شماتت

(43)شماتت

شَماتت کی تعریف:

اپنے کسی بھی نسبی یا مسلمان بھائی کے نقصان یا اُس کو ملنی والی مصیبت وبلا کو دیکھ کر خوش ہونے کو شَماتت کہتے ہیں۔[1](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۹۳)

آیت مبارکہ:

(1)… اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

(اِنْ  تَمْسَسْكُمْ  حَسَنَةٌ  تَسُؤْهُمْ٘-وَ  اِنْ  تُصِبْكُمْ  سَیِّئَةٌ  یَّفْرَحُوْا  بِهَاؕ- وَ  اِنْ  تَصْبِرُوْا وَ  تَتَّقُوْا  لَا  یَضُرُّكُمْ 

كَیْدُهُمْ  شَیْــٴًـاؕ-اِنَّ  اللّٰهَ  بِمَا  یَعْمَلُوْنَ  مُحِیْطٌ۠(۱۲۰))

(پ۴، آل عمران: ۱۲۰) ترجمۂ کنزالایمان: ’’تمہیں کوئی بھلائی پہنچے تو انہیں برا لگے اور تم کو برائی پہنچے تو اس پر خوش ہوں اور اگر تم صبر اور پرہیزگاری کئے رہو تو اُن کا داؤں تمہارا کچھ نہ بگاڑے گا بے شک اُن کے سب کام خدا کے گھیرے میں ہیں۔‘‘

حضرت سیِّدُنا علامہ حافظ مرتضیٰ زبیدی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ’’اس آیت میں بھلائی سے مراد نعمت اور برائی سے مراد معصیت ہے، بھلائی پہنچنے پر انہیں برا لگنا حسد ہے اور برائی پہنچنے پر ان کا خوش ہونا شماتت ہے، نیز اس آیت مبارکہ میں اس بات پر تنبیہ بھی کی گئی ہے کہ جس کے ساتھ حسد کیا جائے یا شماتت کی جائے یہ دونوں چیزیں اسے اس وقت تک نقصان نہیں پہنچا سکتیں جب تک وہ تقویٰ وصبر اختیار کرے، حسد اور شماتت ایک دوسرے کو لازم ہیں (کہ جہاں حسد پایا جائے گا وہاں شماتت ضرور ہوگی) اور شماتت حسد کے اوپر ایک اضافی گناہ ہے۔[2]

(2)…ایک اور مقام پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے: (وَ لَمَّا رَجَعَ مُوْسٰۤى اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًاۙ-قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِیْ مِنْۢ بَعْدِیْۚ-اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّكُمْۚ-وَ اَلْقَى الْاَلْوَاحَ وَ اَخَذَ بِرَاْسِ اَخِیْهِ یَجُرُّهٗۤ اِلَیْهِؕ-قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِیْ وَ كَادُوْا یَقْتُلُوْنَنِیْ ﳲ فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآءَ وَ لَا تَجْعَلْنِیْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(۱۵۰))(پ۹، الاعراف: ۱۵۰) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور جب موسیٰ اپنی قوم کی طرف پلٹا غصہ میں بھراجھنجلایا ہوا کہا تم نے کیا بری میری جانشینی کی میرے بعد کیا تم نے اپنے رب کے حکم سے جلدی کی اور تختیاں ڈال دیں اور اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگا کہا اے میرے ماں جائے قوم نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالیں تو مجھ پر دشمنوں کو نہ ہنسا اور مجھے ظالموں میں نہ ملا۔‘‘

تفسیر خازن میں مذکورہ آیت مبارکہ کے اس حصے : ’’ فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآءَ تومجھ پر دشمنوں کو نہ ہنسا۔‘‘ کے تحت لکھا ہے: ’’شماتت کی اصل یہ ہے کہ جس سے تو دشمنی رکھتا ہے یا جو تجھ سے دشمنی رکھتا ہے جب بھی کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو تُو اس پر خوش ہو۔جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نےفلاں کے ساتھ شماتت کی یعنی جب اسے کوئی مصیبت یا ناپسندیدہ بات پہنچی تو وہ اس پر خوش ہوا۔ اس آیت مبارکہ میں بھی یہی معنی مراد ہیں کہ حضرت سیِّدُنا ہارون عَلَیْہِ السَّلَام نے حضرت سیِّدُنا موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے کہا کہ آپ میرے ساتھ ایسا سلوک نہ کریں کہ جسے دیکھ کر دشمن شماتت کریں یعنی میری تکلیف پر وہ خوش ہوں۔‘‘[3] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۹۳تا۲۹۵)

