہن بنانے اور سچ بولنے کے نو(9)طریقے:

(1)سچ کے فضائل کا مطالعہ کیجئے:تین فرامین مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم: ٭’’سچائی کو اپنے اوپر لازم کرلو کیونکہ یہ نیکی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں جنت میں (لے جانے والے)ہیں اور جھوٹ سے بچتے رہو کیونکہ یہ گناہ کے ساتھ ہے اور یہ دونوں جہنم میں (لے جانے والے )ہیں۔‘‘[4] ٭’’جب بندہ سچ بولتا ہے تو نیکی کرتا ہے اور جب نیکی کرتا ہے محفوظ ہوجاتا ہے اور جب محفوظ ہوجاتا ہے تو جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔‘‘[5]٭ ’’تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دے دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں:(۱) جب بولو تو سچ بولو(۲) جب وعدہ کرو تو اسے پورا کرو(۳) جب امانت لو تو اسے ادا کرو (۴) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو (۵)اپنی نگاہیں نیچی رکھا کرو اور (۶) اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو ۔‘‘[6]

(2)سچ سے متعلق بزرگانِ دِین کے اَقوال کا مطالعہ کیجئے:چنداَقوال یہ ہیں: ٭ حضرت سیدنا عبدُاللہبن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں: ’’چار باتیں ایسی ہیں کہ جس میں ہوں گی وہ نفع پائے گا: (۱)صدق(یعنی سچ) (۲) حیا (۳)حسن اخلاق اور (۴) شکر۔‘‘٭حضرت سیدنا ابوسلیمان دارانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی فرماتے ہیں: ’’صدق (یعنی سچ) کو اپنی سواری، حق کو اپنی تلوار اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو اپنا مطلوب ومقصود بنالو۔‘‘ ٭ حضرت سیدنا محمد بن علی کتانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی فرماتے ہیں: ’’ہم نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے دِین کو تین اَرکان پر مبنی پایا: (۱)حق (۲) صدق (یعنی سچ)اور (۳)عدل۔ پس حق اَعضاء پر، عدل دِلوں پر اور صدق عقلوں پر ہوتا ہے۔‘‘[7]

(3)سچ کے دُنیوی واُخروی فوائد پر غور کیجئے:چندفوائد یہ ہیں:٭سچ بولنے والا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے حکم پر عمل کرتا ہے۔٭سچ بولنے والے کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی رضا حاصل ہوتی ہے۔ ٭سچ بولنے والے کی روزی میں برکت ہوتی ہے۔٭سچ بولنے والے کو مؤمن قرار دیا گیا ہے۔ ٭ سچ بولنے والا نفاق سے دُور ہوجاتا ہے۔٭سچ بولنے والے کا دِل روشن ہو جاتاہے۔ ٭سچ بولنے والے کا ضمیر مطمئن ہوتاہے۔٭سچ بولنے والے کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔٭سچ بولنے والے کا رحمت الٰہی سے خاتمہ بالخیر ہوگا۔ اِنْ شَآءَاللّٰہ عَزَّوَجَل ٭سچ بولنے والے کو رحمت الٰہی سے قبر وحشر کی تکلیفوں سے امان ملے گی۔اِنْ شَآءَاللّٰہ عَزَّوَجَل ٭سچ بولنے والے کو جنت میں داخلہ نصیب ہوگا۔اِنْ شَآءَاللّٰہ عَزَّوَجَل

(4)جھوٹ بولنے کی وعیدوں کو پیش نظر رکھیے:تین فرامین مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم:’’جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو گناہ کرتاہے اورجب گناہ کرتاہے توناشکری کرتا ہے اور جب ناشکری کرتا ہے تو جہنم میں داخل ہوجاتاہے۔‘‘[8] ’’منافق کی تین علامتیں ہیں: (۱)جب بات کرے تو جھوٹ بولے (۲) جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے اور (۳)جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔‘‘[9] کتنی بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی سے کوئی بات کہو جس میں وہ تمہیں سچا سمجھ رہا ہو حالانکہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو۔‘‘[10]

(5)جھوٹ بولنے کے دُنیوی واُخروی نقصانات پر غور کیجئے:چندنقصانات یہ ہیں: جھوٹ بولنے والا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا نافرمان ہے۔جھوٹ بولنے والے پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی لعنت ہے۔جھوٹ بولنا منافق کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔جھوٹ بولنے والے کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔جھوٹ بولنے والا مسلمانوں کو دھوکا دینے والا ہے۔ جھوٹ بولنے والے کا ضمیر مطمئن نہیں ہوتا۔جھوٹ بولنے والے کی روزی سے برکت اٹھالی جاتی ہے۔ جھوٹ بولنے والے کا دل سیاہ ہوجاتا ہے۔جھوٹ بولنے والے کو قبروحشر کی سختیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

