سائمہ کی زکاۃ کا بیان

سائمہ کی زکاۃ کا بیان

سائمہ وہ جانورہے جو سال کے اکثر حصہ میں چر کر گذر کرتا ہو اور اوس سے مقصود صرف دودھ اور بچے لینا یا فربہ کرنا ہے۔ [1] (تنویر) اگر گھر میں گھاس لا کر کھلاتے ہوں یا مقصود بوجھ لادنا یا ہل وغیرہ کسی کام میں لانا یا سواری لینا ہے تو اگرچہ چر کر گذر کرتا ہو، وہ سائمہ نہیں اور اس کی زکاۃ واجب نہیں۔ یو ہیں اگر گوشت کھانے کے لیے ہے تو سائمہ نہیں، اگرچہ جنگل میں چرتاہو اور اگر تجارت کا جانور چرائی پر ہے تو یہ بھی سائمہ نہیں، بلکہ اس کی زکاۃ قیمت لگا کر ادا کی جائے گی۔(درمختار، ردالمحتار) (''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب السائمۃ، ج۳، ص۲۳۳.)

مسئلہ ۱: چھ مہینے چرائی پر رہتا ہے اور چھ مہینے چارہ پاتا ہے تو سائمہ نہیں اور اگر یہ ارادہ تھا کہ اسے چارہ دیں گے یا اس سے کام لیں گے مگر کیا نہیں، یہاں تک کہ سال ختم ہوگیا تو زکاۃ واجب ہے اور اگر تجارت کے لیے تھا اور چھ مہینے یا زیادہ تک چرائی پر رکھا تو جب تک یہ نیّت نہ کرے کہ یہ سائمہ ہے، فقط چرانے سے سائمہ نہ ہوگا۔ [2] (عالمگیری)

مسئلہ ۲: تجارت کے لیے خریدا تھا پھر سائمہ کر دیا، تو زکاۃ کے لیے ابتدائے سال اس وقت سے ہے خریدنے کے وقت سے نہیں۔ [3] (درمختار)

مسئلہ ۳: سال تمام سے پہلے سائمہ کو کسی چیز کے بدلے بیچ ڈالا، اگر یہ چیز اس قسم کی ہے جس پر زکاۃ واجب ہوتی ہے اور پہلے سے اس کی نصاب اس کے پاس موجود نہیں، تو اب اس کے لیے اُس وقت سے سال شمار کیا جائے گا۔ [4] (درمختار)

مسئلہ ۴: وقف کے جانور اور جہاد کے گھوڑے کی زکاۃ نہیں۔ یو ہیں اندھے یا ہاتھ پاؤں کٹے ہوئے جانور کی زکاۃ نہیں، البتہ اندھا اگر چرائی پر رہتا ہے توواجب ہے۔4 یو ہیں اگر نصاب میں کمی ہے اور اس کے پاس اندھا جانور ہے کہ اس کے ملانے سے نصاب پوری ہو جاتی ہے تو زکاۃ واجب ہے۔ (عالمگیری)

تین قسم کے جانوروں کی زکاۃ واجب ہے، جب کہ سائمہ ہوں۔

(۱) اونٹ۔

(۲) گائے۔

(۳) بکری۔

لہٰذا ان کی نصاب کی تفصیل بیان کرنے کے بعد دیگراحکام بیان کیے جائیں گے۔(بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۵،صفحہ۸۹۲، ۸۹۳)


[1] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الثاني في صدقۃ السوائم، ج۱، ص۱۷۶.

[2] ۔۔۔۔۔۔ ''تنویرالأبصار'' و ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، باب السائمۃ، ج۳، ص۲۳۵.

[3] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، باب السائمۃ، ج۳، ص۲۳۵.

[4] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب السائمۃ، ج۳، ص۲۳۶.

Share