حدیث مبارکہ، اپنے بھائی کی شماتت نہ کر:

حضرت سیِّدُنا واثلہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے بھائی کی شماتت نہ کر یعنی اس کی مصیبت پر اظہار مسرت نہ کر کہ ﷲتعالٰی اس پر رحم کرے گا اور تجھے اس میں مبتلا کردے گا۔‘‘ [4]

ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم شماتت سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی پناہ مانگا کرتے اور فرماتے: ’’اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! میں قرض کے غلبے اور دشمنوں کی شماتت سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘[5] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۹۵،۲۹۶)

شماتت کا حکم:

شماتت یعنی کسی بھی مسلمان بھائی کی مصیبت پر خوش ہونا نہایت ہی مذموم اور ہلاکت میں ڈالنے والا امر ہے۔ خاص طورپر اس صورت میں کہ جب وہ اس مصیبت کو اپنی کرامت یا دعا کا نتیجہ سمجھے۔[6] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۹۶)

شماتت کے چھ اسباب و علاج:

(1)… شَمَاتَت کا پہلا سبب بدخواہی کی عادت ہے۔کسی کانقصان چاہنا اور نقصان ہوجانے کی صورت میں اس پر خوشی کااظہار کرنے کےمناظرکاروباری حضرات میں بخوبی دیکھے جاسکتے ہیں۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنے اند ر مسلمانوں کی خیر خواہی کا جذبہ پیدا کرے ، یہ مدنی ذہن بنائے کہ یہ میرا مسلمان بھائی ہے، آج اس کا نقصان ہوا ہے اور میں اس کے نقصان پر خوش ہورہا ہوں ایسا نہ ہو کہ کل یہی معاملہ میرے ساتھ بھی ہو ، مجھے بھی کسی آفت میں مبتلا کردیا جائے اور لوگ میری مصیبت پر بھی خوش ہوں۔

(2)… شَمَاتَت کا دوسرا سبب بغض و کینہ ہے۔ کینہ پروراپنے مخالف کو مصیبت میں دیکھ کر قلبی سکون محسوس کرتا ہے اور یہ ہی اس کی خوشی بن جاتا ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنے سینے کو مسلمانوں کے کینے کی گندی غلاظت سے پاک وصاف کرےاور یہ مدنی ذہن بنائے کہ مسلمانوں کے لیے دل میں کینہ رکھنا دنیا وآخرت دونوں میں تباہی وبربادی کا سبب بن سکتا ہے، یہ بھی ذہن بنائے کہ حقیقی مسلمان کبھی کسی مسلمان بھائی کا کینہ اپنے دل میں نہیں رکھتا۔نیز بغض وکینہ سے متعلق معلومات بھی حاصل کرتا رہے، اس کے اسباب اور بچنے کے طریقے جانے اور اس موذی مرض سے بچنے کی بھرپور کوشش کرے۔ اپنے سینے کو مسلمانوں کے کینے کی غلاظت سے پاک وصاف کرنے کے لیے دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ’’بغض و کینہ ‘‘کا مطالعہ کیجئے۔

(3)… شَمَاتَت کا تیسراسبب حسد ہے۔یہی وجہ ہے کہ بندہ جس سے حسد کرتا ہے اس سے نعمت چھن جانے پر خوشی محسوس کرتا ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ حسد کی تباہ کاریوں پر غور کرے کہ یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ و رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ناراضگی کا سبب ہے، حسد ایمان کی دولت چھن جانے کا بھی ایک سبب ہے، حسد سے نیکیاں ضائع ہوجاتی ہیں ، حسد سے بندہ مختلف گناہوں میں مبتلا ہوجاتا ہے، حسد کے سبب بندہ نیکیوں کے ثواب سے محروم رہتا ہے، حسد سے دعا قبول نہیں ہوتی، بندہ نصرتِ الٰہی سے محروم ہوجاتا ہے، حاسد کو ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ حسد جیسے مہلک مرض سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ’’حسد‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔

(4)… شَمَاتَت کا چوتھاسبب احساس کمتری ہے،مد مقابل کی برتری اور اپنی مسلسل ناکامی بندے کو احساس کمتر ی میں مبتلاکردیتی ہےپھر اسی احساس کمتری سے شماتت پیدا ہوتی ہے یوں مدمقابل کی ہر تکلیف عارضی تسکین کا سبب بن جاتی ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنی احساسِ کمتری کا ازالہ کرے،اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت کاملہ پر نظر رکھے، ہرنیک اور جائز کام سے پہلے اچھی اچھی نیتیں کرے تاکہ کام ہو یا نہ ہو ثواب کا خزانہ توہاتھ آجائے، اپنی کامیابیوں کے لیے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں دعا بھی کرتا رہے، اپنی ناکامیوں کے اسباب پر غور کرے اور پھر ان کودور کرے۔

(5)… شَمَاتَت کا پانچواں سبب حب جاہ ہے۔جب بندہ محسوس کرتا ہے کہ ’’فلاں کی وجہ سے میر ی واہ واہ میں کمی آرہی ہے۔ ‘‘تو وہ اس کے نقصان کا خواہش مندہوجاتا ہے اور جیسے ہی اُسے کوئی نقصان پہنچتا ہے تو وہ اپنی دیرینہ آرزو کے پورا ہونے پر خوشی محسوس کرتا ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ حب جاہ سے اپنے آپ کو بچائے، یہ بھی اپنا مدنی ذہن بنائے اگر مجھے کوئی منصب یا عہدہ نہیں ملا توہوسکتا ہے میرے حق میں یہی بہتر ہو، مجھے یہ عہدہ نہ دے کر اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے کئی مصیبتوں اور پریشانیوں سے نجات عطا فرمادی ہو۔لہٰذا میں اپنے بھائی کو اس کا قصور وار کیوں ٹھہراؤں اور اس سے شماتت یعنی اس کو مصیبت پہنچنے پر کیوں خوشی کا اظہار کروں؟

(6)…شَمَاتَت کا چھٹا سبب بدگمان ہونا ہے۔جب بندہ کسی سے بدظن ہوجاتا ہے تو خواہ کتنا ہی نیکوکا ر ہولیکن بدگمانی کی رسی اسے بلندیوں سے کھینچ کر پستیوں کی طرف دھکیل دیتی ہے، جیسے ہی اس کے بھائی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو فوراً خوش ہوجاتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہےکہ بندہ مسلمانوں سے بدگمان اور بدظن ہونے کے بجائے ان کے بارے میں اچھا گمان رکھے، خواہ مخواہ اپنے دماغ میں مسلمانوں کے متعلق وسوسوں کو ہرگز جگہ نہ دے، بلکہ اس طرح کے وسوسوں سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی پناہ مانگے، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ آہستہ آہستہ اس موذی مرض سے بھی نجات مل ہی جائے گی۔بدگمانی جیسے مہلک اور موذی مرض سے نجات کے لیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ’’بدگمانی‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۹۸تا ۳۰۱)


[1] ۔۔۔۔ فتاویٰ رضویہ، ج۲۹، ص۶۴۵۔

[2] ۔۔۔۔ اتحاف السادۃ المتقین، کتاب ذم الغضب۔۔۔الخ، بیان حقیقۃ الحسد۔۔۔الخ، ج۹، ص۴۹۴۔

[3] ۔۔۔۔ خازن، پ۹، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۰، ج۲، ص۱۴۲۔

[4] ۔۔۔۔ ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ ۔۔۔ الخ، ج۴، ص۲۲۷، حدیث: ۲۵۱۴۔

[5] ۔۔۔۔ نسائی، کتاب الاستعاذۃ، الاستعاذۃ من شماتۃ الاعداء، ص۸۷۱، حدیث: ۵۴۹۸۔

[6] ۔۔۔۔ الحدیقۃ الندیۃ،الخلق السابع عشر۔۔۔الخ،ج۱، ص۶۳۱۔

Share