(6)اپنے دل میں خوفِ خدا پیدا کیجئے: خوفِ خدا تمام گناہوںسے بچنے کی اصل ہے، جب بندے کے دل میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا خوف پیدا ہوجاتا ہے تو وہ اپنے آپ کو تمام گناہوں سے بچانے کی کوشش کرتا ہے، خوفِ خدا پیدا کرنے کے لیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ۱۶۰صفحات پر مشتمل کتاب ’’خوفِ خدا‘‘ اور حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِیکی مایہ ناز تصنیف ’’اِحیاء العلوم‘‘ جلد۴، صفحہ ۴۵۱ کا مطالعہ بہت مفید ہے۔

(7)اپنے دِل میں احترامِ مسلم پیدا کیجئے: کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے مسلمان بھائیوں سے کاروباری معاملات میں جھوٹ اور دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں، اس کی ایک وجہ اِحترامِ مسلم کا نہ ہونا بھی ہے، جب بندے کے دل میں اپنے مسلمان بھائیوں کا احترام پیدا ہوجاتا ہے توہ ان سے جھوٹ بولنے، دھوکہ دہی سے کام لینے اور خیانت کرنے میں عار محسوس کرتا اور سچ بولتا ہے، لہٰذا دل میں احترام مسلم پیدا کیجئے کہ اس کی برکت سے جھوٹ سے بچنے اور سچ بولنے میں مدد ملے گی۔ اِنْ شَآءَاللّٰہ عَزَّوَجَل

(8)کسی کی ملامت کی پرواہ مت کیجئے:بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بندہ اپنی عزت بچانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے کہ اگر سچ بولے گا تو لوگ ملامت کریں گے، برا بھلا کہیں گے، اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ دُنیوی ذلت کے مقابلے میں جہنم کی اُخروی ذلت اور عذابات کو پیش نظر رکھے کہ دُنیوی ذلت تو چند لمحوں کی ہے اور عنقریب ختم ہوجائے گی لیکن اُخروی ذلت تو اس سے کہیں بڑھ کر ہے، لہٰذا کسی کی ملامت کی پرواہ نہ کیجئے، ہمیشہ سچ بولیے۔

(9)اُخروی فائدے کو دُنیوی نقصان پر ترجیح دیجئے:بسا اوقات بظاہر تھوڑے سے دُنیوی فائدے کے پیش نظر بھی بندہ جھوٹ بول لیتا ہے لیکن اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جھوٹ بولنا فقط پہلی بار آسان ہوتا ہے اس کے بعد اس میں مشکل ہی مشکل ہوتی ہے، نقصان ہی نقصان ہوتا ہے، جبکہ سچ بولنا فقط پہلی بار مشکل ہوتا ہے بعد میں اس میں آسانیاں ہی آسانیاں ہوتی ہیں،جھوٹ بولنے میں بعض وقتی دُنیوی فوائد مگر آخرت کے بہت نقصانات ہیں، جبکہ سچ بولنے میں کبھی ہوسکتا ہے کہ تھوڑا سا دُنیوی نقصان ہو مگر اس میں اُخروی طور پر فائدے ہی فائدے ہیں، لہٰذا ہمیشہ سچ بولیے، اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے فضل وکرم اور اپنی رحمت سے سچ بولنے کی برکت سے بظاہر تھوڑے سے دُنیوی نقصان کو بھی نفع میں تبدیل فرمادے گا۔ اِنْ شَآءَاللّٰہ عَزَّوَجَل(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۲۹تا۲۳۳)


[1] ۔۔۔۔التعریفات للجرجانی، باب الصاد، ص۹۵۔

[2] ۔۔۔۔خزائن العرفان، پ۲۴، الزمر، تحت الآیۃ: ۳۳۔

[3] ۔۔۔۔مسلم، کتاب البروالصلۃ والآداب، باب قبح الکذب ۔۔۔الخ، ص۱۴۰۵، حدیث: ۲۶۰۷۔

[4] ۔۔۔۔ابن حبان، کتاب البر، باب الکذب،۷ / ۴۹۴، حدیث: ۵۷۰۴۔

[5] ۔۔۔۔مسندامام احمد، مسند عبداللہ ابن عمرو بن العاص ، ۲ / ۵۸۹، حدیث: ۶۶۵۲ملتقطا۔

[6] ۔۔۔۔ ابن حبان، کتاب البروالاحسان ،باب الصدق ،۱ / ۲۴۵، حدیث: ۲۷۱ ۔

[7] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۵ / ۲۸۹ملتقطا۔

[8] ۔۔۔۔مسندامام احمد، مسند عبداللہ ابن عمرو بن العاص ،۲ / ۵۸۹، حدیث: ۶۶۵۲۔

[9] ۔۔۔۔مسلم، کتاب الایمان، باب خصال المنافق، ص۵۰، حدیث: ۱۰۷۔

[10] ۔۔۔۔ابوداود، کتاب الادب، باب فی المعاریض،۴ / ۳۸۱، حدیث: ۴۹۷۱۔

Share